اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

13 دسمبر 2024

12:54:00 PM
1513430

چونکہ مکہ "حرمِ امن" تھا لہٰذا امن وامان کے حوالے سے مدینہ کی کے مقابلے میں بہت بہتر اور محفوظ تھا اور اس میں خانہ جنگی اور خونریزی کا امکان نہیں تھا؛ مگر علامہ سید جعفر مرتضیٰ العاملی کی کتاب مأساۃ الزہراء (علیہا السلام) میں متعدد احادیث – مدینہ تو کیا - مکہ کے گھروں میں بھی دروازوں کی موجودگی پر بھی دلالت کرتی ہیں جن میں سے ہم نے تین احادیث پر اکتفا کیا۔

تاریخ پر باریک بینانہ نظر نہ رکھنے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ طلوع اسلام کے زمانے میں مکہ و مدینہ کے گھروں کے موجودہ زمانے کی طرح کے لکڑی کے بنے ہوئے دروازے نہیں تھے اور لوگ گھروں کو اغیار کی نظروں سے بچانے کے لئے پردہ لٹکایا کرتے تھے۔ ان حضرات نے اس مفروضے کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے گھر کے دروازے کو آگ لگانے اور آنحضرت کو زخمی کرنے کا واقعہ رونما ہی نہیں ہؤا ہے!

یہ شبہہ ڈاکٹر سہیل زکار سے منسوب کیا گیا ہے البتہ کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ واقعی انہوں نے یہ رائے دی ہے یا نہیں! لیکن مشہور یہی ہے۔ بہرحال یہ بات بعض دوسروں نے دہرائی بھی ہے لہٰذا اس کا مستند تاریخی جواب دینا ضروری ہے۔

سوال: کیا مدنی گھروں کے دروازے تھے؟

 تاریخ پر باریک بینانہ نظر نہ رکھنے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ طلوع اسلام کے زمانے میں مکہ و مدینہ کے گھروں کے موجودہ زمانے کی طرح کے لکڑی کے بنے ہوئے دروازے نہیں تھے اور لوگ گھروں کو اغیار کی نظروں سے بچانے کے لئے پردے لٹکایا کرتے تھے۔ ان حضرات نے اس مفروضے کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے گھر کے دروازے کو آگ لگانے اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو زخمی کرنے کا واقعہ رونما ہی نہیں ہؤا ہے!!

 یہ شبہہ «ڈاکٹر سہیل زکار» سے منسوب کیا گیا ہے البتہ کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ واقعی انہوں نے یہ رائے دی ہے یا نہیں! لیکن مشہور یہی ہے۔ بہرحال یہ بات بعض دوسروں نے بھی دہرائی ہے لہٰذا اس کا مستند تاریخی جواب دینا ضروری ہے۔

دیکھتے ہیں کہ علامہ سید جعفر مرتضیٰ العاملی نے اپنی کتاب "مأساۃ الزہرا (علیہا السلام)" ــ مطبوعہ 1997 - دارالسیرة بیروت ــ میں اس موضوع کے بارے میں کیا لکھا ہے اور ان کے دلائل کیا ہیں:

الف) مدنی گھروں کے دروازے تھے

ام المؤمنین کے کمرے کا دروازہ

1۔ "ابو فدیک" کہتا ہے: میں نے "محمد بن ہلال" سے ام المؤمنین عائشہ کے کمرے اور حجرے کی خصوصیات کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا:

"اس کا دروازہ شام کی جانب کھلتا تھا"۔ میں نے کہا: "اس دروازے کا ایک مصراع (پٹ﴾ تھا یا دو پٹ تھے؟»۔ انہوں نے کہا:"ایک پٹ"۔ میں نے پوچھا: "کس جنس کا تھا؟" انھوں نے کہا: "یا تو وہ عرعر کے درخت کی لکڑی کا تھا یا پھر ساج (ساگوان) کے درخت سے بنا تھا"۔ [1]

جرید النخل (کھجور کی شاخوں) سے بنا ہؤا دروازہ

2۔ ابو موسیٰ اشعری کہتا ہے: "ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہمراہ تھے کہ "بئر أدیس" کے علاقے میں پہنچے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) داخل ہوئے اور ہم باہر رہ گئے اور میں "ایک دروازے کے ساتھ بیٹھ گیا جس کی لکڑی جریب نخل کی تھی"۔ [2]

