کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے مسائل اور مشکلات کے ہوتے ہوئے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی معرفت و پہچان کا انہیں کیا فائدہ ہوگا؛ حالانکہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) اور دوسرے معصومین (علیہم السلام) کے مقام عصمت و طہارت سے واقف نہ ہونا، ـ جو درحقیقت انسان کا اپنا حقیقی مقام ہے، ـ سبب بنتا ہے کہ انسان چھوٹے اور کمزور رہیں اور دنیا کا دباؤ اور زندگی کے مسائل انہیں ذلیل و غمگین کر سکیں؛ حالانکہ اپنے حقیقی مقام کو پہچان لینے کے بعد، انسان کبھی بھی خود کو دنیا کے سامنے ذلیل ہونے نہیں دیتا اور دنیاوی معاملات کا غم نہیں کھاتا۔
غم، اداسی، بے چینی، مایوسی، کمزوری کا احساس، بے مقصدیت اور کھوکھلا پن، شکست، بدبختی اور دنیا کا تاریک ہوجانا، وہ احساسات ہیں جو ہمیشہ اس وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں جب وہ اپنی قدر، اور مستقبل کی امید، کھو دیتا ہے۔ کبھی کبھی انسان اسلام کے اصولوں، آخرت اور اخرت میں اپنے بلند مقام و مرتبے پر یقین رکھنے کے باوجود خود کو تعطل اور بند گلی میں گھرا ہؤا پاتا ہے؛ یہاں تک کہ ـ ممکن ہے کہ ـ خودکشی تک کر بیٹھے۔ خودکشی اور بے مقصدیت اور کھوکھلے پن نیز غم اور اداسی کا احساس خودشناسی (معرفت نفس) میں کمزوری، مستقبل کے مبہم اور غیریقینی ہونے اور اسے نہ دیکھ سکنے، اور راستہ کھو دینے کی علامت ہے۔
انسان کی اپنی آسمانی ماں، حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بلند مقام سے آگاہی، اس کے [اپنے رشد و نمو (کمال اور ارتقاء) اور سیدہ کے اس مقام تک پہنچنے میں اور ـ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ـ بہتر مقام و منزلت پانے میں بھی، نیز ان کے ساتھ قرآنی حکم کے مطابق مودت کا دلی تعلق قائم کرنے میں بھی، بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) خود انسان کو اس مقام و مرتبے کی طرف بلا رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ با وقار خاتون انسانوں کی حقیقی ماں ہونے کے ناطے، انتہائی سخاوتمندانہ انداز سے ـ دنیا کی تمام ماؤں کی محبت کی الفت مادری سے کہیں زیادہ ممتا کے ساتھ، اپنے بچوں کو اپنے ہی مقام کی طرف دعوت دے رہی ہیں۔ انسان کے لئے حضرت فاطمہ (علیہا السلام) جیسی عظیم اور شفیق ماں کا ہونا، ایک بڑا اعزاز ہے جس پر اس [انسان] کو فخر کرنا چاہئے۔
جو "أُمُّ أَبِیهَا" ہیں تو وہ بلاشبه مادر مؤمنین بھی ہیں، یہی نہیں بلکہ "مادر انسان" بھی ہے، ان کی سیرت و شخصیت کی روشنی میں بھٹکے ہوئے انسان بھی بھی ان کے فرزندوں کے زمرے میں شمار ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: استاد محمد شجاعی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