1 اکتوبر 2025 - 20:09
غزہ کے لئے نام نہاد 'ٹرمپ امن منصوبے' میں آخری لمحات میں تبدیلی؛ عرب رہنما ناراض ہوگئے!، ایکسیوس

امریکی نیوز ویب سائٹ "آکسیوس" نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" کا غزہ کے لئے امن منصوبہ آخری لمحات میں تبدیل کر دیا گیا، جس پر عرب رہنما [گویا] غضبناک ہوگئے ہیں!

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || نگل کی شب کی ارنا کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی خبر ایجنسی ـ معا ـ نے ایکسیوس کے حوالے سے لکھا کہ ایک سمجھوتے کا مسودہ حماس کے سامنے پیش کیا گیا کچھ تھا اور جو مسودہ امریکہ اور عرب اور بعض اسلامی ممالک نے منظور کیا ہے کچھ اور ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، ایکسیوس نے کہا کہ "بنیامین نیتن یاہو" نے ایک پریس کانفرنس سے پہلے آخری لمحات میں معاہدے کی ان شقوں میں تبدیلیاں کر دیں جن پر پہلے اتفاق ہو چکا تھا۔

ایکسیوس نے یہ بھی کہا کہ "بنیامین نیتن یاہو" اور اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر "ران ڈیمر" نے یہ تبدیلیاں امریکی خصوصی ایلچی "اسٹیو ویٹکاف" اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد "جیرڈ کشنر" کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران درج کروا دیں۔

ایکسیوس نے کہا کہ نیتن یاہو اس ملاقات میں منصوبے کے کئی اہم نکات ـ خاص طور پر اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کی شرائط اور میزان الاوقات سے متعلق نکات ـ میں ترامیم کرا دی ہیں۔

فلسطینی خبررساں ادارے "معا" نے ایکسیوس کے حوالے سے بتایا کہ سعودی عرب، مصر، اردن اور ترکیہ کے عہدیداروں نے ان تبدیلیوں پر اپنے غصہ اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

ارنا کی رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے سوموار کی رات ایک پریس کانفرنس میں، جس میں صہیونی ریاست کا وزیر اعظم بھی شریک تھا، غزہ میں جنگ بندی کے اپنے 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا۔

اگرچہ ٹرمپ کے 21 نکاتی منصوبے کا مقصد غزہ کی جنگ ختم کرنا اور اس خطے کی تعمیر نو بتایا گیا ہے، لیکن مختلف سطحوں پر مخالفین — فلسطینی گروپوں سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں اور یہاں تک کہ مغربی تجزیہ کاروں تک — اس منصوبے پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے زور دے کر کہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ شہریوں کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ غزہ کو غیر مسلح کرنے پر مرکوز ہے۔ 

ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، تعمیر نو یا جنگ بندی کا کوئی بھی عمل اگر ناکہ بندی ختم کرنے اور نقل و حرکت کی آزادی کی ضمانت کے بغیر ہو، تو یہ محض انسانی بحران کو طول دینے کا سبب بنے گا۔

الجزیرہ نیٹ ورک کے ایک تجزیہ کار نے واضح کیا کہ "ٹرمپ غزہ کو ایک ایسے آزاد اقتصادی زون بنانا چاہتے ہیں، جہاں عوام کو حقیقی آزادی حاصل نہ ہو۔ اس کا مطلب ہے، یہ ہے کہ تعمیر نو کا مقصد خطے کو قابو میں رکھنا ہے نہ کہ انہیں آزادی دلانا مقصود ہو۔"

غزہ پر بیرونی کنٹرول اور "ٹرمپ امن کونسل" کے قیام کا منصوبہ بھی شدید تنقید کیا سامنا ہے جس میں "ٹونی بلیئر" جیسے لوگ شامل ہیں، جو خود خطے کی جنگوں اور عراق پر غیر قانونی جارحیت میں کردار کے حوالے سے کافی بدنام ہیں۔

اخبار "القدس العربی" اخبار کا خیال ہے کہ یہ کونسل غزہ کی ایک "نئی قسم کی بین الاقوامی تحویل" کی طرح ہوگی۔ "ریسپانسیبل اسٹیٹ کرافٹ" (ایک تھنک ٹینک) اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ ڈھانچہ عملاً فلسطینیوں کی سیاسی آزادی چھین لے گا اور یہ وہ ڈھانچہ ہے جس کا تجربہ اس سے قبل عراق اور افغانستان میں کیا جا چکا ہے اور معلوم ہؤا ہے کہ اس طرح کے "ماڈل" عام طور پر ناکام رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ٹرمپ کے منصوبے میں واضح طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی تذکرہ نہیں دکھائی دیتا۔ "واشنگٹن پوسٹ" نے ایک تجزیے میں لکھا کہ یہ ابہام درحقیقت تنازع کا حقیقی حل پیش نہیں کرتا بلکہ "بحران کے انتظام" کو متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اس سلسلے میں عرب تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ رویہ فلسطینیوں کے اندرونی اختلافات اور خود مختار انتظامیہ کے اعتماد کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ کے تمام علاقوں کی تعمیر نو نہیں ہوگی۔

الجزیرہ نے لکھا کہ فلسطینی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ تعمیر نو صرف مخصوص اور اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہوگی، جبکہ ناکہ بندی اور پابندیاں برقرار رہیں گی۔

مجموعی طور پر ٹرمپ کے منصوبے پر شک و شبہات حتیٰ کہ مغربی حلقوں میں بھی پائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پولیٹیکو میگزین نے لکھا کہ ٹرمپ کا منصوبہ ایک امن دستاویز ہونے کے بجائے آنے والے امریکی صدارتی انتخابات کے لئے سیاسی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha