بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، الجزیرہ نیٹ ورک نے رپورٹ دی ہے کہ فلم (Cinematic film) 'آوازِ ہند رجب' بیاسی ویں بین الاقوامی وینس فلم فیسٹیول میں سلور لاین اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
"اس فلم نے تقریبا 24 منٹ کی طویل ترین کھڑے ہو کر تحسین کا ریکارڈ کیوں توڑ؟
اور یہ کس کے بارے میں ہے؟
"ہند رجب کی آواز" 'The Voice of Hind Rajab' کا پریمیئر بدھ کو وینس فلم فیسٹیول میں ہؤا۔
یہ 'ہند رجب' کی کہانی بیان کرتی ہے،
ایک فلسطینی بچی جو غزہ میں اسرائیلی مظالم کی علامت بن گئی۔
اس کی کہانی 29 جنوری 2024 کو شروع ہوئی۔"
جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے رہائشیوں سے کہا کہ علاقے کو فوری طور پر خالی کر دیں۔
چنانچہ ہند کا خاندان ایک گاڑیپر سوار ہوئے
اور شمال کی طرف روانہ ہوئے۔
لیکن کچھ سو میٹر آگے رک گئے
ہند کے ایک چچازاد بھائی 'لیان' نے ان کے چچا سے رابطہ کیا
یہ کہنے کے لئے کہ انہیں محصور کر لیا گیا ہے
اور اسرائیلی فوج نے گاڑی پر فائرنگ کی ہے
اور گاڑی میں سوار تمام افراد کو قتل کر دیا ہے سوا اس (لیان) اور 'ہند' کے۔
اسی شام کو، فلسطینی ہلال احمر (PRCS) نے
لیان سے رابطہ کیا
ہیلو، مرحبا
وہ ہم فائرنگ کر رہے ہیں
ایک ٹینک میرے قریب ہے
کیا تم چھپے ہوئے ہو؟
جی ہاں ہم کار میں چھپے ہوئے ہیں
ہم ٹینک کے ساتھ ہی ہیں
کیا تم کار کے اندر ہو؟
ہیلو
صرف چھ ثانیوں میں 62 گولیوں کی آواز سنائی دی
ایسے حال میں کہ لیان اپنی جان بچانے کے لئے پکار رہا تھا
اور رابطہ ایک منٹ میں منقطع ہو گیا
فلسطینی ہلال احمر نے دوبارہ رابطہ کیا
اور اس بار ہند نے فون اٹھایا
وہ سب مر چکے ہیں
کیا وہ مارے گئے ہیں؟
جی ہاں!
کیا وہ ابھی تک گاڑی میں آپ کے ساتھ ہیں؟
جی ہاں!
کیا ٹینک سامنے سے آپ کی طرف آ رہا ہے؟
جی ہاں!
کیا وہ بہت قریب ہے؟
جی ہاں! بہت بہت قریب ہے
کیا وہ چل رہا ہے؟
جی ہاں!
اچھا! مہربانی کرکے ڈرنا مت
میرے ساتھ رہنا
اے میری زندگی، میں آپ کے ساتھ ہوں
ہلال احمر نے اسرائیلی وزارت دفاع سے اجازت لی
کہ ایک ایمبولینس ہند کی نجات کے لئے بھیج دے
لیکن ایمبولیس جب ہند کی سڑک کی طرف مڑی تو
ایک دھماکے کی آواز سنائی دی اور لائن کٹ گئی
امدادی کارکن مزید جواب نہیں دے رہے تھے
ہند ابھی بالکل اکیلی، لائن پر تھی
بالکل تنہا اپنے گھرانے کے اراکین کے بے جان جسموں کے بیچ
اندھیرا چھانے لگا تھا
ہلال احمر اس کی ماں پر فون پر لے آیا
سب نے اسے بولنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی
لیکن ہند رفتہ رفتہ خاموش ہو گئی اور دیر تک نہ بولی
جب پو چھا گیا کہ بولتی کیوں نہیں ہے؟
بولی: جب بولنے لگتی ہوں تو میرے منہ سے خون باہر آتا ہے
اور یہ خون میرے کپڑوں کو گندا کردیتا ہے!
میں یہ نہیں چاہتی کہ میری ماں انہیں صاف کرنے پر مجبور ہو!
