اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

17 جون 2024

1:00:36 AM
1465927

یہ صدا کسی کی ہے؟ یہ صدا ہم سے کیا چاہتی ہے؟ یہ صدا ہمیں اپنی زندگی کی خوشیوں میں مگن اور ہمارے آبخور کو گرم کیوں نہیں رہنے دیتی؟ یہ صدا، یہ نَجویٰ، یہ مکتوب ـ جس کا لب و لہجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مشابہت رکھتا ہے ـ ہمیں کس قافلے کی طرف بلا رہا ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 
"جو مجھ سے آ ملے وہ شہید ہوگا اور جو مجھ سے پیچھے رہ جائے [اور میرا ساتھ چھوڑ دے] وہ ہرگز فتح کے مقام تک نہیں پہنچے گا۔ والسلام"۔ سوال مکی اور مدنی کیا کریں حسین بن علی (علیہما السلام) کے اس مختصر ترین آخری خط کے ساتھ؛ ایسا خط جو ایسے دو واضح، روشن، دوٹوک اور صریح جملوں پر مشتمل ہے کہ حتیٰ کہ ان کے جواب میں ایک لفظ کو بھی کاغذ پر اترنے کی ہمت نہیں ہے۔

دونوں شہر مکمل طور پر کرہ ارضی پر میخ بند ہو چکے ہیں۔ یہ صدا کس کی ہے؟ یہ صدا کیا چاہتی ہے، یہ صدا ہمیں اپنی زندگی کی خوشیوں میں مگن اور ہمارے آبخور کو گرم کیوں نہیں رہنے دیتی؟ اور ہاں یہ صدا، یہ نَجویٰ، یہ مکتوب ـ جس کا لب و لہجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مشابہت رکھتا ہے ـ ہمیں کس قافلے کی طرف بلا رہا ہے؟

آٹھ ذوالحجہ سنہ 60ھ کی سحر کا وقت ہے۔ اور حسین بن علی (علیہما السلام) کا خط ایک جان لیوا اتمام حجت کی صورت اختیار کر گئے تمام تاریخوں اور تمام تاریخوں کے تمام آدمیوں کے لئے: "جو مجھ سے آ ملے وہ شہید ہوگا اور جو مجھ سے پیچھے رہ جائے [اور میرا ساتھ چھوڑ دے] وہ ہرگز فتح کے مقام تک نہیں پہنچے گا۔ والسلام"۔

کعبہ قافلۂ حسینیؑ کی آنکھوں کی طرف گھور کر آنسو بہا رہا ہے اور عباسؑ کا دامن پکڑے، نہ جانے کی سفارش کر رہا ہے۔ لیکن علم اٹھ چکے ہیں اور گھوڑوں اور اونٹوں کو ہانک دیا گیا ہے؛ اور شیطان کے سامنے لیت و لعل کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ بالکل اسی دن، جب کہ لوگوں نے زمین کو سی لیا ہے آسمان کے ساتھ، حج، احرام باندھنے، خانۂ محبوب کے گرد طواف اور اللہ کے حریم امن میں قدم رکھنے سے لذت اٹھانے کی خاطر؛ قافلۂ حسینیؑ با دل ناخواستہ مکہ کو ترک کر دیتا ہے، کربلا نامی قتلگاہ میں خون کا احرام باندھنے کی جانب؛ اس لئے کہ حقیقی شرّ زدہ شیطانی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کنکریاں پھینک دے اور "لبیک اللہم لبیک" کی صدا بلند کرتے ہوئے۔

یہ حسینؑ ہیں، جو ایسے ہی لمحموں میں مکہ کی پہاڑیوں کی بلندی پر کھڑے ہیں، سفید ریش ہیں، درمیانی عمر کے لگتے ہیں، سبز عمامہ سر پر سجائے ہوئے، ـ جس کی رنگت مدینہ کے کھجوروں کے درختوں کے پتوں کی یاددہانی کراتی ہے، ـ زیر لب دعائے عرفہ پڑھتے ہوئے، لوگوں کو اپنے قافلے پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو سرزمینِ وحی میں حجاج کی مصروفیات سے دور پڑ گیا ہے، اور گڑگڑا کر عرض کرتے ہیں: "اے پروردگار! تو مجھے کس کے سپرد کرے گا، کیا مجھے اس قرابتدار کے سپرد کرے گا جو مجھ سے منقطع ہوجاتا ہے؟ یا پھر اس اجنبی کے سپرد، جو مجھے خود سے دور کرے گا؟ یا ان لوگوں کے سپرد جو مجھے تنہا چھوڑیں گے؟ تو ہی میرا پروردگار ہے اور میرے امور پر حکمرانی کرتا ہے؛ میں تجھ ہی سے شکایت کرتا ہوں اپنی غریب الوطنی سے۔۔۔"۔

آہ، کتنے تنہا ہیں ابو عبداللہ الحسین (علیہ السلام) مکہ مکرمہ اور اللہ کے حرمِ امن میں، حسینؑ اور کعبہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہیں سوائے نیاموں میں چھپی ہوئی شمشیروں اور کینوں اور عداوتوں کے، جو احرام کے سفید لباسوں میں لپٹی ہوئی ہیں۔ لیکن ہم کیا سوچ رہے ہیں دل ہی دل میں میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کہ خدا کس کی صدا سنتا ہے؛ خدا سے بیگانہ سر مونڈے حاجیوں کی کھوکھلی لبیک گوئیوں کو؟ یا نہیں، بلکہ فاطمہؑ کے حسینؑ کی دل نشین التجاؤں کو؟ کیا اللہ ان بے مقصد حاجیوں کی قربانیاں قبول کرے کو مینڈھوں اور بکروں، یا اونٹوں اور بیلوں کو قربانی کے لئے پیش کر رہے ہیں؟ یا اس قافلۂ سادات کو جو خود مسلک عشق میں قربان ہونے کے لئے آگے بڑھ کر آئے ہیں؟

ناناؐ نے فرمایا: "يَا حُسَينُ‌! اُخْرُجْ، فَإِنَّ اللّهَ قَدْ شَاءَ أنْ يَرَاكَ قَتِيلاً؛ ای حسینؑ! عزیمت کرو؛ کیونکہ خدائے متعال نے کی حتمی مشیت ہے کہ تمہیں مقتول دیکھ لے"، دشت و صحرا کی تپتی ریت پر گرا ہؤا مقتول، مقطوع الاعضاء، سر بریدہ، خون میں لپٹا مقتول؛ یوں کہ تمہاری کٹی ہوئی رگیں زمین کی رگوں کے ساتھ گھل مل جائیں؛ اور جن و ملک، زمین اور آسمانوں کے باسی، تمہاری قربان گاہ اور اس میدان اور خیام کے درمیان تمہاری سعی [اور ہرولہ] دیکھ کر تمہارے خونِ مبارک کے زمزم پر آہ و فریاد کے لئے پہنچ جائیں؛ اور زینب (سلام اللہ علیہا) قافلۂ فتح کے حج کے عمل کو اپنے بھائیوں کے پاش پاش جسموں کی عیدالاضحیٰ پر مکمل کر دیں، اللہ سے التجا کرتے ہوئے کہ "اَللّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا هَذا قَلِيلَ اَلْقُرْبَانِ؛ یا اللہ! ہم سے یہ قلیل سی قربانی قبول فرما!

یہ کیسا امتزاج ہے اشتیاق اور انتہائی سخت آزمائش کا؟ اور یہ کیا بزم ہے جس میں جام بلا اس انداز سے مقربان کو عطا کیا گیا ہے: حجِّ خون!

یا رب! تیرا یہ قبول کر لینا کتنا دشوار ہے کہ گھوڑے، کرامت انسانی کے احیاء کی راہ میں، حسینؑ کے جسم اطہر کو پامال کریں! اور تیرا یہ قبول کرنا کہ حسینؑ  شہید ہو جائیں، اس لئے کہ ہم قافلۂ حسینیؑ سے پیچھے رہنے والوں کے پاس بھی کچھ سہارا ہو کہ فلاح و رستگاری کے لئے، اور حقیقی حج تک پہنچنے کے لئے؛ ایسا حج جس میں حق باطل پر اور خون، بنی آدم کی جان شیریں پر مقدم ہو جائے۔ ایسا حج جس میں فریضہ ان شیطانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہونے سے عبارت ہو، جن کے وسوسوں کا ہر روز سامنا ہے ہمیں، وہی جو بہت سوں خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور مظلومین کے خون کے دریا بہاتے ہیں، اور کربلا اور عاشورا رقم کرتے ہیں غزہ جیسی چھوٹی سی سرزمینوں پر۔

اور ہاں! کیا ہم نے اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالی ہے؟ اور کیا ہم نے حسینؑ کے خط پر نظر ڈالی ہے جس میں مکتوب ہے؛ یہ صدائے حسینؑ ہے جو ہمیں بلا رہی ہے: "فَإِنَّ مَنْ لَحِقَ بِي مِنْكُمْ أُسْتُشْهِدَ وَمَنْ تَخَلَّفَ لَمْ يَبْلُغْ مَبْلَغَ الْفَتْحِ. وَالسَّلَام؛ جو مجھ سے آ ملے وہ شہید ہوگا اور جو مجھ سے پیچھے رہ جائے [اور میرا ساتھ چھوڑ دے] وہ ہرگز فتح کے مقام تک نہیں پہنچے گا۔ والسلام"۔

یہ حسین کی صدا ہے جو سنائی دے رہی ہے: "هَلْ مِنْ ناصِرٍ یَنْصُرُنی؛ تو کوئی ہے جو حسین کی مدد کرے؟ کیا آپ کو غزہ اور فلسطین سے حسین کی صدا سنائی نہیں دے ہی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110