20 ستمبر 2024 - 21:07
امام ابو محمد حسن بن علی العسکری (علیہ السلام) کے معجزات و کرامات

خداوند متعال نے اپنے انبیاء اور ان کے جانشینون کو ایسے اعمال اور افعال کی قوت عطا فرمائی ہے جن سے عام انسان عاجز ہیں اور ان کے ان افعال کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ یہ معجزات ان کی اور ان کے مکتب کی حقانیت کی دلیل ہیں۔ خداوند متعال کی غیبی امدادوں میں سے ایک یہی تھی کہ جو لوگوں کے دل میں ہوتا اللہ نے اس کا علم اپنے انبیاء اور اولیاء کو عطا کیا تھا اور آنے والے واقعات کی پیشین گوئی کی قوت خداوند قادر متعال نے انہيں عطا کی تھی / ابو ہاشم جعفری کا مختصر تعارف۔

امام حسن عسکری (علیہ السلام) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے گیارہوں جانشین ہیں اور جو کچھ ان سے ہم تک واصل ہوا ہے وہ ہم اپنے قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

1۔ مسئلہ میرے دل میں تھا لیکن جواب ملا

ابو الحسن النُصَیبی نقل كرتے ہیں: میرے دل میں سوال اٹھا کہ کیا جُنُب کا پسینہ پاک ہے یا نہیں؟ اور میں رات کے وقت امام ابو أبي محمد الحسن بن علی العسکری (علیہ السلام) کے دولتکدے پر حاضر ہؤا، رات کو وہیں ٹہرا۔ صبح ہوئی تو امام (علیہ السلام) مہمان خانے میں تشریف لائے تو میں سو رہا تھا چنانچہ آپؑ نے مجھے جگایا اور فرمایا:

"اگر انسان حرام سے جنب ہؤا ہو تو اس کا پسینہ نجس ہے اور اگر حلال سے جنب ہؤا ہو تو پاک ہے"۔ [1]

2۔ امامؑ نے میرا جھوٹ پکڑ لیا

اسماعیل بن محمد عباسی کہتے ہیں: میں نے اپنے ضروریات کی شکایت امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) سے کی اور قسم کھا کر کہا کہ "میرے پاس نہ ایک درہم ہے اور نہ ہی اس سے کچھ زيادہ۔ میرے پاس کوئی رقم نہيں!"

تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا:

جھوٹی قسم اٹھاتے ہو حالانکہ تم نے 200 دینار زمین میں دبا رکھے ہیں؟ [اور فرمایا] البتہ میں یہ اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ تمہیں کچھ عطا نہيں کروں گا؛ اور پھر اپنے غلام سے فرمایا: "جو کچھ تیرے پاس ہے اسماعیل کو دے دو"۔

غلام نے 100 دینار مجھے دے دیئے؛ اور پھر امام (علیہ السلام) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"جو رقم تم نے چھپا رکھی ہے، اس کے باوجود کہ تمہیں اس کی شدید ضرورت ہے لیکن تم اسے کھو جاؤگے۔

اسمعیل کہتے ہیں: کچھ عرصہ بعد مجھے اس رقم کی ضرورت پڑی لیکن جس قدر بھی اسے تلاش کیا نہ پا سکا اور معلوم ہؤا کہ میرے بیٹے نے اس کا سراغ لگا لیا ہے اور اٹھا کر بھاگ گیا ہے۔ [2]

3۔ محمد بن حجر کی شکایت

محمد بن حجر نے امام عسکری (علیہ السلام) کی خدمت میں مراسلہ بھیج کر عبدالعزیز اور یزید بن عیسیٰ کے ظلم و جور سے شکوہ کیا تو امام (علیہ السلام) نے تحریر فرمایا:

"جہاں تک عبدالعزیز کا تعلق ہے تو میں نے اس کا شر کم کر دیا لیکن یزید کے ساتھ تمہیں اللہ کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا"۔

چند روز بعد عبدالعزیز ہلاک ہوگیا لیکن یزید نے محمد بن حجر کو قتل کیا چنانچہ محمد بن حجر کو خون کا حساب لینے کے لئے یزید کے ساتھ اللہ کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا۔ [3]