کھلے دروازے کے اندر نظر پڑنے کا حکم

3۔ حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "اگر کوئی شخص کسی گھر کے سامنے سے گذرے جس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کے اوپر پردہ بھی نہ لٹک رہا ہو اور اس کی نظر گھر کے اندر پڑے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ قصوروار اہل خانہ ہونگے"۔ [3]

علی و فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر کا دروازہ

4۔ امیرالمؤمنین علی اور سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہما) کی شادی کے سلسلے میں منقولہ حدیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان دونوں کو امر فرمایا کہ اپنے گھر میں داخل ہوجائیں؛ پھر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دونوں کے لئے دعا کی اور پھر اٹھ کر باہر چلے گئے اور اپنے دست مبارک سے گھر کا دروازہ بند کیا (ثم قام فأغلق علیہما الباب بیدہ)۔ [4]

مظلوموں پر اپنے گھر کا دروازہ بند مت کرنا

5۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "جو شخص لوگوں کے امور میں سے کسی امر کی ذمہ داری قبول کرے اور پھر غرباء، حاجتمندوں اور مظلوموں پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردے خداوند متعال اس کی غربت اور تنگ دستی کے ایام میں اپنی رحمت کے دروازے اس کے اوپر بند کردے گا"۔ [5]

رات کو گھر کا دروازہ بند رکھنے کا حکم

6۔ ابو حمید، نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہمیں حکم دیا کہ رات کے وقت پانی کے برتنوں کو گھر کے ایک کونے میں رکھا کریں اور گھر کا دروازہ بند کیا کریں"۔ [6]

شیطان بند دروازے نہیں کھولا کرتا

7۔ جابر بن عبد اللہ انصاری، اور ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "اپنے گھر کا دروازہ بند کرو اور خدا کا نام لو؛ بتحقیق شیطان بند دروازے نہیں کھولا کرتا"۔ [7]

ابو ہریرہ کے گھر کا دروازہ

8۔ ابوہریرہ اپنی والدہ کے اسلام لانے اور ان کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دعا سے متعلقہ حدیث میں کہتے ہیں کہ: "۔۔۔ پس میں دوڑ کر اپنی ماں کی جانب چلا گیا تا کہ انہیں خوشخبری دوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے۔ جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور میں نے مشک کے اندر پانی کے ہلنے کی آواز سنی اور ساتھ والدہ کی آہٹ بھی سنائی دی۔۔۔"۔ [8]

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اپنے گھر کا دروازہ کھولنا اور بند کرنا

9۔ عائشہ بنت ابی بکر سے مروی ہے:

"أَنَّهُ فِي إِحْدَى اَللَّيَالِي ظَنَّ رَسُولُ اَللَّهِ صلي اَللَّ عَلَيهِ وَآلِهِ أَنَّها رَقَدَت [او ظَنَّ أنّي قَدْ رَقَدْتُ] فَانْتَعَلَ رُوَيْداً وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْداً ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْداً ثُمَّ خَرَجَ وأَجَافَهُ رُوَيْداً ...الْخ [9]

ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سمجھے کہ گویا میں سو رہی ہوں چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آہستہ سے اٹھے اور آہستہ سے اپنی رداء اٹھائی؛ آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر آہستہ سے دروازہ بند کیا۔۔۔"۔

 مذکورہ بالا تمام احادیث میں دروازہ بند کرنے کے لئے مختلف اصطلاحات سے استفادہ کیا گیا ہے جیسی : " اغلاق الباب" ، "ردّ الباب" اور "اجافة الباب" اور ان سب کا مفہوم ایک ہی ہے یعنی دروازہ بند کرنا؛ اور ان الفاظ کو پردے یا دیگر چیزوں کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔

دق الباب، طرق الباب وغیرہ

10۔ متعدد احادیث میں ـ جن میں سے 21 حدیثیں علامہ جعفر مرتضیٰ عاملی نے نقل کی ہیں ـ دروازے پر دستک دینے کے لئے "دق الباب"، "طرق الباب"، "ضرب الباب" اور "قرع الباب" جیسی عبارتیں استعمال ہوئی ہیں جبکہ یقینی امر ہے کہ کوئی بھی اس دروازے پر دستک نہیں دیتا جو پردے پر مشتمل ہو۔

ابو الہیثم بن التیہان کا گھر

 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے "ابو الہیثم بن التیہان" کے گھر جانے سے متعلق حدیث میں منقول ہے کہ: "تو ہم نے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ایک عورت نے کہا: کون دستک دے رہا ہے؟ عمر نے کہا: یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں۔۔۔"۔ [10]

"باب" پر مشتمل عبارات

11۔ علامہ جعفر مرتضی نے اپنی کتاب مأساۃ الزہرا (علیہا السلام) میں 43 حدیثیں نقل کی ہیں جن کے عنوانات یوں ہیں: "الاجابۃ من وراء الباب = دروازے کے اس پار سے جواب دینا" ، "خلف الباب= دروازے کے پشت پر" ، "حرک الباب = دروازے کو حرکت دینا" ، "وضع الید علی الباب فدفعہ = دروازہ کو ہاتھ سے دھکا دینا اور کھولنا" ، "فتح الباب = دروازہ کھول دینا" ، "الباب المقفل = مقفل دروازہ" اور "کسر الباب = دروازہ توڑنا"۔ ان ساری تعبیرات کا پردے اور پردے جیسی کسی دوسری چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

12۔ شیعہ اور سنی تواریخ میں مذکور ہے کہ ہجرت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے قبل اہل یثرب (یا اہل مدینة النبي) مسلسل خانہ جنگی کا شکار تھے اور ان کے درمیان خونریز جنگیں جاری تھیں؛ یہاں تک کہ مشہور تھا کہ "اہل یثرب راتوں کو بھی ہتھیار اپنے آپ سے دور نہیں کیا کرتے تھے"۔ [11] تا آنکہ خداوند متعال نے پیغمبر رحمت (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھیج کر ان پر احسان کیا اور ان کے درمیان اخوت و برادری کا دور دورہ ہوا اور اسلام ان کے لئے امن و سلامتی کا تحفہ ساتھ لایا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ لوگ جو اپنی پڑوسیوں سے مسلسل خطرہ محسوس کرتے تھے اور ہر وقت جنگ و جدل کی حالت میں تھے حتی کہ نیند کی حالت میں بھی شمشیر ساتھ رکھا کرتے تھے۔ ایسی صورت حال میں کیا عقل و منطق قبول کرسکتی ہے کہ جن گھروں میں وہ رہتے تھے اور اپنے مال و ناموس کو وہاں رکھتے تھے ان کے لئے دروازہ نہ لگائیں اور پردہ لٹکا کر مطمئن ہوجائیں؟ عقل نہیں مانتی۔ یہ امر ہرگز معقول نہیں ہے اور ان گھروں کا دروازہ ہونا چاہئے تھا۔ اور پھر یہ حقیقت ہے کہ جب سے بنی نوع انسان نے وحشی جانوروں اور دشمنوں نیز گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لئے گھر بنانا شروع کیا ہے، اس گھر کا فطری تقاضا یہی تھا کہ اس کا ایک دوازہ بھی جسے بند کیا جا سکے اور کھولا جا سکے؛ اگر ایسا نہیں تھا کہ گھر کی تعمیر اور گھر میں رہائش مہمل ہوگی؛ گھر حفاظت کے لئے بنا، تو جس گھر کا دروازہ نہ ہو وہ کیا غیر محفوظ نہیں ہوگا؟

مدنی گھروں کے دروازے بھی تھے، تالے بھی تھے، چابیاں بھی تھیں

13۔ دیگر احادیث سی ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ کے گھروں کے نہ صرف دروازے تھے بلکہ ان دروازوں کے تالے بھی تھے اور چابیاں بھی تھیں اور احادیث میں "مفتاح" (یعنی چابی) کا لفظ مسلسل دہرایا گیا ہے۔

اشیاء خورد نوش کے کمرے کی چابی

- دکین بن سعید المزنی سے مروی ہے کہ: ایک دفعہ ہم پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے کھانا کھلانے کی درخواست کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "اے عمر! جاؤ انہیں کھانا لا دو": فارتقی بنا الی علیة فأخذ المفتاح من حجزته ،ففتح ۔۔۔؛ تو وہ ہمیں بالا خانے میں لے گئے، دراز سے چابی اٹھا لی [اور کمرہ یا گودام] کھول دیا۔۔"۔ [12]

عثمان کے زمانے میں بیت المال کی چابی

"حِينَ كَلَّمَ عَليٌ طَلْحَةُ في أَمْرِ عُثْمَانَ انْصَرَفَ عَلِيٌ إِلَى بَيتَ اَلْمَالِ فَأَمَرَ بِفَتْحِهِ فَلَمْ يَجِدُوا الْمِفْتَاحَ فَكَسَرَ البابَ وفَرَّقَ مَا فِيهِ عَلَى اَلنَّاسِ فَانْصَرَفُوا مِنْ عِنْدِ طَلْحَةَ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ فَسُرَّ عُثْمَانُ بِذٰلِكَ؛ [13]

جب امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے عثمان کے معاملے میں طلحہ سے بات چیت کی تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) بیت المال کی طرف پلٹ کر چلے گئے اور اسے کھولنے کا حکم دیا مگر کسی کو چابی نہیں ملی چنانچہ آپ نے دروازہ توڑ دیا اور جو کچھ وہاں تھا اسے لوگوں میں تقسیم کر دیا، تو لوگ طلحہ کے پاس سے بکھر گئے اور وہ تنہا رہ گیا چنانچہ عثمان یہ سن کر خوش ہوئے"۔

لکڑی سے بنے ہوئے دروازے

14۔ دیگر روایات بھی ہیں جن سے لکڑی کے بنے ہوئے دروازوں کی موجودگی ثابت ہوتی ہے؛ اور "شق الباب = لکڑی کے بنے ہوئے دروازوں کے شگاف" پر دلالت کرتی ہیں۔ امر مسلم ہے کہ پردے میں کوئی شگاف یا شق یا دراڑ نہیں ہوتی بلکہ لکڑی کے تختوں یا "سعف نخل = کھجور کی شاخوں" سے بنے ہوئے دروازوں میں شگاف ہوتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ سے مروی ہے کہ: «جب لوگ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر لائے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) زمین پر بیٹھ گئے اور حزن و غم کے آثار چہرہ مبارک پر ہویدا ہوئے اور میں یہ سب "شق الباب" (دروازے کے شگاف) سے دیکھ رہی تھی۔ [14]

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے گھر کا دروازہ

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین علی (علیہ السلام ) نے فرمایا:

"بَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ فِي بَعْضِ حُجَرٍ نِسَائِهِ وَ بِيَدِهِ مِدْرَاةٌ فَاطَّلَعَ رَجُلٌ مِنْ شَقِّ الْبَابِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: لَوْ كُنْتُ قَرِيباً مِنْكَ لَفَقَأْتُ بِهَا عَيْنَكَ؛

ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی ایک زوجہ کے حجرے میں بیٹھے تھے اور ایک «مدرات" (= لکڑی یا دھات کی بنی ہوئی کنگھی) آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دست مبارک میں تھی اسی وقت ایک مرد نے "شق الباب" (دروازے کی دراڑ) سے اندر کی طرف نظر ڈالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اگر میں تمہارے قریب ہوتا تو اس کنگھی سے تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا۔ [15]

ب) مکہ کے گھروں کے بھی دروازے تھے

 گو کہ مذکورہ بالا سندات اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے دیگر سند وثبوت کی ضرورت نہیں ہے مگر اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی (ابنا) کے عزیز صارفین کی مزید اطلاع کے لئے وہ روایات بھی پیش خدمت ہیں جو مکہ کے گھروں میں دروازوں کی موجودگی ثابت کرتی ہیں۔ یہاں البتہ اختصار کا لحاظ رکھا جائے گا:

ابو لہب کے گھر کا دروازہ

1۔ جب قریش نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو جناب ابوطالب (علیہ السلام) نے اپنے فرزند علی (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ: "جان پدر! اپنے چچا ابولہب کے پاس جاؤ اس کے گھر کے دروازے پر دستک دو اور اگر اس نے دروازہ نہ کھولا تو دروازہ توڑ دو اور گھر میں داخل ہوجاؤ اور اس سے کہہ دو کہ: 'میرے والد نے تمہیں پیغام دیا ہے کہ: جس آدمی کا چچا زندہ ہو وہ ذلیل نہیں ہوجاتا"۔ تو امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ابولہب کے گھر پہنچے؛ دروازہ بند پایا تو دروازے پر دستک دی اور فرمایا: "دروازہ کھول دو" مگر کسی نے جواب نہیں دیا تو آپ نے دروازہ توڑ دیا اور ابولہب کے گھر میں داخل ہوئے۔۔۔ "۔ [16]

ام ہانی بنت ابی طالب (علیہ السلام) کے گھر کا دروازہ

2۔ ام ہانی بنت ابی طالب (علیہ السلام) کہتی ہیں:

"لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِن أحْمَائِي فَأدْخَلْتُهُمَا بَيْتاً وَأغْلَقْتُ عَليهِمَا بَاباً۔۔۔؛ [17]

