10 ستمبر 2025 - 14:51
ایک پلید روح دو جسموں میں / امریکہ میں اسرائیل کی عدم مقبولیت، ٹرمپ حیران رہ گئے!

صہیونی لابی کے اثر و رسوخ میں کمزور پڑنے کے حوالے سے امریکی صدر کے حالیہ انٹرویو نے بین الاقوامی تعلقات کے بعض مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ #ٹرمپ_نیتن_یاہو_یک_روح_و_دو قالب؛

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں واضح کیا کہ امریکہ میں "سب سے طاقتور لابی" اسرائیل کی تھی لیکن اب وہ کانگریس میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

دائیں بازو کی ویب سائٹ "ڈیلی کالر" کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا: "میں حیران ہوں کہ اسرائیل امریکی کانگریس میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔"

میزبان نے پوچھا: "کیا کانگریس میں اسرائیل (صہیونی ریاست) کے لئے ریپبلکنز کی حمایت میں کمی تشویشناک ہے؟" تو ٹرمپ نے کہا: "اسرائیل کے پاس امریکہ میں سب سے زیادہ طاقتور لابی تھی جو میں نے کانگریس میں دیکھی ہے، جو کسی بھی فرد، کمپنی یا ریاست سے زیادہ مضبوط تھی۔ ان کا کانگریس پر مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب وہ ایسا نہیں کرتے۔ ایمانداری سے کہنا چاہوں تو میں تھوڑا حیرت زدہ ہو گیا ہوں۔"

صہیونیوں سے عوامی نفرت میں اضافہ

میزبان نے یاد دلایا کہ مارچ کے سروے کے مطابق، 53 فیصد امریکی بالغ افراد اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتے تھے، جبکہ 2022 میں یہ شرح 42 فیصد تھی۔ تو ٹرمپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "جنگ نے تل ابیب کی بین الاقوامی امیج کو نقصان پہنچایا ہے!"

یہ انٹرویو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے اس بیان کے بعد سامنے آیا کہ "ٹرمپ یرغمالیوں سے متعلق جزوی معاہدے کے خلاف ہیں۔" نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ "ٹرمپ نے اس کو کہا تھا کہ "جزوی سودے کو بھول جاؤ، پوری طاقت کے ساتھ جاؤ اور کام ختم کرو!"

فلسطینیوں کی تاریخی اور بہادرانہ مزاحمت کے تسلسل، غزہ کی جنگ میں حماس کے خاتمے کے صہیو-امریکی محاذ کی ناکامی اور اس تنازعے میں صہیونی ریاست کی شکست و ناکامی کے آثار واضح ہونے کے بعد، واشنگٹن غزہ جنگ کے حوالے سے عالمی نظام کو با مقصد اشارے (سگنل) بھیج رہے ہیں جن کا مقصد ایک طرف سے ٹرمپ-نیتن یاہو کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دکھانا ہے اور دوسری طرف سے، یہ دکھانا ہے کہ غزہ جنگ میں تل ابیب کا کھیل واشنگٹن کے کھیل سے بالکل الگ ہے۔ ان میں سے کچھ سگنلز کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے:

- یہ کہ امریکی حکام نے غزہ کی جنگ میں شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں پر تنقید کی ہے اور اس مسئلے کو صہیونی حکام تک پہنچایا ہے۔

- یہ کہ، نیتن یاہو کی کابینہ (جسے غزہ جنگ کی کابینہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کے برعکس، امریکی حکام موجودہ بحران کو حل کرنے کے لئے درمیانی اور حقیقت پسندانہ حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں!

نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان جھوٹی 'مغایرت' قائم کرنے کی کوشش

مغربی اور صہیونی ذرائع ان واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے تل ابیب اور واشنگٹن (خاص طور پر ٹرمپ اور نیتن یاہو) کو دو الگ الگ اداکار تصور کرتے ہیں اور ان دونوں میں فرق کے قائل بنتے ہیں؛ حالانکہ جب صہیونی ریاست بچہ کُش وزیر اعظم دھڑلے سے کہتا ہے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی ایشیا کے دیگر خطوں میں کوئی بھی [مجرمانہ] اسرائیلی کاروائی ٹرمپ کی حمایت اور منظوری کی مہر اور اسٹرٹیجک اور لاجسٹک حمایت کے بغیر انجام نہیں پاتی۔ چنانچہ ایسے حالات میں واشنگٹن اور تل ابیب کے حربی کھیل کو ایک دوسرے سے الگ کرنا بھی گمراہ کن ہے، اور غزہ کے موجودہ واقعات کا تجزیہ کرنے یا بیان کرنے میں اس جھوٹ کا حوالہ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس بامقصد اور جھوٹی تصویر کشی کے برعکس، ایسے حقائق ہیں جن پر انحصار کیا جائے اور ان کا حوالہ دیا جائے تو غزہ جنگ کے میدانی اور میٹا-ٹیکسٹول انتظام میں واشنگٹن کا کردار کھل کر سامنے آتا ہے۔

