اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ
فدک خیبر کے مشرق
اور مدینہ منورہ سے 20 فرسخ (تقریبا 60 میل) کے فاصلے پر واقع ایک سرزمین کا نام ہے۔
اس علاقے میں رسول اللہ کے دور میں پانی کا چشمہ تھا؛ نخلستان تھا؛ کھیتی باڑی کے لئے
زرخیز خطہ بھی تھا اور یہاں رہنے کے لئے ایک رہائشی قلعہ بھی تھا جہاں یہودی رہائش
پذیر تھے۔
متن:
مقدمہ فدک کے فقہی
اور قانونی نقائص
شاید خلیفہ اول کے
فیصلے کے بے بنیاد ہونے کا سب سے اہم ثبوت یہ ہو کہ تاریخ نے اس فیصلے کو کبھی بھی
تسلیم نہیں کیا اور فدک کئی بار اہل بیت (علیہم السلام) کو واپس کردیا گیا۔
فدک خیبر کے مشرق
اور مدینہ منورہ سے 20 فرسخ (تقریبا 60 میل) کے فاصلے پر واقع ایک سرزمین کا نام ہے۔
اس علاقے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور میں پانی کا چشمہ تھا؛ نخلستان
تھا؛ کھیتی باڑی کے لئے زرخیز خطہ بھی تھا اور یہاں رہنے کے لئے ایک رہائشی قلعہ بھی
تھا جہاں یہودی رہائش پذیر تھے۔
غزوہ خیبر میں (لشکر
اسلام کے سپہ سالاروں کی یکے بعد دیگرے ناکامیوں کے بعد) جب امیرالمؤمنین علی (علیہ
السلام) کی کمان میں خیبر کے قلعات یکے بعد دیگرے فتح ہوئے تو فدک کی یہودی، جنہوں
نے جنگ خیبر میں، خیبر کے یہودیوں کو تعاون کا وعدہ دیا تھا، جنگ و خونریزی کے بغیر،
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سامنے ہتھیار ڈال کر جنگ سے دستبردار ہوئے؛ چنانچہ
فدک کے یہودیوں نے اپنا علاقہ جنگ کے بغیر ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سپرد
کر دیا۔ اور قرآن کریم کی سورہ حشر کی آیات 6 اور 7 کی مطابق [1] حکم
الٰہی سے یہ سرزمین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ملکیتِ خاصہ اور خصوصی جائیداد قرار پائی۔ ان آیات کریمہ کے مطابق، جنگوں
میں ملنے والی غنیمت کے برعکس، اس سرزمین میں مسلمان اور مجاہدین کے لئے کوئی حصہ قرار
نہیں دیا گیا۔
سنی اور شیعہ مؤرخین
اور راویوں کا اتفاق ہے کہ سورہ اسراء کی چھبسویں آیت [2] کے
نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)
کو اپنے پاس بلایا اور اپنی اس ذاتی ملکیت یعنی فدک کی وسیع و عریض اور زرخیز زمینیں
آپ (سلام اللہ علیہا) کو بخش دیں اور یہ زمینیں سیدہ کی ملکیت میں آگئیں۔
رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ و آلہ) کی وفات کے بعد خلیفہ اول نے کچھ افراد فدک روانہ کئے اور مالکہ یعنی
سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے وکلاء کو وہاں سے نکال باہر کرکے اس علاقے کو غصب کردیا۔
سیدہ نے ابوبکر کے پاس جا کر اپنا حق چھینے جانے کی شکایت کی اور ابوبکر نے جو فیصلہ
سنایا وہ سب کو معلوم ہے۔
سماعتی ضوابط اور
عدالتی کاروائی کے قواعد کی رو سے ابوبکر کا فیصلہ متعدد عدالتی خامیوں اور نواقص کا
مجموعہ ہے؛ جیسا کہ:
1۔ گواہ اور دلائل
مدعی پیش کرنا پڑتے ہیں
اسلامی سماعتی رویئے
(Islamic Hearing Procedure) اور فقہی قواعد کے مطابق اگر کسی شخص کے قبضے میں کوئی مال یا جائیداد
ہو (مثلا ایک مکان اس کے تصرف میں ہو) اور دوسرا شخص اس پر اپنی مالکیت کا دعویٰ کرے، تو مدعی کا فرض ہے کہ وہ اپنا دعویٰ ثابت کرے اور گواہ یا ثبوت پیش کرے اور
جو شخص متصرفِ مال و مِلک (Possessor) ہے اس پر اس طرح کا کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؛ جبکہ خلیفۂ اول نے اس
مسلّمہ اور حقیقی اور یقینی قانون کے برعکس، اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کوئی شاہد
و گواہ پیش نہیں کیا بلکہ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ
کیا۔
متصرف مال یا متصرف جائیداد کے خلاف شکایت کی ضرورت
2- فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ
جب تک متصرفِ جائیداد کے خلاف کسی نے شکایت نہ کی ہو قاضی (یا حاکم) کو یہ حق حاصل
نہیں ہے کہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے۔ اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیدہ کے
خلاف کسی نے بھی جاکر دربار خلیفہ میں شکایت نہیں کی تھی۔
3۔ مدعی اور جج،
ایک ہی، نہیں ہونا چاہئے
خلیفہ خود ہی مدعی
(Complainant)
بھی تھے اور قاضی بھی! اور یہ امر اسلامی فقہ کی رو سے ہرگز مجاز نہیں ہے۔
4۔ مدعی اور مُدِّعا
علیہ کا موقف سننا
قاضی کو مدعی اور
مُدِّعا علیہ کا موقف سن
کر فیصلہ کرنا چاہئے اور اس کے بعد حکم پر عملدر آمد کرانا چاہئے؛ جبکہ اس مخصوص مسئلے
میں شکایت، فرد جرم عائد کرنے، فیصلہ سنانے اور دیگر مراحل طے کرنے سے قبل ہی خلیفہ
نے فدک کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا اور یہ امر بھی عدالتی معیاروں سے مطابقت نہیں
رکھتا۔
5۔ قاضی اپنے علم کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے / معصوم کو
گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے
قانون کے مطابق جب
قاضی خود حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ [3] وہ
اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے؛ اور اس صورت میں کوئی سند و گواہ مانگنے کی
ضرورت نہیں ہے۔
خلیفۂ اول جو اس
مقدمے میں قاضی بھی ہیں، آیت تطہیر [4] کے
ظاہر اور اس کے معنی و مفہوم کے تحت بخوبی جانتے تھے کہ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ
علیہا)، معصومہ اور طاہرہ ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتیں مگر انھوں نے سیدہ (سلام
اللہ علیہا) کی بات قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور آپ (سلام اللہ علیہا) سے گواہ
پیش کرنے کا مطالبہ کیا!
6۔ سیدہ (سلام
اللہ علیہا) کے دو اعلیٰ ترین گواہ اور خلیفہ کا ماننے سے انکار
گو کہ گواہ پیش کرنے
کی ذمہ داری خلیفہ پر عائد ہوتی تھی، (کیونکہ مدعی وہی تھے)، لیکن اس کے باوجود سیدہ
فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے دو گواہ پیش کئے:
1۔ نفس الرسول،
اخ الرسول، مصداق آیت مباہلہ و تطہیر امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما
السلام)
2۔ حاضنۃ
الرسول(ص)، جناب ام ایمن، برکۃ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ
بن عمرو بن النعمان، الحبشیہ، جنہیں پیغمبر
اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جنت کی بشارت دی ہے۔
ان دو گواہوں میں
سے ایک بحکم آیت تطہیر معصوم تھے اور دوسری ام ایمن تھیں جن کو رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ و آلہ) نی جنت کی بشارت سنائی تھی۔ آیت تطہیر پر ایمان رکھنے والے ہر شخص
کے لئے اس آیت کے مصداق آیت "حضرت علی (علیہ السلام)" کی گواہی مفیدِ علم
اور حجت تھی اور دو گواہوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی۔ اسی طرح ام ایمن کی گواہی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وعدہ جنت کی رو سے اطمینان بخش تھی اور یہ گواہی
دو عورتوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی یا پھر ایک مرد (خواہ وہ علی (علیہ
السلام) کے بجائے کوئی عام آدمی ہی کیوں نہ ہو) کی گواہی کو مکمل کرسکتی تھی۔ مگر تعجب
و تأسف کا مقام ہے کہ خلیفہ نے ان دو کی شہادت قبول نہیں کی اور کہا: ایک مرد اور ایک
عورت کی گواہی قابل قبول نہیں ہے بلکہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہی
دینا چاہئے!!
