بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مورخہ 30 ستمبر 2025ء کو، انتہائی دائیں بازو کے ٹی وی شوز کے سابق میزبان اور امریکہ کے نئے وزیر جنگ پِیٹ ہیگسِتھ (Peter B.Hegseth) نے ایک غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے ویرجینیا کے کوانٹیکو میں میرین کور بیس پر امریکی مسلح افواج کے تقریباً 800 ممتاز جنرلز اور ایڈمرلز کو جمع کیا۔
سوموار (20 اکتوبر) کو واشنگٹن ٹائمز نے ایک رپورٹ میں اس واقعے کے پہلوؤں اور پینٹاگون کے سینئر اور تجربہ کار فوجی ڈھانچے پر اس کے اثرات، نیز سینئر فوجیوں میں ٹرمپ کے وزیر جنگ کی گرتی ہوئی ساکھ پر روشنی ڈالی۔

جنرلوں اور سینئر افسران کا کہنا ہے کہ پِیٹ ہیگسِتھ پر اعتماد ختم ہو رہا ہے، واشنگٹن ٹائمز
یہ اجلاس، جس کے ایجنڈے کے بارے میں پیشگی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں؛ کہا گیا تھا کہ یہ ایک اسٹریٹجی کے اعلان کے لئے ایک تاریخی لمحہ ہوگا، لیکن یہ 'پینٹاگون پر ہیگسِتھ کی قیادت' کے لئے ایک بحران بن گیا۔ متعدد معتبر ذرائع کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بہت سے سینئر فوجی کمانڈروں کا نئے وزیر جنگ پر اعتماد بہت شدت سے کم ہو گیا ہے، اور ان میں سے کچھ نے ان کی تقریر کو 'شرمناک' اور 'غیر پیشہ ورانہ' قرار دیا ہے۔
متنازعہ تقریر اور خاموش ردعمل
اس نادر اور شاید بے مثال اجتماع میں، ہیگسِتھ، ـ جو فاکس نیوز کے اینکر تھے ـ نے مسلح افواج کے لئے اپنی ترجیحات پر زور دیا: یعنی جسمانی تیاری کے ٹیسٹوں پر انتہاپسندانہ توجہ، ظاہری شکل کے سخت معیارات جیسے کہ فوجیوں کی داڑھی پر نظر رکھنا، اور ان چیزوں کو ہٹانا جنہیں ہیگستھ نے "بیداری (یا جاگرِت) کی بکواسات" (Woke Garbage) جیسے الفاظ سے یاد کیا۔
ناظرین کے مطابق، انھوں نے ایسے مجمع سے خطاب کیا جو ٹھنڈے پن اور بیزار چہروں کے ساتھ تقریر سن رہا تھا۔ کہا: "اگر آج میری باتیں آپ کو مایوس کرتی ہیں، تو آپ باعزت طریقے سے استعفیٰ دے دیں۔"
ان باتوں پر موجود کمانڈروں کے سخت ردعمل کا سامنا ہؤا۔ ایک آرمی جنرل نے واشنگٹن ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا: "اگر کبھی ہم ہیگستھ کے پاس تھے، تو اب وہ ہمیں کھو چکے ہیں۔"

ایک اور سینئر افسر نے اس واقعے کو "وقت کا عظیم ضیاع" قرار دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر حاضرین دنیا بھر سے ایک 'بڑے اسٹریٹجک اقدام' یا 'جنگی ڈاکٹرائن میں تبدیلی' کے بارے میں سننے کے لئے آئے تھے، نہ کہ 'بال بنانے' کے بارے میں'۔ اس جنرل نے مزید کہا: "اس واقعے کا تماشہ اور تھیئٹر ہماری تنظیمی وقار کو گرا رہا ہے"۔
غلط ترجیحات اور جزوی مسائل میں الجھے ہوئے انتظآم پر تنقید
اجلاس میں موجود فوجی ذرائع نے واشنگٹن ٹائمز کو بتایا کہ ہیگستھ 'ایک جونیئر افسر کی سوچ' کے ساتھ کام کرتے ہیں اور بڑے تزویراتی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے فوجیوں کے ٹویٹس یا ان کی میڈیا تک رسائی جیسے معمولی معاملات کی تفصیلات پر بات کرتے ہیں!

