اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق امریکی نجات دہندگی کا اصل چہرہ سینڈی طوفان نے بے نقاب کرلیا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں امریکیوں کے گھر تباہ ہوچکے ہیں، ان کو شدید ترین مالی اور جانی نقصانات پہنچ چکے ہیں اور ان کی بجلی بند ہے اور آج کے امریکی دنیا کو اپنی طاقت و استحکام جتانے کے باوجود نیویارک اور نیوجرسی میں کھلی فضا یا نیم تباہ عمارتوں میں موم بتی جلاکر گذارہ کرنے پر مجبور ہیں۔آج پوری دنیا بےزبانی کی زبان میں اور چیختی ہوئی حیرت آمیز خاموشی کی زبان میں پوچھ رہی ہے کہ کیا دنیا کا واحد سپر پاور یہی ہے؟ کیا یہ طاقت جس کے حکام اندرون خانہ مسائل حل کرنے کے بجائے بیرون ملک فتنہ انگیزی میں مصروف ہیں، اپنے ملک میں آئے ہوئے بحران کو صحیح طور پر قابو میں لاسکا ہے اور کیا اس نے عوام کو تحفظ دیا ہے؟ اگر نیویارک اور منہتن ہالی ووڈ کے اسٹیج ہوتے تو یقینا کوئی نجات دہندہ اور غیرمعمولی ہیرو ضرور پیدا ہوتا تا کہ آکر دنیا اس واحد بڑی طاقت کو ہولناک طوفان اور خانہ خراب کردینے والے واقعے سے ضرورت نجات دلاتا لیکن آج ہرفن مولا "جیک بیور Jack Bauer" کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے کہ وہ آکر یانکیوں کی اعلی نسل کا تحفظ کرے۔ سینڈی نے ثابت کرکے دکھایا ہے کہ ہالیووڈ کے نجات دہندہ اداکار صرف کیٹ واک کے کام آتے ہیں اور دنیا کی آقا کہلوانے والی طاقت ایک قدرتی حادثے کے مقابلے میں کچھ اس طرح ذلیل و رسوا ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو انتخابات سے کوئی سروکار نہیں ہے انہیں رمنی سے توقع نہیں اور اوباما پر اعتماد نہیں ہے انہیں تو بس رات کو کھانا اور سر کا سایہ چاہئے۔ ان کے بظاہر طاقتور ترین ملک کے مشرقی علاقوں میں درخت جڑوں سے اکھڑ کر زمین پر گرچکے ہیں؛ سڑکیں ادھر ادھر ہوچکی ہیں؛ گھر گرکر بکھر چکے ہیں اور ان کا ڈھانچہ باقی ہے؛ گاڑیاں دراڑوں میں گھس چکی ہیں؛ لوگ چھوٹی اور گندی پناہ گاہوں میں ایک موم بتی لے کر جی رہے ہیں ... یہ ایک فلم کا منظرنامہ نہيں امریکہ کی آج کی حقیقت ہے؛ یہ امریکی معاشی دارالحکومت نیویارک کی صورت حال ہے؛ یہ 99 فیصد امریکیوں کے مقدرات کا ایک نمونہ ہے جبکہ ایک فیصد امریکی تو صدر تراشنے کے کام میں مصروف ہیں اور کمپنیوں کو نئے صدر کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے کہ جو ان کے مفادات کا تحفظ دینے کی زیادہ بہتر ضمانت دے اسی کو صدر بنائیں۔ ہاں! امریکہ کا معاشی دارالحکومت اور اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر، ان دنوں ایک ویرانے کی تصویر پیش کررہا ہے اور وہاں کوئی بھی قابل توجہ کام نہيں ہورہا سوائے طوفان سے جمع ہونے والی پانی نیز گندے نالوں کے پانی کی نکاسی کے۔ سینڈی گذشتہ نصف صدی میں امریکہ کا سب سے عظیم طوفان تھا جس نے نصف کھرب ڈالر سے زیادہ مالی نقصان 99 فیصد امریکیوں کو پہنچایا لیکن کہا جاتا ہے کہ امریکی عوام کو کم از کم اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ نیویارک کے انڈرگراؤنڈ ریلوے سرنگوں میں موجود لاکھوں چوہے بھی اس طوفان کی برکت سے نیست و نابود ہوچکے ہیں! لیکن اسی خوشی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پانی آخر کار زمین میں جذب ہوا اور نیویارک اور نیو جرسی کے عوام کو لاکھوں مرے اور سڑے ہوئے چوہوں کا سامنا کرنا پڑا اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ امریکی وزارت صحت اس سلسلے میں کوئی مؤثر کردار نہ کرسکی اور چوہوں کو بھی امریکی فوج نے ہٹایا۔امریکی عوام ایک فیصد صاحبان ثروت کی حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں اور اپنی زندگی کیچڑ سے باہر نکالنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت فعال ہوگئے ہیں کیونکہ ایک فیصد کو تو انتخابات کا سامنا ہے ان یے پاس عوامی مسائل حل کرنے کا وقت کہاں ہے؟ اوباما اور مٹ رمنی کے مناظروں میں سینڈی کو کم توجہ دی گئی اور لگتا تھا کہ گویا امریکیوں کا واحد مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام ہے وہ اس بات پر آپس میں نزاع کرتے ہوئے دکھائی دیئے کہ ایران چار مہینے اور 17 دن میں ایٹم بنانے کا قابل ہوجائے گا یا چار ماہ 12 دن میں!! ان کے لئے ہرگز اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ عوام کے گھروں کا ملبہ کس کو اٹھانا ہے اور بے گھر ہونے والے خاندانوں کو دوبارہ چھت فراہم کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟نیویارک اور نواحی علاقوں کے عوام اپنے عزیزوں کی لاشوں پر ماتم کررہے ہیں اور اوباما اور رامنی کیمروں کے سامنے ظاہر ہوکر نمائشی مسکراہٹیں امریکیوں کو عطا فرما رہے ہیں گوکہ ان مسکراہٹوں کے خریدار روتے ہوئے عوام نہيں بلکہ صہیونی اقتصادی طاقت ہے جس کی مرضی ہو تو کوئی صدر بن سکتا ہے یا صدارت کی کرسی سے اتار دیا جاتا ہے۔ وہ دانت دکھانے میں مصروف ہیں؛ وہ اگر آفت زدہ علاقوں کا معائنہ کرنے جاتے ہیں صرف اس لئے کہ الیکشن کیمپین کے لئے چھپنے والے پلےکارڈز پر ان کی تصویر چھپے وہ تو بس امریکی تاریخ کے بدترین طوفان کے ان دنوں میں امریکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات کے لئے یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہیں وہ ان تصویروں کے ذریعے 99 فیصد امریکیوں کو جتانا چاہتے ہیں کہ ان کا غم و ہم امریکی عوام ہیں اور وہ عوامی مسائل کے لئے بہت فکرمند ہیں وہ درحقیقت ان تصویروں کے ذریعے عوام سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ووٹ دے کر ان کا شکریہ ادا کریں گوکہ امریکہ میں تو عوامی ووٹ کا کوئی کردار ہی نہيں ہے وہاں تو الیکٹورال کالج صدر منتخب کرتا ہے اور الیکٹورل کالج در حقیقت صہیونیت اور کثیرالقومی کمپنیوں اور ایک فیصد صاحب ثروت امریکیوں کا دوسرا نام ہے۔متاثرہ علاقوں میں اپنے خیموں اور نیم ویران گھروں کو گرم کرنے کے لئے ایندھن کے حصول کی خاطر طویل ترین قطاریں دکھائی دے رہی ہیں جنہیں البتہ امریکی ٹی وی چینلوں پر دکھانا گویا ممنوع ہے البتہ دو تشہیری کٹھ پتلیوں کے انتخاب کے لئے ووٹروں کی قطاریں ضرور دکھائی جائیں گی جو امریکی عوام کے لئے نہیں بلکہ ہمارے ممالک کے امریکہ نواز سیاستدانوں کے لئے جاذب نظر ہونگی۔ نیویارک آج دنیا پرستوں کا وہ محبوب NY اور زرپرستوں کی امیدوں کا کعبہ نہین ہے بلکہ نیویارک آج لذیذ ترین کھانوں سے معرض وجود میں آنے والی گندگی کے ڈھیروں اور بدبودار ملبوں کا شہر ہے، گویا آج نیویارک نے اپنا نیا چہرہ دکھانے کا عزم کررکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/110
5 نومبر 2012 - 20:30
News ID: 362498
ہاں! ہالی ووڈ کی کسی فلم کا منظرنامہ نہیں ہے جس میں امریکہ ہیرو ہوتا ہے اور ولن کوئی گوڈریلا یا کوئی خلائی مخلوق یا کوئی دہشت گرد بلکہ نیویارک کو حقیقتا طوفان نے نگل لیا ہے اور امریکہ نامی نجات دہندہ کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہے؛ رمنی اور اوباما مسکرا رہے ہیں اور امریکی عوام آنسو بہا رہے ہیں۔