خبر رساں ایجنسی فارس: جمعہ کی صبح، 10 اکتوبر کو، کاراکاس حکومت کی کٹر مخالف، اسرائیل نواز اور امریکہ نواز 'ماریا کورینا ماچادو'، 2025ء کا امن کا نوبل انعام جیت گئیں۔ لیکن صرف چند گھنٹوں بعد، وہی امن جس کے بہانے یہ انعام اس مغرب نواز شخص کو دیا گیا تھا، خود تنازع کا مرکز بن گیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً ماچادو امن پسند نہیں ہیں اور عرصے سے امریکہ کو وینزویلا پر جنگ مسلط کرنے اور حملہ کرنے کی دعوت دیتی رہی ہیں ثانیاً انھوں نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں یہ انعام ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کر دیا! ایک ایسا اقدام جس نے میڈیا کارکنوں اور فنکاروں میں تنقید کی لہر دوڑائی دی۔
ماریا کورینا ماچادو، امریکہ کی سیاسی حامی اور طرفدار ہیں؛ ایک ایسی سیاستدان جو وینزویلا کے بحران کے سالوں میں، صدر نکولس مادورو، کو ہٹانے کے لئے امریکی فوجی مداخلت کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ وہ کاراکاس حکومت کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کا بھی دفاع کرتی ہیں اور خود کو مادورو کے خلاف جدوجہد کی علامت بتاتی ہے۔
اس موقف نے برسوں پہلے ان کا نام لاطینی امریکہ میں واشنگٹن کی حمایت یافتہ شخصیات میں سے ایک بنا دیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے: امن کا نوبل انعام ان افراد کو دیا جانا چاہئے جنہوں نے تمام لوگوں کے لئے انصاف کے دفاع میں بہادری اور اخلاقی استقامت کا مظاہرہ کیا ہو، نہ کہ ان سیاستدانوں کو جو داخلی طور پر جمہوریت چاہتے ہیں لیکن بیرون ملک نسل پرستی، تعصب اور فاشزم کی حمایت اور جنگ و جارحیت کی وکالت کرتے ہیں۔
کمال شرف:
تاہم، ماچادو نے یہ انعام ٹرمپ کو پیش کیا ہے؛ ایسے ٹرمپ کو جسے کارٹونسٹ 'کمال شرف' نے اپنے کام میں اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں کے قتل کو اپنے خوابوں میں نوبل امن انعام تک پہنچنے کی سیڑھی بنا رہا ہے۔
مارکو ڈی آنجلیس:
مارکو ڈی آنجلیس (Marco De Angelis) نے ٹرمپ کو اپنے کارٹون میں امن کے کبوتر کی کھال پہنائی گئی ہے، جبکہ وہ نوبل امن انعام حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ لباس ظاہری اور عارضی طور پر اسے امن کا حامی دکھا رہا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ عرصے سے نوبل امن انعام حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے؛ یہ وہ انعام ہے جسے ان سے پہلے امریکہ کے چار صدور، تھیوڈور روزویلٹ 1906 میں، ووڈرو ولسن 1919 میں، جمی کارٹر 2002 میں اور بارک اوباما 2009 میں حاصل کر چکے ہیں۔
اوباما کا نوبل "پیس!" پرائز
ٹرمپ کو انعام نہ ملا تو انہوں نے فوری طور پر سنہ 2009ع میں اوباما کے دیئے گئے نوبل امن انعام پر تنقید کی اور کہا کہ انہیں 'کچھ بھی نہ کرنے' کے عوض نوبل انعام دیا گیا، جبکہ میں تو میں ہوں!
