اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
زیارت عاشورا کا ایک جملہ یہ ہے: "وَلَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً قَتَلَتْکُمْ وَلَعَنَ اللَّهُ الْمُمَهِّدینَ لَهُمْ بِالتَّمْکینِ مِنْ قِتالِکُمْ بَرِئْتُ اِلَى اللَّهِ وَ اِلَیْکُمْ مِنْهُمْ وَ مِنْ اشیاعهم..."
ترجمہ: خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے آپ کو قتل کیا اور اللہ کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے اس قتل کے لئے ماحول بنایا اور آپ کے خلاف جنگ کی تمہید رکھی اور آپ کے قتل پر راضی ہوئے اور ۔۔۔ میں بیزار ہؤا خدا کی جانب اور آپ کی جانب ان سے اور ان کے پیروکاروں سے۔
یہاں چند نکتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
1۔ دینی تنفر اور برائت کی ثقافت ہمیں سکھاتی ہے کہ بغیر سمت کے اور بلا مقصد اور بےمعنی تنفر بالکل نامنظور؛ [غور طلب ہے یہ نکتہ کہ] یہ برائت و بیزاری بامقصد ہو یعنی اے ابا عبداللہ الحسین! میں آپ کے راستے کے بغیر دوسرے راستوں سے بیزاری کا اعلان کرکے اپنی بندگی اور عبدیت کو مستحکم کرتا ہوں اور راہِ باطل سے اپنے اس تنفر و بیزاری کے توسط سے آپ کی جانب آتا ہوں۔
2۔ حسینی لوگ
"بامقصد برائت" کے ذریعے ـ ہر وقت اور ہر مقام پر ـ اپنا محاذ متعین
کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو شکل و صورت دیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں حضرت روح اللہ
کے ساتھیوں کی مانند؛
یہ ایک سیاسی نغرہ نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی زندگی ہے اور ایک قسم کا انتخاب ہے۔
3۔ "بامقصد اور سمت رکھنے والی بیزاری و برائت" کے علاوہ، ایک دوسری نظر میں، ہم دیکھتے ہیں کہ زیارت عاشورا میں بعض ناموں کا تذکرہ ہے جو درحقیقت اشخاص کے ناموں سے زیادہ ایسے کرداروں کے نام ہیں جو تمام زمانوں میں موجود رہتے ہیں۔ کربلا بھی اور زیارت عاشورا بھی ایک روشن دریچہ ہے دو موضوعات کی جانب:
الف۔ "شخصیت شناسی" یا "کردار شناسی" (Character recognition)
ب۔ "معیار شناسی" (Criteria recognition)
ہم یہ دو شناختیں حاصل کرتے ہیں تا کہ ہر زمانے میں اس زمانے کے یزید، شمر، آل زیاد اور آل مروان کو پہچان سکیں اور اپنی زندگی کی سمت کو بھی اور اپنی روح کو بھی ان سے الگ کریں۔ [<-اہم نکتہ ->] اور اس لئے کہ حق کا موقف اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو اور حق و باطل کے تاریخی معرکے میں غیر جانبدار نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی موقف ہی نہ ہو۔ اس طرح کے بہت سے واقعات پیش آتے ہیں جہاں ہم نے کرداروں کی شناخت میں قصور کیا ہوتا ہے اور معیار شناسی کے میدان میں غفلت کے مرتکب ہوئے ہوتے ہیں اور اب جبکہ حق و باطل کے درمیان معرکے کی نوبت آتی ہے تو ہم پیچھے رہ جاتے ہیں، یا تو حق کی حمایت نہیں کرتے، جس طرح کہ مسلم بن عقیل کے ساتھ ہؤا، یا حتیٰ کہ ممکن ہے کہ باطل کے حاشیہ بردار بن جائیں۔ اس طرح کے واقعات ہمیں امیرالمؤمنین، امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین (علیہم السلام) کی زندگی میں نظر آتے ہیں، جہاں آزمائش کی گھڑی آئی تو بہت سے اعلیٰ پائے کے بزرگ ناکام ہوئے اور تاریخ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
4۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم زیارت عاشورا پڑھیں، اور اس سلام کے بعد اس لعن بھی دہرائیں لیکن اپنی حرکت کی سمت طاغوت کی جانب متعین کریں اور زمانے کے طاغوت "یعنی عالمی صہیونیت اور عالمی استکبار" کی گود میں جا بیٹھیں۔
5۔ امام حسین (علیہ السلام) نے بنی نوع انسان کو بیداری اور بصیرت کا درس دیا ہے؛ مکتب حسین(ع) کی ایک بڑی خصوصیت دشمن شناسی ہے، یہ مکتب ہر زمانے کے شمر و یزید کا تعارف کرا چکا ہے:
امام حسین (علیہ السلام) نے ایک معیار متعین کیا اور فرمایا:
"مِثْلِي لَا يُبَايِعُ مِثْلَهُ؛ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرتا"۔
اب فیصلہ کرنا ہے کہ مثل حسین(ع) بن کر مثل یزید سے برائت کا اعلان کریں یا پھر مثل یزید [استکبار اور صہیونیت] کے سامنے سر خم کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110