4 جنوری 2025 - 12:26
پاکستان: کیا ضلع کرم میں امن بحال ہوگیا؟ ڈپٹی کمشنر سمیت سرکاری اہلکاروں پر دہشت گردوں کی فائرنگ + تصاویر

ایک اطلاع یہ ہے کہ کانوائے سے آگے چلنے والے فوجی اور ایف سی کی فورسز کی گاڑیوں پر بگن کے مقام پر تکفیری دہشت گردوں نے فائرنگ کی ہے، زخمیوں کو پشاور اور علیزئی کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ / کرم کے عوام کی جبری نقل مکانی کی سازش کے بارے میں کچھ انکشافات۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایک اطلاع یہ ہے کہ بگن میں کچھ دنوں سے متاثرین نے دھرنا دیا ہوا تھا جو معاوضہ کا مطالبہ کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ معاوضہ نہيں ملے گا تو پاراچنار جانے والا راستہ بند رہے گا۔

اس رپورٹ کے مطابق، آج جب حکومتی وفد ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں مذاکرات کے لیے پہنچا اور دوسری طرف سے ٹل اسکاؤٹ کے کرنل بھی مذاکرات میں پہنچے تو علاقے کو کچھ عرصے سے سے یرغمال بنانے والے ٹی ٹی پی کے سرغنوں کمانڈر کاظمی، امجد اور کریم نامی دہشت گردوں نے امن معاہدہ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ "ہم نے دستخط نہیں کئے ہیں اور روڈ نہیں کھلے گا"۔

اس دوران فائرنگ ہوئی اور ڈپٹی کمشنر سمت چار سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے، جبکہ اسسٹنٹ کمشنر کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ٹل اسکاؤٹس کے کرنل اور ان کے ساتھی فائرنگ میں محفوظ رہے ہیں!

زخمیوں کو قریبی چار کلومیٹر کے فاصلے پر علیزئی گاؤں کے ہسپتال لائے۔ جہاں ابتدائی طور پر ان کا بروقت علاج ہؤا۔ سیکیورٹی فورسز کے زخمی اہلکاروں کو مقامی شیعہ گاؤں کے افراد نے خون کا عطیہ دیا۔ [ایک خون بہا رہا ہے دوسرا خون کا عطیہ دے رہا ہے، وہ اچھا ہے اور یہ برا!؟]

ڈپٹی کمشنر ضلع کرم جاوید اللہ محسود کو تین گولیاں لگیں ہیں اور انہیں علاج کے لئے پشاور منتقل کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ چھپری سے بگن تک کے علاقے میں اوتیزئی قوم رہتی ہے اور اس قوم نے راستہ مستقل بند رکھنے کا عندیہ دیا ہے جو کہ علاقے کی شیعہ اقوام سے اسلحہ جمع کرنے پر اصرار کرنے والی پی ٹی آئی حکومت اور اس کی سرپرستی کرنے والی پس پردہ قوتوں کے لئے ایک زبردست چیلنج ہے، کیونکہ وہ وقتی طور پر اشیائے خورد و نوش کے ٹرک پاراچنار تک لے جانے سے عاجز ہیں، تو اسلحہ جمع کرانے کی صورت میں اس خطے کے عوام کے تحفظ کے لئے کیا کچھ کر سکیں گی؟

واضح رہے کہ حکومت کے لکھئے ہوئے معاہدے پر فریقین کے عمائدین نے دستخط کئے ہیں اور لوئر کرم کے گاؤں مندوری کے رہائشی ڈاکٹر قادر نے بھی اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں جن اوتیزئی قوم سے ہے۔

ادھر اہل بیت(ع) اسمبلی ـ ابنا ـ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق، ضلعی صدر مقام پاراچنار میں اعلان ہؤا تھا کہ راستے کھولنے کے پہلے مرحلے میں علاقے کے لئے اشیائے خورد و نوش کے 150 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ پاراچنار لایا جائے گا، چنانچہ ڈپٹی کمشنر ضلع کرم جاوید اللہ محسود نے راستے کا جائزہ لینے کے لئے آج صبح لوئر کرم پہنچے تھے کہ اسی اثناء میں بگن میں عوام کی بھیڑ میں کچھ لوگوں نے فائرنگ کرکے انہیں اور ان کے عملے کے افراد کو زخمی کیا۔ اور مقامی اہلکاروں نے حقائق بیان کرنے کے بجائے اعلان کیا کہ "فائرنگ نامعلوم افراد نے کی ہے"، جبکہ مقامی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ واقعہ کسی شیعہ علاقے میں رونما ہوتا تو ریاست اپنی پوری قوت سے مقابلے پر اتر آتی اور اب جبکہ یہ علاقے بگن میں رونما ہؤا ہے تو حکومت نرمی برت رہی ہے!!

اس رپورٹ کے مطابق، مقامی سرکاری اہلکاروں اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے دعؤوں اور شیخیوں کے باوجود، اشیائے خورد و نوش کا 150 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ ابھی تک ضلع کرم میں داخل نہیں ہو سکا ہے، جس سے امن معاہدے کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔

اس رپورٹ میں بعض مبصرین کے ان خدشات کی طرف بھی اشارہ ہؤا ہے کہ حکومت کا راستہ کھولنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ علاقے کے عوام کو زیادہ سے زیادہ تنگ کیا جائے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں ایک تفصیلی رپورٹ ابنا پر شائع ہوئی جس میں برطانوی پروفیسر ڈیوڈ ملر کے ایک X پیغام کے موضوع سخن بنایا گیا تھا اور اس رپورٹ کا عنوان تھا: "پاراچنار کا قصہ ارضی اور قومی نہیں، جبری نقل مکانی کی سازش ہے، غزہ اور غرب اردن کی طرح"؛ اور اب ایک پرانی خبر بھی سامنے آئی ہے جو کچھ لوگوں کے لئے یقینا نئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک اعلیٰ فوجی افسر "جنرل فیض حمید" پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے جن پر ٹی ٹی پی کے 40 ہزار دہشت گردوں کی افغانستان سے پاکستان منتقلی کا بھی الزام ہے اور یہ بھی کہ انھوں نے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مل کر امریکیوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس میں ضلع کرم کی شیعہ آبادی کی جبری نقل مکانی اور اس علاقے میں امریکہ کا ایک ائیربیس قائم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور سول اور فوجی اسٹبلشمنٹ میں اس کی پشت پناہی کرنے والی کچھ نادیدہ قوتیں آج اسی معاہدے پرعملدر آمد کروانے میں مصروف ہیں جس کے تحت پاراچنار اور پورے ضلع کرم میں امن و امان قائم کرنے کے ارادے مشکوک ہیں اور علاقے کے عوام کو نہتا کرنے پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے نامعقول اصرار کو بھی اس تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے ساٹھ اراکین نے حال ہی میں صدر بائیڈن کو خط لکھ کر بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنے اورعمران خان کو دوبارہ برسراقتدار لانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس سے قبل صہیونی اخبارات "ٹائمز آف اسرائیل" اور یروشلم پوسٹ نے ایک مضمون کو پبلش اور ری پبلش کیا تھا جس میں عمران خان کو اسرائیلی مفادات کے لئے دوسروں سے بہتر قرار دیا تھا چنانچہ ان تمام کڑیوں کو ملایا جائے تو یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک کا ایک تزویراتی اہمیت کا علاقہ امریکہ کے سپرد کرنے کا عندیہ دیا ہو اور اس کے حوالے سے سمجھوتوں پر دستخط بھی کئے ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔

110