ٹرمپ نے بارها دعویٰ کیا ہے کہ وہ نہ صرف اس انعام کے مستحق ہیں بلکہ ان کے دعوے کے مطابق وہ سات جنگیں ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ ہند و پاک، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ، مصر اور ایتھوپیا، روانڈا اور ڈیموکرٹیک جمہوریہ کانگو، اور یہاں تک کہ سربیا اور کوسوو کے درمیان ثالثی کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے انہیں امن کا نوبل انعام ملنا چاہئے۔
تاہم، بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ان دعوؤں میں یا تو سخت مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں یا پھر وہ اپنے لئے جس کردار کا حوالہ دیتے ہیں وہ عملاً وجود ہی نہیں رکھتا۔
میٹ ڈیویس:
میٹ ڈیویس (Matt Davies) نے اس کارٹون میں ڈونلڈ ٹرمپ کے رویئے کے تضاد کو طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے؛ ایک ایسا سیاستدان جو اپنے آپ کو "امن کا نجات دہندہ" کہتا ہے، لیکن جنگ اور تصادم کے میدانوں میں اس کے قدم کا واضح نشان دیکھا جا سکتا ہے۔
فنکار نے انہیں ایک فوجی ٹینک پر سوار دکھایا ہے جس کے اردگرد پرچم لہرا رہے ہیں جن پر "تارکین وطن کے خلاف جنگ"، "سائنس کے خلاف جنگ"، "قابل تجدید توانائی کے خلاف جنگ" اور "ڈیموکریٹ اکثریتی شہروں کے خلاف جنگ" جیسے الفاظ درج ہیں؛ یہ ان تنازعات کی فہرست ہے جو ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران کھڑے کئے۔
اس کے باوجود، وہ ایک بے پروا چہرے اور مغرورانہ مسکراہٹ کے ساتھ، ہاتھ میں "غزہ جنگ بندی" کا ایک چھوٹا سا بینر تھامے ہوئے ہیں اور پوچھ رہے ہیں: "میرا امن انعام کہاں ہے؟"
یہی تضاد ڈیویس کے پیغام کا مرکزی نکتہ ہے؛ ایک ایسا سیاستدان جو خود تصادم اور تقسیم کی علامت ہے، اب امن پسند کے روپ میں ظاہر ہو رہا ہے جو عالمی شہرت اور تعریف کا متلاشی ہے۔
اب جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں تو وائٹ ہاؤس نے اس فیصلے پر کڑوا رد عمل ظاہر کیا۔ وائٹ ہاؤس کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن سٹیون چیونگ (Steven Cheung) نے طنزیہ لہجے میں ـ اب تک دیئے گئے امن انعامات کے محض سیاسی محرکات کی طرف اشارہ کئے بغیر ـ لکھا کہ "نوبل کمیٹی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاست کو امن پر ترجیح دیتی ہے"۔ انھوں نے ٹرمپ کو ایک "انسانی دل" اور غیر معمولی عزم کا حامل شخص قرار دیا اور مزید لکھا: "ایسا کوئی نہیں جو ان کی طرح مضبوط ارادے سے پہاڑوں کو ہلا سکے۔"
ہیری شینن:
لیکن ہیری شینن (Harry Shannon) نے اپنے شائع کردہ کارٹون میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ایسے ہنگامے کے مرکز میں دکھایا ہے جو پوچھ رہا ہے: "میرا نوبل کہاں ہے؟" جبکہ ان کے حامی، بلٹ پروف جیکٹس پہنے، مظاہرین پر تشدد کر رہے ہیں۔
گریم میک کے:
گریم میک کے (Graeme MacKay) نے اس کارٹون میں ٹرمپ کو ایک خاکستری اور فوج زدہ شہر کے اوپر امن کے کبوتر پر سوار دکھایا ہے۔ کبوتر کے نیچے بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ ٹرمپ نے "پیس میکر" کا فیتہ باندھا ہوا ہے اور ایک ہاتھ میں "پیس میکر" کا طومار اٹھایا ہوا ہے، لیکن دوسرے ہاتھ میں "شکایات" لکھی ہوئی چھڑی پکڑی ہوئی ہے۔ یہ کارٹون ٹرمپ کے امن کے دعوؤں اور اس کے پرتشدد اور طاقت پسندانہ رویئے کے درمیان تضاد کو واضح کرتا ہے۔
آسمان میں، نوبل انعام کا تمغہ دکھائی دیتا ہے جس پر ایک چہرہ ہے جس نے اپنا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا ہؤا ہے؛ گویا یہ اس سیاسی شخص کو ایسا انعام دیئے جانے پر شرمندگی یا 'بے یقینی' کا اظہار کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