اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: عرش الٰہی کے دائیں طرف یہ کلام مکتوب ہے: "إِتَّ الحُسَينَ مِصباحُ الْهُدی وَ سَفینَهُ الْنِّجاة...؛ یفیناً حسین (علیہ السلام) چراغ ہدایت اور سفینۂ نجات ہیں"۔ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج36، ص205؛ سفینة البحار، شیخ عباس قمی، ج1، ص257)۔
1. مصباح الہدیٰ اور سفینۃ النجاۃ سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے لئے مختص القاب میں سے ہیں۔
2. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقولہ مشہور حدیث کی صورت میں مصادر حدیث میں یوں ثبت ہوئی ہے: "إِنَّ الْحُسَينَ مِصباحُ الْهُدی وَسَفینَهُ الْنَّجاة"۔
بہرصورت مصادر اولیہ میں یہ حدیث آج کے زمانے میں مشہور شکل میں نقل نہیں ہوئی ہے لیکن شیخ صدوق (رضوان اللہ علیہ) نے اسے اپنی کتاب "کمال الدین" میں اس صورت میں ، روایت کیا ہے: "إِنَّهُ لَمَکْتُوبٌ عَلَى یَمِینِ عَرْشِ اللَّهِ مِصْبَاحٌ هَادٍ وَسَفِینَةُ نَجَاةٍ؛ عرش اللہ کے دائیں طرف لکھا ہؤا ہے کہ یقیناً حسین (علیہ السلام) ہدایت دینے والا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں"،
(کمال الدین، ج1، ص265؛ إعلام الورى، فضل بن حسن طبرسى، ج1، صص186)۔
بہرحال اگر حسین مصباح الہُدیٰ اور چراغ ہدایت ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وحشت اور خوف، حیرت اور بھٹکا دینے والی جان لیوا تاریکیوں میں، روشن اور شفاف سہارا ہیں۔
اگر حسین سفینۃ النجاۃ اور نجات کی کشتی ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حوادث اور واقعات کی اٹھنے والی مہلک لہروں میں نجات کے ضامن ہیں۔
تو ہم کیوں حسین اور عاشورا کو اس زاويئے سے نہ دیکھیں کہ یہ گھپ اندھیرے راستوں کا مشعل ہیں، بے کراں سمندروں میں بھٹکتی ہوئی انسانی کشتیوں کے ساحل نجات تک پہنچنے کا سبب ہیں۔
آج انحراف اور گمراہی کی سطح بہت وسیع تر ہے، بے پناہ معلومات [information] نے انسانوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے؛ درست تجزیئے اور صحیح تحقیق کے بغیر موصول ہونے والی مفت معلومات پردہ بن چکی ہیں حق و حقیقت تک پہنچنے میں؛۔
وقت کا دھارا الٹ چکا ہے، ہر طرف سے گمراہ کن طوفان اٹھ رہے ہیں، ایسے میں حسین اور عاشورا کا دامن کیوں نہ تھامیں وہی جو مصباح الہُدیٰ ہیں، سفینۃ النجاۃ ہیں، عروۃ الوثقیٰ ہیں [مضبوط اور قابل اعتماد رسی] ہیں، ہم ان کی تعلیمات سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں، ہم پیغام حسین زینب کبری سے کیوں نہ لیں؟ اور اس سرمائے سے فائدہ اٹھا کر خطرناک رستوں سے پرامن انداز میں کیوں نہ گذریں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110