6 ستمبر 2025 - 16:23
'عظیم تر اسرائیل' کا منصوبہ ناکام ہوگا / یورپ کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ محض سفارتی ڈھونگ ہے

امریکی سی آئی اے اور نیشنل انٹلیجنس کونسل کے سابق رکن نے واضح کیا کہ یورپی ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا وعدہ محض ایک سفارتی ڈھونگ ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی ریاست کی غزہ پر فوجی کارروائی، اس ریاست کے رہنماؤں کے "عظیم تر اسرائیل" کے خواب، بعض یورپی ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر مبنی بیان، اور اسرائیل کا مغربی کنارے پر حکمرانی مسلط کرنے کے دعوؤں جیسے معاملات فلسطین کے معاملے میں حالیہ اہم ترین واقعات ہیں، جنہوں نے اس معاملے کے مستقبل اور فلسطینی عوام کی تقدیر کے حوالے سے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں۔ اسی سلسلے میں امریکی سی آئی اے اور نیشنل انٹلیجنس کونسل کے سابق رکن پروفیسر "پال پلار" (Paul R. Pillar) نے ابنا کے نامہ نگار کے سوالات کے جوابات دیے۔ وہ فی الحال کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کے غیر مقیم رکن اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سیینئر فار سیکیورٹی اسٹڈیز ہیں۔

ابنا: آپ کے خیال میں اسرائیل پر غزہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور غزہ کے لوگوں کا کیا بنے گا جو اپنی زمین چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں؟

پروفیسر پال پلار (Paul Pillar): غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی، اور امداد کی ترسیل میں شدید کمی ـ جس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے، ـ نے اسرائیل کو مزید قابل نفرت بنا دیا ہے۔ روایتی طور پر اسرائیل کے مضبوط حامی رہنے والے ممالک، ـ خاص طور پر امریکہ اور جرمنی، ـ میں پچھلے دو سالوں میں اسرائیل کے خلاف عوامی رائے میں تبدیلی قابل ذکر ہے۔ غزہ میں، اسرائیلی فوجی کارروائی کے تسلسل سے نہ تو امن ملے گا اور نہ ہی حفاظت۔ اس کے برعکس، چاہے حماس ایک منظم قوت کے طور پر اپنی کاروائیاں جاری رکھ سکے یا نہ رکھ سکے، یقینا غیظ و غضب سے بھرے فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت جاری رہے گی۔ غزہ کے لوگ اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے، حالانکہ وہ پچھلے دو سالوں میں اٹھائے گئے دکھوں سے کہیں زیادہ دکھ درد سے دوچار ہونگے۔

سوال: کیا یورپی ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ امریکہ اور اسرائیل کے دباؤ کے باوجود عملی شکل اختیار کرے گا؟

جواب: جن حکومتوں نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے بارے میں بیانات دیئے ہیں، انہوں نے اپنا اس طرح کا اقدام غزہ میں حالیہ اور آئندہ واقعات اور تبدیلیوں سے مشروط کر دیا ہے۔ لہٰذا، اگر مثال کے طور پر امریکہ یہ دعویٰ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ جنگ بندی کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے، تو ان میں سے بعض حکومتیں تسلیم کرنے کے معاملے سے پیچھے ہٹ سکتی ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا وعدہ اب بھی محض ایک سفارتی چال ہوگا، اور جب تک اسرائیل فلسطینی علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھے گا، فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب حقیقت کے قریب نہیں آئے گا۔

سوال: امریکہ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جانے والے فلسطینی خود مختار اتھارٹی کے رہنماؤں کو ویزا جاری کرنے سے انکار کیوں کیا؟

جواب: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حمایت میں طویل عرصے سے فلسطین مخالف موقف اپنائی ہوئی ہے۔ اب فلسطینی خود مختار اتھارٹی کے رہنماؤں کو ویزا جاری نہ کرنا بلا شک اقوام متحدہ کے بعض اراکین کی اس کوشش کا جواب ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کو فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سوال: مغربی کنارے پر حالیہ اسرائیلی حکام کے حاکمیت کے دعووں کا کیا مقصد ہے؟ کیا وہ مکمل طور پر فلسطین کے مسئلے کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ دعوے عملی شکل اختیار کریں گے؟

جواب: اسرائیل کے بعض انتہا پسند، خاص طور پر وزیر خزانہ "بیزالیل اسموترچ"، نے واضح طور پر اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ـ مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنانے کے لئے ـ ہر ممکن اقدام کرے گا۔ اس کوشش کی بنیاد مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاروں کے لئے مزید نوآبادیاں تعمیر کرنا ہے، لیکن انتہاپسند دائیں بازو کے آبادکار اسرائیلیوں کے لئے حکمرانی کا اعلان، "عظیم تر اسرائیل" کے دیرینہ خواب کی تکمیل کا ایک حصہ بھی ہوگا۔ تاہم، اسرائیلی ریاست کے بعض دیگر ارکان شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ مغربی کنارے پر رسمی حکمرانی کے اعلان سے کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسرائیل عملاً پہلے ہی مغربی کنارے پر اپنا کنٹرول مسلط کر چکا ہے، اور ان علاقوں کے رسمی الحاق سے بین الاقوامی سطح پر مزید سوالات اٹھیں گے کہ کیوں ان تمام لوگوں کو مکمل سیاسی حقوق نہیں دیئے جا رہے ہیں جو ان علاقوں میں رہ رہے ہیں۔

سوال: آپ نیتن یاہو کے "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے اور عرب ممالک پر قبضے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

جواب: اسرائیل مسلط طاقت اور مسلح فوج کے ذریعے عوام کو تباہ کرنے اور خوفزدہ کرنے میں ماہر ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے مفادات کی حدود میں حقیقی بالادستی (Hegemony) بھی رکھتا ہے۔ خطے میں اسرائیل کے خلاف ابھی بھی بہت زیادہ عدم اعتماد پایا جاتا ہے اور اس کے خلاف متحد ہونے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ تاہم، عرب ممالک پر قبضے کے حوالے سے، میں یہ کہوں گا کہ یہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور شام و لبنان کے بعض حصوں تک ہی محدود رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha