اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

17 دسمبر 2024

11:07:22 AM
1514423

اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں / اسلام عورت کو ایسا پھول سمجھتا ہے جس کی طراوت اور خوشبو کو گھرانے میں محفوظ رکھنا اور بروئے کار لانا چاہئے / مقاومت کے خاتمے کے بارے میں امریکی ـ صہیونی تصورات غلط ہیں، رہبر انقلاب اسلامی + تصاویر

اسلامی انقلاب کے رہبر معظم نے سفرمایا: خطے میں ایک حرکت شام کی سرزمین پر انجام پائی، اور جن جرائم کا ارتکاب صہیونی ریاست اور امریکہ کر رہے ہیں، اور جو مدد [قابض دہشت گردوں کو] کچھ دوسرے بہم پہنچا رہے ہیں، ان ہی کی بنا پر دشمن گمان کرتے ہیں کہ مقاومت کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے، لیکن وہ شدید غلطی پر ہیں / جس کی بیخ کنی ہوگی وہ اسرائیل ہی ہے۔ / خواتین کو، خاتون مجتہدین کی تقلید کرنا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایران بھر سے ہزاروں خواتین نے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی الحسینی الخامنہ ای (مد ظلہ العالی) سے ملاقات کی۔

انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام سید علی الحسینی الخامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے خطاب کا خلاصہ:

سید فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سختیوں اور دشواریوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی غم گسار، جہاد فی سبیل اللہ میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ہمراہ، عبادت الہی میں میں فرشتوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہیں، سیاست میں مشہور فصیح و بلیغ اور شعلہ افروز خطبہ، جو آپ نے مہاجرین و انصار کے سامنے مسجد نبوی(ص) میں دیا، خواہ وہ کلام جو آپ نے مدینہ کی خواتین کو پیش کیا، جس میں سیاست بھی ہے، معرفت بھی ہے اور شکایت بھی ہے۔ اس میں سب کچھ ہے، ایک غیر معمولی کلام ہے، بھی انتہائی عمدہ اور اعلی الفاظ میں، نہج البلاغہ کے خطبات کی طرح ہے؛ وہ سیدہ ہیں جنہوں نے امام حسن (علیہ السلام) کی تربیت کی، حسین بن علی (علیہ السلام) کی تربیب کی۔ سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) کی تربیت کی۔ دیکھئے یہ خصوصیات ایک ساتھ جمع ہوجاتی ہیں [سیدہ کی ذات برکات میں]؛ حق و انصاف یہ ہے سیدہ عالم وجود کا انتہائی حیرت انگیز منظر پیش کرتا انسان کے سامنے۔ طفولت، نوجوانی، شادی اور زندگی میں آپ کی سیرت نمونۂ عمل ہے، یہ سب اعلی ترین نمونے ہیں، جو ایک مسلم خاتون کی بلندی کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ ایک چوٹی ہے اور اسلام خواتین کو اس چوٹی پر پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سب اس چوٹی تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن اس کی طرف چل تو سکتے ہیں۔ 

خواتین کو دشمن کی یلغار کی نرم روشوں سے ہوشیار رہنا چاہئے

دشمن بھی بے کار نہیں بیٹھا ہے، دشمن بھی منصوبے بنا رہا ہے، اسلامی جمہوری نظام کے دشمن بہت جلد سمجھ گئے ہیں کہ انقلاب کو سخت شوؤں (اور ہارڈویئر طریقوں) سے شکست دینا ممکن نہیں ہے، چنانچہ وہ نرم شیوؤں (اور سافٹ ویئر طریقوں) کی طرف چلے گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ جنگ، بمباری، فتنہ پرور قوتوں، قبیلہ پرستی اور ان جیسی دوسری چیزوں سے اسلامی ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا وہ نرم شیوؤں کی طرف چلے گئے۔ وسوسہ انگیز تشہیری مہم، جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہے جو ان کے نعروں میں دکھائی دیتا ہے، ایک نام رکھتے ہیں، جیسے عورت کا تحفظ، نسوان کمیونٹی کا تحفظ، یا نسوانی گروپ کا دفاع یا پھر ایک عورت کا دفاع۔

ایک عورت کے دفاع کے عنوان سے ایک ملک میں بلوے شروع کر دیتے ہیں، اور نرم شیوؤں کو استعمال کرتے ہیں۔

ہماری لڑکیاں، ہماری خواتین، ہماری خواتین اساتذہ، ہماری طالبات اور خواتین کی پوری کمیونٹی اس حوالے سے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھیں۔

مسلمانوں کو ان امور میں سے ـ جن کا اہمیت دینا چاہئے ـ ایک ان ہی وسوسوں اور کینہ ورانہ چالوں اور بہت سارے معاملات میں ـ بالخصوص خواتین کے مسائل میں ـ اقدار سے انحراف کی غرض سے نرم شیوؤں پر مبنی دشمنی اور نرم جنگ کو توجہ دینا [اور ان سے نمٹنا] ہے۔ اور خواتین کو اس جانب متوجہ رہنا چاہئے۔

اسلامی انقلاب کے رہبر معظم نے سفرمایا: خطے میں ایک حرکت شام کی سرزمین پر انجام پائی، اور جن جرائم کا ارتکاب صہیونی ریاست اور امریکہ کر رہے ہیں، اور جو مدد [قابض دہشت گردوں کو] کچھ دوسرے بہم پہنچا رہے ہیں، ان ہی کی بنا پر دشمن گمان کرتے ہیں کہ مقاومت کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے، لیکن وہ شدید غلطی پر ہیں۔ سید حسن نصراللہ اور السنوار کی روحیں زندہ ہیں، شہادت نے انہیں میدان وجود سے خارج نہیں کیا، ان کا جسم چلا گیا اور ان کی روح، ان کی فکر اور ان کا مشن جاری و ساری ہے۔

دیکھئے، ہر روز غزہ پر حملے ہو رہے ہیں، ہر روز انہیں شہید کیا جاتا ہے، مگر کھڑے ہیں اور پھر بھی استقامت کر رہے ہیں، لبنان استقامت کر رہا ہے، البتہ صہیونی ریاست اپنے خیال سے، خود کو شام کے راستے سے تیار کر رہا ہے تا کہ اس کے بزعم، حزب اللہ کو محصور کرے اور اس کی بنیادوں کو اکھاڑ دے۔ لیکن جس کی بنیادیں اکھڑیں گی وہ خود اسرائیل ہے۔

تفصیلی رپورٹ:

انقلاب اسلامی کے رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای نے آج صبح ملک بھر سے ملاقات کے لئے آنے والی ہزاروں خواتین سے سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کو خلقت کا حیرت انگیز وجود قرار دیا اور عورت کے بارے میں اسلامی منشور کے اہم اصول بیان کرتے فرمایا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مکمل کرتے ہیں، اور حیات طیبہ تک پہنچنے اور علمی، ثقافتی اور فن و ہنر کے میدانوں میں فکری اور روحانی صلاحیتوں اور استعدادات کے حصول، سماجی-سیاسی میدانوں میں اثر گذاری اور اقتصادی سرگرمیوں نیز بین الاقوامی مسائل کے حوالے سے ان دو میں کوئی فرق نہیں ہے۔

رہبر انقلاب نے خطے میں صہیونی ریاست اور امریکہ کے جاری جرائم اور بعض ممالک کی طرف سے ان کی مدد، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صہیونی ریاست اپنے بزعم شام کے راستے سے تیاری کر رہا ہے کہ حزب اللہ لبنان کا محاصرہ کر لے اور اس کی بنیادوں کو اکھاڑ دے؛ لیکن جس کی بنیادیں اکھڑیں گی وہ خود اسرائیل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کی تفصیل

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے سیدہ صدیقۂ طاہرہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ایام ولادت کے سلسلے میں مبارک باد دیتے ہوئے، خواتین اور لڑکیوں کے اس اجتماع کو بہت خوب اور پر جوش قرار دیا اور اس موقع پر سات خواتین کی تقاریر کے مرکزی نکات ـ بالخصوص "سائبر اسپیس پر خاندان کے تحفظ"، "آبادی میں اضآفے"، "فن و ہنر (Art) کے شعبوں میں خواتین کے مسائل" اور "شادی کو آسان بنانے" ـ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہدایت کی دفتر قیادت کے حکاماور متعلقہ اداروں کے کرتے دھرتے افراد خواتین کی تقاریر کے بہت عمدہ نکات پر سنجیدگی سے غور اور کام کریں۔

رہبر انقلاب نے ـ عالم خلقت کی حیرت انگیز شخصیت سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وجود کی مختلف جہتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ جو ایک نوجوان خاتون معنوی اور روحانی، اور ملکوتی اور جبروتی تشخص کے لحاظ سے اس مرتبے پر پہنچے کہ اہل تشیّع اور اہل تسنّن کی روایات کے مطابق، اس کا غضب خدا کا غضب اور اس کی خوشنودی خدا کی خوشنودی قرار پائے، تو بہت ہی با عظمت اور عجیب ہے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے "سختیوں اور دشواریوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی غم گساری"، "جہاد فی سبیل اللہ میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھ ہمراہی"، "فرشتوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی عبادت الٰہی"،  "فصیح و بلیغ اور شعلہ افروز خطبوں"، اور "امام حسن امام حسین اور سیدہ زینب (سلام اللہ علیہم اجمعین) کی تربیت" کو سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی نمایاں اور عدیم المثال خصوصیات قرار دیا اور فرمایا: سیدہ (سلام اللہ علیہا) طفولت، نوجوانی، ازدواجی زندگی، سیرت حیات میں مسلمان خواتین کے لئے برترین، مستحسن ترین، اور واضح ترین نمونۂ عمل ہے۔

رہبر انقلاب نے خواتین کے مسئلے کے بارے میں عالمی سطح پر مختلف نظریات و آراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سرمایہ دار اور ان کے پیروکار سیاستدان، دنیا کے پر اثر ذرائع ابلاغ کے مالک ہونے کے ناطے، بے ایمان اور دورغ گوئی کے ساتھ، ـ خواتین کی عالمی کمیونٹی کے مسائل میں مداخلت کرنے اور انہیں سمت اور رخ دینے نیز اپنے ناجائز مفادات حاصل کرنے کی غرض سے ـ اپنے مجرمانہ اور فساد انگیز محرکات کو ظاہری طور پر ایک فلسفی اور انسانی ہمدردی پر مبنی نظریئے کے سانچے میں چھپا دیتے ہیں۔  

آپ نے بے ایمان اور ریاکاری و منافقت کو سامراجیوں اور مغربی سرمایہ داروں کی مستقل روش قرار دیا اور فرمایا: اس ریاکاری اور منافقت کی ایک مثال یہ ہے کہ تقریبا ایک صدی پہلے، انہوں نے عورت کی آزادی اور مالی خومختاری پر بحث چھیڑ  دی۔ جس کی ظاہری صورت اچھی تھی لیکن اس کا باطن یہ تھا کہ کارخانوں کو مزدوروں کی ضرورت تھی، مزدوروں کی تعداد ناکامی تھی، وہ عورتوں کو ـ مردوں سے کم اجرت پر ـ مزدوری کے لئے لانا چاہتے تھے۔ اس مسئلے کا پس پردہ مقصد یہ تھا۔ اس مقصد کو پورے مغرب میں، ظاہری طور پر انسانی ہمدردی اور عورتوں کی آزادی اور خودمختاری کی آڑ میں آگے بڑھایا گیا۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) امریکہ میں غلاموں کی آزادی کے نعرے کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں فرمایا: اس کی ایک مثال ـ جس کا البتہ خواتین کے مسئلے سے تعلق نہیں ہے ـ امریکہ میں غلاموں کی آزادی کا مسئلہ ہے۔ انیسویں صدی میں ـ 1860ع‍ کے لگ بھگ ـ امریکیوں نے اس وقت کے صدر ابراہام لنکن ـ جو ریپلکن پارٹی سے تعلق رکھتا تھا ـ [کے توسط سے] غلاموں کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ ظاہری صورت یہ تھی کہ غلاموں کو آزاد کرایا جائے، اور جنوب سے غلاموں کو اسمگل کرکے شمال لے جاتے تھے؛ اس لئے کہ شمال اور جنوب کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ لیکن پس پردہ حقائق اس کے برعکس تھے، اور یہ تھے کہ جنوب کے لوگ زراعت کے ماہر تھے، وہاں زرعی زمینیں تھیں اور غلام ان زمینوں پر مفت اور بہت کم اجرت پر کام کرتے تھے؛ شمالی صنعتوں کا آغاز کر چکے تھے اور انہیں مزدوروں کی ضرورت تھی اور غلاموں سے مزدوری کا کام لینا چاہتے تھے، اور راستہ یہ تھا کہ ان سے کہہ دیں کہ "تم آزاد ہو، آؤ کارخانے میں کام کرو!" حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے انہیں زراعت کے غلاموں سے کارخانوں میں غلامی کی طرف کھینچا؛ پس پردہ حقیقت یہ تھی۔ یہ مغربیوں کی بے ایمانی ہے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے حقوق نسوان اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں مغربیوں کے نعروں اور ان نعروں سے ان کے خفیہ اور اعلانیہ غیر انسانی سیاسی اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی ایسا ہی ہے۔ خواتین کے مسئلے کے بارے میں دنیا میں موجودہ معرکہ آرائیوں ـ فیمنزم (Feminism) کے مسئلے، عورتوں کے حقوق کے سلسلے، عورتوں کی آزادی کے مسئلے میں، جو کچھ کہا جاتا ہے، یہ صرف ظاہری صورت ہے۔ اس مسئلے کے پس پشت  کچھ پالیسیاں ہیں، غیر صحتمند محرکات ہیں، جن میں سے بعض کو ہم آج جانتے ہیں اور بعض کو بعد میں جان لیں گے، انہیں منکشف ہونا چاہئے؛ بہرحال محرکات انسانی نہیں ہیں؛ یہ بے ایمانی آج بھی موجود ہے، محرکات محض سیاسی ہیں، محض استعماری ہیں، [فکری اور عملی] یہ دراندازی کا ذریعہ ہے۔ تاہم یہ ہمارے آج کے جلسے کا موضوع نہیں ہے۔

آپ نے خواتین کے مسئلے میں ـ اسلام کی منطق کے عمومی ادراک کی خاطر ـ، خواتین کے مسئلے میں اسلام کے منشور کی تشریح کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: ہمیں معاشرے میں یہ منطق عام کرنا پڑے گی، اور اس کے مطابق عمل کرنا پڑے گا، گوکہ انقلاب کے بعد اس حوالے سے کارہائے نمایاں انجام پا چکے ہیں۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: اگر ہم اسلامی نظریئے کی رو سے خواتین کے لئے ایک منشور مرتب کرنا چاہیں تو اس کے نکات میں سے، میرے خیال میں، سب سے پہلا نکتہ "زوجیت" کا ہونا چاہئے۔ یعنی یہ کہ عورت اور مرد دو "زوج [جوڑا]" ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے خلق ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہے کہ "وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًاً؛ (اور اللہ نے تمہارے لئے تم میں سے ہی، جوڑے قرار دیئے ہیں"۔ (نحل-72) یہ خطاب کہ "جَعَلَ لَكُمْ" ـ یعنی اس نے تمہارے لئے قرار دیا ـ مردوں سے نہیں ہے۔ یہ خطاب بنی نوع بشر سے ہے؛ عورت اور مرد سے۔ "وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًاً؛ یعنی اے افراد بشر! خدا نے تمہاری اپنی جنس سے ہی، تمہارے لئے جوڑے قرار دیئے ہیں"۔ قرآن میں "زوج" کا عنوان صرف ایک جگہ عورت کے لئے استعمال ہؤا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے: "وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ؛ اور اے آدم! رہو تم اور تمہاری بیوی بہشت میں"۔ (اعراف-19) یہاں "زوج" کا لفظ عورت یعنی زوجہ کے لئے آیا ہے؛ دوسری جگہ یہ لفظ مرد کے لئے استعمال ہؤا ہے، جہاں ارشاد ہؤا ہے: "قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا؛ سنی ہے اللہ نے اس عورت کی بات جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں شدت کے ساتھ بحث کر رہی تھی"۔ (مجادلہ-1) یہاں "زوج" کا لفظ مرد کے لئے استعمال ہؤا ہے۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے تمہاری اپنے جن سے تمہارے لئے جوڑا خلق کیا۔ البتہ یہ صرف نوع انسان تک بھی محدود نہیں ہے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: عورت اور مرد ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں، اور زوجیت کا لازمہ ایک تیسری اکائی کی تشکیل ہے جس "خاندان" سے عبارت ہے۔ اور اس لحاظ سے خاندان کی تشکیل (اور رشتہ ازدواج) عالم خلقت میں ایک الٰہی سنت ہے، جو کہ خوش قسمتی سے ایرانی ثقافت میں بھی خاندان سے لگاؤ، قوم کی ثقافتی قوت اور گہرائی کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: خواتین کے لئے اسلامی منشور کا ایک اصول یہ ہے کہ "معنوی اور روحانی پیشرفت اور انسانی کمال اور حیات طیبہ کے حصول کے سلسلے میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے"، اسلام کی نگاہ میں عورت اور مرد ـ جسمانی فرق کے باوجود ـ  فکری اور عملی جدتوں کی لامتناہی استعدادات صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں اور اسی وجہ سے عورت بھی مرد کی طرح یہ صلاحیت رکھتی ہے ـ اور کبھی تو اس پر واجب بھی ہے ـ کہ علمی، سائنسی، سیاسی، سماجی، معاشی، بین الاقوامی، ثقافتی اور فن و ہنر کے میدان میں کردار ادا کرے۔

آپ نے فرمایا: خاندان میں عورت اور مرد کا کردار مختلف ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان میں سے دوسرے پر فوقیت رکھتا ہے۔ عورت اور مرد خاندان میں مساوی حقوق رکھتے ہیں؛ گوکہ جذباتی لحاظ سے اور ممتا کے لحاظ سے، عورت وہ پھول ہے جس کی طراوت اور خوشبو کو گھرانے میں محفوظ رکھنا اور بروئے کار لانا چاہئے۔

آپ نے اسلام کی نگاہ میں "عورت اور مرد کے درمیان روابط اور معاشرت پر حکمفرما حدبندیوں" کے بارے میں فرمایا: اسلام نے "حجاب اور پاکدامنی اور نظر" کے بارے میں کچھ تحفظات رکھتا ہے۔ البتہ مغرب میں رائج آج کی بے لگامیاں، کچھ نئی ہیں جبکہ حالیہ دو تین صدیوں کی یورپی ادبی کاوشوں میں عورت کی جو توصیف ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں بھی عورت کے حوالے سے بہت سارے تحفظات تھے۔

آپ نے "مادریت (motherhood) کی روحانی قدر اور اس پر فخر" کو بھی عورت کے سلسلے میں اسلامی نظریئے کا ایک اصول قرار دیا اور فرمایا: آج مغرب کی پیروی نہ کرنے والے معاشروں ـ بطور خاص ہمارے معاشرے ـ میں کچھ لوگ سرمایہ داروں اور استعماریوں کی پالیسیوں کے تحت، مادریت کی بری تصویر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ مادریت اور ایک انسان کی پرورش ایک قابل قدر اور عظیم اعزاز و افتخار ہے، اور اسی بنا پر اسلام نے مختلف تعبیروں سے ماں کی تکریم کی ہے، فرمایا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے، اور ماں سے محبت اور اس کی خدمت اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔

رہبر انقلاب نے عورت کے بارے میں اسلامی منشور کے بعض اہم اصولوں اور نکات کا تذکرہ کرنے کے بعد مؤمنہ، دانا اور  اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مختلف شعبوں میں سرگرم خواتین کی حیرت انگیز نشوونما اسی اعلی اور رفیع نظریے کا نتجہ ہے۔ اسلامی انقلاب کے لئے ہونے والی جدوجہد اور اس کی کامیابی میں خواتین کا کردار فیصلہ کن تھا اور ایسے حال میں، جب کچھ لوگ جلسے جلوسوں میں خواتین کی شرکت کے خلاف تھے، امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے ان کی اس سوچ اور نظریئے کی شدت سے مخالفت کر دی۔ اور خواتین میدان میں آئیں تو ان کے شوہروں اور بچوں کو بھی میدان میں آنا پڑا، چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک لحاظ سے خواتین نے ہی انقلاب کو کامیابی سے ہم کنار کر دیا۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: خواتین نے اسلامی انقلاب کے بعد بین الاقوامی اور سیاسی سرگرمیوں نیز دفاع مقدس، دفاع حرم میں انتہائی اہم کردار ادا کیا؛ ایرانی خاتون نے ملک کے گہرے تاریخی تشخص اور شناخت، ثقافت، کا وقار، حیاء اور پاکدامنی کے ساتھ تحفظ کیا ہے؛ اور اسی بنا پر آج تک ان عارضوں سے محفظ ہے جن سے مغربی ممالک دوچار ہیں اور ان شاء اللہ پھر بھی اسی انداز سے اپنا سفر جاری رکھے گی۔

رہبر معظم نے فرمایا: یونیورسٹیوں اور حوزہ ہائے علمیہ میں ہونے والی سائنسی اور تحقیقاتی سرگرمیوں میں خواتین کا کردار بہت روش اور تابندہ ہے۔ آج خاتون مجتہدین کی کوئی کمی نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ زنانہ مسائل میں، مردوں کی تشخیص مناسب اور درست نہیں ہے، چنانچہ خواتین کو، خاتون مجتہدین کی تقلید کرنا چاہئے۔

آّپ نے فرمایا: ایران میں سائنسدان، پروفیسر، مصنف، شاعر اور دینداری و حیاء کا تحفظ کرنے والی فنکار خواتین کی پیشرفت اور نشوونما، انقلاب سے قبل کے زمانے سے قابل قیاس نہیں ہے۔ اگرچہ دشمن بھی بے کار نہیں بیٹھا ہے، دشمن بھی منصوبے بنا رہا ہے، اسلامی جمہوری نظام کے دشمن بہت جلد سمجھ گئے کہ انقلاب کو سخت شیوؤں (اور ہارڈویئر طریقوں) سے شکست دینا ممکن نہیں ہے، چنانچہ وہ نرم شیوؤں (اور سافٹ ویئر طریقوں) کی طرف چلے گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ جنگ، بمباری، فتنہ پرور قوتوں، قبیلہ پرستی اور ان جیسی دوسری چیزوں سے اسلامی ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا وہ نرم شیوؤں کی طرف چلے گئے۔ وسوسہ انگیز تشہیری مہم، جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہے جو ان کے نعروں میں دکھائی دیتا ہے، ایک نام رکھتے ہیں، جیسے عورت کا تحفظ، نسوان کمیونٹی کا تحفظ، یا نسوانی گروپ کا دفاع یا پھر ایک عورت کا دفاع۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: کسی ملک میں بدامنی اور بلوؤں کو ہوا دے کر خواتین کے دفاع کا دعویٰ کرنا، بدخواہوں کے جھوٹے نعروں کی ایک مثال ہے۔ چنانچہ ہماری لڑکیاں، ہماری خواتین، ہماری خواتین اساتذہ، ہماری طالبات اور خواتین کی پوری کمیونٹی اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھیں اور ملک میں خواتین کے مسائل میں اقدار سے انحراف کو ہوا دینے کے حوالے سے بدخواہوں کے وسوسوں، کینہ ورانہ چالوں اور نرم جنگ سے نمٹنے کو کافی شافی اہمیت دیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں خطے کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خطے میں ایک حرکت شام کی سرزمین پر شروع ہوئی، اور جن جرائم کا ارتکاب صہیونی ریاست اور امریکہ کر رہے ہیں، اور جو مدد [قابض دہشت گردوں کو] کچھ دوسرے بہم پہنچا رہے ہیں، ان ہی کی بنا پر دشمن نے گمان کیا کہ گویا مقاومت کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے، لیکن وہ شدید غلطی پر ہیں۔

آپ نے فرمایا: سید حسن نصراللہ اور السنوار کی روحیں زندہ ہیں، شہادت نے انہیں میدان وجود سے خارج نہیں کیا، ان کا جسم چلا گیا اور ان کی روح، ان کی فکر اور ان کا مشن جاری و ساری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہر روز غزہ پر حملے ہو رہے ہیں، ہر روز انہیں شہید کیا جاتا ہے، مگر کھڑے ہیں اور پھر بھی استقامت کر رہے ہیں، لبنان استقامت کر رہا ہے، البتہ صہیونی ریاست اپنے خیال سے، خود کو شام کے راستے سے تیار کر رہا ہے تا کہ اس کے بزعم، حزب اللہ کو محصور کرے اور اس کی بنیادوں کو اکھاڑ دے۔ لیکن جس کی بنیادیں اکھڑیں گی وہ خود اسرائیل ہے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے مقاومت کے ساتھ کھڑے  نے فرمایا:

رهبر انقلاب با تأکید بر ایستادگی ایران در کنار مبارزان فلسطینی و مجاهدان حزب‌الله و تداوم هرگونه حمایت و کمک ممکن به آنها، ابراز امیدواری کردند مجاهدان روزی را ببینند که دشمن خبیث در زیر پاهای آنها لگدمال شود.

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے مقاومت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا:

ہم فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہیں، حزب اللہ کے مجاہدینِ فی سبیل اللہ کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ان کی حمایت کرتے ہیں، جہاں تک کرسکیں ان کی مدد کرتے تھے، اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ [فلسطینی اور لبنانی مجاہدین] اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اس دن کو جب ان کا خبیث دشمن ان کے پاؤں تلے روندا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110