ظاہر ہے کہ غزہ کی جنگ میں قدس پر قابض ریاست کے جرائم کے پہلے دن سے لے کر اب تک واشنگٹن نہ صرف ایک حمایتی کے بھیس میں کشیدہ علاقائی صورت حال میں مداخلت کر رہا ہے بلکہ "غزہ جنگ میں بھی میدانِ جنگ میں براہ راست کردار ادا کرنے والے کھلاڑی" کی حیثیت سے بھی داخل ہؤا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران بھی اسی بے شرمانہ امریکی کردار کا نتیجہ ہیں۔ صیہونی لابی کی طاقت میں کمی آنے کے بارے میں ٹرمپ کے حالیہ موقفوں کا مجموعہ ـ جو (غزہ کی جنگ جاری رکھنے پر اصرار کی وجہ سے) کے بارے میں ہے ـ اور نیتن یاہو کا غزہ کے نسل کشی کے عمل میں امریکی صدر کی مکمل حمایت پر زور، بامقصد جھوٹ اور تضادات کا کھولتا ہؤا 'نقطہ' ہے جو ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں نے پیدا کئے ہیں۔ اس الٹی تصویر سازی کا خطاب دنیا کی رائے عام سے ہے۔

نیتن یاہو نے ٹرمپ کا کردار کیسے بے طشت از بام کر دیا؟

دریں اثنا، غزہ جنگ کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے نقطہ نظر کے حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم کا موقف کافی واضح ہے! بنیامین نیتن یاہو نے حال ہی میں حماس کے ساتھ جزوی جنگ بندی کے معاہدے کی تجاویز کو مسترد کر دیا۔ یہ اقدام اُس کے اس دعوے کے بعد سامنے آئی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں "جنگ ختم کرنے" کے لئے"پوری طاقت استعمال کرنے کے لئے" دباؤ ڈالا ہے! دوسرے لفظوں میں، نیتن یاہو نے امریکی صدر کو غزہ کی جنگ (خطے میں نسل کشی کے تسلسل) میں اپنے مرکزی محرک کے طور پر متعارف کرایا ہے، اس طرح واشنگٹن-تل ابیب کی باہمی 'مغایرت' (غیریت) کے کھیل کو شدید دھچکا لگا ہے۔ درحقیقت نیتن یاہو ٹرمپ پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ تل ابیب کی موجودہ شکست واشنگٹن کی شکست ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، نیتن یاہو نے اسرائیلی کابینہ کے وزراء کو بتایا ہے کہ ٹرمپ نے ان سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے کسی بھی ایسے معاہدے کو مسترد کر دیں جس میں غزہ کے تمام یرغمالیوں (مجاہدین کے پاس غاصب صہیونیوں قیدیوں) کی رہائی شامل نہ ہو۔ اسرائیل کے چینل i12 نے گمنام ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ ٹرمپ کو نیتن یاہو سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ "اپنی پوری طاقت کے ساتھ جاؤ اور [جنگ] ختم کرو۔"

نیتن یاہو آخری شکست کے دہانے پر

خبر رساں ایجنسی نے نیتن یاہو اور اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر کے درمیان کشیدہ بحث و جدل کی بھی اطلاع دی ہے۔ جنرل ضمیر نے اجلاس میں جزوی ڈیل کی حمایت کرتے ہوئے وہاں موجود وزراء سے کہا: "ایک عمومی منصوبہ میز پر ہے اور ہمیں اسے قبول کرنا چاہئے۔"

حماس نے 18 اگست کو جس معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا کہ اس نے اسے قبول کر لیا ہے، اس میں 60 روزہ جنگ بندی کے دوران سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 10 زندہ قیدیوں کی رہائی اور 18 مارے گئے قیدیوں کے باقیات کی تحویل شامل ہے۔ منصوبے کے تحت، جنگ بندی کے دوران بقیہ 20 قیدیوں (جن میں سے ایک درجن تک زندہ ہیں) کی واپسی اور جنگ کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لئے بات چیت کی جائے گی۔ نیتن یاہو کے دفتر نے کسی بھی مرحلہ وار معاہدے کو مسترد کر دیا ہے اور گذشتہ مہینے اعلان کیا کہ تمام تر قیدیوں کو بیک وقت رہا کرنا پڑے گا۔

ان رپورٹوں کے نتیجے میں غالباً صہیونی ریاست کے خلاف مزید مذمتیں آئیں گی، کیونکہ مقبوضہ علاقوں کے اندر اور باہر غزہ میں جنگ (جسے قریباً دو سال ہونے کو ہیں اور جس میں 63000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں) کے انتظام  سے ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ نیتن یاہو غزہ پر مکمل کنٹرول کے ایک منصوبے پر عمل پیرا ہے جو غزہ پٹی کے شمالی شہروں سے شروع ہوتا ہے اور جس کا مقصد حماس کو تباہ کرنا اور باقی ماندہ 48 قیدیوں کو بچانا ہے، لیکن میدانی اور ماورائے متن (Metatext) (اور غیر مذکورہ) حالیہ تنازع کے شواہد اس المیے کی گہرائی کا ثبوت دیتے ہیں؛ جس نے موجودہ پیچیدہ اور کثیرالجہتی معاملے میں مقبوضہ بیت المقدس پر قابض ریاست کو جکڑ لیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حسین یاری

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha