عبارت "أَمَّنْ يُجِيبُ ۔۔۔" سورہ نمل
کی آیت 62 کے ضمن میں نازل ہوئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے آپ
کو ہی انسان کی آزمائشوں میں دعا کی قبولیت کا مرجع قرار دیا دیا ہے۔ عبارت یہ ہے:
"أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ؛ کون ہے جو اس مضطر و پریشان شخص کی فریاد کی اجابت کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور
سختیوں کو زائل کرتا ہے"۔ عرف عام میں اس کو "دعائے امن یجیب" کہا
جاتا ہے
عبارت "أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ" سورہ نمل کی آیت 62 کے ضمن میں نازل ہوئی ہے۔ عرف عام میں اس کو "دعا" سے تعبیر کیا جاتا ہے اور سفارش ہوئی ہے کہ اس دعا کو مشکلات اور آزمائشوں کے دوران پڑھا جائے۔ بعض ممالک میں "ختم امن یجیب" کے نام پر ایک تقریب بھی مرسوم ہے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ عبارت توحید کے بارے میں ہے اور اس میں مشرکین سے پوچھا گیا ہے کہ کیا وہ بہتر ہے جو درماندہ اور عاجز و بے بس انسانوں کی دعا قبول کرتا ہے یا تمہارے وہ معبود جو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
بعض احادیث اور شیعہ مفسرین کے کلام کے مطابق، یہ آیت امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے ميں نازل ہوئی اور "مضطر" آپؑ ہی ہیں لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ امام مہدی (علیہ السلام) اس آیت کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہیں اور اس آیت میں تمام مضطرین اور درماندہ افراد سے خطاب ہؤا ہے اور انہیں وعدہ دیا گیا ہے کہ ان کی دعا قبول ہوگی۔
امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے استاد عارف سالک میرزا جواد مَلِکِی تبریزی، نے سفارش کی ہے کہ جو شخص ماہ مبارک کو رمضان اپنی ذات میں کسی [روحانی] تبدیلی کے بغیر گذار دے وہ سختیوں پر غلبہ پانے اور اپنی ذات کی اصلاح کی غرض سے اللہ سے مدد مانگے اور آیت امن یجیب کو زبان حال کے طور پر پڑھ لے۔ (1)
امن یجیب کا تعلق توحید سے
اس آیت میں تاکید ہوئی ہے کہ انسان مختلف قسم کے شدائد اور سختیوں میں صرف اللہ سے رجوع کر سکتا ہے، چنانچہ اس مفہوم کو توحید سے متعلق قرار دیا ہے۔ (2)
آیت اللہ مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ خدائے متعال نے اس آیت میں اور اس سے پہلے اور بعد کی چند آیتوں میں ـ جو 'اَمَّنْ" سے شروع ہوئی ہیں ـ سوالیہ انداز سے، توحید کے روشن ترین دلائل بیان فرمائے ہیں اور مشرکین پر مقدمہ چلایا ہے۔ (3) یہ سوال مشرکین سے پوچھے گئے پانچ سوالات میں، تیسرا سوال ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ مشرکین سے پوچھتا ہے: کیا جو درماندہ انسانوں کی دعا قبول کرتا ہے، اللہ ہے یا نہیں بلکہ تمہارے بے جان معبود ان کی دعا قبول کرتے ہیں۔ (4)
مضطر کون ہے؟
شیعہ مصادر میں منقولہ روایات میں امام مہدی (علیہ السلام) کو مضطر قرار دیا گیا ہے۔ ابو الحسن، علی بن ابراہیم بن ہاشم قمی (بقید حیات تا سنہ 307ھ) نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ سورہ نمل کی آیت 62 قائم آل محمد (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور وہ حقیقی مضطر ہیں جو ظہور کے بعد مقام ابراہیم میں نماز بجا لانے کے بعد دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپؑ کی دعا قبول فرماتا ہے اور "کشف سوء" (اور آزمائشوں اور مسائل زائل کرنے کے بعد) آپؑ کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا۔ (5)
ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم نعمانی (متوفیٰ 360ھ) نے اپنی کتاب "الغیبہ" نے مذکورہ آیت کی تقسیر میں محمد بن مسلم سے، امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: سورہ نمل کی آیت 62 امام مہدی (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے، جب کعبہ میں ظہور کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) اور 313 اصحاب خاص آپؑ کے ساتھ بیعت کریں گے"۔ (6)
بہاء الدین (یا قطب الدین) محمد بن شیخ علی لاہیجانی المعروف بہ "شریف لاہیجی" (متوفیٰ سنہ 1088ھ یا 1095ھ) نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) کی دو حدیثوں کی روشنی میں، لکھا ہے کہ یہ آیت قائم آل محمد (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ (7)
"دعائے ندبہ" ـ جسے ابن المشہدی، (محمد بن جعفر) (متوفی 610ھ) نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے ـ کے ایک اقتباس میں کہا گیا ہے کہ امام مہدی (علیہ السلام) وہ مضطر ہیں جن کی دعا مقبول ہے: "أَيْنَ الْمُضْطَرُّ الَّذِي يُجابُ إِذا دَعا؛ کہاں ہے وہ مضطر جو کہ جب دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے"۔ (8)
علامہ سید محمد طباطبائی (ولادت 16 مارچ 1903ع | وفات 1981ھ) نے المیزان میں اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے مذکورہ دو حدیثوں میں، سورہ نمل کی آیت 62 کی شان نزول کا تذکرہ کرتے ہوئے امام مہدی (علیہ السلام) کو عنوان "مضطر" کا ایک مصداق قرار دیا ہے اور لکھا ہے: یہ آیت کریمہ تمام مضطر اور پریشان انسانوں پر صادق آتی ہے۔ (9) علی بن ابراہیم قمی نے مذکورہ احادیث میں مصداق کے بیان کو آیت کی تأویل اور قرآن کا باطن قرار دیا ہے۔ (10)
اضطرار اور دعا کی قبولیت کے درمیان تعلق
علامہ امین الاسلام فضل بن حسن طبرسی (متوفیٰ 548ھ)، ملا فتح اللہ شریف کاشانی بن ملا شکراللہ شریف کاشانی (متوفیٰ 988ھ) اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی جیسے مفسرین قرآن نے سورہ نمل کی آیت 62 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی دعا کو مستجاب کرتا ہے؛ لیکن چونکہ مضطر کی فریاد و تمنا زیادہ طاقتور اور خاضعانہ اور منکسرانہ ہے۔ اضطرار کو دعا کی قبولیت کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ (11) شیخ محمد بن حبیب اللہ سبزواری نجفی، (عزیزی) (ولادت 1318ھ وفات 1409ھ) نیز علامہ طباطبائی نے آیت کریمہ میں اضطرار کو حقیقی التجا اور فریاد کی نشانی قرار دیا ہے۔ (12) شیعہ مفسرین آیت میں "مضطر" وہ شخص ہے جو کسی سختی اور شدت کی وجہ سے خدا کی پناہ مانگ رہا ہے اور خدا کے سوا دوسروں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔ (13) ابو اسحاق احمد بن محمد ثَعْلَبی نیشابوری، محمود بن عمر الزَمَخْشَری الخوارزمى، فخر الدین رازی، محمد بن عمر تَیْمیِّ بَکْریِّ اور عبداللہ بن عمر بن علی البیضاوی الشیرازی الشافعی، (14) اہل سنت کے مفسرین اور علماء ہیں جنہوں نے اس معنی کو قبول کر لیا ہے۔
کیا ہر مضطر اور درماندہ شخص کی دعا قبول ہوتی ہے؟
فتح اللہ شریف کاشانی جیسے شیعہ علماء کے مطابق، آیت کریمہ میں لفظ "مضطر" تمام مضطر افراد پر صادق نہیں آتا، کیونکہ بہت سے مضطر اور پریشان لوگ دکھائی دیتے ہیں جو دعا کرتے رہے ہیں لیکن اللہ نے ان کی دعا کی اجابت کو مصلحت نہیں گردانا ہے۔ (15) الزمخشری، فخر الدین رازی، البیضاوی، شہاب الدین محمود بن عبداللہ الآلوسی الشافعی اہل سنت کے اکابرین ہیں جو مذکورہ رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ (16) شریف لاہیجی کہتے ہیں: صحیح بات یہ ہے کہ تمام مضطر اور پریشان اور بے بسوں کی دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ اگر کسی کی دعا قبول نہیں ہوئی ہو تو وہ اضطرار کے عروج تک پہنچا ہی نہیں ہے۔ (17) یہ قول کافی معتبر نظر آتا ہے اور اس سے اس قول کو تقویت پہنچتی ہے کہ صرف امام مہدی (علیہ السلام) ہیں جو مضطر ہیں اور آپؑ ہی کی دعا قبول ہوگی جس وقت کے ظہور فرمائیں گے کعبہ المکرمہ کے پہلو میں اور اصحاب خاص آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور دنیا میں عالمی مہدوی نظام کے قیام کا آغاز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ملکی تبریزی، المراقبات، 1388ش، ص261۔
2۔ قرشی، تفسیر احسنالحدیث، 1391ش۔ ج7، ص481۔
3۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371-1374ش، ج7، ص512-513۔
4۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371-1374ش، ج15، ص517۔
5۔ قمی، تفسير القمی، 1404ق، ج2، ص129۔
6۔ النعمانی، الغيبه، 1379ق، ص314۔
7۔ شریف لاهیجی، تفسير شريف لاهيجى، 1373ش، ج3، ص435-436۔
8۔ شیخ عباس محدث قمی، مفاتیح الجنان، ص728۔
9۔ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج15، ص391؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج15، ص521-522۔
10۔ قمی، تفسير القمی، 1404ق، ج2، ص129۔
11۔ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج7، ص358؛ شریف کاشانی، زبدۃ التفاسير، ج5، ص116؛ مکارم شیرازی، پیدایش مذاہب، ص96۔
12۔ سبزواری، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن، ص387؛ علامہ طباطبائی، المیزان، ج15، ص381۔
13۔ دیکھئے: ابو الفتوح رازی، جمالالدین ابوالفتوح حسین بن علی بن محمد بن احمد خزاعی رازی (متوفیٰ 552ھ)، رَوضُ الجِنان و رَوحُ الجَنان فی تفسیر القرآن، ج15، ص65؛ کاشانی، زبدۃ التفاسير، ج5، ص116؛ ملا محسن فیض کاشانی، محمد بن مرتضیٰ، تَفسیرُ الصّافی، ج4، ص71؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج15، ص520-521۔
14۔ الثعلبی، الکشف و البیان، 1422ق، ج7، ص219؛ الزمخشری، الکشاف، ج3، ص376-377؛ فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج24، ص565؛ البیضاوی، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، 1418ق، ج4، ص165۔
15۔ کاشانی، زبدة التفاسير، 1381ش، ج5، ص116۔
16۔ الزمخشری، الکشاف، ج3، ص376-377؛ فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، ج24، ص565؛ البیضاوی، انوار التنزیل، ج4، ص165؛ الآلوسی، تفسیر روح المعانی، ج20، ص291۔
16۔ شریف لاهیجی، تفسير شريف لاهيجى، 1373ش، ج3، ص435۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110