4۔ ظہر کی نماز گھر میں ادا کرو گے

ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں نے پیغام بھجوا کر امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کی خدمت میں جیل خانے کی گھٹن اور بیڑیوں کے بھاری پن کی شکایت کی تو آپؑ نے خط لکھ کر فرمایا:

"آج ظہر کی نماز اپنے گھر میں ادا کرو گے"؛ اور ایسا ہی ہؤا اور میں قیدخانے سے رہا ہو گیا اور ظہر کی نماز گھر میں ادا کی۔ [4]

5۔ حاجت بیان کرنے سے قبل ہی حاجت برآری

ابو ہاشم جعفری سے مروی ہے: میں معیشت کے لحاظ سے بدحال تھا اور امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) سے اپنی حاجت بیان کرنا چاہتا تھا لیکن شرمایا۔ اور جب گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ امامؑ نے 100 دینار گھر بھجوا دیئے ہیں اور تحریر فرمایا ہے:

جب بھی ضرورت ہو درخواست کرنے سے مت شرمایا کرو کیونکہ تم اپنے مقصود تک پہنچ جاؤگے۔ [5]

6۔ میرے دل کی بات اور امامؑ کا ارشاد

ابو ہاشم جعفری ـ جو موثق اور امین ہیں ـ نے کہا: میں نے امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

"جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام "معروف" ہے جس سے اہل خیر اور نیکوکار افراد کے سوا کوئی داخل نہ ہوسکے گا"۔

میں نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور خوش ہوکر دل ہی دل میں کہا کہ "میں بھی لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہوں"، تو امام (علیہ السلام) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"ہاں! جو بات تمہارے دل میں گذری اس سے میں آگاہ ہوں، بےشک خیرات اور نیکی کرنے والے افراد دنیا اور آخرت میں اہل خیر میں شمار ہوتے ہیں، اے ابا ہاشم! خداوند متعال تم کو ان ہی میں سے قرار دے اور تمہاری مغفرت فرمائے"۔ [6]

7۔ میری غربت اور امام کا جواب

محمد بن حمزہ الدوری کہتے ہیں: میں نے ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کی خدمت میں خط لکھ کر اپنی غربت کی شکایت کی اور آپؑ سے التجا کی کہ دعا کریں کہ میں بھی صاحب ثروت ہوجاؤں۔ کیونکہ میں بری طرح تنگ دست تھا اور مجھے خوف تھا کہ کہیں رسوائے خلائق نہ ہوجاؤں۔

امام (علیہ السلام) نے خط کے جواب میں تحریر فرمایا:

"تجھے بشارت ہو کہ توانگری تمہارے لئے مقدر ہوچکی ہے۔ تمہارے چچا زاد بھائی "یحییٰ بن حمزہ" کا انتقال ہؤا ہے اور اس نے ایک لاکھ درہم ترکے میں چھوڑے ہیں اور اس کا تمہارے بغیر کوئی وارث نہیں ہے چنانچہ وہ رقم بہت جلد تمہیں مل جائے گی۔ چنانچہ اللہ کا شکر ادا کرو اور میانہ روی اختیار کرو اور اسراف اور زیادہ روی سے پرہیز کرو"۔

جیسا کہ امام عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا تھا، چند روز بعد مجھے میرے چچا زاد بھائی کی موت کی خبر ملی اور مذکورہ رقم بھی مجھے مل گئی اور میری تنگ دستی کا خاتمہ ہؤا۔ چنانچہ میں نے خدا کا حق ادا کیا اور دینی بھائیوں کی مدد کی اور اعتدال کے ساتھ عمل کیا جبکہ اس سے قبل میں اسراف کیا کرتا تھا۔ [7]

8۔ تنگ دستی گناہوں کا کفارہ

محمد بن حسن بن ميمون کہتے ہیں: میں نے ایک خط کے ذریعے امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی خدمت میں اپنی تنگدستی کا شکوہ کیا لیکن پھر دل ہی دل میں کہا: کیا امام صادق (علیہ السلام) نے نہیں فرمایا ہے کہ 'تنگ دستی ہماری محبت کے ساتھ'، ہمارے 'دشمنوں کی معیت میں توانگری' سے بہتر ہے، اور 'ہماری ولایت کے ساتھ قتل ہونا'، 'ہمارے دشمنوں کے ساتھ جینے' سے بہتر ہے"۔

