2 اگست 2025 - 20:49
مسلم ممالک کے ساتھ صہیونیت کی دشمنی کی جڑیں

عالم اسلام کو غلام بنانے کے مذموم استعماری منصوبے نے جعلی صہیونی ریاست کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سلطنت عثمانیہ نوآبادیاتی سازشوں (خاص طور پر برطانوی منصوبوں) کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اسی دوران، ایک برطانوی بغاوت کے ساتھ، رضا خان نے ایران جیسی قدیم اسلامی سرزمین کو بیرونی مفادات کے لیے ایک پچھواڑے میں تبدیل کرنے کے لئے اس ملک کے تاج و تخت پر قبضہ جما لیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی اور عداوت کی جڑیں اسلام کے ابتدائی ایام اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حیات طیبہ میں پیوست ہیں۔ یہ نفرت و عداوت صرف مذہبی اختلاف نہیں، بلکہ اس نے ایک گہری عداوت کا بیج بویا جو صدیوں سے ـ خاص طور پر تاریخ کے نازک لمحوں اور حساس مراحل میں ـ مختلف اور تباہ کن اشکال میں ابھرتی رہی۔ صلیبی جنگیں اس منظم جارحیت کی واضح علامت تھیں؛ جہاں یورپیوں نے، کبھی اکسانے کے ساتھ اور کبھی بعض یہودی عناصر کی حمایت سے، تقریباً دو صدیوں تک عالم اسلام کے خلاف تلواریں کھینچیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس وحشیانہ قتل و غارت گری اور قبضوں کا منظر بن گیا جس کے زخم ملت اسلامیہ کے جسم پر کبھی مندمل نہیں ہوئے۔

تاہم یہ دشمنی صرف صلیبی جنگوں کے دور تک محدود نہیں رہی۔ بعد کے ادوار میں استعمار اور اس کے ساتھیوں کی مکاریوں اور فتنہ انگیزیوں سے اس دشمنی کا دائرہ عالم اسلام کے قلب تک پھیلا دیا گیا۔ اس وقت کی دو عظیم شیعہ اور سنی طاقتوں یعنی صفوی ایران اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان متواتر اور خونریز تصادم اور جنگیں اس تقسیم کی پالیسی کی واضح مثال تھیں۔ مقصد وسیع اسلامی علاقوں کو کمزور اور منتشر کرنا، مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اجنبیوں کے تسلط کی راہ ہموار کرنا۔ صیہونیت، ایک جارحانہ سیاسی نظریے کے طور پر پہچانی جاتی ہے، جس کی توجہ تسلط پسندی اور قبضہ گری پر مرکوز ہے، اور اس کو مسلم ممالک کی خودارادیت، طاقت اور اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر پہچانا گیا ہے۔

عالم اسلام کو غلام بنانے کے مذموم استعماری منصوبے نے جعلی صہیونی ریاست کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سلطنت عثمانیہ نوآبادیاتی سازشوں (خاص طور پر برطانوی منصوبوں) کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اسی دوران، ایک برطانوی بغاوت کے ساتھ، رضا خان نے ایران جیسی قدیم اسلامی سرزمین کو بیرونی مفادات کے لیے ایک پچھواڑے میں تبدیل کرنے کے لئے اس ملک کے تاج و تخت پر قبضہ جما لیا۔

یورپی افواج کے فلسطین پر فوجی قبضے اور 1917 میں منحوس "بالفور ڈیکلریشن کے منحوس وعدے" کے اجرا نے مقبوضہ علاقوں کی طرف صہیونیوں کی منظم نقل مکانی کا دروازہ کھول دیا۔ بالآخر 1948ء میں اس ناجائز ریاست نے استعماری طاقتوں کی غیر مشروط حمایت سے اپنے ناجائز وجود کا اعلان کرکے عالم اسلام کے قلب پر غلبہ پانے کی اپنی دیرینہ خواہش کو آشکار کر دیا۔ حتمی مقصد کیا ہے؟ حتمی مقصد یہ ہے کہ فلسطین کے اسلامی اور عرب تشخص کا خاتمہ کیا کرنا اور اپنا اثر و رسوخ دوسرے اسلامی ممالک تک پھیلانا اور ان ممالک پر بالواسطہ حکومت کرنے تک آگے جانا۔

ان تاریک ترین لمحات میں 1979ء میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی شاندار فتح نے آسمانی بجلی کی مانند استکبار اور صیہونیت کے ترویج کردہ قواعد اور اور ان کے عزائم اور روشوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ انقلاب اسلام کی عصری تاریخ کا ایک بے مثال موڑ تھا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کو دی۔ ایران صدیوں کے بعد، اسلام کے وقار، آزادی اور شان و شوکت کا علمبردار بنا اور صہیونیت اور اس کے آقاؤں کی زیادتیوں کے خلاف مستقل مقاومت و مزاحمت کا مرکز بن گیا۔

ایثار اور شہادت کی وہ لازوال روایت ـ جو خرمشہر کی شاندار فتح سمیت آٹھ سالہ مقدس دفاع (ایران-عراق جنگ) میں ظہور پذیر ہوئی تھی اور اس بار صرف 12 دنوں میں جلوہ گر ہوئی ـ نے دنیا پر واضح کر دیا کہ ایک باشعور مسلمان قوم، اپنے ایمان اور پختہ عزم و ارادے کے بل بوتے پر، کسی بڑی طاقت کا سہارا لئے بغیر، کیل کانٹے سے لیس جارح کے مد مقابل صف آرا ہو کر اسے شکست دے سکتی ہے۔ یہ مقاومت اور یہ تاریخی فتح محض سرزمین کی حفاظت نہیں، بلکہ اسلام کی عظمت، قدس شریف کی حرمت، اور صہیونی تسلط کے خلاف مسلم امہ کے حقِ خود ارادایت کی حفاظت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha