1 نومبر 2025 - 11:12
نیا عالمی نظام، آدرش (آئیڈیلز) اور زمینی حقائق

دنیا بنیادی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جو نظام کسی زمانے میں لبرلزم اور امریکی بالادستی کے گرد تشکیل پایا تھا، اس وقت اندرونی فرسودگی، قانونیت کے بحران اور اخلاقی شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | جو ادارے آزادی اور جمہوریت کے نام پر قائم ہوئے، آج استعمار، تسلط پسندی، امتیاز اور مادی اقدار مسلط کرنے کے اوزار بن چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پوری دنیا ـ بطور خاص عالمی جنوب ـ میں اور مسلم معاشروں کے اندر تہذیبی بیداری کی ایک لہر پنپ رہی ہے۔

یہ دور، جو 'مغرب کے بعد کا زمانہ' ہے، ایک نئے عالمی نظام کے ظہور کا میدان ہے؛ ایسا نظام جو ابھی پیدائش کے مرحلے میں ہے اور آرمانوں اور حقیقتوں کے درمیان منتقلی کے عمل میں ہے۔

نئے عالمی نظام کی قرآنی اور فقہی بنیاد

اسلام کی نظر میں عالمی نظام محض طاقتوں کی ترتیب نہیں، بلکہ ایک قسم کے نظریۂ کائنات کا مظہر ہے؛ ایسا نظام جسے توحید اور عدل سے پھوٹنا چاہئے، نہ کہ مادی مفادات اور تسلط پسندوں کی خواہشات سے۔

اس نظام کا بنیادی اصول توحید ہے؛ یعنی قانونیت (Legitimacy) کا معیار اور فیصلہ سازی کا مرکز کو اللہ کی مرضی اور ارادے کی طرف پلٹانا۔ دور حاضر کا عظیم بحران، انسانی روابط کے نظامات اور طاقت و دولت کی پیچیدہ جالوں (Networks) میں  نظری اور عملی الحاد کی حکمرانی ہے؛ انسانی سعادت کے لئے آنے والے الٰہی پیشواؤں کے پیغام سے دوری کا بحران۔

راہ حل یہ ہے کہ مخلوط جاہلانہ انتظام میں تبدیلی لائی جائے اور اس کو توحیدی انتظامی نظام میں تبدیل کیا جائے۔

یہ جاہلی نظام علم و معرفت کے میدان میں گمان و ظن پر (ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ؛ عصر جاہلیت کی سی بد گمانی)، [1] اخلاقیات کے دائرے میں، نمود و نمائش اور دکھاوے پر (تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ؛ عصر جاہلیت کی طرح بننا ٹھننا)، [2] سماجی تعلقات میں انحصار، استثنیٰ اور تعصب پر (حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ؛ عصر جاہلیت والی حمیت) [3] اور حکمرانی کے شعبے میں دولت، تکبر اور خود غرضی (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ؛ تو کیا یہ جاہلیت کے فیصلہ کے طلبگار ہیں؟) [4] پر استوار ہے۔

لیکن اس کے مقابلے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے: "وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ؛ اور اللہ سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کس کا ہوگا ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں"۔ [5] یعنی کوئی بھی نظام اللہ کے نظآم سے بہتر و برتر نہیں ہے۔

عدل؛ نظام ولایت کا جوہر

دوسرا اصول عدالت ہے جو قرآن کے تمام سماجی اور سیاسی نظامات کا جوہر ہے۔

"لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ؛ تا کہ لوگ عدالت وانصاف کو قائم رکھنے کے لئے اٹھیں"۔ [6]

 اسلامی طرز حکمرانی کی فقہ انصاف کو ایک نعرے سے بالاتر سمجھتی ہے اور اسے توحید کا سماجی پہلو اور نظام ولایت کا مرکزی نقطہ سمجھتی ہے۔ عدالت (عدل و انصاف) صرف دولت کی تقسیم ہی نہیں، بلکہ علم و معرفت، طاقت اور انسانی وقار و کرامت میں بھی توازن، ہے۔ اس اصول کا تہذیبی مقصد ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہے جس میں طاقت حق کی خدمت کرے اور علم ہدایت کی خدمت کرے۔

انسانی وقار و کرامت؛ تسلط پسندی اور استعباد (غلام بنانے) کی نفی

تیسرا اصول انسانی وقار و کرامت ہے

"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ؛ اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کی تکریم کی ہے (اور اسے عزت دی ہے") [7]

اسلامی فقہ میں، انسان کی عزت و وقار ہر قسم کے تسلط، استحصال اور قوموں کی تذلیل و تحقیر کی نفی و انکار کی بنیاد ہے۔ کوئی بھی نظام جو انسان کو 'اوزار' یا 'شیۓ' سمجھے، وہ قرآن کی منطق میں باطل ہے۔ تکریم و توقیر کا تمدنی و تہذیبی مقصد، روحانی آزادی، امتوں کی عظمت اور ثقافتی و سیاسی خودمختاری کا حصول ہے۔

تعاون اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین، منصفانہ عالمی تعاون کا سنگ بنیاد

چوتھا اصول تعاون اور حق کی تلقین ہے:

"وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ؛ اور ایک دوسرے کو حق کی ہدایت و تلقین کرتے ہیں"۔ [8]

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى؛ اورنیکی اور پرہیزگاری میں  ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو"۔ [9]

اسلامی بین الاقوامی تعلقات کی فقہ میں، یہی اصول، منصفانہ عالمی تعاون کی بنیاد ہے؛ ادارہ سازی تقویٰ اور مشترکہ بھلائی کی بنیاد پر، نہ کہ مفاد پرستی، اجارہ داری، استحصال اور استعمار پر۔

تہذیبی مقصد: عالمی توحیدی نظام

ان چار ستونوں کی بنیاد پر اسلامی نقطہ نظر سے نئے عالمی نظام کا آئیڈیل ایک تہذیبی-توحیدی نظام کا قیام ہے؛ ایک ایسا نظام جس میں قومیں توحیدی نشوونما اور بلندی کو حاصل کرتی ہیں اور ہر فرد اپنے آپ کو انسانی ارتقا کی راہ پر نشوونما اور قیادت کا ذمہ دار پاتا ہے۔

یہ مظلوم کی حکمرانی کا قرآنی وعدہ ہے۔ ایک ایسا حکم جس میں عالمی تعلقات پر عدالت و انصاف کی حکمرانی ہوتی ہے اور طاقت حقیقت اور سچائی کی خدمت کرتی ہے۔

عبوری دور کے حقائق اور چیلنجز

لیکن اس آدَرْش (Ideal) کو ایک سخت اور کئی پرتوں والی حقیقت کا سامنا ہے۔

موجودہ نظام، اگرچہ 'مغربی بالادستی کے زوال' کا شکار ہے، لیکن ابھی بھی مادی طاقتوں، عالمی ابلاغیات اور وابستہ مالی ڈھانچوں کی گرفت میں ہے۔ منڈی، ذرائع ابلاغ اور عالمی ثقافت اب بھی منافع، تسلط اور امتیاز (Discrimination) کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ ایسی صورت حال میں آدَرْش اور حقیقت کے درمیان خلیج گہری ہے:

• آدَرْش کہتا ہے کہ طاقت و اقتدار کو، عدالت و انصاف کی خدمت میں، ہونا چاہئے؛ حقیقت (زمینی حقیقت یعنی واقعیت = Reality) تسلط کو جاری رکھتی ہے۔

• آدَرْش کہتا ہے کہ ثقافت کو بیداری اور روحانیت کا پلیٹ فارم بننا چاہئے؛ حقیقت صارفیت اور اخلاقی پستی (اور کمینہ پن) کو فروغ دیتی ہے۔

• آدَرْش کہتا ہے کہ انسانی کرامت و وقار مرکزی حیثیت رکھتا ہے؛ حقیقت امتیاز اور قوموں کی تحقیر تذلیل پر قائم ہے۔

تاہم، اقوام و امم کی بیداری، عالمی مقاومت و مزاحمت اور اسلامی انقلاب کی گونج کی روشنی میں یہ کڑوی حقیقت بدل رہی ہے۔ موجودہ نظام میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، اور تاریخی عبور (اور اگلے دور میں منتقلی) کا موقع میسر آ گیا ہے۔

تہذیبی جہاد؛ واقعیات سے آدَرْش کی طرف منتقلی کا راستہ

اس مرحلے سے گذرنے کے لئے، ہمیں معرفتی و علمی اور تہذیبی تعمیر نو کی ضرورت ہے؛ یعنی مُوَحِّد (یکتاپرست) انسانوں کی تربیت، امت کی نیٹ ورکنک، عادلانہ اداروں کا قیام اور سیاست، اقتصاد اور ثقافت کے میدانوں میں متبادل نمونے اور مثالیں متعارف کرانا۔

یہی اس تہذیبی یا تمدنی جہاد کے جامع معنی ہیں؛ آج کی دنیا کی کثیر قطبی پیچیدگی کے مقابلے میں، توحیدی نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کثیر سطحی (Multi-level) حکمت عملی (Strategy

اس جہاد کے پہلو یہ ہیں:

1۔ ثقافتی جہاد: ایمان، نیک اعمال اور تقویٰ کی بنیاد پر خود سازی (اصلاح نفس) اور معاشرے کی تعمیر؛ فساد اور برائی کے خلاف جدوجہد۔

2۔ سماجی جہاد: اندرونی مضبوطی، امت کے درمیان باہمی تعاون، اور اسلامی اتحاد کے مقدس بیانیے کا فروغ۔

3۔ معاشی جہاد: مزاحمتی معیشت (Resistance economy) کو آگے بڑھانا، دولت کو عوامی بنانا (اور دولت تک عوام کی رسائی یقینی بنانا)، اور پیداوار و تقسیم (Production and Distribution) میں انصاف کو مضبوط کرنا۔

4۔ سیاسی جہاد: امت اور امامت کے رشتے کو مستحکم کرنا اور امریکہ اور عالمی صہیونیت کے تسلط کا مقابلہ کرنا۔

5۔ سائنسی و تکنیکی جہاد: سائنس کی چوٹیوں کو فتح کرنا، اور جدید ٹیکنالوجیز اور علم پر مبنی کمپنیوں (Knowledge-based companies) کو مضبوط بنانا۔

6۔ سیکیورٹی و دفاعی جہاد: خطرات کو مواقع میں بدلنا اور انتہائی جدید خطرات (Ultramodern Threats) سے نمٹنے کے لئے تزویراتی تیاریوں میں اضافہ کرنا۔

7۔ تشریحی اور ابلاغی جہاد: دشمنوں کی طرف سے ادراک کی ریورس انجینئرنگ اور تہذیبی تحریف کا مقابلہ کرنا۔

ایک توحیدی نظام کی تکمیل کا افق

اس ہمہ جہت اور وسیع البنیاد جہاد کی روشنی میں نیا عالمی نظام، حقیقی معنوں میں، جنم لے گا، ایسا نظام جس میں طاقت و اقتدار روحانیت کی خدمت میں ہو، علم ہدایت و راہنمائی کی خدمت کرے، اور انسان خلافت الٰہیہ اور تہذیبی بالیدگی کی راہ پر گامزن ہو۔

اس وقت آدرش انتزاع و تجرید (اور عقلی یا ذہنی تجزیئے) کے آسمان سے حقیقت کی زمین پر اتر آتا ہے؛ اور دنیا ایک نئی ترتیب کی طرف قدم بڑھاتی ہے، جس کا ارتکاز حق، انصاف اور وقار و کرامت کے محور پر ہوگا۔

اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) نے فرمایا:

"اسلامی جمہوریہ نے ظالمانہ عالمی نظام کو چیلنج کیا؛ ہمارے ساتھ ہونے والی مخالفت کی وجہ بھی یہی ہے۔ اسلامی نظام کے ساتھ ہونے والی مخالفت [کی وجہ] یہی ہے؛ ورنہ تو اگر ایک غیر سیاسی اسلام، ایسا اسلام جس کا اِس اور اُس سے کوئی سروکار نہ ہو، اگر اس طرح کا اسلام حاکم ہو، تو نہیں، وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے اور مخالفت بھی نہیں کرتے۔ آپ امریکہ، استکباری مشینری کے ساتھ، صہیونیت کے ساتھ ہمراہ ہو جائیں گے ـ ان کے اقتصادی کاموں میں، ان کے سیاسی کاموں میں، ان کی سمت بندیوں میں ـ [ان کا ساتھ دیں اور] اور ان کی مانند سوچیں، ان کی طرح بولیں، ان کی طرح چلیں، تو وہ کوئی مخالفت نہیں کریں گے؛ خواہ آپ کا نام عیسائی ہو، خواہ بدھ مت کے پیرو ہوں، خواہ مسلمان ہوں، ان کے لئے بالکل اہم نہیں ہے۔" [10]

ارشاد ربانی ہے:

"وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ؛ [11]

اور یاد کرو وہ وقت کہ جب تم ایک چھوٹا سا گروہ تھے، ایسا کہ اس سر زمین پر تمہیں کمزور (اور بے بس) شمار کیا جاتا تھا، اور تمہیں [ہر وقت] خوف رہتا تھا کہ لوگ کہیں تمہیں اچک نہ لیں، [اور تشدد اور قتل کا نشانہ نہ بنا لیں] تو اس [اللہ] نے تم کو پناہ دی اور اپنی مدد سے مضبوط [اور طاقتور] بنایا اور تمہیں پاک و پاکیزہ رزق عطا کیا اس لئے کہ تم شکر گزار بنو"۔

29 اکتوبر 2025ع‍

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: آیت اللہ عباس کعبی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110


[1]۔ سورہ آل عمران، آیت 154۔

[2]۔ سورہ احزاب، آیت 33۔

[3]۔ سورہ فتح، آیت 26۔

[4]۔ سورہ مائدہ، آیت 50۔

[5]۔ سورہ مائدہ، آیت 50۔

[6]۔ سورہ حدید، آیت 25۔

[7]۔ سورہ اسراءث آیت 70۔

[8]۔ سورہ مائدہ، آیت 2۔

[9]۔ سورہ مائدہ، آیت 2۔

[10]۔ خطاب بمورخہ 15 مارچ 2016ع‍

[11]۔ سورہ انفال، آیت 26۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha