4 اکتوبر 2013 - 20:30
نوآم چومسکی: امریکی طاقت رو بزوال ہے

چومسکی اپنی مادری اور آبائی سرزمین پر ـ جو کہ اپنے اندر تضادات کا شکار ہے ـ پر تنقید کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: امریکی استعماری طاقت کم ہورہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی قوت میں کمی کا آغاز 1945 سے ہوا ہے۔ امریکی طاقت کا عروج دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس زمانے سے رو بزوال ہے۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق امریکی مفکر "نوآم چومسکی" نے امریکی اخبار ہیفنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران، شام اور امریکی استعماری طاقت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ شام کے بحران اور اس ملک کے معاملات میں امریکہ اور روس کی مداخلت کے بارے میں کہتے ہیں: قطعی طور پر امریکہ اور روس کے مفادات اس ملک میں مختلف ہیں اور اس سلسلے میں تضاد ایک معمولی اور فطری مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود امریکہ بین الاقوامی حوادث و واقعات میں اثر و رسوخ کے درپے ہے تا کہ بین الاقوامی برادری میں اپنی پوزیش کو زیادہ مستحکم کرے جبکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اس وقت ایک عالمی طاقت کی کوئی نشانی نہیں ملتی۔   چومسکی نے کہا: سنہ 1940 کے عشرے کے بعد سے عالمی طاقت چند گانگی کا شکار ہوئی ہے۔ 1949 میں چین مستقل اور خومختار ملک بن گیا اور یہ مسئلہ امریکی استعمار پر ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا؛ اسی بنا پر ایک سسٹم بنایا گیا جس کا نعرہ یہ تھا کہ چین کو قابو میں لاکر ایشیا کو کنٹرول میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس زمانے کے بعد لاطینی امریکہ بھی امریکی کنٹرول سے خارج ہوا۔ چومسکی نے تفصیلات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا: امریکہ میں پالیسیوں کا تعین مفکرین اور دانشوروں کے ایک گروپ کے ذریعے کیا جاتا ہے لیکن ان پالیسیوں نے امریکی طاقت کو شدید ترین نقصانات پہنچائے ہیں۔ یہ امریکی پروفیسر ـ جو 85 برس تک پڑھاتے رہے ہیں ـ امریکی طاقت کے قانونی جواز پر سنجیدہ نکتہ چینیوں کے حوالے سے مشہور ہیں اور بار بار یہی استاد تھے جنہوں نے امریکی سیاسی حقائق کا جائزہ لیا ہے۔ کہتے ہیں: شام کو شدید خشک سالی کا سامنا تھا جس کی وجہ سے شامی کاشتکاروں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ لوگ شہروں میں جانے پر مجبور ہوئے۔ شام میں شہری بدنظمی سنجیدہ تھی چنانچہ شام میں آنے والے بحران کے ایک حصے کا تعلق زمین کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہے۔ ایک زمانے میں اس ملک کو کئی میلین عراقی مہاجرین کا سامنا تھا۔  ان کے بقول: عربی بہار کے آغاز پر شام کے بعض حصوں میں بھی مظاہرے ہوئے جس پر صدر اسد نے تشدد کا راستہ اپنایا جس کی وجہ سے ان کا ملک  موجودہ صورت حال سے دوچار ہوا۔انھوں نے البتہ یہ نہیں بتایا ہے کہ شام میں ہونے والے مظاہرے بعض دہشت گردوں کی طرف سے متعدد فوجیوں کے قتل کے ساتھ شروع ہوئے تھے۔  انھوں نے کہا: دمشق حکومت کو روس اور ایران کی حمایت حاصل تھی اور باغی گروپ ـ جن میں بعض مقامی عسکریت پسند اور بعض سیکولر جمہوریت پسند تھے ـ قطر اور امریکی سی آئی اے کی عسکری حمایت سے بہرہ مند تھے۔ انھوں نے کہا: شام اس وقت دو حصوں میں بٹ گیا ہے ایک حصہ حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور ایک حصہ باغیوں کے کنٹرول میں اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر شامی کرد خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں اور شام کے کرد علاقے عراق کے کرد علاقوں سے الحاق کرسکتے ہیں تاکہ ایک کرد علاقے کو قائم کریں جس کی اپنی سرحدیں ہوں۔  چومسکی نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی اخضر الابراہیمی کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: موجودہ حالات میں کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے کیونکہ صدر اسد ایسی میز پر نہیں بیٹھیں گے جہاں انہیں خودکشی کے لئے آمادہ کیا جاتا ہو۔ انھوں نے کہا: صدر اوباما شام کے مسئلے میں بدستور مرکزی کردار ادا کررہے ہیں گو کہ امریکی قرار داد کو روس کی حمایت حاصل ہے لیکن امریکہ کے موقف کا صحیح ادراک مشکل ہے۔ امریکہ بظاہر شام کے معاملے میں کنارہ کشی اختیار کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ شام کے سلسلے میں امریکی پالیسیاں اوباما کی پالیسیاں ہیںنوآم چومسکی نے کہا: عالم عرب کے استبدادی حکمران ایران کے سخت مخالف ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف اقدام کرے لیکن عرب ممالک کے عوام کی رائے حکام کی رائے سے مختلف ہے۔ عرب ممالک کے عوام ایران سے محبت نہیں کرتے لیکن اس کو اپنے لئے خطرہ بھی نہيں سمجھتے گوکہ اس طرح کا رجحان مغرب میں موجود ہے۔ عرب ممالک کے عوام امریکہ اور اسرائیل کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور مغربی ممالک ایران کو۔ واضح رہے کہ یہ نوآم چومسکی کے انٹرویو کا خلاصہ ہے اور پیش کردہ خیالات بھی ان کے اپنے ہیں جنہیں من و عن قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/٭۔٭