میرے خط کا جواب موصول ہؤا تو امام (علیہ السلام) نے تحریر فرمایا تھا:

"بے شک جب ہمارے دوستوں کے گناہوں میں اضافہ ہوتا ہے تو خداوند عز و جل تنگدستی کے ذریعے ان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور بہت سے گناہوں کو بخش دیتا ہے؛ ہاں! جیسا کے تمہارے دل میں گذرا 'ہماری معیت اور ہمراہی میں تنگ دستی ہمارے دشمنوں کے ہمراہ توانگری سے بہتر ہے'، جبکہ ہم اس شخص کے حامی اور پشت پناہ ہیں جو ہمارے ہاں پناہ لیتے ہیں (اور ہم سے مدد مانگتے ہیں) اور ہم نور ہیں اس شخص کے لئے جو ہم سے روشنی کی درخواست کرے، اور ملجا اور پناہ گاہ ہیں اس شخص کے لئے جو ہم سے پناہ مانگے۔ جو ہم سے محبت کرے وہ اعلیٰ مراتب و مدارج میں ہمارے ساتھ ہے اور جو ہم سے منہ موڑے منہ کے بل دوزخ کی آگ میں گرے گا"۔ [8]

9۔ اور جاسوس کا حال معلوم ہوا

ابو جعفر ہاشمی کہتے ہیں: ہم ایک جماعت کے ساتھ جیل خانے میں قید کی زندگی گذار رہے تھے کہ امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) اپنے بھائی جعفر کے ہمراہ عباسی حکومت کے حکم پر اسیر ہو کر جیل خانے میں آئے۔ ہم نے امام عسکری (علیہ السلام) کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور میں نے امامؑ کا ماتھا چوما اور انہیں اپنے بچھونے پر بٹھایا۔ جعفر بھی ہمارے قریب بیٹھ گیا۔ امامؑ کا زندان بان صالح بن وصیف تھا۔ قبیلہ جحم کا ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ جیل خانے میں تھا جو دعویٰ کررہا تھا کہ "آل علی (علیہم السلام) سے ہے"۔ امام (علیہ السلام) نے ہم پر ایک نظر ڈال کر فرمایا:

"اگر تمہارے درمیان نہ ہوتا وہ شخص جو تم میں سے نہيں ہے تو میں تمہیں کچھ سکھا دیتا جب تک کہ اللہ تعالی تمہاری نجات کے اسباب فراہم کرے"۔

وہ جحمی مرد کسی کام کی غرض سے تھوڑی دیر کے لئے ہم سے الگ ہؤا تو امامؑ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: یہ شخص تم میں سے نہيں ہے اور اس نے لباس میں ایک کاغذ چھپا رکھا ہے اور تم جو بھی کہتے ہو وہ اس کاغذ پر لکھ کر خلیفہ کے لئے بھجواتا ہے۔ ایک قیدی نے اٹھ کر جحمی کے لباس کی تلاشی لی اور ایک کاغذ برآمد کیا جس پر اس نے ان تمام افراد پر الزامات لگائے تھے اور لکھا تھا کہ یہ لوگ قیدخانہ توڑ کر فرار ہونا چاہتے ہیں۔ [9]

10۔ عباسی خلیفہ کو کچھ کرنے کا موقع نہ مل سکے گا

احمد بن محمد سے منقول ہے کہ: جس وقت عباسی بادشاہ محمد بن واثق المعروف بہ المہتدی باللہ نے شیعیان آل رسولؐ کا قتل شروع کیا تھا، میں نے امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کو ایک خط کے ضمن میں لکھا: میرے مولا! خدا کا شکر جس نے اس ظالم کو آپ سے باز رکھا ہے، میں نے سنا ہے کہ اس نے آپ کو قتل کی دھمکی دی ہے؛ اور آپ سے کہا ہے کہ: خدا کی قسم میں آپ کو جلا وطن کروں گا!

امام (علیہ السلام) نے میرے جواب میں اپنے خط مبارک سے تحریر فرمایا:

"اس کی عمر اس سے کہیں قلیل ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کر سکے۔ آج سے پانچ دن گن لو وہ چھٹے دن ذلت اور خواری سہنے کے بعد قتل کیا جائے گا"۔ اور ایسا ہی ہؤا۔ [10]

11۔ مرد کے دو حصے اور عورت کا ایک حصہ، کیوں؟

ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: ابوبکر الفہفکی نے خط کے ذریعے امام ابو محمد العسکری (علیہ السلام) سے پوچھا: ترکے میں مرد کو کیوں دو حصے ملتے ہیں اور عورت کو ایک حصہ ملتا ہے؟

امام (علیہ السلام) نے تحریر فرمایا:

"اس لئے کہ عورت پر جہاد فرض نہیں ہے اور اس کو نفقہ، دیت اور تاوان جیسے واجبات ادا نہيں کرنا پڑتے"۔

ابو ہاشم کہتے ہیں: میرے دل میں گذرا کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جو ابن ابی العوجاء [نامی زندیق] نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھے تھے اور امام صادق (علیہ السلام) نے بھی یہی جواب دیا تھا؛ اور امام (علیہ السلام) نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:

"ہاں! یہ وہی ابن ابی العوجاء کا سوال ہے اور ہمارا جواب بھی ایک ہی ہے، کیونکہ مسئلے کے معنی ایک ہیں اور جو کچھ ہمارے اولین پر گذرا ہے وہ ہمارے اخری فرد پر بھی گذرے گا اور ہمارا اولین اور آخرین علم الٰہی اور امر الٰہی میں برابر ہیں، تاہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین علیہ السلام) اپنی خاص فضیلت کے مالک ہیں جو ان ہی کے لئے مخصوص ہے"۔ [11]

12۔ ایک دعا

ابو ہاشم نقل کرتے ہیں کہ ایک شیعہ نے امام ابومحمد (علیہ السلام) کو خط لکھا اور آپؑ  سے دعا کی درخواست کی، امامؑ نے جواب میں یہ دعا تحریر فرمائی:

"يا أَسْمَعَ السَّامِعِينَ وَيا أَبْصَرَ الْمُبْصِرِينَ وَيا أَنْظَرَ النَّاظِرِينَ وَيا أَسْرَعَ الْحَاسِبِينَ وَيا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَيا أَحْكمَ الْحَاكمِينَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَوْسِعْ لِي فِي رِزْقِي وَمُدَّ لِي فِي عُمُرِي وَامْنُنْ عَلَيَّ بِرَحْمَتِك وَاجْعَلْنِي مِمَّنْ تَنْتَصِرُ بِهِ لِدِينِك وَلَا تَسْتَبْدِلْ بِهِ غَيرِي"۔ [12]

اے سب سے بہتر سننے والے! اور اے سب سے بہتر دیکھنے والے! اور اے سب سے زیادہ دیکھنے والے! اور اے وہ جو سب سے تیز رفتاری سے احتساب کرتا ہے! اور اے سب سے بہتر حکومت اور فیصلہ کرنے والے! محمد و آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) پر درود بھیج اور میرے رزق کو وسیع فرما، میری عمر طولانی کر دے، اور مجھ پر اپنی رحمت سے منت و احسان فرما اور مجھے ان لوگوں کے زمرے میں قرار دے جن کے ذریعے تو اپنے دین کا تحفظ فرماتا ہے اور [ان امور میں] کسی کو میری جگہ، نہ رکھنا"۔  

ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں نے دل ہی دعا کی اور عرض کیا "اے میرے معبود، مجھے اپنے حزب (جماعت) میں قرار دے" تو امام ابو محمد العسکری (علیہ السلام) نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:

"ہاں! تم اللہ کے حزب اور اس کے زمرے میں ہو شرط یہ ہے کہ اللہ پر ایمان رکھو اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تصدیق کرو۔ [13]

13۔ بھائی کی رہائی کی خوشخبری

شاہویۃ بن عبدربہ کہتے ہیں: میرا بھائی صالح، عباسی قیدخانے میں اسیر تھا، میں نے اسی دوران اپنے مولا ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کے نام خط تحریر کیا اور کئی مسائل پوچھ لئے۔ امامؑ نے مسائل کا جواب دیا تھا اور تحریر فرمایا تھا:

"تمہارا بھائی صالح، اسی دن قیدخانے سے رہا ہو جائے گا، جس دن میرا یہ خط وصول کروگے؛ تم اپنے بھائی کے بارے میں بھی کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن بھول گئے تھے!"

امامؑ کا جواب موصول ہؤا اور ابھی میں وہ خط پڑھ ہی رہا تھا کہ اسی اثناء میں کچھ لوگوں نے آکر مجھے خوشخبری سنائی کہ میرا بھائی رہا ہو چکا ہے اور تھوڑی دیر بعد میرا بھائی گھر پہنچا، میں نے اسے دیکھا اور امامؑ کا نام اس کو بھی پڑھ کر سنایا۔ [14]

14۔ قرآن مخلوق ہے یا نہیں؟

ابو ہاشم جعفری نقل کرتے ہیں: [کہ جس طرح کہ اس زمانے کے لوگوں کے درمیان بحث چل رہی تھی] میرے دل میں یہ سوال ابھرا کہ کیا قرآن مخلوق ہے یا نہیں؟

امام ابو محمد حسن بن علی العسکری (علیہ السلام) میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

"اے ابا ہاشم! اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کا خالق ہے اور اس کے سوا تمام اشیاء مخلوق

ہیں"۔ [15]

15۔ دلی آرزو کہے بغیر پوری ہوئی

ابو ہاشم جعفری روایت کرتے ہیں: میں امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ہؤا۔ میں امامؑ سے ایک کوئی ایسی چیز (چاندی وغیرہ) مانگنا چاہتا تھا تاکہ برکت کی خاطر ایک انگوٹھی بنواؤں۔ میں بیٹھ گیا اور آنے کا مقصد بھول گیا۔ جب جانے کا ارادہ کیا اور اٹھ کر وداع کرنے لگا تو امامؑ نے ایک آنگوٹھی مجھے عطا کر دی، مسکرائے اور فرمایا:

"تم چاندی چاہتے تھے، اور میں نے تمہیں انگوٹھی دے دی، اور تمہیں نگینے اور بنوانے کی اجرت کا فائدہ ہؤا، اللہ اسے تمہارے لئے مبارک کر دے"۔

ابو ہاشم کہتے ہیں: میں حیران رہ گیا اور عرض کیا: اے میرے مولا، یقینا آپ اللہ کے ولی ہیں اور میرے وہ امام ہیں جس کی اطاعت اور مہربانی سے میں اللہ کی بندگی اور اطاعت کرتا ہوں۔

امامؑ نے فرمایا: "اے ابا ہاشم! اللہ تمہاری مغفرت فرمائے"۔ [16]

16۔ اللہ کی عدیم المثال بخشش و مغفرت

ابو ہاشم جعفری روایت کرتے ہیں: میں نے امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

"خدائے متعال روز قیامت اس انداز سے بخشش و مغفرت فرماتا ہے جو کبھی کسی کے دل میں بھی نہیں آیا ہے؛ یہاں تک کہ مشرکین بھی کہنے لگتے ہیں: "خدا کی قسم! ہم [دنیا] میں مشرک نہیں تھے"۔

اہو باشم کہتے ہیں: ميں نے دل ہی دل میں کہا: اہل مکہ ميں بھی ہمارے ایک شیعہ بھائی نے نے میرے لئے نقل کیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آیت مغفرت (یعنی: إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً؛ [یعنی خدائے متعال تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے] [17] اور ایک شخص نے پوچھا "یعنی کیا ان لوگوں کو بھی بخش دیتا ہے جو مشرک ہیں؟!"، تو میں دل ہی دل میں اس [پوچھنے والے شخص] کی تردید کی اور اس پر غضبناک ہؤا؛ کہ اسی اثناء میں امام ابو محمد عسکری (علیہ السلام) نے میری طرف توجہ کی اور اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:

"إِنَّ اللهَ‌ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ؛ [18]

بے شک اللہ اس شخص کا گناہ نہیں بخشے گا جو اس کے ساتھ شرک برتتا ہے اور اس کم، اس کو، جس کے لئے وہ چاہتا ہے، بخش دیتا ہے"۔ اور فرمایا اس نے بری بات کی ہے اور برے انداز سے روایت کی ہے"۔ [19]

مؤرخین نے ایسے بہت سارے واقعات نقل کئے ہیں جو اشخاص کے دلوں میں گذرنے والی باتوں، نیز غیبی امور ار واقعات و حوادث پر امام ابو محمد حسن بن علی العسکری (علیہ السلام) کے علم سے تعلق رکھتے ہیں، تمام کے تمام واقعات آنجنابؑ کی امامت کی قطعی نشانیاں ہیں کیونکہ امام کے سوا کسی کے پاس بھی اس سطح کی دانش نہیں ہوتی۔

ان میں سے زیادہ تر واقعات کے راوی ابو ہاشم جعفری ہیں، جو علمائے اسلام کے ہاں ثقہ اور قابل اعتماد اور عالم اسلام کے نامی گرامی عالم دین، اور چار ائمۂ طاہرین ـ امام رضا، امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری ـ (علیہم السلام) کے اصحاب اور مؤخر الذکر دو اماموں کے خاص اصحاب، میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے انھوں نے امام ہادی اور امام عسکری (علیہما السلام) کے زیادہ تر معجزات اور کرامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے کہا ہے:

"مَا دَخَلْتُ عَلَى أبِي الْحَسَنِ [الْهَادِي] وَأَبِي مُحَمَّدٍ [الْعَسْكَرِي] عَلَيهِمَا السَّلامُ يَوْماً قَطُّ إِلاَّ رَأَيْتُ مِنْهُمَا دَلالَةً وَبُرْهَاناً؛

میں کبھی بھی امام ابوالحسن الہادی اور ابو محمد العسکری (علیہما السلام) کی خدمت میں حاضر نہیں ہؤا، سوا اس کے ان کی امامت و ولایت کے برہان و ثبوت کا عینی مشاہدہ کیا"۔ [20]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو ہاشم جعفری کا مختصر تعارف:

داؤد بن قاسم بن اسحاق (متوفی 261ھ) المعروف بہ ابو ہاشم جعفری امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام)، امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام)، امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) اور امام ابو محمد حسن بن علی العسکری (علیہ السلام) کے صحابی ہیں، اور امامیہ کے نامور اور قابل اعتماد راوی اور محدث ہیں۔

سلسلۂ نسب

'داؤد بن قاسم بن اسحاق بن عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالبؑ'، ابو ہاشم جعفری کا مکمل نام و نسب ہے، یعنی ابو ہاشم یعنی آل ابی طالب (علیہ السلام) کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کے والد قاسم بن اسحاق امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے اصحاب [21] اور محمد بن عبداللہ نفس زکیہ کے ساتھیوں میں سے تھے۔  مروی ہے کہ نفس زکیہ نے انہیں یمن کا والی مقرر کیا تھا لیکن عباسیوں نے نفس زکیہ کو ان کے یمن جانے سے پہلے ہی قتل کر دیا۔ [22]

ابو ہاشم جعفری، تاریخی مصادر کے مطابق، بغداد میں سکونت پذیر تھے۔ [23] اور ممکن ہے کہ وہ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں پیدا ہوئے ہوں کیونکہ امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) مدینہ سے مرو جا رہے تھے، تو انھوں نے شہر ایذہ (یا ایذج) کے مقام پر آپؑ سے ملاقات کی تھی۔ [24]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]۔ سبط ابن الجوزی (یوسف بن قز أوغلی بن عبد اللہ)، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، مطبوعہ دارالرسالۃ العالمیہ، دمشق، ج15، ص417۔

[2]۔ شبلنجی شافعی (مؤمن بن حسن)، نورُ ألأبْصار فی مَناقِبِ آلِ بَیْتِ ألنّبیّ ألمُخْتار(صلی اللہ علیہ و آلہ) (مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیہ)، ص343-344۔

[3]۔ اِبْنِ شَہْرْ آشوب (ابو عبداللہ محمد بن علی مازندرانی)، مناقب آل ابى طالب (علیہم السلام)، ج4، ص433۔

[4]۔ امین الاسلام طبرسی، (فضل بن حسن طبرَسی)، اعلام الورىٰ باعلام الہدیٰ، ج2، ص140۔

[5]۔ ابن حمزہ طوسی، (عماد الدین ابو جعفر محمد بن علی)، الثاقب فى المناقب (مطبوعہ دارالزہراء، بیروت، 1991ع‍ | 1411ھ)، ص566۔

[6]۔ شبلنجی شافعی، نور الابصار، ص152۔

[7]۔ شبلنجی شافعی، نور الابصار، ص152؛ ابو الفتح الاربلی، علی بن عیسیٰ، كشف الغمہ في معرفۃ الأئمہ ج2، ص220۔

[8]۔ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص435۔

[9]۔ القطب الراوندی، (أحمد بن يحيى بن إسحاق)، الخرائج والجرائح، ج2، ص682، ح1؛ شیخ جمال الدین یوسف بن حاتم الشامی العاملی، الدرّ النظیم فی مناقب الأئمّة اللہامیم، (مطبوعہ مؤسسہ نشر اسلامی، قم المشرفہ، 1431ھ)، ص742/743؛ امین الاسلام طبرسی، إعلام الوری، ج2، ص141؛ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج50، ص254، ح10۔

[10]۔ أمین الاسلام طبرسی، اعلام الورىٰ، ج2، ص145۔

[11]۔ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص437؛ امین الاسلام طبرسی، اعلام الورىٰ، ج2، ص142۔

[12]۔ محمد بن یعقوب کلینی، الکافی، ج2، ص589، امین الاسلام طبرسی، ج2، ص143۔

[13]۔ امین الاسلام طبرسی، اعلام الورىٰ، ج2، ص143؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص439؛ ابو الفتح الاربلی، كشف الغمۃ، ج3، ص421۔

[14]۔ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص438۔

[15]۔ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص436۔

[16]۔ امین الاسلام طبرسی، اعلام الورىٰ، ج2، ص144؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص437۔

[17]۔ سورہ زمر، آیت 53۔

[18]۔ سوره نساء، آیت 116۔

[19]۔ الشامی العاملی، الدرّ النظیم، ص744؛ القطب الراوندی، الخرائج والجرائح، ج2، ص686.

[20]۔ أمین الاسلام طبرسی، اعلام الورىٰ، ص375۔

[21]۔ نجاشی، (احمد بن علی نَجاشی المعروف بہ نجاشی و ابن کوفی)، کتاب 'رجال'، ج1، ص362؛ اِبْن‌ِ عِنَبہ‌، (سید جمال الدین أحمد بن علی الحسنی المعروف بہ  'اِبنُ عِنَبَۃ')، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب، ص42؛ علامہ حلی (ابومنصور جمال الدین حسن بن یوسف بن مطہر)، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، ص142۔

[22]۔ محدث قمی، (عباس بن محمد رضا قُمی، المعروف بہ شیخ عباس قمی و محدّث قمی)، مُنْتَہَی الآمال فی تَواریخِ النَّبیِّ وَالْآل، ج2، ص556؛ ابو الفَرَج اصفہانی، (علی بن حسین بن محمد الاموی القرشی، المعروف بہ اَبُو الفَرَج اصفہانی)، مقاتل الطالبیین، ص264؛ طبری (ابوجعفر محمد بن جریر)، ج7، ص561۔

[23]۔ الطوسی (ابوجعفر محمد بن حسن بن على طوسى)، الفہرست، ص67؛ خطیب بغدادی (ابوبکر احمد بن علی بن ثابت)، تاریخ بغداد، ج8، ص369۔

[24]۔ القطب الراوندی، الخرائج والجرائح، ج2، ص661۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110