بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اگرچہ غزہ پٹی پر اسراائیل کے حملوں کی حمایت کرنے والی امریکی کمپنیوں کی مصنوعات پر پابندی، امریکہ کے اندر دشوار ہو گئی ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ امریکی شہریوں کا ایک گروپ ـ جس میں عرب اور مسلمان بھی شامل ہیں ـ امریکہ میں ان مصنوعات کے بائیکاٹ کے ذریعے اپنی آواز کمپنیوں اور معاشرے تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیل کے غزہ پٹی پر حملوں کے آغاز کے ساتھ ہی تحریک "مقاطعہ، سرمایہ کاری سے محروم کرنا اور پابندیاں لگانا" (Boycott, Divestment and Sanctions = BDS) نے ان کمپنیوں کی ایک فہرست جاری کی جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔ جن برانڈز کا عرب اور مسلم امریکیوں نے وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کیا، ان میں میک ڈونلڈ، اسٹاربکس کافی شاپس اور کوکا کولا شامل ہیں۔
پابندیاں صرف امریکی کمپنیوں تک محدود نہیں ہیں؛ بلکہ امریکہ میں فعال اسرائیلی کمپنیاں جیسے "Tatte" کافی شاپس (جس کی واشنگٹن، بوسٹن اور نیویارک میں شاخیں ہیں) بھی پابندی کا نشانہ بنی ہیں۔
ان کمپنیوں کو مالی حمایت یا غیرقانونی اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی پشت پناہی، فلسطینی بازاروں کے استحصال اور اسرائیلی فوج کی مدد جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر تنقید اور پابندیوں کا سامنا ہے۔
امریکہ کے اندر کی پابندیوں کا مقصد
امریکہ میں لوگ ان برانڈز کے بائیکاٹ کے ذریعے معاشی دباؤ بڑھانا اور عوام میں فلسطین کے نہتے شہریوں پر مہلک صہیونی حملوں کے تئیں ان برانڈز کی حمایت کے بارے میں آگاہی بڑھانا چاہتے ہیں۔
یہ پابندیاں 2023 کے آخر سے خاص طور پر ان ریاستوں میں تیزی سے پھیل چکی ہیں جہاں مسلمانوں اور عربوں کی کثیر آبادی ہے: جیسے نیویارک، کیلیفورنیا، ورجینیا اور مشی گن۔
غزہ کی حمایت اور "BDS" تحریک کے ساتھ تعاون میں طلبہ اور نوجوانوں کی سرگرمیوں کی بنا پر، سوشل میڈیا پر آگہی ميں اضافہ کیا ہے اور کھپت کا نمونہ (Consumption pattern) میں قابل ذکر تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔
ایک فلسطینی نژاد امریکی نوجوان 'زیاد عبداللہ،' نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسرائیلی حملوں کے آغاز سے ہی وہ اور ان کے دوست میک ڈونلڈ اور اسٹاربکس کی مصنوعات سے پرہیز کر رہے ہیں اور وہ اپنے غیر مسلم جماعتیوں کو بھی ان برانڈز کے بائیکاٹ کی ترغیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پابندیوں کے معاشی اور سماجی اثرات
مصری نژاد امریکی مالی ماہر 'علاء عطیہ' کا خیال ہے کہ پابندیاں محض تنبیہی نہیں ہیں بلکہ یہ ان کمپنیوں کے لئے ایک معاشی موقع ہے جو اسرائیلی پالیسیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مقامی مصنوعات یا ان مصنوعات کی حمایت ـ جو غزہ کی واضح حمایت کرتی ہیں، چاہے ان کی قیمت زیادہ ہی کیوں ہو، ـ طویل مدت میں منڈی میں ان کمپنیوں کے حصے کو کم کر سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: "اگرچہ میرے اور میرے خاندان کی خریداریاں اکیلے نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں پیپسی-کو جیسی کمپنیوں کے حصص کو کم نہیں کر سکتیں، لیکن چھوٹے کاروباروں اور ان کمپنیوں کی مسلسل حمایت جو بالواسطہ طور پر اسرائیل کی مدد نہیں کرتیں، وقت کے ساتھ منڈی میں تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہے"۔
کمپنیوں کی فروخت پر پابندیوں کے اثرات
ریاست مشی گن کے علاقے ڈئربورن (Dearborn) جیسے عرب آبادی والے علاقوں میں، اسٹاربکس کی فروخت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کافی شاپ کے ایک سابق ملازم نے کہا ہے کہ فروخت کم ہو گئی ہے اور پہلے نظر آنے والی گاہکوں کی لمبی قطاریں اب واضح طور پر کم ہو گئی ہیں۔
اس کمی کے باوجود، بڑی امریکی کمپنیوں پر مجموعی معاشی اثر ابھی تک محدود ہے۔ لیکن مسلمانوں اور عرب امریکیوں جیسے مخصوص گروپوں میں ان کمپنیوں کے برانڈ کی مقبولیت اور ساکھ میں کمی، درمیانی اور طویل مدت میں ان کی فروخت میں کمی کا باعث بنے گی۔
قانونی اور سیاسی ردعمل
سنہ 2024 کے موسم گرما میں، اسرائیل کے بائیکاٹ کے حامیوں کے خلاف سزاؤں کو توسیع دینے کے لئے ایک قانونی مسودہ پیش کیا گیا، لیکن دائیں بازو کے اراکین اور یہاں تک کہ کچھ ڈیموکریٹس کی مخالفت کی وجہ سے، اس مسودے کو ترک کر دیا گیا کیونکہ تنقید کرنے والے اسے امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں ضمانت شدہ آزادی اظہار کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
اگرچہ امریکہ میں مسلم اور عرب صارفین کی پابندیوں کا بڑی کمپنیوں پر ابھی تک وسیع معاشی اثر نہیں پڑا ہے، لیکن اس نے کھپت کے نمونوں (Consumption patterns) میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور عوامی آگاہی بڑھائی ہے۔ چھوٹے اور مقامی کاروباروں کی حمایت، جو غزہ کے بحران کے حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں، بڑھ رہی ہے، اور یہ پابندیاں طویل مدت میں مارکیٹ کے توازن کو تبدیل کر سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