*****
ام ایمن کا تعارف:
ان کا نام برکۃ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن
مالک بن سلمہ بن عمرو بن النعمان، الحبشیہ المعرف بہ ام ایمن، ہے وہ ایک بایمان
خاتون تھیں۔ [5] ام
ایمن (رضی اللہ عنہا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی والدہ ماجدہ آمنت بنت
وہب (سلام اللہ علیہا) کی کنیز تھیں۔ ابن اثیر الجزری کہتے ہیں کہ انہیں رسول اکرم
(صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آزاد کیا تھا۔ اور آنحضرت پر سب سے پہلے ایمان لانے
والوں میں شامل تھیں۔ وہ ان معدودے چند افراد میں سے ہیں جو طلوع اسلام کے آغاز سے
ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہمراہ رہیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی کی
خاطر آپ کا ساتھ دیتی رہی ہیں اور آپ کی زندگی انتہائی باعزت اور باعث فخر ہے۔ اگرچہ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور آپ انہیں ماں کہہ
کر پکارتے تھے اور فرماتے تھے: "أُمُّ أيمن أُمِّي بَعدَ أُمِّي؛ میری
والدہ کے بعد میری ماں ہیں؛ چنانچہ آپ انہیں "يَا أَمّه" (اے
اماں جاں) کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ احترام اس قدر زیادہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ و آلہ) مسلسل ان کی ملاقات کے لئے تشریف فرما ہؤا کرتے تھے۔ [6]
ام ایمن غزوہ احد، غزوہ حنین اور غزوہ خیبر میں حاضر تھیں اور مجاہدین کو پانی
فراہم کرتی تھیں اور جنگی زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ [7]
جنگ احد میں جب مسلمانوں میں سے کچھ فرار ہو گئے تو ام ایمن بہت برہم ہو گئیں
اور مٹھی بھر مٹی اٹھا کر ان کے منہ پر پھینک دیا اور چلا کر کہا: تم پر افسوس، تم
کیوں بھاگ رہی ہو، تم عورت ہو، جا کر کتائی کی چرخی کے پیچھے بیٹھ جاؤ جو عورتوں
کے لئے ہے۔ [8] ام
ایمن دو شہیدوں کی ماں ہیں، اور ام اسامہ، ام الظباء جیسی کنیتوں، اور مولاۃ
رسول اللہ (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آزاد کردہ کنیز)، حاضنۃ
رسول اللہ اور حاضنۃ اولاد رسول اللہ (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و
آلہ) اور آپ کی اولاد کی سرپرست)، أمۃ اللہ (اللہ کی کنیز)، اور اَلمُبَشَّرَۃُ
بِالجَنَّۃِ (جنہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے) جیسے القاب سے مشہور ہیں۔ [9]
*****
7- ہم اِس زمانے میں جانتے
ہیں تو خلیفہ بھی اُس دور میں ضرور جانتے ہونگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و
آلہ) نے جلیل القدر صحابی "خزیمۃ بن ثابت" کی گواہی دو گواہوں کی گواہی کے
بدلے قبول فرمائی جس کی وجہ سے خزیمہ ذوالشہادتین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اب سوال یہ
ہے کہ کیا علی (علیہ السلام) کی گواہی / شہادت - جو سابق فی الاسلام بھی تھے اور قرآن
کی صریح گواہی کے مطابق معصوم بھی تھے - خزیمہ کی گواہی کے برابر بھی نہیں تھی؟!
8- اسلامی سماعتی رویئے کے
مطابق عدالت میں مالکیت کے اثبات کے لئے دو مرد گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک
شاہد اور ایک قَسَم بھی کافی ہے؛ بالفاظ دیگر مال و جائیداد کے
مقدمات میں "قسم" گواہی کو مکمل کر دیتی ہے اور فدک کا مسئلہ بھی مال و جائیداد
کا مسئلہ تھا۔
9- خلیفہ اول اور خلیفہ دوئم
کو ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ کثرت مصاحبت کی بنا پر ـ قطعی طور پر
اس حقیقت سے آگاہی حاصل تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فدک سیدہ فاطمۃ
الزہراء (سلام اللہ علیہا) کو واگذار کیا تھا؛ ان دونوں کو اس حقیقت کا علم تھا مگر
خلیفہ نے سماعت کی متعدد خامیوں اور نواقص کے باوجود اپنے علم و یقین کے برعکس فیصلہ
دیا۔
10- شاید خلیفہ اول کے فیصلے
کے بے بنیاد ہونے کا سب سے اہم ثبوت یہ ہو کہ تاریخ نے اس فیصلے کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور فدک کئی بار
اہل بیت (علیہم السلام) کو واگذار کرایا گیا۔ [10]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ ارشاد ہؤا:
"وَمَا أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ
مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء
وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ * مَّا أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ
أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى
وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ
الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ؛ اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)
کی طرف لوٹایا ہے، ایسی چیز ہے جس کے حصول کے لئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گھوڑے
دوڑائے ہیں نہ ہی اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلط کردیتا ہے اوراللہ ہر
چیز پر قدرت رکھتا ہے * اور بستیوں والوں کا جو کچھ (مال و مِلک) اللہ تعالی اپنے
رسول (صلی الله علیہ و آلہ) کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ
و آلہ) کا اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں، مسکینوں کا اور راستے میں (بے خرچ)
رہنے والے مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولتمندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا
نہ رہ جائے"۔
[2]۔ ارشاد ہؤا:
"وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ؛ اور قرابت دار کو اس کا حق دے دیجئے"۔
[3]۔ اگر کوئی دعویٰ
کرے کہ خلیفہ نے علم و یقین کے مطابق فیصلہ دیا اسی لئے انہوں نے عدالتی کاروائی
کے مختلف مراحل طے کرنا ضروری سمجھے بغیر فدک پر قبضہ کیا تو اس کو اس سوال کا
سامنا کرنا پڑے گا کہ اگر انہیں یقین تھا تو پھر انہیں عدالتی کاروائی کا سلسلہ کیوں
چلایا اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیوں کیا؟ یا پھر اس
سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ کیا انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی
شہادت سے قبل ہی فدک غصب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا؛ جیسا کہ قرائن وشواہد سے معلوم
ہوتا ہے کہ خلافت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی پہلے سے ہی طے پا چکا تھا اور فدک کو
غصب کرکے خاندان رسالت (علیہم السلام) کو مالی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور اورمحتاج
بنانا تھا اور عدالتی کاروائی صرف ایک ڈھونگ تھی!۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ اول و خلیفہ
دوئم ہر وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ رہتے تھے اور قطعی طور پر اس
حقیقت سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فدک سیدہ فاطمۃ الزہراء
(سلام اللہ علیہا) کو واگذار کیا تھا؛ مگر خلیفہ نے در حقیقت اپنے علم و یقین کے
برعکس فیصلہ دیا (= تجاہل عارفانہ)
[4]۔ "إِنَّمَا
يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ
تَطْهِيرًا؛ خدا نے فقط ارادہ فرمایا کہ رجس و آلودگی کو تم خاندان (اہل بیت نبی
(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دور کردے اور تمہیں پاک و مطہر رکھے جیسا کہ پاک ہونے کا
حق ہے"۔۔۔ احادیث میں ہے کہ یہ آیت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر میں نازل
ہوئی ہے اور اس کے نزول کے وقت گھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے علاوہ،
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، سیدہ فاطمہ، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام)
بھی موجود تھے۔ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہا) خیبری چادر اوڑھ کر حضرت علی،
سیدہ فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو چادر اوڑھا لی اور اپنے ہاتھ پروردگار
عالمین کی جانب اٹھا کر عرض کیا: "پروردگارا! یہ میرے اہل بیت ہیں انہیں ہر
پلیدی سے پاک رکھ"۔ ام سلمہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں
عرض کیا: "اے رسول خداؐ! کیا میں بھی اہل بیت میں شامل ہوں؟ فرمایا: تم ازواج
رسول خداؐ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں شامل ہو اور تم خیر کے راستے پر ہو۔
[5]۔ العسقلانی، ابن
حجر (احمد بن علی بن محمد الکنانیّ)، تہذیب التہذیب، ج12، ص408؛ الطبرسی، احمد بن
علی بن ابی طالب، الاحتجاج علی اہل اللجاج، ج1، ص121
[6]۔ الطبری، محمد بن
جریر، تاریخ الامم والملوک (المعروف بہ تاریخ الطبری)، ج11، ص6115؛ الحاکم النیسابوری،
محمد بن عبد اللّہ الضَبّی الطَہمانی، المستدرک علی الصحیحین، ج4، ص63؛ ابن اثیر
الجزری، علی بن محمد بن محمد بن عبدالکریم شیبانی، اسد الغابہ، ج6، ص304؛ الذہبی،
محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز، سیر اعلام النبلاء، ج2، ص224؛ الطبرسی،
الاحتجاج، ج1، ص121)۔
[7]۔ حسون، محمد بن
رضا بن محمد علی بن حسون الترک و ام علی المشکور، أعْلامُ النِّساءِ المُؤمِنَاتِ،
(مطبوعہ قم ـ 1411ھـ)، ج1، ص277-278۔
[8]۔ الواقدی،
عبداللہ محمد بن عمر، المغازی، (مطبوعہ1409ھ)، ج1، ص241؛ ابن ابی الحدید المعتزلی،
عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، ج3، ص390)۔
[9]۔ شیخ صدوق،
الآمالی، ج1، ص76؛ المزی، يوسف بن عبد الرحمن بن يوسف القضاعی الکلبی، تہذيب
الکمال فی اسماء الرجال، ج35، 325؛ الرازی، ابن ابی حاتم (عبد الرحمن بن محمد بن
إدريس التمیمی، الجرح والتعدیل، ج9، ص461؛ ابن اثیر الجزری، اسد الغابہ، ج6، ص36؛
ابن الکثیر، اسماعیل بن عمر القرشی، البدایۃ و النہایہ، ج5، ص346؛ الطُرَیحی، فخر
الدین بن محمد علی، مَجمعُ الْبَحْرَیْن و مَطلَعُ النَّیِّرَیْن، ج6، ص335۔
[10]۔ عمر بن عبدالعزیز
اہل سنت و الجماعت کے ہاں خلفائے راشدین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں البتہ یہ روایت
بھی ہے کہ ان سے پہلے عمر بن خطاب نے اپنی دور میں ایک بار فدک اہل بیت (علیہم
السلام) کو لوٹا دیا تھا جس سے خلیفہ اول کے فیصلے کے اعتبار کا اندازہ ہوتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مأخوذ از کتاب: فدک،
تألیف آیت اللہ رضااستادی ، مطبوعہ نشر برگزیدہ ، قم ، بہار 2006۔
تحقیق و ترجمہ: فرحت
حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110