اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی اراضی فرانسسکا البانیز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کو اپنی زندگی کی ’بدترین توہین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ نہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔
فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار ’آئی پیپر‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’امن کا کوئی معاہدہ بین الاقوامی قوانین کی پامالی پر قائم نہیں کیا جا سکتا اور مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی موجودگی برداشت نہیں کرنا چاہتا اور یہ حقیقت برسوں سے عیاں ہے۔
البانیز نے کہا کہ موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے، کیونکہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دو ریاستوں یا دو فوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے جو 1948ء سے ظلم و محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر، نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اس اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ’یہ امر ناقابلِ قبول ہے کہ ایک ایسی ریاست، جو دو بین الاقوامی عدالتوں میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے، اسے فلسطینی عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے‘۔ انہوں نے اسے بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
فرانسسکا البانیز نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ انصاف پر مبنی جامع امن کے لیے بین الاقوامی قانون کو واحد بنیاد کے طور پر اپنائے۔ ان کے بقول، اگر کسی معاہدے کی بنیاد انصاف اور احتساب پر نہ ہو تو وہ مزید تشدد، ظلم اور انسانی تباہی کا سبب بنے گا۔
دوسری جانب دس اکتوبر کو فلسطینی مزاحمت اور قابض اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا پہلا مرحلہ نافذ ہوا جس کے تحت 20 اسرائیلی قیدی رہا کیے گئے اور ہلاک شدگان کی لاشیں واپس کی گئیں۔
تاہم غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے اس جنگ بندی کی 125 بار خلاف ورزی کی جس میں 94 فلسطینی شہید اور 344 زخمی ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ قابض افواج نے 52 مرتبہ براہِ راست شہریوں کو نشانہ بنایا اور 9 بار رہائشی علاقوں میں زمینی دراندازی کی، جو نام نہاد “پیلا خط” عبور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ وہ سرحد ہے جو ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت انخلا کے پہلے مرحلے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔
اسی دوران غزہ کی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے شروع ہونے والی صہیونی درندگی کے نتیجے میں اب تک 68 ہزار 531 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 402 زخمی ہو چکے ہیں۔ وزارت نے خبردار کیا کہ مسلسل بمباری اور محاصرے کے باعث انسانی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہو رہی ہے اور غزہ مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
آپ کا تبصرہ