بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں ـ خاص طور پر ـ چین کی "ون بیلٹ، ون روڈ" منصوبے کے تحت، بڑے پیمانے کے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے منصوبے، جغ-سیاسی (جیو پولیٹیکل) نظام کی نئی تشریح کے اوزار بن گئے ہیں۔
چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اس منصوبے کا ایک اہم ستون بن کر نہ صرف بیجنگ اور اسلام آباد کے تعلقات میں تبدیلی کا سبب بنا ہے، بلکہ خطے کے دیگر ممالک بشمول ایران کے لئے نئے مواقع بھی پیدا کئے ہیں۔
ایران، جو دنیا کے سب سے اہم جغرافیائی راستوں (شمال-جنوب اور مشرق-مغرب راہداریوں) کے سنگم پر واقع ہے، CPEC کے نیٹ ورک سے منسلک ہو کر یوریشیا کے ٹرانزٹ میں ایک اہم کھلاڑی بن سکتا ہے۔
اس 60 ارب ڈالر کے منصوبے میں شمولیت ایران کے لئے نئے تجارتی راستے کھولے گی، چین، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کو آسان بنائے گی، اور بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
دوسری طرف، چین خطے میں اپنی جغرافیائی اسٹریٹجک پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتا ہے اور اسے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے زیادہ متنوع راستوں کی ضرورت ہے۔
ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کے ماہرین کے مطابق، ایران کی چابہار بندرگاہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کا قدرتی حریف نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا ایک مؤثر تکملہ (مکمل کرنے والا) ہو سکتا ہے، جو بیجنگ کے لئے ایک بہترین آپشن ہے۔
چابہار کے سڑک اور ریل نیٹ ورک کا CPEC سے اتصال نہ صرف سامان کی نقل و حمل کے اخراجات کو کم کرے گا، بلکہ جغرافیائی-سیاسی بحرانوں کے مقابلے میں چین کی سپلائی لائن کی سلامتی کو بھی بڑھائے گا۔
ماہرین کے مطابق، CPEC کے تحت ایران اور چین کا تعاون محض ایک معاشی منصوبہ نہیں، بلکہ 21ویں صدی کے ایشیائی تبدیلیوں کے تناظر میں ایک اسٹریٹجک اتحاد ہے۔
ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کے ماہر حسن کریم نیا نے فارس خبرایجنسی کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ایران کا وسطی ایشیا اور چین سے زمینی اور ریل کے مختلف راستوں سے منسلک ہونا ممکن ہے، اور اس میں CPEC سب سے محفوظ اور پائیدار آپشنز میں سے ایک ہو سکتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا: "اگر ایران اس نیٹ ورک سے منسلک ہو جاتا ہے، تو کچھ خطرناک راستوں پر انحصار کم ہو سکتا ہے، اور بحرانی حالات میں ملک کی تجارت کو کم نقصان ہوگا۔"
البتہ، اس تعاون کو عملی شکل دینے کے لئے سوچے سمجھے اور اسٹریٹجک اقدامات کی ضرورت ہے۔ ٹرانزٹ کے ماہر کریم نائینی کے مطابق، داخلی استحکام، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، سرحدی سلامتی میں بہتری، اور علاقائی سفارت کاری کی تقویت اس راہداری میں مؤثر طریقے سے شامل ہونے کی ضروریات میں سے ہیں۔
چین، اپنے طویل مدتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، یقینی طور پر ایران کے ساتھ تعاون کا خیرمقدم کرے گا، کیونکہ تہران مشرق اور مغرب کے درمیان سنہری گذرگاہ کے طور پر چین کے تجارتی راستوں کی سلامتی اور استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ CPEC کا منصوبہ ایران اور چین کے لئے نہ صرف سامان کی ترسیل کا راستہ ہوگا، بلکہ معاشی اور سیاسی تعاون کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوگا۔ ایران، پاکستان اور چین مسابقت کے اس دور میں، اس موقع کو تزویراتی نقطہ نظر دیکھ کر اس تاریخی موقع سے باہمی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور 2000 سالہ شاہراہ ریشم کی طرح ایک فاتحانہ شراکت کے ساتھ علاقائی نظام کو نئی شکل دے سکتے ہیں۔
مختصر تبصرہ:
یہ تحریر چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت ایران، چین اور پاکستان کے باہمی اسٹریٹجک تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ CPEC نہ صرف چین اور پاکستان کے لئے "جیت-جیت" کا منصوبہ ہے، بلکہ ایران بھی اپنی جغرافیائی اہمیت (اور چابہار بندرگاہ اور شمال-جنوب/مشرق-مغرب راہداریوں کے سنگم پر واقع ہونے) کے بدولت اس میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
