بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || نوبل امن انعامی کمیٹی نے آج جمعہ کو وینزویلا کی سیاست دان ماریا کورینا ماچادو (María Corina Machado) کو، جو وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے مخالفین شامل ہیں، 2025ء کے نوبل امن انعام کی فاتح قرار دیا۔
ماریا کورینا ماچادو (پیدائش 7 اکتوبر 1967، کاراکاس، وینزویلا) ایک سیاست دان، انڈسٹریل انجینئر اور حزبِ اختلاف کی رکن ہیں، جو حالیہ برسوں میں صدر نکولس مادورو کی حکومت کے مخالفین میں سے ایک اہم کردار بن بن کر ابھری ہیں۔
ماچادو وینزویلا کے 2023ء کے ابتدائی صدارتی انتخابات (Preliminary elections) میں کامیاب ہوئی تھیں، لیکن وینزویلا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ان کی نامزدگی مسترد کر دی گئی تھی، جس کے بعد انھوں نے اپنی جگہ کورینا یوریس کو دے دی۔
کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کی کٹر حامی ہیں اور انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ ایک دن اسرائیل اور وینزویلا کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہونگے، اور اگر وہ منتخب ہوئیں تو، اسرائیل کی حمایت کے حصے کے طور پر، مقبوضہ فلسطین میں کاراکاس کے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کر دیں گی!
ماچادو نے نوبل امن انعام وصول کرنے کے بعد مادورو حکومت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنی سخت دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "وینزویلا اور ایران جلد آزاد ہو جائیں گے!"
نوبل امن انعام حالیہ عشروں میں ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے اور اس کے سیاسی ہونے پر اعتراض برسوں سے اس انعام کا سب سے زیادہ متنازعہ پہلو رہا ہے۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی، محض انسان دوستی اور امن پسندی جیسے معیارات پر عمل کرنے کے بجائے، زیادہ تر ایسے فیصلے کرتی ہے جو مغرب کی سیاسی ترجیحات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
بہت سے تجزیہ کار مثال دیتے ہیں کہ سنہ 2009ع میں بارک اوباما کو امن انعام دیا گیا جبکہ عراق اور افغانستان میں جنگیں جاری تھیں اور بارک اوباما ان جنگوں کے جاری رہنے کا راستہ نہیں روکا تھا، یا ایلکسی ناوالنی اور نادیہ مراد کو ان ادوار میں انعام دینا جب روس اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ سیاسی کشیدگی بہت شدید تھی، درحقیقت حقیقی امن کی تحسین کے بجائے امن انعام کمیٹی کی طرف سے ایک "سیاسی پیغام" تھا۔
اس سال کا نوبل امن انعام، پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ پرکشش رہا کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔
واضح رہے کہ 'اوسلو پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' (Oslo Peace Research Institute) کی ڈائریکٹر نینا گریگر (Nina Greger) نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اس سال امن انعام جیتنے کے سب سے ممکنہ امیدواروں میں 'سوڈان کے ایمرجنسی رسپانس رومز'، 'صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی' (Committee to Protect Journalists) اور 'خواتین کی بین الاقوامی لیگ برائے امن اور آزادی' (Women's International League for Peace and Freedom) شامل ہیں۔
ٹرمپ نے نوبل پیس پرائز کے اعلان پر شدید ناراضگی کا اعلان کرتے ہوئے سابق صدر اوباما کو ديئے گئے نوبل انعام پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ اوباما کو کچھ بھی نہ کرنے پر یہ انعام دیا گیا تھا۔
کچھ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امن انعام نہ ملنے پر، ناروے کے خلاف کاروائی کریں گے اور ممکن ہے کہ یہ کاروائی اس ملک کے خلاف بھاری ٹیرفس لگانے کی صورت میں ہو۔
لیکن ایک سوال کا جواب دینا باقی ہے کہ: یہ صحیح ہے کہ نوبل کمیٹی نے ٹرمپ کو انعام نہیں دیا اور انہیں نااہل قرار دیا، لیکن تجزیہ کاروں کے اس سنجیدہ سوال پر کوئی وضاحت نہیں کی کہ "ٹرمپ کا نام کس بنیاد پر نوبل امن انعام کی فہرست میں شامل کیا تھا؟!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