21 جون 2013 - 19:30
ٹروریزم اسلامی فقہ کی نگاہ میں

اسلام ہر گز دھشتگردی کی حمایت نہیں کرتا ۔ فقہ شیعہ میں ٹروریسٹ اور دھشتگرد اپنے جرم کے اعتبار سے سزا کا مستحق ہے۔ جیسا اس نے فعل انجام دیا ہو گا ویسی اس کو سزا ملے گی اگر اس نے اسلحہ دکھا کر کسی کو ڈرایا دھمکایا ہے تو اس کی سزا اسی حد تک ملے گی اگر اس نے کسی کو زخم لگایا ہے اور کسی پر اسلحہ کھینچا ہے اس کی سزا بھی فقہ اسلامی میں معین ہے جبکہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا ہے تو اسے قصاص کیا جائے گا۔ یہ تمام فقہی احکامات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام کسی بھی طرح کے دھشتگردانہ اقدامات کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اس کے برخلاف ان کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسلام میں صرف دفاع واجب ہے اور دفاع نہ صرف اسلامی رو بلکہ عقلی رو سے ہر انسان پر واجب ہے اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کی کوئی قید نہیں ہے۔

 مقدمہ"ٹرور" ایسا ڈراونہ اور وحشتناک کلمہ ہے جس کے سننے سے مختلف طرح کے جرائم،درد ناک واقعات کی ایک فہرست ذہن میں تبادر کر جاتی ہے۔ٹرور کوئی ایسا کلمہ نہیں ہے جو مدتوں سے ادباء کا وردزبان اور لغت کی کتابوں کا حصہ بنا رہا  ہو۔ اس کے باوجود اس نے مختصر سے عرصہ میں انسانی وجدانوں کو اس طرح سے زخمی کر دیا ہے کہ ہر انسان اس سے نفرت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔سب سے زیادہ جس دہشت گردانہ اقدام نے انسانی ضمیروں کو مجروح کیا ہے وہ گیارہ ستمبر کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد عالمی معاشرے کی آنکھیں کھل گئیں کہ دہشت گردی سب سے خطرناک چیز ہے جو کبھی بھی کسی سماج کو نقصان پہنچا سکتی ہے لہذا اس کا عالمی طور پر مقابلہ کیا جائے۔ چو نکہ اس واقعہ کا اصلی متہم ایک فرضی مسلمان شخص ہے لہذا عالمی برادری کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی طرف اتہام کی انگلیاں اٹھ گئیں۔ اورسامراج کو ٹروریزم کے ساتھ جنگ کے بہانے سے اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک موقع مل گیا ۔ تمام مطبوعات، خبری ایجنسیاں بلکہ پورا میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تبلیغات کرنے پر جھٹ گیا۔ صرف ایک انٹرنٹی سائٹ آمازون پر ۱۵۰۰ کتابیں ٹروریزم کے بارے میں موجود ہیں جو کلی طور پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرتی ہیں۔گوگل میں اگر آپ ٹروریزم کو سرچ کریں گے تو ۳۰ لاکھ صفحہ ٹروریزم کے بارے میں دکھائی دیں گے۔اور منجملہ کتابیں جیسے ٹرور خدا کی راہ میں، ٹرور اسلام کے نام پر، دین صلح یا دین ٹرور، ٹرور مقدس، اسلامی ٹروریزم دنیا کی حقیقت، اسلام تیزی سے امریکا پہنچ گیا، سیاسی اسلام کی داستان، جہاد مغرب میں، افراطی اسلام وغیرہ بھی موجود ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان گیارہ ستمبر کے حادثے کی مذمت کرتے ہیں اور اس حادثہ کے آلہ کاروں اور وجود میں لانے والوں کو اسلام سے دور قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس دوران کوئی ایسی جامع تحقیق جو ٹرور یسم سے مقابلہ کرنے اور دہشت گردانہ حملے کرنے کے بارے میں اسلامی نظریہ کو پیش کرے عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ہم نے اس تحقیق کے اندر اگر چہ مختصر، اس بارے میں ایک قدم اٹھایا ہے۔ اور یہ کوشش کی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات دئے جائیں:ٹرور اور ٹروریزم کیا ہے؟ٹرور اور شرعی دفاع کے اندر کیا فرق ہے؟ٹرور کی اقسام کیا ہیں؟ٹرور کی اقسام میں سے ہر ایک کا فقہی حکم  کیا ہے؟ٹروریزم(دہشت گردی) کی تعریفلغوی تعریفلغت میں ٹرور(۱) ڈرانے(۲) ، لوگوں کے درمیان خوف اور دہشت ایجاد کرنے (۳)، زور اور زبردستی کی حکومت قائم کرنے(۴) کے معنی میں بیان ہوا ہے۔بین الاقوامی حقوق کمیٹی نے بین الاقوامی جرائم یعنی ٹروریزم کی اس طرح تعریف کی ہے:" ٹروریزم عبارت ہے ایسے اقدامات کو جائز سمجھنے سے جو عوام الناس کے اندر وحشت ایجاد کرنے کی غرض سے ہوں"اصطلاحی تعریفاب تک کوئی ایسی جامع تعریف جو پوری دنیاکے اہل نظر کے ہاں قابل قبول ہو نہیں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ نے ۱۹۷۲ کی ایک قرار داد ۳۰۳۴ میں یہ طے کیا ہے کہ ٹروریزم کے بارے میں تحقیقات ہونا ضروری ہے اور اس قرار داد کو تصویب کرنے کے لیے تین کمیٹیوں کو تشکیل دیا گیا:۱: ٹروریزم کی تعریف کرنے والی کمیٹی۲: ٹروریزم کے اسباب بیان کرنے والی کمیٹی۳: ٹروریزم کی روک تھام کرنے کے لیے راہ حل تلاش کرنے والی کمیٹی۔لیکن افسوس سے ان کمیٹیوں کا کام کچھ ممالک کی اختلاف رائے سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اس کے بعد امریکہ  میں گیارہ ستمبر کا واقعہ پیش آنے کے نتیجہ میں ٹروریزم کی جامع تعریف کرنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ اس مقالہ میں ان تعریفوں کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ چند ایک تعریفوں کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔اس کے بعد اس کے بارے میں فقہی حکم کو بیان کریں گے۔۱۹۷۲ کی قرار داد میں ٹروریزم کی اس طرح سے تعریف کی گئی: حکومت میں تحولات ایجاد کرنے کی غرض سے تلاش و کوشش، عوامی خدمات پیش کرنے کی راہ میں مداخلت، بین الاقوامی روابط کو زہریلہ بنانا، حکومت سے سروکار رکھنے والے افراد یا حکومت کے روساء کا قتل کرنا، عمارتوں کو خراب کرنا، آب و غذا کے اندر آلودگی ایجاد کرنا اور مسری بیماریوں کے اسباب فراہم کرنا(۵) ٹروریزم کہلاتا ہے۔بین الاقوامی حقوق کمیٹی نے عالمی جرائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹرور کی یوں تعریف کی ہے:" ٹروریزم عبارت ہے ایسے اقدامات کو جائز قرار دینے سے جو عوام الناس کو وحشت میں ڈالنے کی غرض سے ہوں۔(۶)امریکہ کی وزارت دفاع کے ہاں ٹروریزم، غیر قانونی کام انجام دینے، ایک انقلابی گروپ کے ذریعے وحشیانہ اقدامات انجام دینے اورحکومت یا عوام کو کسی کام پر مجبور کرنے کو کہا جاتا ہےکہ جو غالباً سیاسی اہداف کے پیش نظر ہو ۔(۷)ایک حقوق دان نے ٹروریزم کی تعریف میں یوں لکھا ہے: ٹروریزم ان غیر انسانی اعمال پر اطلاق ہوتا ہے جو سیاسی مقاصد کی خاطر ملکوں کے سیاسی نظام کے ساتھ مقابلہ اور لوگوں میں دہشت اور خوف پیدا کرنے کی غرض سے انجام دئے جاتے ہیں۔(۸)اقوام متحدہ کی ۱۹۸۴ میں تصویب ہونے والی قرار داد کے اندر ٹروریزم کی تعریف اس طرح سے کی گئی:" مجرمانہ اور وحشیانہ کام جو کچھ ٹریننگ یافتہ گروپ دہشت پھیلانے کے لیے انجام دیتے ہیں تاکہ اپنے کچھ سیاسی اہداف کو حاصل کر سکیں"(۹)محمد حسین شاملو احمدی اس بارے میں لکھتے ہیں:" ٹروریزم ایک ایسا وحشتناک اور انسان کش مکتب ہے جو ملکوں کے سیاسی نظام کی مخالفت میں لوگوں کو اس نظام سے دور کرنے کی  غرض سے ان کے درمیان ٹرورسٹی اقدامات انجام دے کر دہشت پھیلاتا ہے۔(۱۰)۱۹۹۷ میں بین الاقوامی عوامی اسمبلی نے ٹروریزم مخالف قرارداد پیش کرتے ہوئے ٹروریزم کے بارے میں یوں لکھا: ٹروریسٹ وہ انسان کش،قاتل اور جنایتکار آدمی ہے جو لوگوں کے درمیان رعب و دبدبہ پیدا کرنے کے لیے غیر انسانی افعال کا سہارا لیتا ہے۔ جہاں  کہیں بھی کوئی جان بوجھ کر اور غیر قانونی راستے سے کوئی بلاسٹ کرے ،کسی کو قتل کرے، حکومتی ادارات، عوامی اجتماعات یا حمل ونقل کے ذرایع کے اندر بم دھماکے کرے وہ ٹروریسٹ شمار ہو گا(۱۱)ولف، امریکی فلاسفر لکھتا ہے:" ٹروریزم عبارت ہے کچھ خاص اہداف کو حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طاقت استعمال کرنے سے ، لہذا قانونی طور پر طاقت کا استعمال ٹرور کے مفہوم میں داخل نہیں ہو گا۔(۱۲)علوم سیاسی کے انسائکلوپیڈیا میں ٹروریزم کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے:" ٹرور کے معنی وحشت اور خوف کے ہیں، اصطلاح میں اس فوق العادہ وحشت کی حالت پر اطلاق ہوتا ہے جو کسی کے خون میں ہاتھ رنگین کرنے سے کسی گروپ کے ذریعے کچھ سیاسی اہداف کے پیش نظر وجود میں لائی جاتی ہے۔(۱۳)جن تعریفوں کی طرف ہم نے یہاں پر اشارہ کیا ہے یہ ان تعریفات کا ایک حصہ ہیں جو ٹروریزم کے بارے میں بیان ہوئیں ہیں۔ ان تعریفات کو کلی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:۱: مصداقی تعریفیں: کچھ تعریفیں ایسی ہیں جن میں بجائے تعریف کرنے کے ٹروریزم کے مصادیق کو گنوایا ہے۔۲: مفہومی تعریفیں: کچھ تعریفیں ایسی ہیں جن میں ٹروریزم کے مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جیسا کہ بین الاقوامی حقوق کمیٹی یا امریکہ کے وزارت دفاعیہ کی تعریف میں بیان ہوا۔۳: ترکیبی تعریفیں: کچھ تعریفیں ایسی ہیں جن میں مفہوم اور مصداق دونوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔جیسا کہ بین الاقوامی عوامی کمیٹی نے ٹروریزم کی تعریف پیش کی ہے۔منطقی لحاظ سے گزشتہ تعریفوں میں سے کوئی ایک تعریف بھی جامع اور مانع نہیں ہے، اور ٹروریزم کی مکمل طور پر عکاسی نہیں کرتی ۔ہماری نظر میں اگر ٹروریزم کی اس طریقے سے تعریف کی جائے تو شائد کسی حد تک منطقی تعریف کے نزدیک ہو۔" ٹروریزم عبارت ہے وحشیانہ اور دہشت گردانہ اقدامات سے جو سیاسی یا غیر سیاسی اہداف کے تحت مختلف جگہوں پر مخفی انداز میں انجام دئے جائیں اس طریقے سے کہ شرعی دفاع کا عنوان ان پر صدق نہ کرے۔"اگر مذکورہ تعریف کا منطقی اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کرنا چاہیں گے تو " وحشیانہ اور دہشت گردانہ اقدامات " اس تعریف کی جنس ہو گی اس لیے کہ یہ دھشتگردی ، دفاع اور جنگ کو بھی شامل ہے۔ اور باقی جملہ اس تعریف کی فصل قرار پائے گا۔ جو ٹروریزم کے مصادیق کو دوسرے مصادیق سے جدا کرتا ہے۔ " مختلف اور مخفی انداز " قانونی جنگوں کو خارج کرتا ہے۔ اس لیے کہ جنگیں علی الاعلان کی جاتی ہیں نہ مخفی طور پر۔ اور جملہ : شرعی دفاع کا عنوان اس پر صدق نہ کرے" شرعی اور جائز دفاع کو خارج کرتا ہے۔ٹروریزم فقہی نگاہ میںجیسا کہ ملاحظہ کیا مختلف ممالک کی سیاسی شخصیتوں اور لیڈروں نے اپنے اپنے افکار اور عقائد کے مطابق ٹروریزم کی تعریف کی اور ہر کسی نے ایک خاص طبقہ کو ٹروریسٹ قرار دیا۔ لہذا یہاں پر ضروری ہے کہ ہم ایک مشترک نتیجہ نکالنے کے لیے کچھ مشترکہ اصول سے مدد حاصل کریں وہ کلی اصول جنہیں ہر انسانی ضمیر قبول کرتا ہے اس اعتبار سے ہر انسان ان پر متفق ہے۔یہاں دو ایسے مشترکہ اصول کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انسانی ضمیر،بین الاقوامی حقوق دانان اور اسلامی فقہ کے یہاں قابل قبول ہیں۔۱: اپنا دفاع کرنا جائز اور انسانی فطرت کے ساتھ سازگار ہے۔۲: ٹرورسٹی اقدامات غیر انسانی اور بشری ضمیر کی نگاہ میں مذموم ہیں۔ضروری ہے کہ ان دو اصول کے درمیان فرق کے قائل ہوں۔ اصلی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا معیار پایا جاتا ہے جو " جائز دفاع اور ٹروریزم‘‘ کو تشخیص دینے میں سب کے یہاں قابل قبول ہو؟جائز دفاعبہت سارے فلاسفرز (۱۴)اور حقوق دان  افرادجائز دفاع کو ہر انسان کا فطری حق سمجھتے ہیں۔ اور جائز دفاع کے مبانی اور اصول ایران کے قانون اساسی میں (۱۵) پیش کئے گئے اور ۱۹۹۱ میں مادہ ۶۱ میں جائز دفاع کو اصلی قانون کے عنوان سے درج کر دیا گیا۔(۱۶)بین الاقوامی حقوق کے لحاظ سے اہم ترین بین الاقوامی سند کہ جو جائز دفاع کو تمام ممالک کا فطری حق سمجھتی ہے اقوام متحدہ کے منشور میں مادہ نمبر ۵۱ میں درج ہے۔ اس مادہ کی بنیاد پر اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے بین الاقوامی سلامتی کونسل کے فیصلہ کرنے سے پہلے ہی اس ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے۔ (۱۷)فقہ اسلامی کے اندر بھی دفاع کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ محقق حلی لکھتے ہیں: ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنے جان و مال و حریم کاحتی الامکان دفاع کرے۔اور اس راہ میں سب سے آسان راستے کا انتخاب کرے۔ پس اگر چلِاّ کر اور شور مچا کر پہلی فرصت  میں اپنا دفاع کر سکتا ہے تو اسی پر اکتفا کرے (اس صورت میں کہ چیخ و پکار سے اس کی مدد کر نے کا امکان ہو) اور اگر شور مچانے سے دفاع نہ ہو سکے تو ہاتھ سے دفاع کرے اور ہاتھ کافی نہ ہو تو لاٹھی سے اور اگر لاٹھی بھی کافی نہ ہو تو اسلحہ سے دفاع کرے ۔ اس صورت میں اگر مجرم زخمی ہو جائے یا قتل ہو جائے  توکوئی اشکال نہیں رکھتا چاہے وہ آزاد ہو یا غلام۔ اور اگر دفاع کرنے والا قتل ہو جائے تو شہید کا حکم رکھتا ہے۔ (۱۸)شہید ثانی نے بھی گزشتہ ترتیب کو قبول کیا دفاع کو آسان سے سخت کی طرف جائز قرار دیا ہے۔(۱۹)صاحب ج