اعلیٰ فوجی حلقوں میں خاص طور پر یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ قیادت کا یہ انداز نہ صرف فوجی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے گا بلکہ فوج کی عوامی ساکھ کو بھی مجروح کرے گا۔
عالمی مسائل کے حوالے سے، امریکی فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہیگستھ کی تقریر میں حکمت عملی، قومی سلامتی کے خطرات، یا جنگی کارروائیوں کے بارے میں کوئی بامعنی بات نہیں پائی جاتی۔
جب کہ فوج اہم چیلنجزـ جیسے اراکین میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح اور جنسی ہراسانی کے بحران ـ کا سامنا کر رہی ہے، نئے وزیر جنگ کا غیر اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ان کمانڈروں میں سے بہت سے لوگوں کو ناراض اور (اور ان سے) دور کر چکا ہے جو براہ راست ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ دار ہیں۔
صلاحیتوں کا فرار اور فوجی قیادت کی کمزوری
ان کشیدگیوں کا براہ راست نتیجہ تجربہ کار کمانڈروں کا فوج سے باہر نکلنا ہے۔ ہیگستھ کے جنوری 2025 میں برسراقتدار آنے کے بعد سے، ایک درجن سے زیادہ اعلیٰ جنرلز اور ایڈمرلز برطرف ہوئے ہیں یا قبل انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی کیا ہے۔
ہیگستھ کے کوانٹیکو والے خطاب کے بعد دو نمایاں واقعات رونما ہوئے اور گلوبل سٹرائیک کے ایئر فورس کمانڈر جنرل تھامس بوسیر، اور اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے جنرل برائن فینٹن نے استعفے دیئے، اگرچہ ان اسعفوں کو ذاتی اور خاندانی وجوہات کہا گیا، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے 'استعفیٰ دینے کے اوقات' اتفاقی نہیں تھے۔
پینٹاگون کے ایک سینئر افسر نے واشنگٹن ٹائمز سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا: "مسلح افواج کی تمام شاخوں میں، ہم قابل صلاحیتوں، ہونہار جنرلوں اور پرچم بردار افسروں کو 'ایسے اسباب' کی بنا پر کھو رہے ہیں جو 'میرٹ سسٹم سے متصادم' لگتے ہیں۔"
اس ذریعے کے مطابق، افراد اکثر غیر واضح وجوہات، دھڑا بندی، یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ترقی سے محروم رہتے ہیں، برطرف کئے جاتے ہیں اور ہٹا دیئے جاتے ہیں۔
سیاسی ردعمل اور جنرلوں کا دفاع
دوسری طرف سی این این نے رپورٹ دیا کہ کچھ ڈیموکریٹک عہدیداروں نے فوجی کمانڈروں سے درخواست کی ہے کہ اگر وہ ہیگستھ کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں تو بھی اپنے عہدوں پر قائم رہیں۔ ایئر فورس کی سابق فوجی اور ڈیموکریٹک نمائندہ خاتون کرسٹی ہولاہن (Chrissy Houlahan) نے کہا: "اگر چیلنج یہ تھا کہ 'چلے جاؤ'، تو میں ان جنرلوں سے کہوں گا 'اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو'۔ کیونکہ ہمیں مسٹر ہیگستھ کے پیغام کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کی قیادت اور تجربے کی ضرورت ہے۔"

دوسری طرف، پینٹاگون کے سینئر ترجمان [اور فطری طور پر پیٹ ہیگستھ کے وفادار ساتھی] شان پارنیل (Sean Parnell) نے واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ کے جواب میں نئی جنگی پالیسیوں پر ہونے والی ہر طرح کی تنقید پر سخت برہمی دکھاتے ہوئے کہا کہ اس ذریعۂ ابلاغ سے بات کرنے والے گمنام افسران، اگر واقعی اپنی باتوں پر یقین رکھتے ہیں، تو انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ "جنگ جنگجوؤں کے خلاف ختم ہو چکی ہے" اور "سیاسی طور پر اچھا آدمی (Nice guy) ہونا " 'محکمہ جنگ' میں کوئی جگہ نہیں رکھتا۔
یہ اس وقت ہو رہا ہے جب ہیگستھ اور ڈونلڈ ٹرمپ فوج میں نئی بھرتیوں کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، لیکن نقاد خبردار کرتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار تجربہ کار فوجی قائدین کے ہاتھ سے نکل جانے کے پریشان کن رجحان کو چھپا رہے ہیں۔
خلاصہ: ایک خطرناک خلیج
کوانٹیکو واقعے اور اس کے نتائج نے پینٹاگون کی سویلین قیادت اور امریکی فوج کے پیشہ ور اہلکاروں کے درمیان گہری خلیج عیاں کر دی ہے۔ ایک طرف سے ایک ایسے وزیر جنگ ہیں جو اپنی ترجیحات کو "جنگجویانہ اقدار" اور ان چیزوں کے خاتمے پر مرکوز کرتا ہے جنہیں وہ "بائیں بازو کی پالیسیاں" کا نام دیتے ہیں، اور دوسری طرف فوجی برادری ہے جو ان مسائل پر توجہ کو حقیقی سیکیورٹی خطرات اور فوری داخلی مسائل سے خطرناک انحراف سمجھتی ہے۔

پیٹ ہیگستھ انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست شخص ہیں جن کے خیالات میں نیم نسل پرستانہ تعصبات پائے جاتے ہیں
یہ کشیدگی محض شخصیتوں کا اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ امریکی مسلح افواج کے مستقبل پر ایک بنیادی سوال اٹھاتی ہے: کیا فوجی کلچر کی تعریف جسمانی اور ظاہری معیار کے مطابق کی جانی چاہئے یا پھر اکیسویں صدی کے پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مہارتوں اور نقطہ ہائے نظر کا ایک زیادہ متنوع مجموعہ درکار ہے؟ اس سوال کا جواب امریکہ کی قومی سلامتی اور آنے والے برسوں میں مسلح افواج میں بہترین صلاحیتوں کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے کی امریکی صلاحیت پر اثر انداز ہوگا۔
امریکی وزارت دفاع کو 'وزارت جنگ' میں بدلنے ٹرمپ کے اعلان کے بعد پیٹ ہیگستھ کا ایک عجیب خطاب:
امن طاقت کے ذریعے؛ تیاری جنگ اور فتح کے لئے۔ امن کو یقینی بنانے کے لئے اپنے آپ کو جنگ کے لئے تیاری کرو، اس لمحے کے بعد تازہ بحال شدہ وزارت جنگ کا مشن جنگ اور 'جنگ میں مقابلہ' کرنا ہے۔ جنگ کے لئے تیاری اور فتح کے لئے تیاری۔ اس بے درد اور مصالحت سے عاری راستے میں؛ اس لئے نہیں کہ ہم جنگ کے خواہاں ہیں، کوئی بھی یہاں جنگ کا خواہاں نہیں ہے، بلکہ یہ اس لئے ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں اپنے ہم وطنوں کے لئے۔ وہ امن کا استحقاق رکھتے ہیں؛ اور انہیں حق ہے کہ ہم سے امن قائم کرنے کی توقع رکھیں۔
ہمارا پہلا ذمہ طاقتور بننا ہے تا کہ ابتداء میں جنگ کے وقوع کا سدباب کریں، یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہمارے صدر مسلسل بات کر رہے ہیں،، اور اس کو 'طاقت کے ذریعے امن' کا نام دیتے ہیں۔ اور جس طرح کہ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے'صرف وہ لوگ امن کے مستحق ہیں جو اس کے تحفظ کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں'۔ اسی بناپر مطلق امن پسندی (Pacifism) بہت سادہ لوحانہ اور خطرناک ہے؛ یہ سوچ انسان کی فطرت اور تاریخ کو نظر انداز کرتی ہے۔
یا تو آپ کو اپنے لوگوں اور حکمرانی کی حفاظت کرتے ہیں یا پھر کسی چیز یا شخص کے بارے میں اطاعت گزاری پر مجبور ہونگے۔ یہ حقیقت ہے اور یہ تاریخ جتنی پرانی ہے۔
اور چونکہ اس طرح کی جنگ کے اخراجات بہت بھاری ہوتی خون کے لحاظ سے بھی اور مال کے لحاظ سے بھی، ہم اپنی جمہوریہ کے مرہون منت ہیں اور ہمیں ایسی فوج رکھنی ہے کہ ہم جس جنگ کو بھی منتخب کریں، یہ فاتح ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فرورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