اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
ایک دن تھا، عاشورا نامی، جس کے ظہر کو اس خاتون نے اپنے خاندان کے معطر زخموں
پر بوسہ دینے اور تن تنہا ایک خاتون کا پورا فرض پورا کرنے کا فیصلہ
کیا۔
وہ بم برساتے ہیں، متواتر بلاناغہ۔ گھر پورا لرز اٹھتا ہے اور ایک ثانیے میں
پوری زندگی زینب کی آنکھوں کے سامنے اجڑ جاتی ہے، لیکن گھر میں ہے کون؟ زیدب کے ننھے
منے بچے اور بچیاں؛ وہ سب اپنے بستروں پر اٹھنے کے لئے تیار، بیٹھے تھے اور ان کے
ہاتھ نقاہت اور بھوک و پیاس کی شدت سے کانپ رہے تھے، وہ منتظر تھے کہ مماں زینب ان
کے لئے روٹی کا کوئی نوالہ یا پانی کا کوئی گھونٹ فراہم کرسکے گی یا نہیں!
زینب گھر سے نکل
کر پانی کی ایک بوتل اور دو یا تین سوکھی روٹیاں لے کر واپس آتی ہے۔ بڑی خوش ہے،
کہ کھانے پینے کی اشیاء کے کھوٹے میں سے اتنا کچھ حاصل کرسکی ہے، اتنی خوش کہ گویا
فضاؤں میں پرواز کر رہی ہے، لیکن جب اس عمارت کے سامنے پہنچ کر، چابی ہاتھ میں لے
کر، کھڑی ہوجاتی ہے جس میں ان کا فلیٹ واقع ہے، تو ہاتھ پاؤں کھو دیتی ہے، فلیٹ بم
کا نشانہ بن کر تباہ ہو چکا ہے اور ملبے پر جسموں کے ٹکڑے چپکے نظر آتے ہیں اور دیکھتی
ہے کہ بچوں کے جسموں کے ٹکڑے جمع کرنا بھی اس کے لئے ممکن نہیں۔
دنیا جو رکنے کا
نام نہیں لیتی
زینب کے گھٹنے
سست ہو جاتے ہیں، پاؤں کانپنے لگتے ہیں، پیچھے پیچھے چلی جاتی ہے اور امدادی
کارکنوں کے لئے راستہ کھول دیتی ہے، اور ان لوگوں کے لئے جو اس کے بچوں کی لاشیں لوہے
کے گاڈرز اور کنکریٹ کے ٹکڑوں کے بیچ سے نکالنے آئے ہیں۔ اندر سے کچلی جاتی ہے، غم
گلے میں پھنس جاتا ہے اور اس کا گلا گھونٹنے لگتا ہے، لیکن اچانک سنبھل جاتی ہے، آنسوؤں کو
پونچھ لیتی ہے، ایک غم بھری لمبی سانس کھینچ لیتی ہے اور سکون و وقار کے ساتھ آگے
بڑھتی ہے، روٹیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے گھر کے ملبے پر نچھاور کرتی ہے، تاکہ اس
کے بچوں کی جگہ پرندے آکر پیٹ بھر کر کھا لیں!
گویا دنیا کی
حرکت زینب کے لئے رکی نہیں ہے، اور زندگی اس کے بچوں کی شہادت کے باوجود، جاری و
ساری ہے۔
زینب اچانک خود
کو کیا سمجھ لیتی ہے کہ لامتناہی دکھ اور صدمے کے مقابلے میں صبر اور استقامت کے
اس درجے پر فائز ہوجاتی ہے! زینب کیونکر اتنی طاقتور ہو جاتی ہے؟ ہنستی ہے اور
آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی ہے "مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلًا"؟ غزاوی
زینب اچانک کرب و بلا کی زینب بن جاتی ہے!
ہر لمحہ زینب
ہونا اور زینب رہنا
ان دنوں ہم اپنے
کاموں میں مگن ہیں، موسم خزاں کی خنکی نے ہمیں نے ہماری جانوں
کو تروتازہ کر دیا ہے۔ اور ہمارے وطن [ایران] کے امن و سلامتی نے ہمیں اپنی آغوش
میں لیا ہؤا ہے اور ہمیں اطمینان ہے کہ کوئی بم یا میزائل ہمارے گھروں کے اوپر گھونے
کی جرات تک نہیں کر سکتا؛ اسی مغربی ایشیا میں، ایک دو ہزار کلومیٹر دور ایسی
لڑکیاں، عورتیں، بیویاں اورمائیں اور بہنیں ایسی ہیں جنہیں ہر دن، ہر ساعت، ہر منٹ
اور حتیٰ ہر لمحے زینب بننا اور زینب بن کر رہنا پڑتا ہے۔
حقیر آزادیاں
برسوں سے آزادی
نسواں ـ خاص طور پر Feminism پر مبنی ـ تحریکوں نے عورتوں کی آزآدی کے نام پر، عورت کے نام کو اپنے
حقیر اور آلودہ مطالبات کے ساتھ مخالوط کرکے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سیاسی
عزائم کا اوزار بنا لیا ہے؛ یہاں تک کہ میں اور بہت سی خواتین اور لڑکیاں بھول چکی
ہیں کہ عورت ہونا اور عورت کی حیثیت ـ مردوں کے ساتھ ہمارے جنسی تفاوت اور فرق، سے
ـ کہیں بڑھ کر ہے۔ اور ہم غافل سے ہیں اپنی تاریخی حقیقت سے غافل ہیں کہ عورت اتنی
طاقتور ہو سکتی ہے اور کمال کے اس درجے پر فائز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، کہ عاشورا
جیسے عظیم ترین تحریک کی علمدار بن سکتی ہے اور کہنے کے لئے اس کے باس بہت سی زنانہ
باتیں بھی ہو سکتی ہیں، ایسی باتیں کہ مردوں اور عورتوں کو تاریخی غفلتوں سے بیدار
کر سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدہ زینب (سلام
اللہ علیہا) ایسی ہی ایک عورت ہیں، ماں ہیں اور بہن ہیں۔ یہ بی بی اپنی آسمانی روح
کے ساتھ، ان تمام مادرانہ، خواہرانہ اور زنانہ جذبات و احساسات کی حامل تھیں جو آج
کی عورت میں بھی پائے جاتے ہیں اور یقینا یہ احساسات سیدہ(س) میں کئی گنا پختہ
ہونگے اس لئے کہ وہ خاتون ہونے کے علاوہ ایک آسمانی روح کی حامل، سیدہ، صحابیہ اور
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نواسی اور امیرالمؤمنین و سیدہ زہراء (علیہما
السلام) بیٹی اور حسنین کریمین (علیہما السلام) کی ہمشیرہ بھی تو تھیں۔ چنانچہ وہ اپن بیٹوں سے محبت کرتی تھیں،
بھائیوں سے محبت کرتی تھیں اور بھائیوں کے فرزندوں کو بھی جان سے زیادہ عزیز رکھتی
تھیں۔ لیکن عاشورا کے نام کے دن، بوقت ظہر، اسی خاتون نے اپنے خاندان کے معطر زخموں پر بوسہ دینے اور تن تنہا ایک خاتون کا پورا فرض پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیا ہم سرتسلیم
خم کریں گے؟
آیئے چند دقیقوں
تک مردوں کو اپنا حال پر چھوڑ دیں، اور صرف زنانہ انداز سے تصور کریں کہ دشمن ایک
دن کے ظہر کے وقت دشمن ہمارے 18 مردوں، بیٹوں اور عزیزوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے؛ تو
ہم بحیثیت عورت کیا کہیں گی؟ ہمارا کیا حال ہوگا؟ کیا پوری دنیا ملبہ بن کے ہمارے
سر پر نہیں گرے گی؟ کیا ہم اس قدرنالہ و شیون نہیں کریں گی اور اپنے چہروں کو نہیں کھرچیں گی
کہ جان ہمارے بدن میں باقی نہ رہے؟ کیا لق و دق اور خون سے بھری اور انسانی جسموں
کے اعضاء سے پوشیدہ صحرا میں خوفناک تنہائی سے نہیں ڈریں گی؟ کیا ہم سرتسلیم خم
نہيں کریں گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب واضح ہے،
کیونکہ "زینب" ہونے اور "زینب" بننے کا تصور غیر ممکن نہیں
ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک نظر غزہ کی خونین پٹی پر ایک نظر ڈالیں۔ وہاں تمام خواتین
چھوٹی زینبیں ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کے ذبح ہونے
پر، آہ اور سسکیوں سے بڑھ کر کوئی بڑی ذمہ داری اپنے لئے مقرر کی ہوئی ہے۔ وہ
خواتین کرب و بلا کی سرزمین پر شیاطین کے سامنے رجال اللہ
کے قیام کے صدیاں بعد، بدستور، جانتی ہیں کہ حق کی صدا جہانیوں تک پہنچانے کے لئے
