بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ڈاکٹر علی لاریجانی نے ٹیلی ویژن پروگرام "ہم عہد" میں شہید سید حسن نصر اللہ کی شخصیت اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ان کے بارے میں بولنے کے لئے زیادہ وقت چاہئے کیونکہ وہ ایک عظیم اور کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کی زندگی کے صرف بعض پہلوؤں پر بات چیت کرنا، ان کے تعارف کے لئے کافی نہیں ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا:
شہید سید حسن نصراللہ اخلاقی و فکری خوبیوں، پرکشش اور متاثر کن شخصیت اور مؤثر کردار کے مالک تھے۔ ان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک خطے، خاص طور پر لبنان اور عالم اسلام کے واقعات کے بارے میں ان کی منظم سوچ تھی۔ کچھ لوگوں کے برعکس جو مختلف مسائل میں بکھر جاتے ہیں، ان کے پاس ہمیشہ واقعات کا واضح تصویر ہوتی تھی اور اس کے مستقبل کے بارے میں منظم منصوبہ ہوتا تھا۔
یہی دوراندیشی اور عاقبت اندیشی پر مبنی نقطہ نظر انہیں اداروں اور سول تحریکوں کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کے قابل بنا دیتا تھا۔ اگر رہنماوں اور منتظمین کے پاس ایسا واضح پیش منظر نہ ہو، تو وہ عام طور پر عارضی اور تکنیکی رد عمل تک ہی محدود رہ جاتے ہیں۔ لیکن سید حسن نصر اللہ اپنی ذہانت اور مشاورت کے معمول کے رجحان کے ساتھ، واقعات کے انتظام میں صحیح راستہ اختیار کر لیتے تھے۔
شہید نصراللہ مختلف لوگوں کے آراء سے فائدہ اٹھاتے تھے
سید حسن نصراللہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مختلف لوگوں کے آراء سے فائدہ اٹھاتے تھے اور وسیع معلومات حاصل کرتے تھے، لیکن وہ ان معلومات میں کھو نہیں جاتے تھے اور ان میں سے مستقبل کے لئے ایک واضح منظرنامہ تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
وہ واقعی مشاورت پر یقین رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر، حزب اللہ میں، جس کی ڈھانچہ مشاورتی ہے، وہ خود کو کونسل کی رائے ماننے کا پابند سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میٹنگوں میں جہاں ہم شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی اور دیگر دوستوں کے ساتھ موجود تھے، دیکھا گیا کہ اگرچہ کبھی کبھی ان کی اپنی مضبوط رائے ہوتی تھی، لیکن جب مختلف نظریات و آراء سامنے آتے تھے اور نئے پہلو واضح ہو جاتے تو وہ قبول کرنے اور لچک دکھاتے تھے۔ مشورہ قبول کرنے کا یہ رجحان ایک ایسی شخصیت کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے جو کرشماتی شخصیت کا حامل ہو اور اعلیٰ سماجی اثر و رسوخ رکھتا ہو۔
یہ خصوصیت حساس حالات میں بھی سامنے آ جاتی تھی۔ 33 روزہ جنگ کے دوران، بھی ـ جب وہ عالم اسلام میں ایک ممتاز مجاہد کے طور پر ابھرے، تو ـ ان کے عاجزانہ رویے اور انتظامی طریقے میں ذرا سا بھی فرق نہیں آیا۔
حقیقت پسندی شہید نصر اللہ کی نمایاں خصوصیت
حقیقت پسندی ان کی ایک اور نمایاں خصوصیت تھی۔ وہ کبھی بھی سامعین کو غلط معلومات دے کر غلط راستے پر نہیں ڈالتے تھے اور حقیقت کو درست طریقے سے بیان کرتے تھے۔ اسی حقیقت پسندانہ رجحان کی وجہ سے وہ ہمیشہ خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات کا ایک ساتھ جائزہ لیتے تھے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے۔
ایک وقت میں خطے کے حالات بگڑ گئے تھے اور ساتھ ہی ایران کا جوہری معاملہ بھی ایک پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔ مغربی ممالک ان دو مسائل کو باہم جوڑ کر دکھانے کی کوشش کر رہے تھے، حالانکہ ان کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اسی دوران جب خاویر سولانا (Javier Solana) کے ساتھ ہماری بات چیت ہو رہی تھی، 33 روزہ جنگ چھڑ گئی۔ اسی دوران ہنری کسنجر نے ایک مضمون لکھا اور زور دے کر کہا کہ اب ایران کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہؤا کہ وہ لبنان کی جنگ کو جوہری معاملے سے جوڑنے کے درپے تھے۔ یہاں تک کہ مسٹر سولانا نے فون پر مجھ سے کہا کہ "تخریب کاروں نے اپنا کام کر دیا۔"
مسائل کی یہ پیچیدگی بہت سی مشکلات پیدا کرتی ہے، لیکن سید حسن نصر اللہ حالات کا صحیح تجزیہ کر کے ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچتے تھے کہ جوہری میدان میں کوئی بھی معاہدہ پورے خطے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کے معاہدے خطے میں بھی اور بین الاقوامی میدان میں بھی، ایران کے سفارتی تعلقات کے لئے صحیح راستہ ہموار کریں گے۔
حقیقت پسندی کا یہ رجحان ان لوگوں کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو کسی پارٹی، ادارے یا سیاسی تحریک کی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہوتے ہیں، خاص طور پر ان تحریکوں کے لئے جن کے کئی مخالفین اور دشمن بھی ہوں، اور یہ صحیح اور بروقت فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے۔
شہید نصراللہ لمحوں اور جگہوں سے فائدہ اٹھاتے تھے
ایک بات جو میں مجموعی طور پر کہنا چاہتا ہوں اور جو ان میں سو فیصد موجود تھی، وہ یہ تھی کہ وہ وقت اور مقام کے مواقع سے اچھی طرح فائدہ اٹھاتے تھے؛ یہ مضبوط رہنماؤں کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ افلاطون کے پاس اس سلسلے میں ایک اصطلاح ہے جسے "کایروس = Kairos" (1) کہتے ہیں، جس کا یونانی میں مطلب ہے کہ ایک سیاسی رہنما وقت اور مقام کو کیسے اپنی گرفت میں لیتا ہے، اسے مضبوطی سے پکڑتا ہے اور بر وقت فیصلہ کرتا ہے۔
یہ خوبی جناب سید حسن نصراللہ کے رویے میں مختلف اوقات میں واضح نظر آتی تھی۔ ان کے انتخاب سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ وقت اور حالات پر حاوی تھے، اور حالات ان پر حاوی نہیں تھے۔ مثال کے طور پر، 33 روزہ جنگ کے پہلے ہفتے حالات بہت سخت تھے اور بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ پیچھے ہٹ جائیں۔ میں نے اندرونی سیاست دانوں میں سے ایک نمایاں شخص کو یہ تجزیہ دیتے ہوئے سنا کہ اس کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور اسے چھوڑ دینا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ Kairos: صحیح یا نازک لمحہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