اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

25 جون 2024

2:32:26 AM
1467617

عید غدیر مبارک؛

امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی شخصیت بنی نوع انسان کی سمجھ سے بالاتر

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: "اے جابر! خدا کی قسم! اللہ کی اطاعت کے سوا کسی بھی ذریعے سے اللہ تعالی کی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی؛ اور ہمارے پاس دوزخ سے رہائی کی برات نہیں ہے، اور کسی کو بھی اللہ تعالی پر کوئی حجت نہيں ہے۔ "جو بھی اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہوگا وہ ہمارا دوست اور حبدار ہے اور جو بھی اللہ کی نافرمانی کرے وہ ہمارا دشمن ہے" ہماری وَلایت و محبت و دوستداری و حبداری عمل اور پرہيزگاری کے سوا حاصل نہیں ہوسکتی"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

هَا عَليٌّ بَشَرٌ كَيْفَ بَشَّرٌ

رَبُّهُ فِيهِ تَجَلّى وَظَهَرَ [1]

کچھ عرصہ قبل ایک تحریر نظر آئی جس میں ایک سنی بھائی نے حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی عظمت بیان کی تھی اور ایک شیعہ بھائی! نے اس پر شرک کا الزام لگایا تھا، جو بہت ہی باعث حیرت ہؤا۔ بدقسمتی سے کچھ افراد کی طرف سے اہل بیت (علیہم السلام) کے مستند فضآئل بیان کرنے والوں پر اس قسم کے الزامات کا سلسلہ گذشتہ دہائی سے کافی وسیع ہو گیا ہے۔

کچھ لوگ عقلیت کے بہاؤ میں بہہ کر ان مسلّمات کا انکار کرتے ہیں جن کا کسی طرح سے کوئی تعلق ماوراء الطبیعیات سے بنتا ہے۔ یہ رجحان اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ یہ حضرات خود کو علامہ دہر کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور اسلام و مسلمین کے مصالح و مفادات کی تشخیص کی صلاحیت کو صرف اپنے تک محدود سمجھتے ہیں لیکن خود ان مفاہیم کے ادراک سے بالکل عاجز ہیں اور انہیں نامعقول سمجھتے ہیں اور ایک کلیہ بھی دنیائے عقلیت میں پایا جاتا ہے کہ جس چیز کو نہ سمجھو اس کا کھلا انکار کر دو!!

ہمارا عقیدہ میانہ روی اور اعتدال پر استوار ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ چودہ معصومین (علیہم السلام) نے فلاح و رستگاری کے حصول کی تمام تر ہدایات ہمیں فراہم کی ہیں، چنانچہ ہمیں دو انتہاؤں پر جانے کہ ہمیں نصّ کے ہوتے ہوئے اپنی رائے قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

بہرحال مذکورہ بالا "تکفیر نما" رجحان میں اپنی حد تک اصلاح کرنا اور افراط و تفریط کو چھوڑ کر میانہ روی اختیار کرنے کی دعوت، سب کی ذمہ داری ہے چنانچہ عرض کرنا ضروری تھا کہ:

سب سے پہلے ایک حدیث:

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"يَا عَلِيُّ مَا عَرَفَ اَللَّهَ إِلَّا أَنَا وَأَنْتَ وَمَا عَرَفَنِي إِلَّا اللَّهُ وَأَنْتَ وَمَا عَرَفَكَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَا؛ [2]

اے علی! اللہ کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے اور آپ کے، اور مجھے کسی نے نہیں پہچانا سوائے خدا اور آپ کے؛ اور آپ کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے اور اللہ کے"۔

ہے کوئی جس کے ساتھ محبت کرنے والا مؤمن اور اس سے بغض رکھنے والا منافق ہو؟

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"[يَا عَلِيُّ] لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلاَ يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ؛ [3]

اے علی، کوئی بھی آپ سے محبت نہیں کرتا سوا مؤمن کے اور کوئی بھی آپ سے دشمنی نہیں کرتا سوا منافق کے"۔

تو کیسے کوئی برابری کرے گا ایسی شخصیت کی؟ اور اس شخصیت کو عام انسانوں میں کس کے برابر لا کھڑا کیا جاسکے گا؟

بےشک! امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اللہ کے بندے ہیں لیکن اگر کوئی کہے کہ ـ نہ صرف امیرالمؤمنین (علیہ السلام) بلکہ ـ اللہ کے کسی برگزیدہ بندے کی شخصیت ہماری سمجھ سے بالاتر ہے تو کیا اس کی بات کو شرک کے زمرے میں شمار کیا جا سکے گا؟ اہل سخن و قلم کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو وہ فتوے دینے اور کسی کو مورد الزام ٹہرانے کے بجائے، تحقیق و مطالعہ کیوں نہیں کرتے؟

بے شک مولا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) عبد ہیں لیکن قابل انکار نہیں ہے کہ آپؑ عبدیت کے عروج پر ہیں اور ایسے مراتب پر فائز ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ چنانچہ جہاں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو عبد قرار دیا جائے، اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ آنجنابؑ کا درجہ گھٹا دیا جائے؛ کیونکہ ایسا کرنے والا ان دو گمراہ گروہوں میں شامل ہوگا جن کی طرف اشارہ ہوگا۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شخصیت کے حوالے سے امرِ مسلّم ہے کہ جو آپؑ کا درجہ ربوبیت تک بڑھا دیتے ہیں اور وہ جو آپؑ کا درجہ اس قدر گھٹا دیں کہ آپؑ کو عام انسانوں کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں اور اس مقصد کے حصول ـ اور کچھ لوگوں کے ہم پلہ قرار دینے کی غرض سے ـ  آپؑ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے والدین اور آباء و اجداد تک کو بھی ظالمانہ فتوؤں کا نشانہ بناتے ہیں۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) بشر ہیں، جس طرح کہ ان کے اور عالمین کے سرور و سردار محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بشر ہیں لیکن اگر مثال کے طور پر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) رسول خدا ہیں، معصوم ہیں، سید الانبیاء و المرسلین ہیں، صاحب وحی ہیں، صاحب کتاب ہیں، صاحب معراج و منبر ہیں، صاحب اسلام ہیں، اور امام ہیں، تو کیا وہ ایک غیر معصوم انسان کے برابر ہو سکتے ہیں؟

امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) بشر ہیں لیکن وہ برادر رسولؐ ہیں، وصی رسولؐ اور اخ الرسولؐ ہیں، صاحب لواء ہیں، قسیم النار والجنہ ہیں، معصوم ہیں، صاحب ولایت ہیں، امیرالمؤمنین ہیں، صاحب اللواء ہیں، شوہر بتولؑ ہیں، حسنینؑ کے والد ہیں، سید و سالار ہیں، امام ہیں اور ابوالائمہؑ ہیں، پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حسنین (علیہما السلام) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ دو سید ہیں اور ان کے باپ ان سے افضل ہیں، [4] علی بشر ہیں تو ایسے بشر، صاحب نہج البلاغہ، صاحب فصاحت و بلاغت، صاحب شمشیر، صاحب لیلۃ المبیت اور صاحب غدیر؛ تو کیا آپؑ (معاذ اللہ) ہمارے برابر قرار دینا ستم نہیں ہے؟ [5]

محمد و علی (علیہما السلام) خلق اللہ کا آغاز ہیں جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّهُ نُورِي، ثُمَّ فَتَقَ مِنهُ نُورَ عَلِيٍ۔۔۔؛ [6]

سب سے اول جسے اللہ نے خلق کیا وہ میرا نور تھا اور پھر علی (علیہ السلام) کے نور کو میرے نور سے جدا کر دیا۔۔۔"۔

تو ان ذوات مقدسہ کے سوا کون ہے جو اس فضیلت کا مالک ہو اور ہم اسے ان کے برابر لا سکیں۔

*****

جملۂ معترضہ

ایک صاحب اپنے سفر حج کا واقعہ سنا رہے تھے کہ ہم ایران اور عراق سے گذر کر سرزمین حجاز میں داخل ہونے لگے تو سرحد پر ایک سختگیر سعودی کرنل کا سامنا ہؤا۔ ہم نے اللہ اور رسولؐ کے حوالے دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی؛ تو کرنل نے بہت ہی برجستگی سے کہا: میں بھی بشر ہوں اور رسولؐ بھی بشر ہیں، تو ہمارے درمیان فرق کیا ہے؟ تم آنحضرتؐ کی زیارت کے لئے کیوں جاتے ہو؟

میں نے عاجزانہ کہہ دیا، اور اس کے سوا چارہ بھی نہیں تھا، کہ "آپ صحیح فرما رہے ہیں، آپ اور رسولؐ دونوں بشر ہیں، اور برابر ہیں تو یقینا آپ پر بھی وحی نازل ہو رہی ہوگی"۔

کرنل صاحب کی رنگت بدل گئی، غصے سے لال پیلے ہو گئے، لگتا تھا کہ گویا میرا جواب دینے کے لئے الفاظ کی تلاش میں ہیں، لیکن انہیں کوئی ایک لفظ بھی نہیں مل رہا تھا، چنانچہ انھوں نے ہمارے پاسپورٹ ہمارے حوالے کر دیئے اور کچھ کہے سنے بغیر، ہمیں فوری طور پر فارغ کر دیا اور ہم بحمد اللہ حرمین شریفین کی طرف روانہ ہو گئے۔

*****

اور ہاں! قرآن کریم نے اس قاعدے کو وسیعتر انداز میں بیان فرمایا ہے:

ارشاد ہوتا ہے:

"قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ"۔ [7]

کہئے کہ کیا برابر ہیں وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے؟

یہاں استفہام، انکاری ہے یعنی یہ کہ جو صاحبان علم ہیں ان کے برابر نہیں ہیں وہ جو صاحبان علم نہیں ہیں؛ تو پھر محمد و علی (علیہما السلام) جو سرچشمۂ علم و عمل و اخلاص ہیں، ایک مدینۃ العلم ہیں اور دوسرے باب مدینۃ العلم ہیں، [8] کیونکر عام انسانوں کے برابر ہوسکتے ہیں؟

وہ بندگان خدا ہیں لیکن ہمیں اپنے آپ کو ان کے بارے میں بہت بولتے ہوئے اپنی اوقات میں رہ کر بولنا اور لکھنا چاہئے۔ کیونکہ ہم علمی اور فکری لحاظ سے کبھی بھی اس پوزیشن پر نہیں پہنچتے کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کرسکیں۔

ہم توحید کے قائل ہیں، بے شک اللہ کے سوا کوئی مالک و قادر و رازق نہیں ہے اور کائنات کے تمام امور میں مؤثر ذات اللہ کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھی ان لوگوں کی صف میں شامل ہوجائیں جنہوں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو دیگر اصحاب سے بھی کمتر جانا!

علی (علیہ السلام) کا یہ شکوہ لوگوں کی ناسمجھی سے ہے، جنہوں نے ان کی قدر گھٹانے کی کوشش کی اور آپ کے رتبے کو پہچاننے سے قاصر رہے اور آپ کو اذیتیں دیں اور آپ کی مظلومیت کی انتہائی ہوئی یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کے سلام کا جواب تک نہیں دیا!!!

اگر ہم امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کے معتقدین کے طور پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شخصیت کو اپنے برابر سمجھیں تو پھر اس میں تعجب کیوں کیا جائے کہ دشمنان اہل بیتؑ انہیں دیگر اصحاب کے برابر لاکر کھڑا کردیں یا دوسروں کو آپؑ پر مقدم سمجھیں! کتنی عظیم مصیبت ہے یہ!

امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کہاں اور ہم کہاں؟ اپنی اوقات دیکھنا بھول کر ہم اس شخصیت کے بارے میں بولتے ہوئے کیا سے کیا کہہ دیتے ہیں!

کبھی لگتا ہے کچھ لوگ اصطلاحی دانشوری کی رو میں بہہ کر اس قدر حضیض کی طرف تنزل کرتے ہیں کہ ان کے اقوال و عقائد وہابیت کے ساتھ مشابہت پیدا کرتے ہیں، جس کے ہم قطعا قائل نہیں ہیں خواہ ایسا بولنے والے یا ایسی آراء بیان کرنے والے بڑے سیاسی، یا مذہبی راہنما یا مدارس و مساجد کے متولی ہی کیوں نہ ہوں۔

تم میری مانند ہو ہی نہیں سکتے ہو ۔۔۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)

مولا علی (علیہ السلام) بصرہ پر اپنے والی عثمان بن حنیف کے نام خط میں تحریر فرماتے ہیں:

"أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً يَقْتَدِي بِهِ وَيَسْتَضِي‏ءُ بِنُورِ عِلْمِهِ أَلَا وَإِنَّ إِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفَى مِنْ دُنْيَاهُ بِطِمْرَيْهِ وَمِنْ طُعْمِهِ بِقُرْصَيْهِ أَلَا وَإِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَلَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَاجْتِهَادٍ وَعِفَّةٍ وَسَدَادٍ؛ [9]

جان لو کہ ہر پیرو کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کی دانش کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے؛ دیکھ لو کہ تمہارے امام نے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں صرف دو روٹیوں پر قناعت کرلی ہے؛ اور بلا شک یہ سب تمہارے بس کی بات نہیں ہے؛ بس تم اتنا کرو کہ پرہیزگاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی اختیار کرکے، میرا ساتھ دو"۔

جیسا کہ سطور بالا میں بیان ہؤا، امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی معرفت کا حق ادا کرنے والا اللہ ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)، اسی لئے ائمہ (علیہم السلام) نے انسان کو کچھ حدود بتائی ہیں۔۔ اس کے پیچھے بھی نہ رہںا اس سے اگے بھی نا جانا ورنہ دونوں صورتوں میں گمراہ ہو جاؤ گے۔ [10] چنانچہ ان ہی حدود اور ان ہی کے فرامین و ارشادات کے دائرے میں رہنا چاہئے ورنہ گمراہی سے دوچار ہونگے۔

مولا علی (علیہ السلام) کو سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ـ تو ہمیں قرآن حدیث سے رجوع کرنا ہوگا ـ معصوم (علیہ السلام) کا فرمان ہے بغیر معرفت کے محبت اور عبادت کسی کام کی نہیں ہے۔

محبت کا مطلب اطاعت ہے سرکشی نہیں

اگر مولا امیر المؤمنین (علیہ السلام) کو سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، تو ہم کس حیثیت سے انہیں رب، خالق و رازق قرار دے سکتے ہیں؟ ائمہ (علیہم السلام)  کے رب کہنے سے منع کرنے باوجود رب کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ محبت ہے تو کیا یہ محبت ہے یا نہیں بلکہ کھلی سرکشی اور بغاوت ہے؟ تو کیا ہمیں اس بارے میں ائمہ (علیہم السلام) کے فرامین سے رجوع کرنا ہوگا یا اپنی رائے پر قناعت کرنا ہوگی؟

کوئی بھی انسان کسی کو بھی ربوبیت الٰہیہ میں شریک کرے وہ مشرک ہے۔ یہ ائمہ (علیہم السلام) کی تعلیمات ہیں اور قرآن کا حکم۔

نکتہ:

جہاں تک محبت کی بات ہے تو اس بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے متعدد ارشادات میں بیان ہؤا ہے کہ "جو اللہ کا اطاعت گزار ہو وہ ہمارا دوست اور حبدار ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اس میں کسی قسم کی کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) جابر جعفی سے فرماتے ہیں:

"يَا جَابِرُ وَاللَّهِ مَا يُتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَّا بِالطَّاعَةِ وَمَا مَعَنَا بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَلَا عَلَى اللَّهِ لِأَحَدٍ مِنْ حُجَّةٍ مَنْ كَانَ لِلَّهِ مُطِيعاً فَهُوَ لَنَا وَلِيٌّ وَمَنْ كَانَ لِلَّهِ عَاصِياً فَهُوَ لَنَا عَدُوٌّ وَمَا تُنَالُ وَلَايَتُنَا إِلَّا بِالْعَمَلِ وَالْوَرَعِ؛ [11]

اے جابر! خدا کی قسم! اللہ کی اطاعت کے سوا کسی بھی ذریعے سے اللہ تعالی کی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی؛ اور ہمارے پاس دوزخ سے رہائی کی برات نہیں ہے، اور کسی کو بھی اللہ تعالی پر کوئی حجت نہيں ہے۔ "جو بھی اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہوگا وہ ہمارا دوست اور حبدار ہے اور جو بھی اللہ کی نافرمانی کرے وہ ہمارا دشمن ہے" ہماری وَلایت و محبت و دوستداری و حبداری عمل اور پرہيزگاری کے سوا حاصل نہیں ہوسکتی"۔

مولا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو نہ سمجھ کر ہی کوئی انہیں خدائی کا درجہ دیتا ہے تو کوئی ان کا درجہ گھٹانے کی سعی باطل کرتا ہے جبکہ جو سمجھدار ہیں وہ اللہ کے نیک بندے بننے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اللہ اور اس کے برگزیدگان کے فرمان کے مطابق بولتے ہیں اور عمل کرتے ہیں؛ اور جو ناسمجھ اور جاہل ہیں وہ ائمہ کے فرامین کو چھوڑ کر ان سے قدم آگے بڑھاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110


[1]۔ الحاج ملا علی الخوئی النجفی (قُدِّسَ سِرُّهُ) (متوفی سنہ 1350ھ) کے قصیدہ غدیریہ سے اقتباس

[2]۔ محمد تقی مجلسی، روضۃالمتقین، ج13، ص 273؛ سید عبدالحسین شرف الدین، تأویل الآیات، ص227، ذیل آیت 94، سورہ یونس؛ سید ہاشم البحرانی، مد ینۃ المعاجز [یک جلدی]، ص163 و طبع جدید ج2، ص439، حدیث 663؛ حسن بن سلیمان الحلی، مختصر البصائر (تالیف سعد بن عبداللہ الاشعری القمی)، ص125؛ حسن بن سلیمان الحلی، المحتضر، ص38 و 165۔

[3]۔ أمین الاسلام فضل بن حسن الطبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ج1، ص318؛ أحمد بن حنبل الشیبانی، فضائل الصحابۃ، ج2، ص648۔

[4]۔ "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "الحَسَنُ وَالحُسينُ سَيِّدَا شَبَابِ أهلِ الجنَّةِ وَأبُوهُمَا خَيرٌ مِنهُمَا؛ حسن اور حسین (علیہما السلام) جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ان سے بہتر ہیں"۔ (الحاکم النیسابوری (محمد بن عبد الله)، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص182)۔

[5]۔ ابن عساکر نقل کرتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اللہ تعالی نے علی (علیہ السلام) کو تین خصوصیات عطا کی ہیں: سید المسلمین، امام المتقین اور قائد غُرِّ المحجلین. اور یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انس سے کہا: جو سب سے پہلے اس دروازے سے داخل ہوگا وہی امیر المؤمنین، قائد غر المحجلین اور سید المؤمنین ہیں اور علی (علیہ السلام) سب سے پہلے داخل ہوئے"؛ اور یہ کہ ابن عساکر برید الاسلامی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہمیں حکم دیا کہ علی (علیہ السلام) کو امیرالمؤمنین کے طور پر سلام کریں، اور اس وقت اس گروہ میں سے، میں سب سے کم سن تھا۔ (ابن عساکر (علی بن حسن بن ہبۃ اللہ بن عبداللہ الشافعی)، تاریخ مدینۃ دمشق، ج42)۔

[6]۔ رضی الدّین حافظ، رجب بن محمّد البُرْسی‌ الحلی، مشارق أنوار اليقين في أسرار أمير المؤمنين(علیہ السلام)، ص60؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج54، ص170

[7]۔ سورہ زمر، آیت 9۔

[8]۔ حاکم نیسابوری، المستدرک، ج3، ص137۔

[9]۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 45۔

[10]۔ رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "إنّما جُعِلَ الإِمَامُ إِمَاماً لّیُؤتَمَّ بِهِ؛ امام کو امام قرار دیا گیا اس لئے کہ لوگ اس کی اطاعت و اقتدا کریں"۔ (شیخ طوسی، الخلاف فی الاحکام، ص425؛ صحیح بخاری، ج1، ص101؛ صحيح مسلم، ج1، ص308)۔

[11]۔ ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب الکلینی، اصول کافی، ج3، ص118، حدیث 3۔