"زینب" بننا چاہئے اور کٹی پھٹی لاشوں کے صدمے پر "مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلًا" کہنا چاہئے۔
ایک ابدی حق و
باطل
کیا حق بدل بھی جاتا ہے؟ اور کیا باطل اس کے سوا کچھ اور ہے کہ ہر روز نئے کالْبُد میں حلول کرتا اور ڈھل جاتا ہے؟ جی ہاں ایسا ہے، تو جب ہے تو کربلا وہ
سرزمین اور عاشورا وہ دن ہرگز نہیں ہے کہ 10 محرم سنہ 61 ہجری کو سرزمین عراق میں
ہی اختتام پذیر ہوجائے،
بقول اقبال:
موسی و فرعون و شبیر و یزید
*** این دو قوت از حیات آید پدید
زنده حق از قوت شبیری است
*** باطل آخر داغ حسرت میری است
پس، "زینب(س)"
وہ خاتون نہیں ہے کہ اسی تاریخ تک محدود ہو کر فنا ہوجائے؛ زینب ایک متحرک اور پائندہ دھارے کا نام ہے، ایسا
دھارا جو ایک عورت کے مزاحمت کا محور
بننے سے شروع ہوتا وہ بھی تمام تر غموں کی یلغار کے عین وقت پر، جبکہ وہ غم اور دکھ
اسے مفلوج بھی کر
سکتے تھے۔ "زینب" ایک روش نشان ہے، ایک چراغ راہ، ان تمام عورتوں کے لئے
جنہیں نہیں ملعوم کہ "عورت ہونا کیا ہے، اور عورت کون ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت کون ہے؟
عورت ایک نور
ہے، اور وہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی مانند، جو اللہ کی امانت کا بوجھ ـ حتیٰ
خون، آگ اور طعنوں کے میدان میں بھی ـ منزل مقصود کی طرف لے کر جاتی ہے، اور یقین
و اطمینان کے ساتھ اپنے زمانے کے فرعونوں کے مقابلے میں کھڑی ہوجاتی ہے، اس انداز
سے کہ تاریخ ایک عورت کی طاقت کے سامنے متحیر ہوجاتی ہے، اور آج تک اسے انگشت
بدندان رکھتی ہے۔ عورت ہونا، آسان نہيں ہے۔ عورت ہونے اور عورت رہنے کے لئے غیر معمولی اور
استثنائی اور دنیا کے تمام مردوں سے کہیں بڑھ کر طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں کہ
اپنے لخت جگر کے بدن کے ٹکڑے دیکھ لے اور کہہ دے "الحمد للہ"۔ عورت ہونے
کا مطلب یہ ہے کہ فاقہ کشیوں کے باوجود روٹی کے ایک نوالے کی خاطر زمانے کے شیاطین
کے سامنے سر خم نہ کرو، عورت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خونخوار مغربی تہذیب کی شدید
ترین بمباریوں کے باوجود، جب گھر کی دیواریں تمہارے سر پر گر رہی ہوں، کوئی نامحرم
تمہارے سر کا ایک بال بھی نہ دیکھے۔ لیکن تمہاری حق طلبی کی صدا پوری دنیا میں گونج
اٹھے۔ چھوٹی زینب کا مطلب یہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت ہونا ـ اگر
ہم صرف آنکھیں، ابرو، بھؤیں، رخسار و بدن ہی نہ رہنا چاہیں ـ دنیا کا پیچیدہ ترین
اور مشکل ترین عمل ہے۔ عورت ہونے کے لئے طاقت کی ضرورت ہے، استقامت کی ضرورت ہے،
غیرت کی ضرورت ہے، اور معطر زخموں پر بوسہ دینا، آسان نہیں ہے۔ عورت ہونے کے لئے
چھوٹی چھوٹی زینبوں کی ضرورت ہے، پیہم استقامت کے لئے مسلسل جنم والے فرعوں کے
مقابلے میں۔۔۔ وہ بھی آج کے زمانے کی طرح کے زمانوں میں جب امت کے مردوں کے لئے
غیرت کے تاریخی اسلامی قصے قصۂ پارینہ بن چکے ہوں اور وہ دشمن کی مسلسل بےشرمانہ یلغار
سے آنکھیں چرا رہے ہوں اور بےشرمانہ بے غیرتی کو عزت کے ساتھ مقابلہ کرنے پرترجیح
دے رہے ہوں۔
غزاوی زینب، اپنی
بیٹیوں اور بیٹوں کے کے کفن میں لپٹے جسموں کے پاس بیٹھتی ہے، انہیں دیکھتی ہے،
ایسی نگاہ سے جو پروردگار کی رحمت پر یقین سے سرشار ہے، اور مسکراتی ہے! مسکراتی
ہے اور ان کے کٹے ہوئے گلوں پر بوسہ دیتی ہے اور دشمن کے میزائلوں اور بموں کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ـ صہیونیت اور سامراجیت کی دہلیز پر سجدہ ریز عرب اور
مسلم ممالک کے شکم پرست، بے غیرت، غدار اور نادان حکمرانوں کے برعکس ـ نعرہ لگاتی
ہے کہ "بنت سیدنا علی بن ابی طالب کی مانند مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلًا".
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110