انھوں نے ہند سے کہا کہ گاڑی میں ہی رہے تاکہ اسے تلاش کر سکیں
اور اگر رات ہوگئی اور وہ وہاں نہ پہنچ سکے ہوں تو
اپنی آنکھوں کو بند کریں تاکہ ٹینکوں کو نہ دیکھے۔
تھوڑی دیر بعد رابطہ منقطع ہؤا
[ہلال احمر نے ایک بار پھر رابطہ کیا] کیا؟
اب مکمل رات چھا گئی ہے اور میں ڈرتی ہو
آؤ، اور مہربانی کرکے مجھے لے جاؤ [یہاں سے]
میری بچی، اللہ کی قسم اگر میں آ سکتا تو آجاتا اور آپ کو لے جاتا
انہوں نے دوبارہ اور دوبارہ رابطے کی کوشش کی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا
دو ہفتوں تک کوئی بھی اس علاقے تک نہیں پہنچ سکا
ایک دفعہ جو وہ وہاں پہنچ سکے تو انہوں نے ہلال احمر کے ایک ایمبولینس کو دیکھا
جو ہند کی مدد کے لئے آیا تھا، وہ ایک جلا ہؤا شیل بن چکا تھا
امدادی کارکنوں کے جسم جل کر راکھ ہوچکے تھے
ایمبولینس کے دروازے اور بونٹ (bonnet) کے حصے اور تھوڑے فاصلے پر ہند کی گاڑی کا بونٹ پھٹا ہؤا تھا
شیشے ٹوٹ چکے تھے اور گاڑی گولیوں کے سوراخوں سے پر تھی
گاڑی پر مجموعی طور پر 335 گولیاں چلائی گئی تھیں
ہند کے چچا کی لاش ابھی ڈرائیور کی سیٹ سے لٹک رہی تھی
گاڑی سے پانچ بچوں کی لاشوں کی بدبو آ رہی تھی
لاشیں پچھلی سیٹ پر ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں
خاندان کے افراد کھ الشفاء ہسپتال کے باہر ایک دوسرے کے براہر میں،
دفنایا گیا اور ان کا قتل دنیا بھر میں کارکنوں کے لئے ایک "فریاد اور پکار" بن گیا
پوری دنیا میں طلبہ اپنی یونیورسٹیوں کے کیمپسوں میں
ہند کے بارے میں معلومات پھیلا دیں اور 'ہند رجب فاؤنڈیشن' کی بنیاد رکھی گئی
جس کا مقصد اسرائیلی فوجیوں کو بین الاقوامی سطح پر قانون کے کٹہرے میں لانا ہے جو جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں
جب تیونسی فلم ساز کوثر بن ہنیہ نے
ہند کی ریکارڈ شدہ آواز سنی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب کچھ چھوڑ کر
یہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور کہا: "میں ایسی دنیا کو قبول نہیں کر سکتی جہاں ایک بچے (یا بچی)
مدد مانگ رہا ہو اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آئے۔"
انھوں نے 70 منٹوں پر مشتمل صوتی فائل فلسطینی ہلال احمر سے حاصل کر لی
اور ہند کی والدہ اور ٹیلی فون رابطے کے دوسرے شرکاء کی شہادتوں کو وصول کر لیا
اور اس قصے کو از سر نو مرتب کیا
پراجیک شروع ہونے کے بعد بریڈ پٹ (William Bradley "Brad" Pitt)
اور جیکوئن فینکس (Joaquin Phoenix)، رونی مارا (Roony Mara)،
جوناتھن ان گلیزر (Janathan Glazer)، اور الفونسو کوارن (Alfonso Cuaron)
بھی اس فلم کے انتظامی پروڈیوسرز کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے۔
بعدازاں یہ فلم 'گولڈن لائن' کے لئے نامزد ہوئی
جو سب سے بڑا انعام ہے جو وینس فیسٹیول میں فلموں کو
سینما کی اہم شراکتوں کے طور پر دیا جاتا ہے
جہاں لوگ مسلسل تشدد اور آنلائن دکھوں کا نشانہ بن رہے ہیں
کوثر بن ہنیہ تشدد کی روایت بیان کرنے کے لئے تصویر کے بجائے اپنی توجہ ہند کی آواز پر مرکوز کر دی ہے۔
انھوں نے کہا "سینما یادوں کو محفوظ رکھ سکتا ہے؛ اور نسیان اور فراموشی کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
یہ فلم ایک سادہ سی داستان ہے ایک بچی کے بارے میں جو نرغے میں آئی ہے
اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آیا ہے
اور ممکن ہے کہ بالکل یہی کام کر دے [اور اس کی مدد کو آئے!]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