7 فروری 2023 - 18:13
بھارت جیسے سکیولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے، سپریم کورٹ

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فرد پولیس کے پاس آتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس نے ٹوپی پہنی تھی اور میری داڑھی پکڑ کر کھینچی گئی اور مذہب کے نام پر بدسلوکی کی گئی ہے اور اب تک مقدمہ درج نہیں ہوا ہے تو پھر یہ ایک مسئلہ ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کا یہ ماننا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے اطراف اتفاق رائے میں اضافہ ہورہا ہے اور زور دیا کہ بھارت جیسے سکیولر ملک میں نفرت انگیز جرائم کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بھارتی عدالت عظمٰی نے کہا کہ کسی بھی صورت میں نفرت انگیز تقریر کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں ہے اور مزید کہا کہ صرف ریاست اگر اس مسلئے کو تسلیم کر لے تو اس کا حل مل جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ ریاست کی اولین ذمہ داری اس طرح کے کسی بھی نفرت انگیز جرائم سے اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھانا کی ایک بنچ نے کہا کہ جب نفرت انگیز جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو پھر ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جو بہت خطرناک ہے اور اسے ہماری زندگیوں سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، نفرت انگیز تقاریر پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ ایک مسلمان شخص کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی جس نے الزام لگایا ہے کہ 4 جولائی 2021ء کے روز جب وہ نوائیڈا سے علی گڑھ کے سفر کے لئے کار میں سوار ہوا تھا تب مجرموں کی ایک ’اسکور ڈرائیور ٹولی‘ نے اس کے ساتھ بد سلوکی اور مارپیٹ کی تھی اور پولیس اس نفرت انگیز جرم شکایت درج کرنے کی بھی زحمت نہیں کررہی ہے۔ مذکورہ بنچ نے اترپریش حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج کو بتایا کہ آج کل نفرت انگیز تقریروں کے اردگرد اتفاق رائے بڑھ رہی ہے، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور یہ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسے جرائم سے بچائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فرد پولیس کے پاس آتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس نے ٹوپی پہنی تھی اور میری داڑھی پکڑ کر کھینچی گئی اور مذہب کے نام پر بدسلوکی کی گئی ہے اور اب تک مقدمہ درج نہیں ہوا ہے تو پھر یہ ایک مسئلہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242