اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح ملک کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی ہزاروں خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہر میدان میں اعلیٰ ترین اوصاف سے مزین ایک آسمانی انسان ہیں۔
انہوں نے اسلام کے نقطۂ نظر سے خواتین کے مقام اور حقوق کو بیان کیا اور مردوں کے اپنی بیگمات اور دیگر خواتین کے ساتھ برتاؤ کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی بے شمار فضیلتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عبادت و خشوع، ایثار و قربانی، مشکلات اور مصیبتوں میں صبر، مظلوم کے حق کا شجاعانہ دفاع، حقائق کی وضاحت، سیاسی بصیرت و عمل، گھر داری، شوہر داری اور اولاد کی تربیت، اور صدر اسلام کے اہم واقعات میں شرکت؛ یہ سب وہ میدان ہیں جن میں حضرت زہرا (س) نمایاں رہیں۔ الحمدللہ ایرانی خواتین اسی سورج سے نور لیتے ہوئے انہیں اپنی زندگی کے لئے آئیڈیل قرار دیتی ہیں اور انہی کے مقاصد کی سمت میں حرکت کرتی ہیں۔ کیونکہ رسول اکرم (ص) کے فرمان کے مطابق ان کی بیٹی تمام زمانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔
رہبر انقلاب نے اسلام میں خواتین کے مقام کو نہایت بلند اور عظیم قرار دیا اور کہا کہ عورت کی شناخت اور شخصیت کے بارے میں قرآن کریم کے بیانات سب سے اعلیٰ اور ارفع ہیں۔
انہوں نے قرآن کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن عورت اور مرد کے برابر کردار کو انسانی زندگی اور تاریخ میں بیان کرتا ہے، اور دونوں کے لیے معنوی کمالات اور بلند ترین مقامات تک پہنچنے کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ سب ان لوگوں کی غلط فہمیوں کے برخلاف ہے جو دین رکھتے ہیں مگر دین کو نہیں پہچانتے، یا وہ جو سرے سے دین کو قبول ہی نہیں کرتے۔
رہبر انقلاب نے قرآن کی منطق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خواتین کو سماجی سرگرمیوں، کاروبار، سیاسی عمل، حکومتی عہدوں اور دیگر شعبوں میں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ اسی طرح روحانی سفر، فردی اور اجتماعی کوششوں میں بھی ان کے لیے ترقی کے تمام راستے کھلے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اسلام میں خواتین کے مقام کو محفوظ رکھنے اور خطرناک و شدید جنسی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے اصول اور احکام موجود ہیں، جیسے مرد و عورت کے تعلقات میں حدود، لباس اور پردے کے ضوابط، حجاب کی پابندی اور نکاح کی ترغیب۔ یہ سب عورت کی فطرت اور معاشرے کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق ہیں، جبکہ مغربی ثقافت میں ان تباہ کن خواہشات کو قابو میں لانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ اسلام میں عورت اور مرد دو متوازن عناصر ہیں، جن میں بہت سی مشترک خصوصیات ہیں اور جسمانی ساخت اور فطرت کی بنا پر کچھ فرق ہیں۔ یہ دونوں عناصر انسانی معاشرے کی تشکیل، نسل کی بقا، تہذیب کی ترقی، معاشرتی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کے انتظام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے اس کردار کی تکمیل میں خاندان کی تشکیل کو سب سے اہم قرار دیا اور کہا کہ مغربی غلط ثقافت کے برعکس، اسلام میں عورت، مرد اور اولاد کو خاندان کے بنیادی عناصر مانا گیا ہے اور ان کے لیے باہمی اور واضح حقوق مقرر کیے گئے ہیں۔
رہبر انقلاب نے خواتین کے حقوق پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "سماجی اور گھریلو رویے میں انصاف" خواتین کا پہلا حق ہے، اور اس حق کی فراہمی حکومت اور معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "تحفظ، عزت اور کرامت" بھی خواتین کے بنیادی حقوق ہیں، مغربی سرمایہ داری نظام کے برخلاف اسلام عورت کی کرامت کو پامال نہیں کرتا بلکہ مکمل احترام پر زور دیتا ہے۔
انہوں نے پیغمبر اکرم ﷺ کی ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "عورت ایک پھول ہے، نہ کہ گھر کی نوکرانی یا فقط خدمت گزار۔" اس نقطہ نظر کے مطابق عورت کے ساتھ سخت کلامی اور درشت رویے سے پرہیز کرتے ہوئے پھول کی طرح اس کی نگہداشت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کریم میں دو مؤمن خواتین، حضرت مریم اور حضرت آسیہ (فرعون کی بیگم) کے ذکر کو مؤمن مرد و زن کے لیے ایک معیار اور عورت کی فکر و عمل کی اہمیت کا مظہر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے سماجی حقوق جیسے مردوں کے برابر اجرت، ملازمت پیشہ یا گھر کی کفالت کرنے والی خواتین کے لیے بیمہ، خواتین کے لیے خصوصی چھوٹ اور درجنوں دیگر مسائل بغیر کسی امتیاز کے محفوظ رہنے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گھر میں عورت کا سب سے اہم حق اور ضرورت شوہر کی محبت ہے۔ ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مردوں کو اپنی بیویوں سے محبت کا اظہار اور اس کو بیان کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
رہبر انقلاب نے زور دے کر کہا کہ عورت کا ایک اور بڑا حق یہ ہے کہ اس کے خلاف کسی بھی قسم کی تشدد کی نفی کی جائے۔ انہوں نے مغربی معاشروں میں رائج انحرافات جیسے خواتین کو قتل کرنا یا شوہروں کے ہاتھوں مارپیٹ کو سختی سے مذموم قرار دیا اور کہا کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ خواتین کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ان پر گھریلو کام زبردستی نہ تھوپا جائے، شوہر انہیں اولاد کی پیدائش کے بعد کی مشکلات میں سہارا دے، اور ان کے لیے علمی و پیشہ ورانہ ترقی کے راستے کھلے رکھے جائیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عورت گھر کی مدیر اور سربراہ ہے۔ ان خواتین کی قدر کرنی چاہیے جو شوہروں کی محدود اور کم آمدنی اور اشیاء کی مہنگائی کے باوجود بڑی ظرافت سےگھر کا انتظام سنبھالتی ہیں۔
انہوں نے سرمایہ دارانہ اور اسلامی نقطۂ نظر کے فرق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں عورت کو استقلال، صلاحیت، شناخت اور ترقی کے مواقع حاصل ہیں، لیکن سرمایہ دارانہ سوچ عورت کی شخصیت کو مرد میں جذب کر دیتی ہے، اس کی عزت اور حرمت کو پامال کرتی ہے، اور اسے محض مادی وسیلہ اور خواہشات کی تسکین کا آلہ سمجھتی ہے۔ امریکہ میں حالیہ دنوں میں جن مجرمانہ گروہوں نے شور برپا کیا ہے، وہ اسی غلط سوچ کا نتیجہ ہیں۔
رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ سرمایہ دارانہ ثقافت نے گزشتہ دو صدیوں میں خاندان کے ڈھانچے کو تباہ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ایسے نقصانات ہوئے ہیں جیسے باپ سے محروم بچے، خاندانی رشتوں میں کمی، نوجوان لڑکیوں کو شکار کرنے والے گروہ، اور جنسی بے راہ روی کو آزادی کے نام پر بڑھاوا دینا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی سرمایہ داری دھوکہ دہی کے ساتھ اس بڑے پیمانے پر ہونے والے جرائم کو آزادی کا نام دیتی ہے اور اس عنوان کو ہمارے ملک میں بھی پھیلانے کی کوشش کرتی ہے، حالانکہ یہ آزادی نہیں بلکہ غلامی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ مغرب اپنی غلط ثقافت کو دنیا میں برآمد کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عورت کے لیے مخصوص حدود، جیسے حجاب، اس کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ نے اس منطق پر خط بطلان کھینچ دیا اور ثابت کیا کہ مسلمان عورت، جو اسلامی پردے کی پابند ہے، ہر میدان میں دوسروں سے زیادہ آگے بڑھ سکتی ہے اور فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی خواتین نے علم، کھیل، فکر، تحقیق، سیاست، سماج، صحت و علاج، زندگی کی امید، اور جہاد جیسے میدانوں میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شہداء کی باوقار بیویوں کی وفاداری اور قربانیوں کو بھی انہوں نے ان کامیابیوں کا حصہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ ایران کی تاریخ میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں خواتین دانشمند، مفکر اور صاحبِ رائے موجود نہیں رہی۔ یہ اسلامی جمہوریہ ہی ہے جس نے خواتین کو بلند مقام دیا اور انہیں ہر اہم میدان میں ترقی اور پیشرفت کے مواقع فراہم کیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اہم نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو مغربی سرمایہ دارانہ فکر کے مطابق عورت کے بارے میں غلط نظریات کو پھیلانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب خواتین کے حجاب، لباس اور مرد و عورت کے باہمی تعاون پر بات کی جاتی ہے تو ملکی میڈیا کو مغربی بیانیے کو دہرانے اور نمایاں کرنے کے بجائے اسلام کے گہرے اور مؤثر نقطۂ نظر کو اجاگر کرنا چاہیے۔ یہی اسلام کو دنیا میں متعارف کرانے کا بہترین طریقہ ہے اور اس سے دنیا کے بہت سے لوگ، بالخصوص خواتین، اسلام کی طرف راغب ہوں گی۔
رہبر انقلاب کی گفتگو سے قبل، شہید سردار غلامعلی رشید کی اہلیہ، شہید امین عباس رشید کی والدہ، اور شہید سردار حسین سلامی کی دختر نے خواتین، ان کی ذمہ داریوں اور ضروریات کے بارے میں اپنے خیالات پیش کیے۔
آپ کا تبصرہ