23 ستمبر 2025 - 17:34
کوئی بھی چیز بچوں کے قتل جواز نہیں بنتی، برازیلی صدر

صدر لولا نے یہ بات اتوار (22 ستمبر) کو نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی طرف سے بلائی گئی فلسطینی سوال کے پرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لئے بین الاقوامی کانفرنس کے دوران کہی۔ یہ ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آغاز سے ایک روز قبل ہوئی۔ جنرل اسمبلی کا افتتاح بھی برازیلی صدر کریں گے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صدر دا سلوا نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کی اور کہا: بین الاقوامی کمیونٹی فلسطین میں جاری نسلی صفائی کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ آج ہم کیونکر فلسطینی عملداری کی بات کر سکتے ہیں جبکہ قبضے کا سلسلہ ہر نئی نوآبادی کی تعمیر کے ساتھ وسیع تر ہو رہا ہے؟ ہم موجودہ قومی صفائی کے لئے صہیونی جارحیت کے ہوتے ہوئے 'آبادی کی حفاظت' کے بارے میں کیونکر بات کر سکتے ہیں؟ 

 لولا دا سلوا کے مطابق، یہ صورت حال "کثیر الجہتیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی سب سے بڑی علامت" ہے اور سلامتی کونسل کے ویٹو کا ظلم اقوام متحدہ کی رائے کو کمزور کرتا ہے۔ یہ اس کے آفاقیت کے مشن کے خلاف بھی ہے اور ایک ایسی ریاست کے مکمل رکن کے طور پر داخلے کو روکتا ہے جس کی تشکیل جنرل اسمبلی کی ہی ذمہ داری اور اسی کے اختیارات میں سے ہے۔"

غزہ میں نسل کشی

لولا نے کہا: "اسرائیل کہتا ہے کہ وہ اپنا دفاع کر رہا ہے! لیکن اپنے دفاع کا حق شہریوں کے اندھا دھند قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی بھی چیز بچوں کی جان لینے کا جواز نہیں بنتی۔ کوئی بھی چیز 90 فیصد فلسطینی گھروں کی تباہی کا جواز نہیں بنتی۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور مدد کے متلاشی بھوکے افراد کو نشانہ بنانے کا کوئی بھی جواز نہیں بنتا۔"

انہوں نے زور دے کر کہا: "غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف فلسطینی عوام کی تباہی ہے بلکہ ایک قوم کی تشکیل کے سلسلے میں ان کے خوابوں اور منصوبوں کی تباہی کی کوشش بھی ہے۔"

دا سلوا نے کہا: "نصف ملین سے زیادہ فلسطینیوں کے پاس کھانے کے لئے کافی نہیں ہے، یہ تعداد میامی یا تل ابیب جیسے شہروں کی آبادی سے زیادہ ہے؛ بھوک صرف جسم کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ یہ روح کو بھی تباہ کرتی ہے۔

لولا نے یاددہانی کرائی: "2010 سے، صدر کے طور پر ان کی دوسری مدت کے دوران، برازیل نے 1967 کی سرحدوں کے اندر فلسطین کو سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے، جس میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ شامل ہیں۔"

واضخ رہے کہ حالیہ مہینوں میں، دنیا بھر اس تحریک نے زور پکڑ لیا ہے؛ کینیڈا اور برطانیہ ریاست فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے تازہ ترین ممالک میں شامل ہیں، جو 140 سے زیادہ ممالک میں شامل ہیں جو پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ ایک علامتی اقدام تھا، کیونکہ یہ دو ممالک پہلے G7 ممالک تھے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی ریاستیں جیسے اسپین، آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا اور اب پرتگال بھی اس تحریک میں شامل ہیں۔ آج اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریباً 80% ممالک ریاست فلسطین کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہیں۔

 کثیرالجہتیت کی اصلاح

داسلوا نے سلامتی کونسل کی بے عملی اور انفعالیت پر تنقید کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سلامتی کونسل کے احتساب کی تجویز کی حمایت کی اور نسل پرستی کے خلاف خصوصی کمیٹی کے ماڈل پر ایک ادارہ بنانے کی وکالت کی، جس نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے نظام کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

انھوں نے کہا: "فلسطین کے لیے بات چیت اور حق خودارادیت پر زور دینا ایک منصفانہ عمل اور کثیرالجہتیت (Multilateralism) کی طاقت کی بحالی اور انسانیت کے بارے میں ہمارے اجتماعی احساس کی بحالی کی طرف ایک بنیادی قدم ہے،"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha