20 اپریل 2013 - 19:30
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی

الغرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساس نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو احادیث میں بھی موجود ہے:’’یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"۔

اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ " خودی" کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے ۔ انسان کیا ہے ؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے ؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے ؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے ؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اٹھائے تھے ۔جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجودپھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہےسبزہ و گل کہاں سے آئے ہیںابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہےلیکن اقبال کے سوالات و جوابات کی نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے ، یہ غالب نے " عالم تمام حلقہ دام خیال ہے" اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ۔" کے عقیدے سے قطع نظر کرکے ، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لئے محسوس کیا ہے اسے بیان کردیا ہے اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و برہان سے کام لیا ہے ۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے۔اگر کوئی کہ من وہم و گماں استنمودش چوں نود ایں و آں استیہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصر خاص سے ترکیب پاکر اقبال کے یہاں مغرب و مشرے کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہوگیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبال اسی کے مفسر و پیغامبر ہیں ۔ اس فلسفے میں خدابینی و خود بینی لازم و ملزوم ہیں ۔ خودبینی ، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے ۔ خودی کا احساس ذات خداوندی کاادراک اور ذات خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے خدا کو فاش تر دیکھنے کے لئے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔اگر خواہی خدا را فاش دیدنخودی را فاش تر دیدن بیا موز اقبال کا تصور خودیتصور خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں ۔ " خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے ۔ خودی عشق کے مترادف ہے ۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے ۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے ۔ خودی ذوق طلب ہے ۔ خودی ایمان کے مترادف ہے ۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے ۔ خودی یقین کی گہرائي ہے ۔خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے ۔"اقبال کے ہاں خودی سے مرادخودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے1)    انانیت ، خودپرستی ، خود مختاری ، خودسری ، خودرائيب ) خود غرضیج ) غرور ، نخوت ، تکبر " خودی " کا لفظ اقبالی کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا ۔ خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا ، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا ، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا ، حرکت و توانائي کو زندگي کا ضامن سمجھنے کا ، مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے " خودی " زندگي کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و تنزل ، خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے ۔ خودی کا تحفظ ، زندگي کا تحفظ اور خودی کا استحکام ، زندگي کا استحکام ہے ۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے ۔ اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وستعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں ۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے ۔خودی کیا ہے راز دورن حیاتخودی کیا ہے بیدارئی کائناتازل اس کے پیچھے ابد سامنےنہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنےزمانے کی دھارے میں بہتی ہوئیستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئیازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیرہوئی خاک آدم میں صورت پذیرخودی کا نشیمن ترے دل میں ہےفلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہےکہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید ، خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی ، توحید کی محافظ ہے ۔خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہخودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہکہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے ۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے ۔خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے ۔خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہیہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہ فقیرخودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایابخودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریرڈاکٹر افتخار صدیقی " فروغ اقبال " میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں ۔ " نظریہ خودی ، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا۔ جس کے تمام پہلوؤں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ اقبال نے ابتداء ہی میں اس بات کو واضح کردیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہرگز نہیں بلکہ اس سے عرفان نفس اور خود شناسی مراد ہے ۔"چنانچہ " اسرار خودی " کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں ،" ہاں لفظ " خودی " کے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظر میں بمعنی " غرور " استعمال نہیں کیا گيا جیسا کہ  عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔" تقریبا" یہی مفہوم اقبال کے اس شعر میں ادا ہوا ہے۔خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیںجو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیںاقبال کے تصور خودی میں صوفیا فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود مطلق کا جز قرار دیتے ہیں ۔جبکہ اقبال خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگر چہ تغیر پذیر جانتے ہیں ، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کرلینے کے بعد فنائے خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے ۔ اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس خودی کوبے خودی میں بدل دے تا کہ وہ اپنی اصل سے مل جائے ۔ صوفی اسے ترک خود یا نفی خود کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اقبال عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لئے خودی کو ہی ذریعہ اور وسیلہ بناتے ہیں ۔اقبال کے تصور خودی کے ماخذاقبال کے تصور خودی کا ماخذ ڈھونڈنے کے لئے نقادوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں ۔ اس سلسلے میں نطشے ، برگساں ، ہیگل ، اور لائڈ ماتھر وغیرہ کا نام لیا گيا۔جبکہ خود اقبال نے اس قسم کے استفادے سے انکار کیا۔خلیفہ عبدالحکیم کے خیال میں اقبال نطشے سے نہیں نشٹے سے متاثر تھے ۔ کیونکہ نطشے تو منکر خدا ہے ۔ اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازي عنصر ہے  ۔اگرچہ " اسرار خودی " کے اکثر اجزاء فلسفہ مغرب سے ماخوذ ہیں اور یہاں مسلمان فلسفیوں کے خیالات بہت کم ہیں لیکن اسلامی تصوف میں عشق کانظریہ اقبال نے مولانا روم سے لیا ہے ۔ اور اقبال کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام دراصل رومی کے فیض کا نتیجہ ہے ۔ اس بارے میں عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ،" خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تمام فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔"بقول خلیفہ عبدالحکیم،" رومی انفرادی بقاء کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہوجاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہوجاتا ہے ۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہاہے جیسے لوہا آگ میں پڑکر آگ ہوجاتاہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لئے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لئے انہوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔ " اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئي حیثیت نہیں بلکہ ان کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں ۔خودی اور فطرتاقبال کے نزدیک خود ہی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئي شے خودی میں مستحکم اور غیر خود پر غالب ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے ۔ مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے ۔ اور اس خودی سے فطرت انسانی مشاہدہ کی پابند ہے ۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشم تخیل انسان کی جد وجہد و عمل کے لئے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔خودی کی یہ ہے منزل اولیںمسافر یہ تیرا نشیمن نہیںتری آگ اس خاکداں سے نہیںجہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیںخودی اور عشقخودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔اقبال نے اسے کبھی آرزو اور کبھی عشق کانام دیا ہے ۔ ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔عشق سے پیدا نوائے زندگي میں زیر و بمعشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدماقبال نے عشق کے کئي مدارج بیان کئے ہیں ،عشق فقیہہ حرم ، عشق امیر جنودعشق ہے ابن اسبیل ، اس کے ہزاروں مقامچنانچء کہیں عشق جمال صورت اختیار کرلیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے۔عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیاتعشق سے نور حیات عشق سے نار حیاتڈاکٹر عابد حسین " خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے مضمون " اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں ، " اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اس مرد کامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے ۔ "مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغعشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرامخودی اور فقرطلب و ہدایت کے لئے کسی مرد کاہل کے آگے سرنیاز جھکانا تو خودی کو مستحکم کرتا ہے ۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لئے دست نگر ہونا اس ضعیف بناتا ہے ۔ گدائی صرف اسی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جائے بلکہ دولت جمع کرنے کا ہر وہ طریقہ جس میں انسان محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت ہے فائدہ اٹھائے اقبال کے نزدیک گداگری ہے ۔ حتی کہ بادشاہ جو غریبوں کی کمائي پر بسر کرتاہے سوال و گداگری کا مجرم ہے۔میکدے میں ایک دن ایک مرد زيرک نے کہاہے ہمارے شہر کا سلطان گدا