اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق شمالی افغانستان کے معروف فارسی زبان شاعر اور شہر مزارِ شریف میں واقع فردوسی لائبریری کے نگراں سید سکندر حسینی بامداد کو 10 روز قبل طالبان کے اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا۔
کابل یونیورسٹی کے ایک استاد، جنہوں نے سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ابنا سے گفتگو کی، کہا کہ بامداد کی گرفتاری کی بنیادی وجہ طالبان کی جانب سے فارسی زبان کی کھلی مخالفت ہے۔
استاد کے مطابق طالبان حکومت کا اصل ہدف افغانستان پر پشتونوں کی مکمل بالادستی قائم کرنا ہے، اور جو بھی ثقافتی، لسانی یا مذہبی عنصر اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ بنے، اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کی فارسی زبان سے دشمنی، 7 سے 10 ملین آبادی پر مشتمل شیعہ آبادی پر بڑھتی پابندیاں، فقہ جعفری کو تسلیم نہ کرنا اور دیگر شیعہ مذہبی سرگرمیوں پر قدغنیں اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔
کابل یونیورسٹی کے اس استاد نے کہا:
واضح شواہد موجود ہیں کہ طالبان اپنے مدمقابل ثقافت اور اس کی نمایاں علامت فارسی زبان کو آہستہ آہستہ ختم کر رہے ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا طالبان غیر پشتون اقوام کے جسمانی خاتمے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘ تو اس پر انہوں نے کہا:
اگر ان کے لیے ممکن ہوتا تو وہ اس سے بھی دریغ نہ کرتے، مگر چونکہ یہ عملاً ممکن نہیں، اس لیے اب وہ غیر پشتون اقوام کے ثقافتی وجود کو مٹانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ طالبان پورے افغانستان میں زبانِ پشتو کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے اجلاسوں اور تقریبات میں بھی جہاں سامعین مکمل طور پر فارسی زبان ہوں، طالبان اہلکار صرف پشتو میں گفتگو کرتے ہیں، تاکہ عوام کو رفتہ رفتہ پشتو سیکھنے پر مجبور کیا جا سکے۔
اسی حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مرکزی اور شمالی افغانستان کے ان علاقوں میں جہاں اکثریت فارسی زبان ہے، سرکاری دفاتر کے بورڈز اور شہر کی تحریری علامات کو بھی فارسی سے پشتو میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
کابل یونیورسٹی کے ممتاز استاد نے مزید کہا کہ طالبان کی جانب سے تمام سرکاری خطوط، احکامات اور اعلانات پشتو زبان میں جاری کرنا بھی فارسی کے خلاف اسی منظم مہم کا حصہ ہے۔
انہوں نے ہجری شمسی تاریخ کو ختم کر کے ہجری قمری تقویم نافذ کرنے کو بھی موجودہ حکومت کی فارسی دشمنی کا ایک اور واضح ثبوت قرار دیا۔
آخر میں انہوں نے سنگین انتباہ کرتے ہوئے کہا:
اگر اس صورتحال کے خلاف سنجیدہ اقدام نہ کیا گیا تو آئندہ 20 سال میں ہماری آنے والی نسلیں فارسی زبان بھول جائیں گی اور افغانستان میں پشتو کو واحد غالب زبان بنا دیا جائے گا۔
آپ کا تبصرہ