بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ |
حالیہ ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں امریکہ کا جو کردار رہاہ وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ امریکہ نے ایران کو دھوکا دیا ہو بلکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح ماضی میں بھی امریکہ نے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ایران کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ سینما کی دنیا میں اس ترکیب کے لئے پروپیگنڈے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ہولی وڈ نے ریاستی پالیسیز کو بیان کرنے اور تصویر کا ایک رخ دکھانے کے لئے سیکڑوں پروپیگنڈا فلمیں بنائیں۔
عالمی سیاست اور ہولی وڈ کا کردار
پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہو یا پھر امریکہ روس کی سرد جنگہ ویتنام اور افغانستان میں جارحیت کا کوئی پہلو ہو یا پاکستان میں محدود آپریشن کے نام پر کی گئی دخل اندازیہ ہولی وڈ نے ہمیشہ اپنی فلموں کے ذریعے ان تمام پہلوؤں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ خبروں کی دنیا اور گفتگو شاید نوجوان نسل کو اتنا متاثر نہ کرتی ہو جس قدر سینما کی دنیا کرسکتی ہےہ اس لئے ہولی وڈ اپنے ریاستی وسائل کے بل بوتے پر پروپیگنڈا فلمیں بنانے کا ماہر ہے۔
مندرجہ بالا واقعات کے تناظر میں چند ایک فلمیں بطور حوالہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان میں پہلی جنگ عظیم کے تناظر میں ’لارنس آف عربیہ‘ (1962ء)ہ ’اُنیس سو سترہ‘ (2019ء)ہ دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں ’دی برج آن دی ریور کوائی‘ (1957ء)ہ ’ڈنکرک‘ (2017ء) اور ’اوپن ہائیمر‘ (2023ء) شامل ہیں۔
امریکہ-روس سرد جنگ کے حوالے سے انجلینا جولی کی فلم ’سالٹ‘ (2010ء) اور جینفر لارنس کی ’ریڈ اسپارو‘ (2018ء) مضبوط پروپیگنڈا فلمیں ہیں۔
ویتنام جنگ کے تناظر میں ’پلاٹون‘ (1986ء)، افغانستان کی حمایت میں ’ریمبوتھری‘ (1988ء) اور بعد میں اس کی مخالفت میں ’قندھار‘ (2023ء) شامل ہیں۔ افغان جہاد کے تناظر میں افغانستان اور پاکستان کے کردار کے حوالے سے ’چارلی ولسن‘ (2007ء) بھی اہم پروپیگنڈا فلم ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے حوالے سے ’آرگو‘ (2012ء) اور پاکستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے لئے کیے گئے آپریشن کے تناظر میں بنائی گئی فلم ’زیرو ڈارک تھرٹی‘ (2012ء) قابلِ ذکر پروپیگنڈا فلمیں ہیں۔
ان فلموں میں حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیا۔
ایران اور پاکستان کے حوالے سے بنائی گئی دونوں فلموں کی ریلیز کا سال بھی ایک ہے اور یہ دونوں فلمیں امریکہ اور دنیائے سینما کے مقبول ترین فلمی ایوارڈز ’آسکر‘ کے لئے نامزد ہوئیں اورحتمی طور پر نتیجہ فلم ’آرگو‘ کے حق میں نکلا اور اداکار اور ہدایتکار بین ایفلک نے فلم آرگو پر آسکر ایوارڈ جیتا۔ اس نے بہترین فلم سمیت کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ اس فلم پر ایران نے ناراضی کا اظہار کیا۔ البتہ پاکستان کے تناظر میں بنائی گئی فلم ’زیروڈارک تھرٹی‘ پر پاکستان نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ یہ دونوں فلمیں دیکھنے لائق ہیں۔ یہاں فی الحال ایران کے اسلامی انقلاب کے تناظر میں بنی ہوئی فلم کا ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔
واقعہ، کہانی، اسکرپٹ، آئیڈیا
اس فلم کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ حقیقی کہانی پر مبنی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس میں بہت سارے واقعات صرف زیب داستان کے لئے شامل کیے گئے لیکن یہ بات درست ہے کہ مرکزی واقعہ حقیقی ہے۔
جب ایران میں اسلامی انقلاب آچکا تھا اور ایران سے سابق بادشاہ اور حکمران شاہ محمد رضا پہلوی مختلف ممالک میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے اور علاج کی غرض سے امریکہ کے صدر جمی کارٹر نے انہیں سیاسی پناہ دی تو یہ اقدام ایرانی عوام کو بہت ناگوار گذرا اور اس کے ردعمل کے طور پر تہران میں قائم امریکی سفارت خانے پر ایک مشتعل ہجوم نے حملہ کردیا۔
یہ واقعہ 4 نومبر 1979ء کو رونما ہوا۔ اس موقع پر 66 امریکی سفارت کار یرغمال بنائے گئے جنہیں 444 دنوں کی قید کے بعد رہائی ملی تھی۔ البتہ جب یہ واقعہ ہورہا تھا تب 6 سفارت کار کسی طرح بھاگ کر کینیڈین سفیر ’کین ٹیلر‘ کے گھر تہہ خانے میں چھپ گئے اور پھر سی آئی اے نے انہیں ایران سے ایک ہولی وڈ کی جعلی فلم پروڈکشن کمپنی کے نمائندے بنا کر کینیڈین پاسپورٹس کی مدد سے نکالا۔ وہ کمرشل فلائٹ سے ایئرپورٹ پر ایرانی حکام کو چکما دے کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعے کو مذکورہ فلم میں انتہائی تجسس کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
’اینتونیو جے منڈیز‘ سی آئی اے کے اہلکار تھے، نے تہران سے ان 6 امریکی سفارت کاروں کو نکالا تھا۔ انہوں نے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں جبکہ ان کی کتاب کا عنوان ’دی ماسٹر آف ڈسگائز‘ ہے۔ اس کہانی پر مبنی اسکرپٹ امریکی اسکرپٹ نویس ’کریس ٹیریو‘ نے لکھا اور کہانی کو بہت عمدہ طریقے سے لکھنے میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم میں کئی کلائمکس آئے اور ایک پروپیگنڈا فلم ہونے کے باوجود بھی ناظرین کی دلچسپی اس میں برقرار رہی۔
البتہ حقائق کے منافی کئی واقعات ہیں جن پر ایران نے بھی اعتراضات کیے تھے۔ ظاہر ہے ایک پروپیگنڈا فلم صرف اپنا بیانیہ ہی پیش کیا کرتی ہے۔ اس فلم کا اسکرپٹ ’لارڈ آف لائٹ‘ کے نام سے لکھا گیا تھا مگر سی آئی اے نے اس کا نام تبدیل کرکے ’آرگو‘ رکھا۔
فلم سازی و دیگر پہلو
اس فلم کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو کئی ہولی وڈ کی معروف شخصیات بطور پروڈیوسر اس کاحصہ بنیں جن میں سرفہرست جارج کلونی ہیں۔ پھر فلم میں مرکزی کردار نبھانے والے اس فلم کے ہدایت کار ’بین ایفلک‘ بھی شریک پروڈیوسر ہیں۔ اپنی لاگت سے 5 گنا زیادہ کمانے والی اس فلم نے ایک بہترین پروپیگنڈا فلم ہونے کا معیار بھی قائم کیا۔
فلم کے تمام پہلوؤں پر خاص توجہ دی گئی۔ مثال کے طور پر اس واقعے پر فلم بنانے کی تحریک بھی اسی فلم کے اسکرین پلے رائٹر’کریس ٹیریو’ نے دی۔ انہوں نے اس طرح کے کچھ بڑے واقعات پر بنائی گئیں فلموں کا ذکر کیا اورآخرکار اس واقعے پر بھی فلم بن گئی جسے انہوں نے خود ہی لکھا۔
اس فلم کی عکس بندی امریکہ اور ترکیہ میں ہوئی اور باکمال طریقے سے ہدایت کار’بین ایفلک’ نے ایران کا منظر نامہ ایران میں شوٹ کیے بغیر ہی تیار کردیا جو فلم بینوں کو دیکھ کر ایران میں موجودگی کا احساس بھی دلاتا ہے۔ بڑی مہارت سے اس وقت کی ریئل ٹائم کی نیوز اور ویڈیوز کو فلم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس عہد کی موسیقی کی جھلک بھی فلم کی کہانی میں منعکس ہوتی نظر آتی ہے۔
اس فلم کی کہانی لکھنے کے لئے 26 اسکرپٹ پروڈکشن کمپنی کو موصول ہوئے جن میں سے ایک امریکہ کے مایہ ناز فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ کا بھی تھا۔ اس فلم میں تمام اداکاروں نے اپنے کرداروں کو بہت شاندار طریقے سے ادا کیا۔ فلم پر حقیقت کا گمان ہوا۔ یہ فلم 85ویں آسکر ایوارڈز میں 7 شعبوں میں نامزد ہونے کے بعد تین ایوارڈز اپنے نام کر سکی جن میں بہترین فلم، بہترین ماخوذ اسکرپٹ اور بہترین ایڈیٹنگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس فلم نے دنیائے سینما کے اور بھی کئی بڑے اعزاز اپنے نام کیے۔
آرگو پر ایران کا ردعمل
جیان گھومشی، ایک کینیڈین مصنف اور ایرانی نژاد ریڈیو شخصیت کا خیال تھا کہ اس فلم میں ’ایرانی عوام کی منفی اور پریشان کن تصویر کشی کی گئی‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلم کا وقت ناقص تھا کیونکہ امریکی اور ایرانی سیاسی تعلقات انتہائی نچلی سطح پر تھے۔
ایران میں فلم کی مقبولیت کی تشریحات مختلف ہیں۔ اس حقیقت سے لے کر کہ فلم میں انقلاب کی زیادتیوں اور یرغمالیوں کے بحران کی منظر کشی کی گئی ہے۔ ایرانی اسے اس بات کی یاد دہانی کے طور پر دیکھتے ہیں کہ سفارت خانے کے قبضے کے کئی دہائیوں بعد امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات اور ایران کو اس کے نتائج کی قیمت اداکرنا پڑی۔
اس فلم کے ریلیز ہونے کے بعد ایران نے فلم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے فرانس میں ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور دعویٰ کیا کہ یہ فلم سفارت خانے کے یرغمالیوں کے بحران کے لئے تہران کے خلاف غصہ نکال کر ایران کے خلاف امریکی فوجی کارروائیوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اٹارنی نے دعویٰ دائر کرتے ہوئے کہا کہ بین ایفلک اس امکان کے لئے جنگی جرائم کا مجرم ہے۔ فرانس کی ایک عدالت میں اس مقدمے کی سماعت ایک جج نے کی جس نے اس پیشکش کو سنا اور پھر فوری طور پر مقدمے کو خارج کردیا۔
یونیورسٹی آف مشی گن کی تاریخ کے پروفیسر جوآن کول کا بھی ایسا ہی اندازہ تھا۔ انہوں نے لکھا کہ فلم کا بیانیہ ان واقعات کے لئے مناسب تاریخی سیاق و سباق فراہم کرنے میں ناکام رہا جو اس فلم میں پیش کیے گئے ہیں اور اس طرح کی غلطیوں کی وجہ سے فلم کے تمام ایرانی کرداروں کو نسلی دقیانوسی تصورات کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
فلم میں سفارت خانے کے قبضے کی تاریخ کی اہمیت کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔ مارک باؤڈن نے اس موضوع پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 4 نومبر کو طلبہ کے قومی دن کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا تاکہ ایک سال قبل شاہ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے طلبہ مظاہرین کو تسلیم کیا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ کیا کہ یہ وہی تاریخ ہے جس سے 15 سال قبل آیت اللہ خمینی کو جلاوطن کیا گیا تھا۔
چند بڑی واقعاتی غلطیاں
اس واقعے کا اصل ہیرو کینڈین سفیر تھا لیکن فلم میں اس کا کردار مختصر ہے اور اس کی جگہ سی آئی اے کے کارندے کو ہیرو بنا کرپیش کیا گیا جو ایک تاریخی غلطی ہے جس کا اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’فلم بہت اچھی ہے‘ لیکن فلم میں بین ایفلک کا کردار صرف ڈیڑھ دن تہران میں تھا۔
مرکزی ہیرو میری رائے میں کین ٹیلر تھا جو کینیڈا کا سفیر تھا جس نے اس پورے عمل کو ترتیب دیا تھا’۔ اسی طرح فلم میں کینیڈا کا سفارت خانہ بند کرنے کی بات ہوئی جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ فلم کے ہدایت کار نے ایسی کئی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا۔
اس فلم میں یہ تاثر بھی دیا گیا کہ برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے سفارت خانوں نے ان 6 امریکی سفارت کاروں کو اپنے ہاں پناہ نہ دی جبکہ حقائق اس کے برعکس تھے۔ ابتدائی طور پر یہ سفارت کار برطانیہ کی مدد سے محفوظ ہوئے تھے جن کو پھر بعد میں کینیڈین سفیر کے گھر منتقل کیا گیا۔ نیوزی لینڈ اور برطانیہ نے بھی ان امریکی سفارت کاروں کی بحفاظت واپسی میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا جس کو فلم میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔ درحقیقت برطانوی سفارت خانے نے ان 6 افراد کو چند دنوں کے لئے پناہ دی تھی لیکن اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ کینیڈین سفارت خانہ زیادہ محفوظ اور موزوں ہوگا اس لئے وہ وہاں سے چلے گئے۔
فلم میں کینیڈین سفیر کے گھر پناہ حاصل کرنے والے 6 سفارت کار
نیوزی لینڈ کے ایک اہلکار نے انہیں کینیڈین سفیر کے گھر تک پہنچایا اور برطانیہ نے اس وقت ملک میں پھنسے دیگر امریکیوں کی بھی مدد کی۔ بین ایفلک نے تسلیم کیا کہ رفتار تیز کرنے اور تناؤ کو بڑھانے کے لئے اس نے جان بوجھ کر حقیقی واقعات سے انحراف کیا۔ اسی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ جب بھی یہ سفارت کار کسی کام سے گھر سے باہر نکلے تو ایرانی عوام سے ان کو خطرہ محسوس ہوا جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا، ریکارڈ پر موجود واقعات ان باتوں کی نفی کرتے ہیں۔ فلم کے مرکزی کلائمکس سین میں جہاں تہران ایئرپورٹ پر انہیں سیکیورٹی حکام نے روک کر کافی تفصیلی پوچھ گچھ کی تھی، درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
اسی طرح پھر فلم میں ایک ڈرامائی تعاقب کا سلسلہ ہے جیسے ہی ہوائی جہاز ٹیک آف کرتا ہے۔ یہ واقعہ نہیں ہوا جسے ’مارک لیجیک‘ اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیا۔ ’خوش قسمتی سے ہمارے لئے اس علاقے میں انقلابی گارڈز کی تعداد بہت کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صبح ساڑھے 5 بجے فلائٹ کے لئے روانہ ہوئے حتیٰ کہ وہ اتنی جلدی وہاں پہنچنے کے لئے اتنے پرجوش نہیں تھے‘۔
حرف آخر
اس فلم کو دیکھ کر کم ازکم یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کس طرح اپنے سیاسی معاملات اور اپنے بیانیے کو ذہن نشین کروانے کے لئے ہولی وڈ کی فلموں کو بطور آلہ استعمال کرتے ہیں۔ اس سال جب 2012ء میں یہ فلم ’آرگو‘ ریلیز ہوئی۔
اگر یہ اس سال ریلیز نہ ہوتی تو اس کے ساتھ اسی سال ریلیز ہونے والی دوسری فلم ’زیرو ڈارک تھرٹی‘ بڑی اور مقبول فلم ہوتی۔ ساری توجہ، اعزازات اور مقبولیت اس فلم کے حصے میں آتی جو پاکستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے آپریشن پر بنائی گئی تھی پھر وائٹ ہاؤس سے میشعل اوباما ’آرگو‘ کے بجائے ’زیرو ڈارک تھرٹی‘ کے لئے آسکر ایوارڈز کا اعلان کررہی ہوتیں۔
امریکی ہالی ووڈ اور پھر امریکی انتظامیہ نے ایران اور پاکستان دونوں میں سے ایران کو ترجیح دی اور یوں اس فلم نے دنیائے سینما میں ایک تاریخ رقم کی۔ تو قارئین آپ چاہیں تو یہ دونوں فلمیں دیکھ سکتے ہیں مگر میری پہلی ترجیح ’آرگو‘ ہی ہے۔ امریکی سفارت خانے پر حملے کے دوران ضبط کیے گئے بہت سے خفیہ مواد کو اب تہران کے ایک میوزیم میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک تاریخ وہ ہے جو اس فلم نے بیان کی اور دوسری وہ ہے جو تہران کا میوزیم بیان کرتا ہے۔ جھوٹ اور سچ میں صاف فرق کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: خرم سہیل - ڈان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