24 اکتوبر 2025 - 09:39
مآخذ: سچ خبریں
عرب سیاسی تجزیہ کار کی اسرائیل کو نصیحت ایران کے خلاف الزام تراشیاں بند کر دے:

معروف عرب تجزیہ کار الیف صباغ نے اسرائیلی چینل i24 سے گفتگو میں اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم کے مشیر ژاک نریا کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا کہ ایران حزب اللہ کے ذریعے لبنان پر کنٹرول کیے ہوا ہے

اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق،  معروف عرب تجزیہ کار الیف صباغ نے اسرائیلی چینل i24 سے گفتگو میں اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم کے مشیر ژاک نریا کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا کہ ایران حزب اللہ کے ذریعے لبنان پر کنٹرول کیے ہوا ہے۔ صباغ نے واضح کیا کہ ایران نہیں، بلکہ خود اسرائیل ہے جو خلیج فارس سے بحیرہ روم تک تسلط چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کسی بھی معاہدے کا احترام نہیں کرتا۔ یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بارہا گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کر چکے ہیں۔ اسرائیل کا مقصد پورے خطے پر حکمرانی قائم کرنا ہے۔
الیف صباغ کے مطابق،لبنان اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ دو بنیادی حقائق کو ظاہر کرتا ہے:پہلا یہ کہ اسرائیل کبھی کسی معاہدے کا پابند نہیں رہتا، چاہے وہ خود ہی کیوں نہ اس پر دستخط کرے۔ دوسرا یہ کہ جب تک امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا رہے گا، ہر معاہدہ محض کاغذی حیثیت رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اسرائیل کو ہر فوجی کارروائی کے لیے یہ جواز دے کر اسلحہ فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کارروائی کر رہا ہے۔ اسی لیے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل نہیں ہو رہا۔

الیف صباغ نے کہا کہ اسرائیل کی حکمتِ عملی صرف لبنان یا غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ تک پھیلی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق یہ منصوبہ گریٹر اسرائیل کے نام سے مشہور ہے، جو خلیج فارس سے لے کر بحیرہ روم اور دریائے نیل تک کے علاقے پر اثر و رسوخ چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ تسلط صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی اور اقتصادی بھی ہو سکتا ہے، جسے عرب ممالک کے اندرونی عناصر کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے۔

صباغ کے مطابق، لبنان اور غزہ اسرائیلی منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسرائیل سمجھتا تھا کہ لبنان اب مزاحمت نہیں کرے گا، مگر وہ غلط ثابت ہوا۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس کی سرحدوں کے قریب کوئی مسلح قوت باقی رہے۔

لبنان کی کمزور پوزیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے صباغ نے کہا کہ "ب اسرائیلی ڈرون لبنانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور حکومت خاموش رہتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لبنان کی خودمختاری کہاں ہے؟ جو ملک اپنی سرحدوں کا دفاع نہ کر سکے، کیا وہ واقعی ایک ریاست کہلانے کے قابل ہے؟

آخر میں انہوں نے کہا: اگر لبنانی قیادت اپنے ہی عوام کے بجائے اسرائیل کے ساتھ تعاون کو ترجیح دیتی ہے، تو یہ نہ صرف شرمناک بلکہ خطرناک بھی ہے۔ کیا ایسے رہنما کس قوم کی نمائندگی کر سکتے ہیں؟

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha