22 اگست 2012 - 19:30

اجتماعی قتل کی ان وارداتوں کے خوف ناک مناظر میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے/ اگر ان اندوہ ناک مناظر کو سامنے رکھ کر امتیازی اور استثنائی زاویہ نگاہ سے نہ دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ روہنگیائی مسلمان ،گلگت کا کلمہ گو دکھائی دے اور گلگت کے مقتولین پر میانمار کے ذبح شدہ مسلمانوں کا گمان ہو جائے ۔

بسمہ تعالی          برما میں مسلم کشی اور پاکستان میں برادر کشی ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تقابلی جائزہ

فی الوقت پورا عالم اسلام میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی، ملک بدری اور آوارہ وطنی پر سوگوار ہے اور بلا لحاظِ مسلک و مشرب ہر مسلمان قتل و غارت گری کے درد ناک منا ظر سے تڑپ اٹھا ہے حالانکہ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ جب بھی اس طرح کا انسانی المیہ پیش آئے تو دنیا کا ہر انسان خواہ کسی بھی مذہب وملک سے تعلق رکھتا ہو ، اپنے تمام تمائیلات اور رجحانات کے دبیز پردوں کو چاک کرکے باہر آ جائے اور خالص انسانی جذبے کے تحت سراپا احتجاج بن جائے اس جذبے کو زندہ رکھنے کے لئے ایک سیدھا سا فارمولا یہ ہے کہ جب بھی کوئی انسا ن قدرتی آفات کی زد میں آجائے یاکوئی انسان نما درندہ اسے اپنی درندگی کا شکار بنائے ۔تو سمعی یا بصری ذرایع سے جوبھی انسان اس حادثے یا درندگی سے آگاہ ہو جائے وہ صرف ایک لمحہ کے لئے بس اتنا تصور کر لے کہ اس ظلم و زیادتی کا شکار کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود ہے ایک اکیلے اور نہتے انسان کے پیچھے جو خونخوار دہشت گردوں کا ہتھیار بند ہجوم دوڑتا ہوا دکھائی دے تو فرض کر لیجئے کہ اپنی جان کو بچانے کے لئے یہ جو مظلوم ہانپتا کانپتا ہوا بھاگے جا رہا ہے وہ اور کوئی نہیں بلکہ آپ خود ہیں۔ اگر چہ اس خیال سے اُس غریب کی جان تو نہیں بچ پائے گی البتہ بعید نہیں ہے کہ آپ کی انسانیت میں نئی جان پڑ جائے۔انسانی ہمدردی کا جذبہ پھر سے تر وتازہ ہو جائے ۔ممکن ہے کہ آنکھیں بھی تر ہوں پھر مختلف مقامات پر پیش آنے والے مختلف انسانی المیے آپ کی نظرمیں یکسان ہو جائیں جن کو آپ مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں دو ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ راقم نے اپنے ایک حساس طبعیت دوست کو(جوادبی ذوق رکھتا ہے )ایک کتاب کے مطالعہ میں منہمک دیکھا ،مطالعہ کے دوران اچانک وہ آبدیدہ ہو گیا میں نے قریب جا کر دیکھنا چاہا کہ آخر یہ کون سی درد ناک داستان ہے کہ جس کو میر ا دوست پڑھتے پڑھتے اپنے جذبات پرقابو کھو بیٹھا اس نے مجھے قریب آتے دیکھ کر میرا ارادہ بھانپ لیا اس سے پہلے میں استفسار کرتا اس نے اپنے آپ ہی اپنے آنسو بہانے کا سبب یوں بیاں کر دیا کہ وہ مشہور افسانہ نویس پریم چند کے ایک غم آمیز افسانے”کفن“ کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں غربت کی ماری پچھڑے طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک ہندوعورت کی داستان ِ الم بیان ہوئی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ افسانہ واقعا ً شاہکار ہے اس پر پریم چند کی منظر نگاری انسانی جذبات کو متاثر تو کرتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک فرضی کردار پر آپ اپنے قیمتی آنسو وں کو ضایعہ کریں گے ۔ اس نے جوباً کہا کہ یار میں جب کوئی اس معیار کا افسانہ پڑھتا ہو ں تو پڑھتے پڑھتے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں کوئی افسانہ پڑھ رہاہوں اور میں خود بھی ان ہی افسانوی کرداروں میں گھل مل جاتا ہو ۔ اسی حساس طبعیت دوست کو میں نے دہشت گردی کے اس واقعے سے متعلق ایک ہولناک ویڈیو کلپ دکھائی جس میں بابو سر نامی ایک مقام پر پچیس(۵۲)شیعہ مسلمانوں کی دلخراش ھلاکت پر مبنی ایک وحشتناک منظر دکھایا گیا ہے اس منظرمیں دہشت گرد ایک سن رسیدہ اورسفید ریش شخص کی پیٹھ سے کپڑے اٹھا کر یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں یہ بزرگ شیعہ مسلک سے تعلق تو نہیں رکھتا ہے تاکہ اس جرم میں اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیں اور اس بزرگ شخص کے چہرے سے خوف و وہشت کی کیفیت عیاں تھی مذکورہ ویڈیو کلپ کو میرے اس حساس طبعیت دوست نے بے التفاتی سے دیکھا۔ اظہار افسوس کیا نہ ہی اس کی وہ رگ ہمدردی پھڑک اٹھی جو افسانوی کردار کے دکھ درد بھی محسوس کرتی ہے تھوڑا سا کھنگالنے پر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی رگ ِ ہمدردی میں کسی اور نظریہ کا خون دوڑ رہا ہے اور اس بزرگ کے رگ وپے میں شائد جو خون سر گرداں ہے اس کے ساتھ میرے نازک مزاج دوست کا خون میل نہیں کھاتا ۔     مسلکی اور نظریاتی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا نا تو ظلم ہے ہی۔ستم بالائے ستم یہ کہ پھر ان ستم زدگان کے تئیں لوگوں کی ہمدردی یا عدم التفاتی کا تعین نظریاتی پیمانوں سے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نسلی ،مذہبی، قبائیلی ، اور مسلکی تعصبات کے بت اس قدر پر کشش اور جاذبِ نظر ہو گئے ہیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان سے صرف ِ نظر کر ناکسی کو گوارا نہیں ہے۔اس کی مثال حال ہی میں پیش آنے والی نسل کشی کی مختلف وارداتیں ہیں جو بالترتیب میانمار اور پاکستان پیش آئیں۔میانمار کے واقعے پر پورا پاکستان سراپا احتجاج نظر آیا مگر کوئیٹہ ،کراچی ، اور گلگت میں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو پورے ملک کو جیسے سانپ سونگ گیا ۔حتیٰ کہ میڈیا نے ان واقعات کو معمولات کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔ تعصبات اور نظریاتی رجحانات کو بالائے طاق رکھ کر ان حادثوں (میانمار ، گلگت ،چیلاس،مستتونگ و ملتان)کو دیکھا جائے تو ان میں کئی اعتبار سے مماثلت دیکھنی کو مل سکتی ہے نیز ایک واقعے کے تئیں گرم جوشی اور دوسرے واقعے کے تئیں سرد مہری کا کوئی جواز نہیں رہ پائے گا۔ اولاً میانمار اور پاکستان میں ہونے والا قتل عام مذہبی تعصب اور مسلکی جنون کا نتیجہ ہے۔ ثانیاً اجتماعی قتل کی ان وارداتوں کے خوف ناک مناظر میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے ثالثاًاگر ان اندوہ ناک مناظر کو سامنے رکھ کر امتیازی اور استثنائی زاویہ نگاہ سے نہ دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ روہنگیائی مسلمان ،گلگت کا کلمہ گو دکھائی دے اورگلگت کے مقتولین پر میانمار کے ذبح شدہ مسلمانوں کا گمان ہو جائے ۔ وہاں بھی اپنے گھروں سے باہر نکال کر کمسن بچے کی آنکھوں کے سامنے اس کے باپ کی گردن کاٹی گئی اور یہاں بھی بسوں سے چن چن کر ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو اتارا گیا اور پھر کسی جوان بیٹے کے سر پر پتھر مار مار کر ہلاک کیا گیا جب کہ اس کا بوڑھا باپ یہ سب کچھ اپنی بے نور آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔وہاں میانمار میں بھی دہشت گردوں کا جمِ غفیر چند وہشت زدہ بچوں ، نوجو انوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو اپنے نرغے میں لئے ہوئے نظر آتا ہے اور یہاں بھی چلاس کے مقام پر خونخوار درندوں کی ایک بڑی تعداد جدید ہتھیاروں سے لیس مسافر بسوں پر دھاوا بول لیتے ہیں جبکہ کوئی بیٹا اپنی بیمار ماں کے ساتھ محو سفر ہے کوئی بہن اپنے بھائی کے ہمراہ اپنے گھر جارہی ہے اور کسی گھر کا چشم و چراغ اور واحد کفیل بڑی مدت کے بعد اپنے خون پسینے کی کمائی لے کر گھر جارہا ہے تاکہ اپنے بوڑھے ماں ماپ اور اپنے بال بچوں کی فاقہ کشی کا مداوا کرے کوئی طالب ِ علم فارغ التحصیل ہو کر اپنے علم کے نور سے اپنے آبائی وطن کو منور کرنے کی نیت سے بس میں سوار ہے کمیت کے اعتبار سے میانمار کے دو ہزار مقتولین اور بابو سر کے مقام پر مارے گئے پچیس (25) انسانوں کے مابین عددی تفاوت تو ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے ہر دو واقعات میں ذرا برابر بھی فرق نہیں ہیں۔بس سے ا تارے گئے مسافروں اور گھر سے نکالے گئے مکینوں کو غور سے دیکھئے تو مرجھائے ہوئے چہروں پرخوف و وحشت کے آثار یکسان انداز میں جھلکتے دکھائی دیں گے انسانیت سے پرے اپنے دشمنوں کو اچانک سامنے دیکھ کر اُن کےلئے بھی زندگی کے تمام راستے مسدودہو گئے اور اِن کےلئے بھی موت کے سوا کو ئی راہ انتخاب نہیں رہ گئی ۔ اس صورت حال کا سامنا کر نے کے بعد ایک خدا پرست انسان کی نظر ِ امید خالق ِ موت و حیات پر ہی جا کے ٹھہرتی ہے اس لحاظ سے ہم کہ سکتے ہیں کہ تمام ظاہر ی سہاروں سے نا امید ہو کر بالآخربرما اور بابو سر کے مقتولین کے دلوں میں آخری وقت یاد خدا ضرور ر ہی ہو گی۔ المختصر وہاں بھی انسانیت کا خون ہوا یہاں بھی انسانوں کا ہی خون بہایا گیا ۔جسطرح ہر دو ممالک کے مظلوم افراد میں یکسانیت پائی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح مارنے والے ظا لموں میں بھی دہشت پسندی کی ایک ہی روح یکساں طور پر کار فرما ہے ۔ ان قاتلوں کا اگر نفساتی معائینہ کرایا جائے تو ماہر نفسیات ان کے لئے ایک ہی بیماری تشخیص کرے گا ۔جس نفسیاتی بیماری سے برما کے دہشت گرد جوجھ رہے ہیں اسی نفسیاتی بیماری میں پاکستانی طالبان ،لشکر جنگوی ، اور سپاہ صحابہ سے وابسطہ دہشت گرد بھی مبتلا ہیں۔لھٰذا جس نفرت کا اظہا ر برمی دہشت گردوں کے تئیں مسلما نوں بالخصوص پاکستان کی مسلم برادری میں پائی جاتی ہے اسی نفرت و برات کی حقدار یہ دہشت گرد تنظیمیں بھی ہیں اسے بڑھ کر بربریت اور شقاوت ِ قلب کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ماہ مبارک میں شبہائے قدر کے دوران اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے دہشت گرد نہتے روزہ داروں پر گولیوں کی بوچھاڑکر دیں۔اور ان سے وابسطہ بہت سے مسلمانوں کے روز ِ عید کو شامِ غریباں میں تبدیل کردیں عجب نہیں کہ انسانی خون کے یہ پیاسے پھر بھی خود کو روزہ دار سمجھ رہے ہوں!          فی الحقیقت پاکستانی عوام اور مذہبی و سیاسی لیڈروںکے عمومی رویہ کا دہرا پن ان کے رد عمل میں صاف طور پر جھلکتا ہے بر ما کے مظلوموں اور غزہ کے محصوروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا کیا معنی جب کہ مملکت ِ خدا سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں طبقے چلاس،بابو سر ، کوئیٹہ ،مستونگ،کراچی،کے مظلوموں اور پارا چنار کے محصورین کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں ۔ نیٹو سپلائی کو روکنے پر کمر بستہ پاکستان کے غزہ یعنی پارا چنار کے باشندوں کی حالت ِ زار سے بے خبر تو نہیں ہے! کیا نیٹو سپلائی کو روکنے کے لئے پاک افغان شاہراہ کو مسدود کرنا ہی اسلام پسندی کی علامت ہے جبکہ پارا چنار کے غریب عوام گزشتہ چار سال سے ایک کھلے قید خانے میں مقید ہیں ان کی شاہراہ حیات پر ایک عرصہ سے موت کے پہرے بٹھائے گئے ہیں اور اب شاہراہ قراقرم کو بھی گلگت کے شیعہ مسلمانوں کے لئے راہ ِ مرگ میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔کیا انسانی خوں کی اس قدر ارزانی پاکستانی عدلیہ کی نظر میں توہینِ عدالت نہیں ہے ؟کیا چیف جسٹس کو صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کا وظیفہ ہی رہ گیا ہے جس کی حفاظت کی خاطر وہ اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں لیکن اجتماعی قتل میں ملوث افراد کو کیفر ِ کردار تک پہچانا ان کے فرائض سے جیسے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا ہے ۔ صدر پاکستان نے تو اپنی مظلوم نوازی کو ظاہر کرنے کی خاطر ایک احتجاجی خط کے ذریعے بر می حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا مگر وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ ان کے زیر اقتدارملک میںہو رہے ظلم و تشدد پر اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل بان کی مون بھی اب نوحہ کناں ہے بر ما اور فلسطین تو بظاہر کافی دور ہیں ان دور افتادہ اور متاثرہ مسلمانوں کے حق میں پاکستانی لیڈر شب اور عوام زیادہ سے زیادہ احتجاج کر سکتے ہیں لیکن جن انسانیت کے دشمنوں نے پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ہے مذکورہ دونوں طبقے اگرمسلکی بنیادوں اورسیاسی مفادات سے ماوراءہو کر مصمم ارادے کے ساتھ ان ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر کےساتھ صف آرا ءہو جائیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ بہت جلد دہشت گردی کا یہ عفریت مملکت ِ خدا دا سے رخصت نہ ہوجائے ۔لیکن خدا جانے کب یہ قوم ”خود را فصیحت دیگرے را نصیحت “ کے طرز عمل سے مجتنب ہو کر ان فا سد عناصر سے جسد ِ مملکت کو پاک کریں گے تاکہ باقی دنیا میں ہو رہی ظلم وزیادتی کے خلاف کچھ کہنے یا کچھ کرنے کا حق ان کے تئیں محفوظ رہے۔

email..... fidahussai