کربلا کے پیامبر حضرت امام سجاد علیہ السلام کی حیات طیبہ کے درخشان ترین صفحات میں سے ایک، وہ خطبہ ہے جو آپ (ع) مسجد اموی میں دیا۔ امام سجاد علیہ السلام بظاہر اسیر تھے لیکن قید و بند سے رہا مدعی بھی جہاد کے وہ مدارج طے کرنے کا تصور نہيں کرسکتے جو آپ (ص) نے غل و زنجیر میں طے کئے اور اسی جہاد کا ایک اور مرحلہ طے کیا جو سیدالشہداء علیہ السلام نے کربلا میں اپنی اور اپنے اصحاب و اولاد کی قربانی دے کر شروع کیا تھا۔ آپ (ع) نے اس دن شام کی سلطنت میں وہ حیرت انگیز انقلاب بپا کیا جس کا نہ اہل شام تصور کرسکتے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ و حجاز؛ 40 برسوں سے جہل و نادانی کے بھنور میں گرفتار شامیوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا اور چالیس سالہ اموی مکر و فریب کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ روایت کچھ یوں ہے:{روي أن يزيد لعنه الله أمر بمنبر وخطيب ليخبر الناس بمساوي الحسين وعلي عليهما السلام وما فعلا، فصعد الخطيب المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم أكثر الوقيعة في علي والحسين، وأطنب في تقريظ معاوية ويزيد لعنهما الله فذكر هما بكل جميل، قال: فصاح به علي بن الحسين: ويلك أيها الخاطب اشتريت مرضاة المخلوق بسخط الخالق، فتبو أمقعدك من النار ثم قال علي بن الحسين عليه السلام: يا يزيد ائذن لي حتى أصعد هذه الاعواد فأتكلم بكلمات لله فيهن رضا، ولهؤلاء الجلساء فيهن أجر وثواب، قال: فأبى يزيد عليه ذلك فقال الناس: يا أمير المؤمنين ائذن له فليصعد المنبر فلعلنا نسمع منه شيئا فقال: إنه إن صعد لم ينزل إلا بفضيحتي وبفضيحة آل أبي سفيان فقيل له: يا أمير المؤمنين وما قدر ما يحسن هذا ؟ فقال: إنه من أهل بيت قد زقوا العلم زقا قال: فلم يزالوا به حتى أذن له فصعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم خطب خطبة أبكى منها العيون، وأوجل منها القلوب، ثم قال: أيها الناس اعطينا ستا وفضلنا بسبع: اعطينا العلم، والحلم، والسماحة، والفصاحة، والشجاعة، والمحبة في قلوب المؤمنين، وفضلنا بأن منا النبي المختار محمدا، ومنا الصديق، ومنا الطيار، ومنا أسد الله وأسد رسوله، ومنا سبطا هذه الامة، من عرفني فقد عرفني ومن لم يعرفني أنبأته بحسبي ونسبي أيها الناس أنا ابن مكة ومنى، أنا ابن زمزم والصفا، أنا ابن من حمل الركن بأطراف الردا، أنا ابن خير من ائتزر وارتدى، أنا ابن خير من انتعل واحتفى، أنا ابن خير من طاف وسعى، أنا ابن خير من حج ولبى، أنا ابن من حمل على البراق في الهوا، أنا ابن من اسري به من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى، أنا ابن من بلغ به جبرئيل إلى سدرة المنتهى، أنا ابن من دنا فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى، أنا ابن من صلى بملائكة السماء، أنا ابن من أوحى إليه الجليل ما أوحى، أنا ابن محمد المصطفى، أنا ابن علي المرتضى، أنا ابن من ضرب خراطيم الخلق حتى قالوا: لاإله إلا الله أنا ابن من ضرب بين يدي رسول الله بسيفين، وطعن برمحين، وهاجر الهجرتين، وبايع البيعتين، وقاتل ببدر وحنين، ولم يكفر بالله طرفة عين، أنا ابن صالح المؤمنين، ووارث النبيين، وقامع الملحدين، ويعسوب المسلمين، ونور المجاهدين وزين العابدين، وتاج البكائين، وأصبر الصابرين، وأفضل القائمين من آل ياسين رسول رب العالمين، أنا ابن المؤيد بجبرئيل، المنصور بميكائيل، أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين، وقاتل المارقين والناكثين والقاسطين، والمجاهد أعداءه الناصبين وأفخر من مشى من قريش أجمعين، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنين، وأول السابقين، وقاصم المعتدين، ومبيد المشركين، وسهم من مرامي الله على المنافقين، ولسان حكمة العابدين، وناصردين الله، وولي أمر الله، وبستان حكمة الله، وعيبة علمه سمح، سخي، بهي، بهلول، زكي، أبطحي، رضي، مقدام، همام صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الاصلاب، ومفرق الاحزاب، أربطهم عنانا، وأثبتهم جنانا، وأمضاهم عزيمة، وأشدهم شكيمة، أسد باسل، يطحنهم في الحروب إذا ازدلفت الاسنة، وقربت الاعنة، طحن الرحا ويذروهم فيها ذرو الريح الهشيم، ليث الحجاز، وكبش العراق، مكي مدني خيفي عقبي بدري احدي شجري مهاجري، من العرب سيدها، ومن الوغى ليثها، وارث المشعرين وأبو السبطين: الحسن والحسين، ذاك جدي علي بن أبيطالب ثم قال: أنا ابن فاطمة الزهراء، أنا ابن سيدة النساء، فلم يزل يقول: أنا أنا، حتى ضج الناس بالبكاء والنحيب، وخشي يزيد لعنه الله أن يكون فتنة فأمر المؤذن فقطع عليه الكلام فلما قال المؤذن الله أكبر الله أكبر قال علي: لا شئ أكبر من الله، فلما قال: أشهد أن لاإله إلا الله، قال علي بن الحسين: شهد بها شعري وبشري ولحمي ودمي، فلما قال المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله التفت من فوق المنبر إلى يزيد فقال: محمد هذا جدي أم جدك يا يزيد ؟ فان زعمت أنه جدك فقد كذبت وكفرت، وإن زعمت أنه جدي فلم قتلت عترته ؟ قال: وفرغ المؤذن من الاذان والاقامة وتقدم يزيد فصلى صلاة الظهر قال: وروي أنه كان في مجلس يزيد هذا حبر من أحبار اليهود فقال: من هذا الغلام يا أمير المؤمنين ؟ قال: هو علي بن الحسين، قال: فمن الحسين ؟ قال: ابن علي بن أبي طالب، قال: فمن امه ؟ قال: امه فاطمة بنت محمد، فقال الحبر: يا سبحان الله ! فهذا ابن بنت نبيكم قتلتموه في هذه السرعة ؟ بئسما خلفتموه في ذريته والله لو ترك فينا موسى بن عمران سبطا من صلبه لظننا أنا كنا نعبده من دون ربنا وأنتم إنما فارقكم نبيكم بالامس، فوثبتم على ابنه فقتلتموه ؟ سوأة لكم من امة قال: فأمر به يزيد لعنه الله فوجئ في حلقه ثلاثا فقام الحبر وهو يقول: إن شئتم فاضربوني، وإن شئتم فاقتلوني أو فذروني فاني أجد في التوراة أن من قتل ذرية نبي لا يزال ملعونا أبدا ما بقي، فإذا مات يصليه الله نار جهنم}۔ (1) مروی ہے کہ یزید نے منبر سجانے کا حکم دیا اور خطیب سے کہا کہ حسین اور علی علیہ السلام کی بدگوئی اور ان کے اعمال میں عیب جوئی کرے پس خطیب منبر پر بیٹھ گیا پس خدا کی حمد و ثناء کے بعد علی اور حسین علیہما السلام کی بدگوئی کی اور معاویہ اور یزید معاویہ اور یزید کی مداحی میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے اور تمام خوبیوں کو معاویہ اور یزید سے منسوب کیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے چلا کر فرمایا: وائے ہو تم پر اے خطیب! تو نے خلق کی خوشنودی کے لئے اللہ کا غضب کمایا اور اپنی نشیمن گاہ دوزخ کی آگ میں قرار دی۔ اور پھر فرمایا: اے یزید! ا مقام دوزخ کی آگ میں قرار دی! امام علیہ السلام نے اس کے بعد یزید سے کہا: مجھے بھی لکڑی کے اس چوپائے پر بیٹھنے دو تا کہ میں ایسے اللہ کے کلمات بیان کروں جن میں اللہ کی خوشنودی اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہے۔راوی کہتے ہيں کہ معاویہ بن یزید نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین (!؟) انہیں منبر پر بیٹھنے دو شاید ہم ان سے کوئی بات سن لیں۔ یزید نے کہا کہ اگر وہ منبر پر بیٹھیں تو منبر سے اترنے سے پہلے ہی مجھے اور خاندان ابوسفیان کو ذلیل و رسوا کریں گے۔ لیکن عوام نے اصرار کیا اور کہا کہ یہ نوجوان ہیں کر ہی کیا سکتے ہيں؟يزید نے کہا: یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے افراد کو علم و دانش کی گھٹی دی جاتی ہے۔شامیوں کے اصرار پر یزید کو بھی ماننا پڑا اور امام سجاد علیہ السلام کو منبر پر جانے کی اجازت دی اور ایسا خطبہ دیا کہ کہ تمام آنکھیں اشکبار ہوئیں اور تمام دل بے چین ہوگئے۔ فرمایا: اے لوگو! خداوند متعال نے ہم خاندان رسول (ص) کو چھ امتیازات سے نوازا ہے اور سات فضیلتوں سے ہمیں دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں: 1۔ خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد (ص) ہم سے ہیں۔2۔ صدیق (امیرالمؤمنین علی) (ع) ہم سے ہیں۔3۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔4۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔5۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین (ع) ہم سے ہیں۔6۔ زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور7۔ مہدی امت ہم سے ہیں۔ لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔ لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں، میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا، میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں، میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے، میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، میں ان کا بیٹا ہوں بیٹا جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃالمنتہی تک لے گئے میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر [اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے] میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛ میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛ میں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ لی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛ میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ (ص) کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛ میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد (ص)) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔ میرے داد (امیرالمؤمنین (ع)) وہ ہيں جن کو جبرائیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے، میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔ میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔ میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلا
27 نومبر 2013 - 20:30
News ID: 484208

امام سجاد علیہ السلام نے اپنا تعارف کرایا اور امامت و رسالت کا شجرہ نامہ بیان کیا اور اس قدر اپنا تعارف کرانے میں بلاغت کے جوہر جگادیئے کہ حاضرین بآواز بلند رونے لگے۔ یزید خوفزدہ ہوا کہ کہيں عوام اس کے خلاف انقلاب نہ کردیں چنانچہ اس نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اور وہ ہوا جو بیان ہوا اور امام (ع) نے خوابیدہ ذہنوں کو جگا دیا۔