23 دسمبر 2025 - 16:28
سوڈان میں کیا ہو رہا ہے؟!

اس بحران کی ذمہ داری صرف موجودہ فوجی قائدین پر ہی عائد نہیں ہوتی، بلکہ اس تاریخی نظام پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے سول اداروں کی تشکیل روک دی اور عام شہریوں کا خون ارزان سمجھا۔ سوڈان کی جنگ کا حقیقی اختتام اس وقت ہوگا جب سیاست کا مرکز و محور عوام ہوں گے، نہ کہ مسلح گروہ؛ گوکہ متحدہ عرب امارات جیسے اسرائیل نواز ممالک بھی اپنے مفادات کے لئے اس جنگ کو جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں اور باغی آر ایس ایف کو ہتھیار اور فوجی امداد فراہم کر رہے ہیں۔

بین المللی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سوڈان صرف ایک جغرافیہ نہیں ہے؛ یہ انسانی وجود کا ایک قدیم تجربہ ہے۔ ایک ایسی سرزمین جہاں جدید ریاستوں کی تشکیل سے پہلے، انسان نے سماجی ترتیب، وسائل کی تقسیم اور بقائے باہمی کا تجربہ کیا ہے۔

لیکن یہی تاریخی معاشرہ آج ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے جہاں مستقبل زندگی کا تسلسل نہیں، بلکہ اضطراب اور بے چینی کا تسلسل ہے۔ سوڈانی بحران نہ تو اچانک پیدا ہؤا ہے اور نہ ہی یہ حادثاتی ہے، بلکہ یہ ریاست سازی میں برسوں کی تہہ در تہہ غلطیوں کے ڈھیر، سیاست اور تدریجی طور پر اقتدار کی ہتھیاروں کے حوالے کرنے کا نتیجہ ہے۔

مضمون کا خلاصہ:

سوڈان ایک قدیم تہذیب ہونے کے باوجود، موجودہ بحران برسوں کی سیاسی ناکامیوں، ناقص ریاستی ڈھانچے اور طاقت کے مراکز کے مسلح ہو جانے کا نتیجہ ہے۔

بحران کی جڑیں 2019 میں اس وقت نمایاں ہوئیں جب عمرہ البشیر کی آمریت کے خاتمے کے بعد، طاقت کو مستحکم شہری اور مدنی اداروں کے بجائے فوج اور نیم فوجی دستے "ریپڈ سپورٹ فورسز" (RSF) کے درمیان بانٹ دیا گیا۔ یہ غیرمستحکم طاقت کا اشتراک اپنے اندر جنگ کے بیج لئے ہوئے تھا؛ چنانچہ حکومت اور آر ایس ایف کے درمیان اختلاف ابھرا۔

اپریل 2023 میں، فوج اور RSF کے باہمی تنازع نے مسلح جنگ کی شکل اختیار کرلی، جو پورے ملک میں پھیل گئی۔ اس جنگ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے واضح اور نمایاں محاذ اور ٹھکانے نہیں ہیں؛ یہ گلیوں، ہسپتالوں اور پناہ گاہوں میں لڑی جا رہی ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ انسانی تاریخ کے بدترین بحرانوں میں سے ایک کی شکل میں برآمد ہؤا ہے، جہاں معاشرہ نفسیاتی طور پر بھی ٹوٹ چکا ہے۔

بین الاقوامی کوششیں اس لئے ناکام ہو رہی ہیں کہ جنگ ہی سیاسی مفادات حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ حقیقی امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ طاقت مسلح گروہوں سے واپس عوام اور مضبوط سول اداروں کے پاس نہیں آجاتی۔

اس بحران کی ذمہ داری صرف موجودہ فوجی قائدین پر ہی عائد نہیں ہوتی، بلکہ اس تاریخی نظام پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے سول اداروں کی تشکیل روک دی اور عام شہریوں کا خون ارزان سمجھا۔ سوڈان کی جنگ کا حقیقی اختتام اس وقت ہوگا جب سیاست کا مرکز و محور عوام ہوں گے، نہ کہ مسلح گروہ؛ گوکہ متحدہ عرب امارات جیسے اسرائیل نواز ممالک بھی اپنے مفادات کے لئے اس جنگ کو جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں اور باغی آر ایس ایف کو ہتھیار اور فوجی امداد فراہم کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha