28 ستمبر 2025 - 21:35
شہید سید حسن نصر اللہ ایک افسانوی شخصیت

شہید سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی پر، ان کا نام نہ صرف لبنان بلکہ پورے محور مقاومت میں روشن ہے۔ وہ محض ایک کمانڈر یا سیاسی رہنما سے بڑھ کر تھے۔ جیسا کہ المنار ٹی وی چینل کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر حَکَم أمہَز، نے خوبصورتی سے بیان کیا کہ "سید حسن نصراللہ "ان تاریخی افسانوی شخصیات (Legends) میں سے ایک ہیں جو ایک ہزار سال میں ایک بار جنم لیا کرتی ہیں۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || شہید سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کے موقع پر، ہم ایسے فرد سے ملنے گئے جو ذرائع ابلاغ کے میدان میں سیدالمقاومہ کے قریب ترین لوگوں میں سے تھے: ڈاکٹر حَکَم أمہَز، سابق ایڈیٹر المنار نیٹ ورک۔ وہ شخص جس کی سید حسن نصراللہ سے میڈیا کوآرڈینیشن کے سلسلے میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور جو ان کے ذاتی اسلوب اور غیر معمولی اثر و رسوخ کے عینی شاہد ہیں۔

شہید سید حسن نصر اللہ ایک افسانوی شخصیت

ڈاکٹر أَمہَز کے بیانات، سید المقاومہ کی ذاتی کشش اور جاہ و حشمت کی حامل شخصیت کے پوشیدہ پہلوؤں کو عیاں کرتے ہیں؛ نجی دسترخوان پر ان کی بے مثال سادگی سے لے کر خطے کے پیچیدہ ترین بحرانوں کو حل کرنے میں ان کی قوت کلامی تک۔

بغیر عمامے کے دوپہر کے کھانے کا دسترخوان

أَمہَز کا سید مقاومت کے ساتھ تعلق 1980ع‍ کی کی دہائی میں شروع ہؤا، جب تحریک حزب اللہ ابھی قائم ہو رہی تھی؛ جب أَمہَز 1990ع‍ کی دہائی میں المنار سے منسلک ہوئے، خاص طور پر جب 1997 میں سید حسن نصراللہ کے بیٹے سید ہادی نصر اللہ کی شہادت کے بعد، یہ تعلق ایک گہرا اور ذاتی رشتہ بن گیا۔

شہید سید حسن نصر اللہ ایک افسانوی شخصیت

ڈاکٹر حَکَم أمہَز

جتنا زیادہ أَمہَز ہمیں ان ذاتی ملاقاتوں کے بارے میں بتاتے ہیں، اتنی ہی زیادہ خطے کے سب سے بڑے کمانڈر کی سادگی اور خاکساری واضح ہوتی جاتی ہے۔

ڈآکٹر وہ شام کے مشترکہ دورے کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مجھے یاد ہے کہ ہم شامی سفارت خانے کے صحن میں کھانا کھا رہے تھے۔ سید بغیر عمامے کے، صرف جلباب (ڈھیلا عربی کرتہ) پہنے بیٹھے تھے۔ وہ خود ہمیں کھانا پیش کر رہے تھے اور مذاق کرتے ہوئے ہم سے بات چیت کر رہے تھے۔" طاقت اور عزت کی اس بلندی پر بھی یہ سادگی، ایک ایسے قائد کے مکتبی پس منظر کو آشکار کرتی تھی جو دلوں کو فتح کر لیتے تھے۔

شہید سید حسن نصر اللہ ایک افسانوی شخصیت

عراق میں خونریزی کا رک جانا بحران کے عروج پر

سید حسن نصراللہ کے بین الاقوامی اثر و رسوخ اور کرشماتی شخصیت کی جھلک سنہ 2003ع‍ میں عراق کے اندرونی بحران کے ایک واقعے واضح ہوکر نظر آتی ہے۔ صدام کے زوال کے بعد، بغداد اور کربلا میں دونوں فریقوں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ اس وقت أَمہَز عراق میں المنار کے علاقائی ایڈیٹر تھے۔

أَمہَز جھڑپیں روکنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ رہے تھے، تو انھوں نے اپنے ایک دوست سے بات کی جو مقتدیٰ صدر گروپ کے اہلکاروں میں سے تھا۔

انھوں نے پوچھا: "اس مسئلے اور خونریزی کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟"

ان کے دوست نے جواب دیا: "سید مقتدیٰ صدر، سید حسن نصراللہ سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، اور اگر وہ مداخلت کریں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔"

یہ اعتراف خطے میں مذہبی اور سیاسی کشیدگی کے عروج پر سید کے کردار کے اثر و رسوخ اور صلاحیت کو  عیاں کرتا ہے۔

صبح چار بجے لبنان سے عراق کے لئے ایک فون کال

أَمہَز نے فوری طور پر سید حسن نصراللہ کے ایک اہم اور قریبی عہدیدار سے رابطہ کیا۔ اسی دن سہ پہر کے قریب، بیروت سے جواب آیا کہ سید حسن نصراللہ سید مقتدیٰ صدر سے بات کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اس بحران کا کوئی حل نکالا جا سکے۔

أَمہَز کی 'نصراللہ اور مقتدیٰ صدر کے درمیان رابطہ' کرائے کی کوشش ایسے وقت میں ہوئی جب امریکی فورسز نے سید مقتدیٰ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے، اور عراق میں مواصلاتی نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ یہ ایک 'ڈپلومیٹک-انٹیلی جنس آپریشن' جیسا تھا۔

أَمہَز کہتے ہیں: "کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد، ـ صرف تھورایا (Thuraya) (سیٹلائٹ) فون کے ذریعے، صبح چار بجے سید حسن نصراللہ اور مقتدیٰ صدر مکالمہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔" اس بات چیت کا نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ جیسے ہی سید حسن نصراللہ نے بات کی، جھڑپیں رک گئیں اور خونریزی بند ہو گئی۔

یہ واقعہ "سید مقاومت" کے اس پوزیشن کی بے مثال گواہی ہے کہ وہ پورے خطے کے تمام مقاومتی گروہوں میں ایک قابل اعتماد ثالث اور شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔

ایک مدرسہ حسینی مکتب جتنا وسیع و عریض

سنہ 2006ع‍ کی جنگ کے بعد سخت حفاظتی انتظامات کی وجہ سے أَمہَز اور سید کی آخری بات چیت اسی سال تک محدود رہ گئی، لیکن وہ آج بھی سید حسن نصراللہ کے لئے بہت محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر أَمہَز، سید حسن نصراللہ کی جدائی کو ایک "گہرا اور نہ بھرنے والا زخم" قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: "وہ ایک تاریخی شخصیت اور پورے معنوں میں ایک لیجنڈ (Legend) ہیں۔۔۔ سید حسن ایک مدرسہ ہیں۔ ایسا مدرست جو مکتب حسینی کا تسلسل ہے، اور ان کے ساتھی اسی مکتب پر قائم رہیں گے جسے انھوں نے تیس سال پہلے قائم کیا تھا۔"

سید حسن نصراللہ نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے، بلکہ ایک فکری معمار اور عوامی ہیرو تھے جنہوں نے اپنی ذاتی سادگی، بین الاقوامی اثر و رسوخ اور اپنی بات مَنوانے کی صلاحیت سے خطے کے توازن کو بدل ڈالا اور مزاحمت، اخلاقیات اور انکساری کا ایک لازوال اور شاندار ورثہ چھوڑا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha