اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

17 مئی 2010

7:30:00 PM
180681

رہبر معظم کا تاریخی انٹرویو ـ سنہ 1982

ہر اختلاف انگیز صدا شیطان کی صدا ہے

یہ ایک انٹرویو کا متن ہے؛ یہ انٹرویو جنوری 1982میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ‏ای کا انٹرویو ہے جو ہے تو تقریبا 29 سال پرانا مگر اس کے مطالب و مضامین تازہ ہی تازہ ہیں۔ رہبر معظم اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے اور یہ انٹرویو ہفتۂ وحدت کے موقع پر لیا گیا ہے جس میں وحدت کے محوروں اور اختلاف پھیلانے کے سلسلے میں استعمار و استکبار کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رہبر معظم کی اس وقت کی باتیں آج بھی عالم اسلام کی ضرورت کے عین مطابق اور سب کے لئے مفید ہیں۔

حضرت آیت الله العظمی سیدعلی خامنه‏ای

انٹرویو کا متن:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

س: ہفتۂ وحدت میں وحدت کے لئے متعینہ بنیادی نقاط کیا اور کیوں ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ج: درود کثیر ہو پیغمبر بزرگوار، خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ(ص)، کی روح مقدس و مطہر پر جو کلمہ توحید اور توحید کلمہ (اتحاد مسلمین) کے مبشر ہیں اور ہفتۂ وحدت کا اعلان بھی آپ (ص) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ہی کیا گیا ہے۔ اور سلام و درود ہو میدان جدوجہد میں ہمیشہ حاضر و موجود امت پر اور امام عزیز و بزرگوار پر اور خراج عقیدت و تعظیم پیش کرتا ہوں شہیدوں کے پاک خون کو بالخصوص راہ وحدت میں جان کی بازی لگانے والے شہداء کو۔

میرے خیال میں وحدت مسلمین کئی محوروں پر استوار ہے اور ان میں سے ایک مختلف اسللامی مذاہب کے درمیان وحدت ہے؛ خاص طور پر شیعہ اور سنی کے درمیان، اسی طرح شیعہ اور سنی مذاہب کے مختلف فرقوں کے درمیان۔

وحدت مسلمین کا ایک محور جغرافیائی لحاظ سے اور جغرافیائی سرحدوں کے لحاظ سے ہے؛ جیسے ایران، عراق، شام اور مصر اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان وحدت؛ مشرق وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ کے درمیان وحدت؛ وغیرہ۔

وحدت کا ایک محور سیاسی رجحانات کے لحاظ سے وحدت ہے؛ یعنی یہ کہ مسلمان اسلام کے پرچم تلی متحد ہوجائیں چاہے کوئی بھی سیاسی رجحان کے ذہن اور قلب پر حاکم ہو۔ یہ اسلامی معاشرے میں وحدت کے اہم محور اور اہم بنیادیں ہیں۔ وحدت کا سب سے زیادہ اہم رجحان شاید زبان اور نسل کے لحاظ سے ہو؛ یعنی یہ کہ فارسی بولنے والے مسلمان، ترکی بولنے والی مسلمان اور عربی بولنے والے مسلمان آپس میں متحد و متفق ہوجائیں۔

جب ہم مسلمانوں کے درمیان وحدت کی بات کرتے ہیں اور اس کو اپنا شعار اور نعرہ قرار دیتے ہیں اور اس کو ایک عالمی پیغام کے عنوان سے ایران کی انقلابی مملکت کی جانب سے دوسرے ممالک تک پہنچاتے ہیں ـ اور جیسا کہ امام نے فرمایا کہ "پیغام وحدت کی صدا ایران سے اٹھ رہی ہے" ـ اور ہم یہ صدا اٹھا رہے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان جدائی کے ان تمام عوامل و اسباب یا مذہبی اختلاف، زبانی اختلاف، نسلی اختلاف، جغرافیائی اختلاف وغیرہ کو نظر انداز کریں اور "لا آلہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ص)" کے محور کے گرد متحد ہوجائیں اور ہمصدا ہوکر، وحدت کلمہ کے ساتھ، مشترکہ محرکات اور مشترکہ خواہشوں اور اہداف و مقاصد کے پیش نظر اسلام کے تمام مخالفین کے خلاف اپنی حرکت کا آغاز کریں۔

چنانچہ ہفتۂ وحدت کا پیغام یہ ہے کہ وحدت ایک علامت اور نمونے کے عنوان سے مسلمان ملتوں کی پوری سیاسی حیات میں نظر آنی چاہئے اور وحدت کا شعار اور نعرہ ایک ہمہ جہت نعرہ اور شعار ہونا چاہئے اور یہی نعرہ مسلمانوں کے ذہنوں پر حکمفرما ہونا چاہئے۔

س: ہفتۂ وحدت کی آمد آمد ہے اور آپ کی رائے کے مطابق اسلامی مذاہب ـ بالخصوص شیعہ اور سنی مذاہب ـ کے درمیان اختلاف پھیلانے سے استعمار کے کیا کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟

ج: میں استعمار کے اہداف کی بہتر تشریح کے لئے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہوں جس کو بہت سے دیگر افراد قابل توجہ نہیں سمجھتے۔

مثلاً اگر تمام عرب مسلمان ـ جن کی آبادی آٹھ سے نو کروڑ کے قریب ہے ـ اور ایران کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ مسلمان مشرق وسطی کے اہم ترین اور حساس ترین خطے میں ـ، جو دنیا کے مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کا واحد راستہ بھی ہے،  12 کروڑ مسلمان انڈونیشیا میں اور کئی ملین مسلمان ملائشیا میں اور دسیوں کروڑ مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں اور شمالی افریقہ کے کئی بڑے اور چھوٹے ممالک میں کئی ملین مسلمان ـ جو ایک وسیع علاقے میں رہتے ہیں جو بحیرہ روم (بحیرہ متوسط = Mediterranean Sea) سے لے کر بحرالکاہل کے کناروں اور بحر ہند کے ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے ـ مل کر آواز اٹھائیں اور کلمۂ واحدہ "لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (ص)" کا حقیقی معنوں میں نعرہ لگائیں اور یہ سارے مسلمان اسلام کے دشمنوں اور قرآن کے مخالفین اور مسلمانوں کے مخالفین کے خلاف قیام کریں آپ خود دیکھیں گے کہ دنیا میں بڑی طاقتوں کی حالت کیا سے کیا ہوجاتی ہے۔

آج یہی علاقہ ـ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ـ استعمار کے زیر اثر ہے۔ اس علاقے میں متعدد ممالک ہیں اور ہر ایک کسی نہ کسی سیاسی بلاک سے وابستہ ہے یا کسی بلاک کا رکن ہیں یا اس بلاک کے مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ بعض ممالک حصول مفادات کا ذریعہ ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ ہم ممالک کی توہین نہیں کرنا چاہتے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو مکمل طور پر وابستہ بھی نہیں ہیں؛ ہر ملک کے اپنے خاص رجحانات ہیں؛ یعنی مملکت ایران کے سوا ـ جو مغرب اور مشرق سے سو فیصد مستقل موقف رکھتا ہے ـ ان میں سے بعض ممالک میں وابستگی کی مختلف قسمیں یا اکثر ممالک میں، پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ ممالک ‏«لا آلہ الا اللہ» و «محمد رسول اللہ» کے گرد متحد ہوجائیں اور فیصلہ کریں کہ اسلام کے خلاف کھڑے ہونے والے کسی بھی فوجی، معاشی اور سیاسی طاقت کے خلاف استقامت کریں گے تو تب آپ دیکھیں گے کہ تیل کے بازاروں کی کیا صورت ہوتی ہے، ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کی صورت حال کیا سے کیا ہوجاتی ہے؟ اور دیگر مصنوعات کی مختلف عظیم کمپنیاں اور کارخانی کس صورت حال سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

یعنی مغربی دنیا، سرمایہ داری کی دنیا اور صنعتی دنیا یکبارگی سے مفلوج ہوجائے گی۔ اگر [بشرطیکہ] دنیا کا یہ بڑا حصہ مقابلے کے لئے اٹھے۔

آج آپ جانتے ہیں کہ خلیج فارس ایک بہت بڑا علاقہ ہے اور دنیا کا حساس ترین علاقہ، تیل کے لحاظ سے خلیج فارس ہے۔ تیل کے عظیم ترین ذخائر خلیج فارس کے کنارے یا خلیج فارس کے اندر واقع ہیں۔ یہی لوگ جو خلیج فارس کے کناری رہتے ہیں ـ خواہ وہ جو تیل کے ذخائر کے مالک ہیں خواہ وہ جن کے پاس تیل کے ذخائر نہیں ہیں ـ اگر دشمنان اسلام کے خلاف قیام کا فیصلہ کریں اور انہیں تیل نہ بیچیں، تو کیا ہوگا؟ اچھا تو اسلام کے دشمن اس دنیا میں، کون ہیں؟ وہی جو تیل کے سب سے بڑے بیوپاری ہیں اور تیل خریدنے کے لحاظ سے بڑے ممالک سمجھے جاتے ہیں، اب اگر ان کو تیل کی ترسیل بند ہوجائے تو ان کی تمام کمپنیاں بند ہوکر رہ جائیں گی، ان سب کے گھر ٹھنڈک کا شکار ہوجائیں گے؛ ان کی زندگی کی فضا یخزدہ اور منجمد ہوجائے گی۔ یہ سب تیل کو ایک حیاتی وسیلے کے عنوان سے استعمال کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد کس حد تک ان طاقتوں کے لئے نقصان دہ ہوگا؟ جب یہ حقیقت روشن ہوگی تو بخوبی معلوم ہوگا کہ دشمن م