میں نے فتح مکہ کے دن اپنے رشتہ داروں میں سے دو افراد کو پناہ دی، انہیں ایک گھر میں داخل کردیا اور ان پر گھر کا دروازہ بند کر دیا۔۔۔"۔

ابو سفیان کا گھر اور مکیوں کے گھروں کے دروازے

3۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حدیث بھی بہت معروف و مشہور ہے کہ جب فتح مکہ کے دوران لشکر اسلام مکہ معظمہ میں داخل ہؤا تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَن دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ [عَلَيْهِ] بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ؛ [18]

جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا وہ محفوظ ہے اور جو اپنے گھر [میں داخل ہوجائے اور اپنے گھر کا] دروازہ بند کر دے اس کے لئے امان ہے"۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ چونکہ مکہ "حرمِ امن" تھا لہٰذا امن وامان کے حوالے سے مدینہ کی کے مقابلے میں بہت بہتر اور محفوظ تھا اور اس میں خانہ جنگی اور خونریزی کا امکان نہیں تھا؛ مگر علامہ سید جعفر مرتضیٰ العاملی کی کتاب مأساۃ الزہراء (علیہا السلام) میں متعدد احادیث – مدینہ تو کیا - مکہ کے گھروں میں بھی دروازوں کی موجودگی پر بھی دلالت کرتی ہیں جن میں سے ہم نے تین احادیث پر اکتفا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: علامہ سید جعفر مرتضی العاملی (رح)

تلخيص: حجت الاسلام علی رضا حسینی عارف

 ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

حوالہ جات:


[1]۔ السمہودی، علي بن عبد اللہ بن أحمد بن علي الحسنی القاہری الشافعی، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفیٰ، ج2، ص459 و 456 و 542۔

[2]۔ القشیری النیسابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج7، ص118؛ البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ، صحیح بخاری، ج2، ص187۔

[3]۔ الشیبانی، احمد بن محمد بن حنبل المروزی الذہلی البغدادی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج5، ص153۔

[4]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج4، ص122 اور ص142؛ الخوارزمی، موفق بن احمد، مناقب امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، ص243۔

[5]۔ الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج3، ص441۔

[6]۔ القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج3، ص1593۔

[7]۔ ابو داؤد السجستانی، سليمان بن اشعث بن اسحاق، سجستانى  سنن ابی داؤد، ج2، ص339؛  الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج3، ص386؛ ابن ماجہ، محمد بن یزید ماجہ القزوینی الربعی، ج2، ص1129۔

[8]۔ الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج2، ص230۔

[9]۔ النمیری، عمر بن شبہ بن عبیدہ، تاريخ المدینة لابن شبہ، ج1، ص88-89؛ احمد بن عبد الحمید، عمدۃ الأخبار فی مدینۃ المختار، ص123-124؛ اور دیکھئے: السمہودی، وفاء الوفاء، ج3، ص883 جنہوں نے اس روایت کو مسلم ، اور النسائی سے نقل کیا ہے۔

[10]۔ المتقی الہندی، کنز العمال، ج7، ص194۔

[11]۔ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہُدی، ص55؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج19، ص10۔

[12]۔ ابو داؤد السجستانی، سنن ابی داؤد، ج4، ص361؛ الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج4، ص174؛ الضحاک الشیبانی، احمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد، الآحاد والمثانی، ج2، ص341۔

[13]۔ الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم والملوک (تاریخ الطبری)، ج4، ص431؛ الجَزَری، علی بن محمد الموصلِّی الشیبانی، الکامل في التاريخ، ج3، ص167۔

[14]۔ المتقی الہندی، کنزالعمال ـ ج15ـ ص732۔

[15]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج7، ص292؛ محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابَوَیْہ القمی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4، ص74 وص226؛ الطوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج10، ص207 و ص818؛ شیخ طوسی، الأمالی، ج2، ص12؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج79، ص278۔

[16]۔ الکلینی، الکافی، ج8، ص276-277۔

[17]۔ الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج6، ص34۔

[18]۔ الکلینی، الکافی، ج5، ص12؛ ابو داؤد السجستانی، سنن ابی داؤد، ج2، ص162؛ الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج2ـ ص292؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج15، ص27؛ شیخ طوسی، تہذيب الاحکام، ج4، ص116؛ القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج3، ص1408؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص169 وغیرہ۔