اہم نکات:
1. CPEC سے منسلک ہو کر ایران چین، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، جس سے پابندیوں کے اثرات کم ہوں گے۔
2. چین کے لئے یہ ایک تزویراتی ضرورت ہے۔ چین کو گرم پانیوں تک رسائی کے لئے متبادل راستوں (جیسے چابہار) کی ضرورت ہے، جو CPEC کے ساتھ مل کر چین کی سپلائی لائن کو محفوظ بنائے گا۔
3. چابہار اور گوادر حریف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور ان دو کا باہم تعاون خطے میں تجارتی توازن پیدا کرے گا۔
4. یہ تعاون علاقائی استحکام کا باعث ہوگا؛ 21ویں صدی میں ایشیا کی اقتصادی اور سیاسی طاقت کو نئی شکل دے گا، اور قدیم شاہراہ ریشم کےکردار کو بحال کرے گا۔
خلاصہ یہ کہ اگر ایران، چین اور پاکستان دانشمندی سے کام لیں، تو CPEC نہ صرف اقتصادی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ یہ تینوں ممالک کو مغربی تسلط کے منفی اثرات سے آزاد کروانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
CPEC میں ایران کی شمولیت سے پاکستان کو کیا فائدہ؟
1. تجارتی راستوں میں تنوع: ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے پاکستان (گوادر) کو وسطی ایشیا، روس اور یورپ تک رسائی میں کے امکانات میں ہوگا، جس سے خطے میں پاکستان کی تجارتی اہمیت بڑھے گی۔
2. امن و استحکام: ایران کے ساتھ اقتصادی شراکت داری سے دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے تعاون میں بہتری آئے گی اور سرحدی دہشت گردی اور اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ کوششوں کو تقویت ملے گی۔
3. توانائی کے مواقع: ایران سے گیس/تیل کی ترسیل کے منصوبے (جیسے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن) کو CPEC کے ساتھ جوڑ کر پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔
4. لاگت میں کمی: چابہار اور گوادر کے درمیان مربوط نقل و حمل کے نظام سے چین اور دیگر ممالک کے لیے مال برداری کے اخراجات اور ترسیل کے لئے درکار وقت میں نمایاں کمی ہوگی، جس سے پاکستان بھی فائدہ اٹھائے گا۔
5. علاقائی اثرات میں اضافہ: ایران کے ساتھ شراکت سے CPEC کا دائرہ کار وسیع ہوگا، جس سے پاکستان خطے میں ایک اہم اقتصادی ہب کے طور پر ابھرے گا اور مغرب پر اس کا انحصار کم ہوگا۔
6۔ پاکستان میں توانائی کا بحران: پاکستان کو توانائی کے شعبے میں شدید بحران کا سامنا ہے، اور ایران سے سستی گیس اس کے لئے ایک پرکشش حل ہے۔ اگر سہ طرفہ تعاون کے دائرہ کار میں، چین اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرے یا سیاسی حمایت دے، تو پاکستان امریکی دباؤ کو توڑ کر ایران سے گیس پائپ لائن کی تکمیل کی تکمیل کی کوشش کر سکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایران کی شمولیت CPEC کو "ون بیلٹ، ون روڈ" کا زیادہ مؤثر اور جامع منصوبہ بنا دے گی، جس سے پاکستان کو اقتصادی، جغرافیائی سیاسی اور سکیورٹی کے لحاظ سے طویل المدتی فوائد حاصل ہوں گے اور اس کے توانائی کے بحران کا حل بھی نکل سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کے لئے سہ طرفہ تعاون کے فوائد کیا ہونگے؟
توانائی کی حفاظت: چین اپنے توانائی کے ذرائع متنوع بنانا چاہتا ہے۔ ایران سے گیس کی ترسیل چین کو اپنے موجودہ روسی اور وسط ایشیائی گیس نیٹ ورک کا تکملہ فراہم کرے گی۔
1۔ CPEC کا فائدہ: اگر یہ پائپ لائن CPEC سے منسلک ہو جائے، تو چین کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے گیس کی ترسیل میں آسانی ہوگی، جو اس کی "انڈین اوشن تک رسائی" کی حکمت عملی کو تقویت دے گا۔
3۔ جیوپولیٹیکل اثرات: چین ایران اور پاکستان کے ساتھ گیس تعاون سے مغرب (خاص طور پر امریکہ) کے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں کامیاب ہوگا، جو اس کی "ون بیلٹ، ون روڈ" پہل کے لیے اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