اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

27 مئی 2024

3:34:13 AM
1461492

ایک تحقیقی کاوش؛

امام علی ابن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کی ولایت عہدی / پیش منظر اور پس منظر / امامؑ کے موقف کی تشريح

امام رضا (علیہ السلام) نے مأمون عباسی سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تم لوگوں میں مشہور کرانا چاہتے ہو کہ على بن موسیٰ دنیا سے روگردان نہیں ہے مگر [بات یہ ہے کہ] دنیا ان کی طرف مائل نہیں ہو رہی ہے اور ایک دوسرے سے کہتے رہیں کہ: کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ انھوں نے خلافت کے لالچ میں ولایت عہدی کا عہدہ قبول کیا ہے!"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 


خلافت کی پیشکش اور امام رضا (علیہ السلام) کا انکار

تاریخ پر ایک نظر

ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ مأمون نے آغاز میں امامؑ کو خلافت کی پیشکش کی۔ [1]

مگر امامؑ نے منع فرمایا۔ مأمون امامؑ کو قائل کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہا مگر امامؑ نہیں مان رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کوششیں مرو میں دو مہینوں تک جاری رہیں مگر امامؑ مسلسل انکار کرتے رہے۔  [2]

مأمون امامؑ سے کہہ رہا تھا:  

"يا ابن رسول اللہ! قد عرفتُ فضلك وعلمك، وزہدك وورعك وعبادتك، وأراك أحقّ بالخلافة منّي؛

اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)، میں آپ کی فضیلت و برتری، علم و زہد، پارسایی اور خدا پرستی سے بخوبی واقف ہوچکا ہوں اور میری رائے ہے کہ خلافت کے آپ مجھ سے زیادہ مستحق ہیں۔۔"۔

امامؑ نے جواب دیا:

"دنیا میں زہد و پارسائی کے بدولت اس کے شر سے نجات کی امید رکھتا ہوں، گناہ سے پرہیز کرکے ثمرات و فوائد کی امید رکھتا ہوں اور دنیا میں منکسرالمزاجی کے ذریعے خدا کی بارگاہ میں مقام عالی کی امید رکھتا ہوں۔۔۔"۔

مأمون نے کہا:

"میں اپنے آپ کو خلافت سے معزول کرکے اسے آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں!"۔  

امامؑ نے جواب دیا:

"اگر یہ خلافت تمہاری ہے تمہیں خدائی خلعت کو اپنے بدن سے اتار کر کسی اور کو پہنانے کا حق نہیں پہنچتا اور اگر یہ تمہاری نہیں ہے تو جو چیز تمہاری ہے ہی نہیں تم وہ کیونکر میرے سپرد کرسکتے ہو"۔ [3]

تاہم مأمون نے پھر کہا:

"یہ آپ کی مجبوری ہے آپ کو یہ قبول کرنا پڑے گی!! کئی کئی دن مأمون امامؑ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا اور فضل بن سہل اور حسن بن سہل کو امامؑ کے پاس بھیجتا رہا تا آن کہ آخرکار ناامید ہؤا اور امامؑ نے خلافت کا عہدہ قبول نہیں کیا"۔

ایک دن مأمون کے وزیر "فضل بن سہل ذو الرياستين"، نے عوام کے سامنے آکر کہا:

"وا عجبا! کیا حیرت انگیز امر ہے یہ جو میں دیکھ رہا ہوں! اميرالمؤمنين مأمون خلافت "رضا کو سونپنا چاہتے ہیں مگر وہ اسے قبول نہیں کررہے اور کہتے ہیں کہ "مجھ میں اس امر کی طاقت نہیں اور میں ہرگز خلافت کے لئے ضروری قوت و صلاحیت نہیں رکھتا۔۔۔ واقعی کہ میں نے کبھی بھی امر خلافت کو اس قدر پامال ہوتا ہؤا نہیں دیکھا تھا"۔ [4]

دھونس دھمکی سے ولی عہدی کا عہدہ سنبھالنا / مامون کی امامؑ کو قائل کرنے کی کوشش

تاریخ اور حدیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ مأمون مختلف طریقوں سے امامؑ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے اپنی کوششوں کا آغاز کیا تھا جب امامؑ ابھی مدینہ میں ہی تھے اور مأمون مسلسل خط وکتابت کے ذریعے اپنا مدعا بیان کرتا تھا مگر اس کی کوششیں بالکل ناکام رہیں۔

اس کے بعد مأمون نے فضل ابن سہل کے رشتہ دار [5] "رجاء بن ابى ضحّاک" کو حکم دیا کہ امامؑ کو مدینہ سے مرو منتقل کرے اور یہ لوگ امامؑ کو آپؑ کی مرضی کے برعکس مرو لے گئے اور وہاں مأمون نے اپنی نئی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس نے دو مہینوں تک اپنی کوشش جاری رکھی اور حتیٰ ضمنی یا اعلانیہ طور پر امامؑ کو قتل کی دھمکی بھی دی مگر امامؑ نے ہرگز قبول نہ کیا یہاں تک کہ آپؑ کو ہر طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا؛ تو نہایت جبر و کراہیت کے ساتھ - حالت گریہ میں - ولایت عہدی کا عہدہ قبول فرمایا؛ اور لوگوں نے ولی عہد کے عنوان سے آپؑ کے ساتھ بیعت کی۔ یہ بیعت سات رمضان 201ھ کو انجام پائی۔

امامؑ کی ناراضگی کے بعض دلائل

اس حوالے سے ملنے والے متون متواتر ہیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

ابوالفرج اصفہانی [اموی] لکھتے ہیں:

"۔۔۔ مأمون، نے سہل کے بیٹوں فضل اور حسن کو علی بن موسى (علیہ السلام) کی خدمت میں روانہ کیا۔ ان لوگوں نے امامؑ کو ولایت عہدی کے عہدے کی پیشکش کی۔ امامؑ نے امتناع کیا۔ یہ لوگ اصرار کرتے رہے اور امامؑ انکار پر ڈٹے رہے حتیٰ کہ ان دو میں سے ایک نے دھمکی آمیز لہجہ اپنایا اور دوسرے نے بھی کہا: خدا کی قسم مأمون نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر آپ اس کی خواہش کو ٹھکرائیں تو میں آپ کا سرقلم کردوں!"۔ [6]

بعض دیگر راویوں نے لکھا ہے کہ مأمون نے امامؑ سے کہا:

"اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) یہ جو آپ اپنے آباء و اجداد سے اپنے مسموم ہوجانے کی روایت سناتے ہیں کیا اس بہانے سے اپنے آپ کو اس امر سے چھڑانا چاہتے ہیں اور لوگوں کے درمیان دنیا کے امور میں زاہد کے عنوان سے مشہور ہونا چاہتے ہیں؟

امام رضا (علیہ السلام) نے جواب دیا: خدا کی قسم جس روز سے اس نے مجھے پیدا کیا ہے میں نے ایک بار بھی جھوٹ نہیں بولا ہے اور نہ ہی میں نے دنیا کمانے کی خاطر زہد کا راستہ اپنایا ہے؛ اور ساتھ ہی میں بخوبی جانتا ہوں کہ تمہارا مقصد کیا ہے اور در حقیقت مجھ سے کیا چاہتے ہو۔

مأمون: میں کیا چاہتا ہوں؟

امام رضا (علیہ السلام): اگر میں سچ بولوں تو کیا امان ہوگی؟

مأمون: ہاں آپ امان میں ہونگے۔

امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: تم لوگوں میں مشہور کرانا چاہتے ہو کہ على بن موسیٰ دنیا سے روگردان نہیں ہے مگر [بات یہ ہے کہ] دنیا ان کی طرف مائل نہیں ہو رہی ہے اور ایک دوسرے سے کہتے رہیں کہ: کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ انھوں نے خلافت کے لالچ میں ولایت عہدی کا عہدہ قبول کیا ہے!

مأمون غضبناک ہؤا اور کہنے لگا: آپ کا رویہ میرے ساتھ ہر وقت ناخوشایند ہوتا ہے حالانکہ میں نے آپ کو امان دی۔ خدا کی قسم اگر آپ ولایت عہدی کا عہدہ قبول نہ کریں تو میں آپ کو یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور کروں گا اور اگر پھر بھی منع کریں تو آپ کا سر تن سے جدا کروں گا۔ [7]

ریّان کہتے ہیں:

"میں نے امام رضا (علیہ السلام) سے پوچھا: آپ نے ولایت عہدی کا عہدہ کیوں قبول فرمایا: امامؑ نے فرمایا: "خدا جانتا ہے کہ میں اس امر سے کتنی نفرت کرتا ہوں لیکن چونکہ ان لوگوں نے مجھے مجبور کیا کہ قتل کئے جانے یا ولایت عہدی قبول کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں۔ میں نے یہ عہدہ قبول کرنے کو ترجیح دی۔۔۔ در حقیقت یہ ضرورت تھی جس نے مجھے یہ عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا اور مجھے اجبار و اکراہ اور دباؤ کا سامنا تھا"۔ [8]

امامؑ نے البتہ ولایت عہدی کی جو دستاویز تحریر فرمائی تھی اس میں بھی اس عہدے کی قبولیت سے کراہیت و ناراضگی اور اس عہدے کے لاحاصل ہونے کا بھرپور اظہار فرمایا تھا۔ [9]

سوال: خلافت کی پیشکش کس قدر سنجیدہ تھی؟

جواب: یہ پیشکش بالکل بھی سنجیدہ نہ تھی۔

سطور بالا میں بیان ہؤا کہ مأمون نے ابتدائی طور امام رضا (علیہ السلام) کو خلافت کی پیشکش کی اور اس پیشکش پر بہت ہی زیادہ اصرار کیا اور اصرار کا یہ سلسلہ مدینہ سے لے کر مرو تک جاری رکھا، حتیٰ کہ امامؑ کو قتل کی دھمکی تک دی۔ مگر اس کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔

مایوسی کے بعد مأمون نے ولایت عہدی کی پیشکش کی۔ مگر اس نے امامؑ کو پھر بھی راضی نہ پایا چنانچہ اس نے دھمکی کی راہ اپنائی اور جب امامؑ نے قتل کی دھمکی کو سنجیدہ لیا تب بحالت مجبوری و با دل ناخواستہ ولایت عہدی کا عہدہ قبول فرمایا۔

اب یہاں دو اہم سوال اٹھتے ہیں:

1- کیا واقعی مأمون امامؑ کو خلافت کی پیشکش میں سنجیدہ تھا؟

2- اب جبکہ یہ پیشکش جھوٹی اور غیر سنجیدہ تھی تو اگر امامؑ پیشکش قبول کرکے مثبت جواب دیتے تو مأمون کا موقف کیا ہوسکتا تھا؟

 پہلے سوال کا جواب:

در حقيقت تمام شواہد اور دلائل مأمون کی پیشکش کی غیرسنجیدگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کیوں کہ ایک ایسا شخص تھا جو خلافت و اقتدار کا حد درجہ حریص تھا اور اس نے حصول خلافت کے لئے اپنے بھائی امین کا خون بہایا تھا، کئی وزیروں، مشیروں اور سپہ سالاروں کو قتل کروایا تھا۔ اس کا ہاتھ خلافت کے حصول کی خاطر اپنے قریبی لوگوں تک کے خون سے آلودہ تھے اور اس نے اسی راستے میں متعدد آباد شہروں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا تھا؛ اقتدار کے تحفظ کی راہ میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں اس کا چہیتا وزیر "فضل بن سہل" بھی شامل ہے۔  چنانچہ یہ بات ہرگز آسان نہ تھی کہ مأمون جیسا تشنۂ اقتدار شخص خلافت کے عہدے کو ترک کردے اور اصرار و خواہش کرکے اسے ایسے شخص کے سپرد کرے جو نہ تو خاندانی قربت کے حوالے سے امین سے زیادہ اس کے قریب تھا اور نہ ہی اعتماد و اطمینان کے حوالے سے اس کے کمانڈروں اور وزیروں کی طرح تھا۔ [10] سوال یہ ہے کہ کیا مأمون جیسے شخص سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یہ تمام وحشیانہ اور غیر انسانی اقدامات سرانجام دے اور حتیٰ کہ اپنے بھائی کو امت اور اسلام کی مصلحتوں کی خاطر قتل کر دے اور اس کا سر مدتوں تک لٹکا دے اور سرانجام دے اور اس کا مقصد امامؑ کی خلافت کے لئے راہ ہموار کرنا ہو؟!

یہ کیونکر ممکن ہے کہ امام کو قتل کی دھمکیوں اور مأمون کی تجویز کی سچائی میں معقول اور منطقی تعلق استوار کیا جائے؟

اگر وہ دھمکیوں اور دباؤ کے ذریعے امامؑ کو ولایت عہدی کا عہدہ قبول کروانے میں کامیاب ہؤا تھا تو یہی دھمکی اور دباؤ کا حربہ اس نے خلافت کا عہدہ قبول کروانے کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا؟؟

امامؑ نے منع کیا تو مأمون کے اصرار کی وجہ کیا تھی؟ اس نے امامؑ کو اپنے حال پر کیوں نہیں چھوڑا اور پھر بھی اس نے جبر و اکراہ اور زبردستی کا سلسلہ کیوں جاری رکھا؟

اگر مأمون حقیقتاً امامؑ کو مسلمانوں کی خلافت کے مسند پر رونق افروز دیکھنا چاہتا تھا تو اس نے اپنی گماشتوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ امامؑ کو مدینہ سے لاتے ہوئے کوفہ اور قم کے شہروں سے نہ گذارا جائے؟

اس کو معلوم تھا کہ ان دو شہروں کے لوگ امامؑ کی اطاعت کی آمادگی رکھتے ہیں۔

اگر مأمون سچ بول رہا تھا تو اس نے امامؑ کو نماز عید کیوں نہیں پڑھانے دی؟

جی ہاں! اس کو خوف تھا کہ اگر امامؑ نماز عید کی امامت کے لئے قیام فرمائیں تو اس کی خلافت کی بنیادیں متزلزل ہونگی۔

اسی طرح اگر اس کے بقول امامؑ خلق پر خدا کی حجت تھے اور وہ آپؑ کو دانا ترین، عالم ترین اور عاقل ترین شخصیت سمجھتا تھا تو اس نے اپنی رائے آپؑ پر ٹھونسنے کی کوشش کیوں کی؟ اور جس چیز کو آپؑ صلاح و صواب نہیں سمجھتے تھے اس نے وہ آپؑ پر مسلط کرنے کی کوشش کیوں کی؟، ولایت عہدی کا عہدہ دھمکی کے ذریعے آپؑ سے کیوں قبول کروایا؟ اور آخرکار یہ کہ اس نے امامؑ کی ولایت عہدی سے قبل اور ولایت عہدی کے بعد امامؑ اور علویوں کے ساتھ نہایت تشدد آمیز اور غیر انسانی رویہ کیوں روا رکھا، اور امامؑ کو زہر دے کر کیوں شہید کیا؛ اگر وہ سچ بول رہا تھا تو یہ رویہ کیسے قابل قبول ہوسکتا تھا؟

مأمون خود ہی ثبوت پیش کرتا ہے:

قابل ذکر ہے کہ مأمون کبھی بھی ان سوالات کا جواب دینے کا روادار نہیں تھا اور اس نے اپنے اقدام کو کسی منطق پر استوار نہیں کیا تھا۔ کبھی کہتا تھا کہ:

"علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا اجر آپؑ کی اولاد کے حق میں ادا کرنا چاہتا ہوں!"۔ [11]

کبھی کہتا تھا کہ:

"میرا مقصد اطاعتِ الٰہیہ اور اس کی رضا کا حصول ہے اور اسی بنا پر امام رضا (علیہ السلام) کے علم و فضل، تقویٰ اور پرہیزگاری کے پیش نظر امت اسلامی کی مصلحتوں اور مفادات کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں!"۔ [12]

اور کبھی کہتا تھا:

"میں نے نذر مانی ہے کہ اگر اپنے معزول بھائی پر فتح حاصل کروں تو ولایت عہدی کا عہدہ ابوطالب (علیہ السلام)  کی اولاد میں لائق ترین شخص کو سونپ دوں"۔ [13]

یہ ناپختہ جوابات اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ مأمون عباسی تنقید آمیز سوالات کا جواب دینے کے لئے پہلے سے آمادہ نہیں تھا اور اسی وجہ سے اس کے جوابات تضادات اور ناہمآہنگیوں کا مجموعہ تھے۔

اگرچہ تاریخی کتب میں ان دو سوالات پر بحث نہیں ہوئی ہے مگر تاریخ ہی سے متعدد شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے کے عوام مأمون کے باطنی اہداف و مقاصد کو شک و تردد کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مثال کے طور پر الصُّولی (ابراہیم بن عباس بن محمد بن صول)، القفطی (علی بن یوسف بن ابراہیم) اور دیگر مؤرخین نے اس زمانے کے فلکیات دان "عبداللہ بن ابى سہل نوبختى" کی داستان یوں نقل کی ہے کہ اس نے مأمون کو آزمانے کی غرض سے کہا: نجوم کے رو سے ولایت عہدی کی بیعت کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ مگر چونکہ مأمون کا اصرار تھا کہ بیعت کو اسی وقت ہونا چاہئے اور اس میں کسی قسم کی تاخیر نہ ہو؛ چنانچہ اس نے نوبختی کو قتل کی دھمکی دی اور خاموش رہنے کا حکم دیا۔ [14]

امامؑ مأمون کے عزائم سے آگاہ تھے

مذکورہ بالا سطور میں مأمون کی پیشکش اور امامؑ کے انکار کے حوالے سے بیان ہؤا کہ امامؑ نے ساز باز اور تسلیم کی راہ نہیں اپنائی بلکہ اپنے موقف پر قائم رہے اور خلافت کی پیشکش قبول کرنے سے صاف صاف انکارکر دیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ جان گئے تھے کہ آپؑ کو بہت ہی خطرناک قسم کی چالوں کا سامنا ہے جو آپؑ سمیت اسلامی امہ اور علویوں کے لئے نہایت ہی خطرناک صورت حال کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔

امامؑ کو معلوم تھا کہ مأمون آپؑ کی باطنی نیت سے آگاہ ہونا چاہتا ہے؛ یعنی وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا واقعی امامؑ خلافت کا شوق رکھتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو بہت جلد آپؑ کی زندگی کا خاتمہ کردے۔

جی ہاں!  یہ آپؑ سے قبل کئی لوگوں پر گذرے ہوئے واقعے کی کئی بار دہرائی جانے والی تصویر تھی۔ مثال کے طور پر محمد بن محمد بن يحيىٰ بن زيد (بمعہ ابوالسرايا)، محمد بن جعفر، طاہر بن حسين، اور دیگر کئی لوگ اس سے قبل اسی راہ میں جان گنوا بیٹھے تھے۔۔۔

علاوہ ازین مأمون چاہتا تھا کہ خلافت کی پیشکش کرکے امامؑ کو ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کردے۔ کیوں کہ امامؑ کی طرف سے ولایت عہدی کی قبولیت سے ہی وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکتا تھا۔ جبکہ اگر امامؑ خلافت کا عہدہ قبول کرتے تو مأمون کے مقاصد ادھورے رہ جاتے۔

نتیجہ: مأمون خلافت کی پیشکش میں سنجیدہ نہیں تھا مگر ولایت عہدی کی پیشکش میں سنجیدہ تھا۔

دوسرے سوال کا جواب

سوال یہ تھا کہ اگر امامؑ یہ پیشکش سنجیدہ سمجھ کر قبول کرتے تو مأمون کا موقف اور اس کا رویہ کیا ہوتا؟ اس کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مأمون نے ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مکمل تیاری کی تھی جبکہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان حالات میں بالکل ناممکن تھا کہ امامؑ یہ پیشکش قبول کرلیتے؛ کیوں کہ امامؑ اس امر کے لئے آمادہ نہیں تھے اور اگر امامؑ قبول کرلیتے تو آپؑ کا یہ عمل ناقابل توجیہ ہوتا اور امامؑ کے لئے اس میں کوئی اعزاز نہیں تھا۔

امامؑ جانتے تھے کہ خلافت کی باگ دور سنبھالنے کی صورت میں آپؑ کو حقیقی امت کے امام کی حیثیت سے عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کرنا پڑے گی اور اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور دادا علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی مانند احکام الٰہیہ کا پورا پورا نفاذ کرنا پڑے گا۔ مگر اس دور کے لوگ نبوی اور علوی حکومت قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ جذبات کی حد تک عوام کے دل اہل بیت (علیہم السلام) کے ساتھ دھڑکتے تھے مگر (اموی اور عباسی سلطنتوں کے دوران) ان کو صحیح اسلامی تربیت فراہم نہیں کی گئی تھی (کیونکہ بادشاہ کو اطاعت گزار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، انصاف کے طلبگار آگاہ انسانوں کی ہرگز نہیں اور ان دو ادوار میں وہ بادشاہوں کی رعایا بن کر جیے تھے) چنانچہ وہ اسلامی احکام کے نفاذ کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ جس ملت نے عباسی دور حکومت میں زندگی بسر کی ہے اور عباسیوں سے قبل اموی طرز حکومت کے عادی رہی ہے اس کے لئے احکام الٰہیہ کا نفاذ ایک غیر معمولی اور نامانوس امر شمار ہوتا ہے اور ایسی ملت خدا کے احکام کے مقابلے میں بہت جلد شورش پر آمادہ ہوسکتی تھی۔

کیا علی بن ابی طالب (علیہما السلام) احکام الٰہیہ نافذ نہیں کرنا چاہتے تھے؟ اور وہ بھی ان لوگوں پر جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ان احکام کو بلاواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے  سن رکھا تھا؛ تو کیا ان لوگوں نے اطاعت کی؟ علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کو ان لوگوں کی عدم اطاعت کی وجہ سے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ اب اس دور سے عشرے گذر چکے تھے لوگ کجیوں اور انحرافات کے عادی تھے اور ان کی روح اور زندگی گمراہیوں کی عادی ہوچکی تھی امام رضا (علیہ السلام) کیونکر اپنی فتح و کامیابی کی امید کرسکتے تھے؟

اسی طرح، جہاں ابومسلم خراسانی نے اپنی جیلوں میں 60 ہزار افراد کی جان لی تھی اور لاکھوں افراد اس کے فوجیوں کی شمشیر کا نشانہ بن چکے تھے؛ جہاں "ابوالسرایا" نے مأمون کو کثیر اموال اور دو لاکھ سپاہیوں کی قربانی دینے پر مجبور کیا تھا؛ اور جہاں ہر روز کسی نہ کسی گوشے سے ـ لوگوں کی شہوتوں کے عین مطابق چلنے والی حکومت کے خلاف ـ مخالفت کی ندائیں بلند ہورہی تھیں؛ ایسے حالات میں کیا امامؑ اپنی حکومت کو عوام کی اکثریت پر مشتمل ہواپرستوں اور دوستی کے بھیس میں دشمنوں کے مکر و سازش سے محفوظ تصور کرسکتے تھے؟ ایسے حالات میں، ایسے لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھتے جانے اور امامؑ کے نظام عدل کے خلاف طویل صفیں تشکیل پانے کا امکان بہت قوی تھا؛ جبکہ دوسری طرف سے امامؑ کے پاس قابل اعتماد کارگزاروں کی شدید قلت تھی۔

یہ درست ہے کہ لوگوں کے دل امامؑ کے ساتھ تھے مگر حالات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا تھا کہ ان کی شمشیریں بہت جلد امامؑ کے خلاف نیام سے نکل سکتی تھیں اور یہ تجربہ امامؑ کو حاصل تھا کیونکہ ان ہی لوگوں نے آپؑ کے اجداد اور اہل خاندان کے انقلابی راہنماؤں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا تھا۔ وہ علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی صف میں نماز پڑھ کر فلاح ڈھونڈتے مگر معاویہ کے دسترخوان پر لذیذ پکوانوں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ یعنی یہ کہ جب بھی کوئی حکومت لوگوں کی شہوتوں کے مطابق نہیں ہوتی تھی، وہ ایسے ہی مذموم رد عمل کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ یہ وہاں کی روایت بن چکی تھی۔

یقینا اگر امام رضا (علیہ السلام) کی حکومت کوئی بنیادی کام سرانجام دینا چاہتی تو پہلے آپؑ کو انحراف، برائیوں اور سماجی فساد کی جڑیں سُکھا دینا پڑتیں؛ اور اس سلسلے میں سب سے پہلے قدم کے طور پر آپؑ کو عوام کے وسائل اور ان کے اموال و املاک سے غاصبوں کا قبضہ و تسلط ختم کرانا پڑتا، جابروں اور ظالموں کو اپنی جگہ بٹھانا پڑتا اور ناجائز ذرائع سے مسند اقتدار تک پہنچنے والوں کو مسند و منصب سے معزول کرنا پڑتا اور انہیں ان کے جرائم کی سزا دینا پڑتی۔

علاوہ ازیں، مختلف مناصب اور عہدوں پر مسلم امہ کے مفادات کے مطابق تقرریاں اور تنزلیاں کرنا پڑتیں اور اس ضمن میں اہل اقتدار، حکام اور امرائے لشکر اور قبائل و خاندانوں کے مفادات کو خاطر میں نہ لانا پڑتا؛ چنانچہ ایسی صورت میں یہ امر مُسَلَّم تھا کہ صاحب اقتدار گروہ، خاندان اور قبیلے آپؑ سے ناراض ہو کر بغاوت پر اتر آتے؛ کیونکہ ان عرب اور فارس گروہوں اور قبیلوں و خاندانوں کے سرداروں نے مختلف تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ہر حکومت کی کامیابی اور بقاء میں بھی ان کا کردار فیصلہ کن رہا تھا۔

چنانچہ اگر امامؑ دین کی پاسداری میں کسی کا لحاظ نہ رکھنے کا رویہ اپناتے اور دوسری جانب سے حکومت میں اپنا کردار بھی ضعیف پاتے، اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے کافی تعداد میں با صلاحیت افرادی قوت کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا تو ان زمینی حقائق کے پیش نظر آپؑ کی حکومت کو پہلی ہی آندھی چلتے ہی ختم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا تو آپؑ کس امید سے یہ منصب قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوسکتے تھے؟

یہ سارے خطرات امامؑ کو اس لئے مفروض تھے کہ آپؑ بطور امام ایک مطلق العنان حکمران نہیں بن سکتے تھے جبکہ اگر مطلق العنانیت پر مبنی حکمرانی آپؑ کے مد نظر ہوتی اور حکمرانی کے راستے میں ہر رکاوٹ کو گرانے کا ارادہ رکھتے اور طاقت کے استعمال کے لئے تمام حدود سے گذرنا چاہتے تو پھر شاید ان خطروں سے نمٹنا بھی آسان ہوتا؛ [15] لیکن یہ سب سیرت محمد و آل محمد (علیہم السلام) کے موافق نہیں تھا۔

یہ سب وہ ممکنہ واقعات تھے - جو اگر بالفرض امامؑ ان حالات میں خلافت کا عہدہ سنبھالتے اور بالفرض مأمون اور اس کے حامی سب خاموش تماشائی بن کر ایک طرف بیٹھ جاتے تو - پیش آسکتے تھے۔ جبکہ اس مفروضے میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ لوگ خاموش نہیں بیٹھ سکتے تھے اور اگر اقتدار ان کے ہاتھ سے نکلتا تو شدیدترین رد عمل کا اظہار کر سکتے تھے۔

اسی سوال کا دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ:

مأمون نے اس زمانے کے پورے اقتدار پر قبضہ جما لیا تھا اور عملی طور پر تمام وسائل اور امکانات و سہولیات بھی اس کے قبضے میں تھے۔ تو ایسی صورت میں اگر وہ امامؑ کے شیوہ حکومت کو اطمینان بخش نہ دیکھتا (بالفاظ دیگر اگر امامؑ اس کی مرضی کے مطابق عمل نہ کرتے) تو وہ بڑی آسانی سے امامؑ کے سقوط اور آپؑ کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کے اسباب فراہم کرسکتا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امامؑ  کے پاس صرف دو ہی راستے تھے:

1-   یا یہ کہ اپنے الہی فریضے کی پابندی کرتے ہوئے تمام سطوح میں اصلاحات کا عمل شروع کردیتے اور نظام کی جڑوں تک کی اصلاح کرتے اور مأمون اور اس کے گروہ اور اس کے صاحبان مناصب کا سیدھا سیدھا تصفیہ کردیتے۔

2-   یا پھر اپنے اقتدار کو مأمون کی مرضی کے دائرے تک محدود کرکے رکھتے! اور درحقیقت مأمون اور اس کے بدکردار امراء اور وزراء اور کمانڈروں کے احکام کی بجاآوری کو اپنا فریضہ منصبی قراردیتے اور ان ہی کو حقیقی حکمران تصور کرتے!۔

پہلی صورت میں امامؑ کو شدیدترین شکست کا سامنا کرنا پڑتا کیوں کہ نہ تو مأمون اور اس کا گروہ اور اس کاقبیلہ اور نہ ہی عام لوگ ایک حقیقی اسلامی نظام عدل کو برداشت کرنے کے روادار نہیں ہوسکتے تھے اور اسی بہانے امامؑ کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔ اور دوسری صورت میں امامؑ کی شخصیت، امت کے مفادات اور علویوں کے مقدرات سب کے سب داؤ پر لگ جاتے۔

اور پھر امامؑ  ایک کٹھ پتلی حکمران بن ہی نہیں سکتا یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے اور ائمہ (علیہم السلام) کی سیرت اور حالات زندگی بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں۔

اگر فرض کیا جائے کہ امامؑ اگر خلافت کا عہدہ قبول کرتے تو مأمون آپؑ کو قتل کرنے کا اپنا اصلی منصوبہ ترک کر دیتا، تو بھی مأمون کی طرف سے امامؑ  کو خلافت کی پیشکش کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ خود امامؑ کی خلافت کے بعد گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرے گا اور باقی عمر یاد خدا میں بسر کرے گا!! اور امامؑ سے اقتدار میں حصہ نہ مانگتا۔

بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مأمون کا منصوبہ درحقیقت یہ تھا کہ امامؑ کو خلیفہ بنا کر خود آپؑ کا ولی عہد یا وزیر بننا چاہتا تھا۔ [16] وہ چاہتا تھا کہ امامؑ کو ظاہری منصب خلافت سونپ کر اصلی اقتدار اپنے پاس ہی رکھ لے اور باطن میں خود ہی حکمرانی کرتا رہے۔ ایسی صورت میں نہ صرف اس کے اقتدار میں کوئی کمی نہ آتی بلکہ اس کی طاقت میں بڑی حد تک اضافہ بھی ہوجاتا۔ مأمون عیاری اور چالاکی میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ خلافت کا منصب امام کو سونپ کر اپنے آپ کو ہرقسم کے آسیب و آفت اور مخالفین کے مقابلے میں ہر قسم کے گزند سے محفوظ کر دے۔ اس کے لئے سب سے بڑا خطرہ علوی اور شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف سے تھا جو اس کی حکومت کو تسلیم نہیں کررہے تھے اور اس کے اقتدار کو غیر قانونی اور غاصبانہ سمجھتے تھے چنانچہ وہ علویوں کو یہ اقرار کرنے پر آمادہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کی حکومت کو قانونی حیثیت حاصل ہے اسی لئے اس نے عالم تشیّع کی سب سے بڑی شخصیت کو اپنی اس نمائش میں کردار دینے کی کوشش کی تھی۔

امامؑ کا موقف

خلافت کی نمائش سے گذر کر امامؑ کو نئی صورت حال کا سامنا تھا۔ مأمون امامؑ کے انکار کے باوجود چین سے نہیں بیٹھا اور اس بار اس نے امامؑ کو ولایت عہدی کی پیشکش کی۔

یہاں بھی امامؑ کو معلوم تھا کہ مأمون درحقیقت اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت کی خاطر ایسا کررہا ہے۔ چنانچہ امامؑ نے پھر بھی انکار کر دیا مگر اس بار اصرار کے ساتھ دھمکیوں کا بھی اضافہ ہؤا اور امامؑ کو کے لئے یہ عہدہ قبول کرنا ناگزیر ہو گیا۔

امامؑ نے ولایت عہدی کیوں قبول فرمائی؟

امامؑ ولایت عہدی کا عہدہ قبول کرنے سے مکمل انکار بھی کرسکتے تھے اور اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتے تھے مگر اپنے پیروکاروں اور شیعیان محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی جانوں اور ان کے اموال اور مستقبل کو خطرے اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ علاوہ ازیں امامؑ پر لازم تھا کہ اپنی جان اور اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کی جانوں کی حفاظت فرمائیں اپنی ذات بابرکات سمیت اپنے پیروکاروں کی زندگیاں بھی کسی بھی خطرے سے محفوظ رکھیں؛ کیونکہ امت اسلامیہ کو امامؑ اور آپؑ کے اصحاب و انصار کی اشد ضرورت تھی۔  آپؑ حجت اللہ تھے اور لوگوں اور ان کی زندگیوں اور ان کی دنیا و آخرت کو روشنی بخش دینے والے تھے، چنانچہ آپؑ کو بطور امام زندہ اور باقی رہنا چاہئے تھا تا کہ شبہات اور شکوک کی یلغاروں میں عوام  کے راہبر و راہنما ہوں۔

جی ہاں! لوگوں کو آپؑ اور آپؑ کے مکتب میں تربیت پانے والوں کی ضرورت تھی کیونکہ اس دور میں ایک اجنبی فکری و ثقافتی لہر مختلف علاقوں پر مسلط ہوچکی تھی اور یہ لہر اپنے ہمراہ فلسفی مباحث کے لفافوں میں کفر و الحاد اور توحید کے بارے میں شک و تذبذب کے تحفے بھی ساتھ لا رہی تھی۔ چنانچہ امامؑ پر لازم تھا کہ اپنے مقام پر قائم رہیں اور زندہ و سلامت رہیں تاکہ امت کی نجات کے حوالے سے اپنے فریضے پر عمل کرسکیں اور ہم نے دیکھا کہ ولایت عہدی کے بعد کی مختصر سے زندگی میں آپؑ کس طرح اس میدان کارزار میں اترے اور اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائی!

حالانکہ اگر امامؑ ولایت عہدی کی پیشکش کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے اور اس راہ میں اپنی پیروکاروں کے ہمراہ فدا ہوجاتے تو آپؑ کی اس قربانی سے اس عظیم مقصد کے حصول میں کوئی مدد نہ ملتی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امامؑ کی ولایت عہدی عباسیوں کی جانب سے اس حقیقت کا اعتراف تھی کہ علویوں کا بھی اس حکومت کے قیام میں نہایت اہم کردار تھا جس کو "آل محمد" کے نام پر قائم گیا تھا۔ گو کہ انہیں بعد میں عباسیوں کی ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا اور تقریبا عباسیوں نے امویوں کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرنے والے تمام علویوے کو تہہ تیغ کیا تھا۔

امامؑ کی جانب سے ولایت عہدی قبول کرنے کی ایک دلیل یہ تھی کہ امت کے افراد اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکیں کہ اہل بیت  (علیہ السلام) ان کے امور میں دلچسپی لیتے ہیں اور اس راہ میں اتنی بڑی قربانیوں کے لئے بھی تیار ہیں اور سیاست کے میدان میں بھی ان ہی کے مفادات اور مصلحتوں کے لئے حاضر رہتے ہیں اور انہیں کبھی بھی فراموشی کے سپرد نہیں کرتے۔ جبکہ امامؑ کے زمانے میں عوام الناس کے درمیان یہ بے بنیاد تصور رائج تھا کہ ائمہ معصومین (علیہم السلام) محض علماء اور فقہاء ہیں جو عملی میدان میں کبھی بھی عوام کے کام نہیں آتے۔ منقول ہے کہ محمد بن عرفہ نے امامؑ سے پوچھا کہ:

یابن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آپ کس مقصد سے ولایت عہدی کے ماجرا میں میں وارد ہوئے؟

امامؑ نے جواباً فرمایا: "میں اُسی مقصد سے اس ماجرا میں داخل ہؤا جس مقصد سے میرے جد امجد امیر المؤمنین (علیہ السلام) شوریٰ میں داخل ہوئے تھے". [17]

ولایت عہدی قبول کرنے کی ایک سب سے اہم دلیل یہ تھی کہ آپؑ اپنی ولایت عہدی کے دوران مأمون کا اصل چہرہ مسلم امہ کے لئے بے نقاب کردینا چاہتے تھے۔ آپؑ نے اس دوران مأمون کے مقاصد اور خفیہ عزائم سے پردہ اٹھایا اور مسلم امہ کے سامنے، تقدس کا لبادہ، اس کے جسم سے اتار  دیا اور اس کی عدم حقانیت عوام الناس پر بھی عیاں ہوگئی۔

کیا امام خود بھی اس امر کی راغب تھے؟

ہم نے اوپر جو کچھ بھی بتایا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امامؑ خود بھی ولایت عہدی کی قبولیت کی طرف راغب تھے بلکہ بعد میں پیش آنے والے واقعات نے بھی ثابت کر دیا کہ امامؑ کو یہ معلوم تھا کہ مأمون اور اس کے گروہ کے لوگوں کی سازشیں آپؑ کے خلاف جاری رہیں گی اور نہ صرف آپؑ کی جان مأمون کی موت تک محفوظ ہوگی بلکہ آپؑ کا منصب بھی باقی نہیں رہ سکے گا۔ امامؑ نے ولایت عہدی کی دستاویز میں اس امر کی مکمل وضاحت فرمائی ہے؛ کیونکہ آپؑ کو بخوبی ادراک تھا کہ مأمون آپؑ کو جسمانی اور معنوی حوالے سے نیست و نابود کرنے کے درپے ہے۔

اگر بفرض محال مأمون کے دل میں کوئی بدنیتی نہ بھی ہوتی امامؑ عمر کے لحاظ سے مأمون سے بڑے تھے اور قواعد طبیعیہ کے پیش نظر یہ تصور کرنا آسان نہیں تھا کہ آپؑ مأمون کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی دلیل بھی امامؑ کی جانب سے ولایت عہدی قبول کرنے کے لئے کافی نہیں تھی۔

اگر فرض کریں کہ امامؑ، مأمون کی موت کے بعد بھی زندہ رہنے کی امید کرسکتے تھے – اور ایسا واقع ہونا محال بھی نہیں تھا – تو یہ امر مسلّم ہے کہ آپؑ کا شیوۂ حکمرانی اثر و رسوخ رکھنے والے متعدد حلقوں کے رد عمل کا باعث بن سکتا تھا کیونکہ ان کے ناجائز مفادات کو خطرہ لاحق ہونا قطعی امر تھا۔ امامؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی مانند خدا کے احکام کا نفاذ کرتے تو بنو عباس (جن کے مفادات قطعی طور پر خطرے میں پڑ جاتے) دنیا کے تمام ناراض گروہوں کو امامؑ کے خلاف متحد کرتے اور امامؑ کی حکومت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردیتے؛ اور جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے امامؑ کے طرز حکومت اور نظام عدل عوام الناس کے لئے بھی قابل برداشت نہیں تھا کیونکہ وہ آمرانہ طرز حکمرانی کے عادی بن چکے تھے۔

امامؑ کی حکمت عملی

امامؑ کو مدینہ سے خراسان منتقل کردیا گیا، آپؑ کو ولایت عہدی قبول کرنے سے انکار کا حق نہیں دیا گیا تو جب ولی عہد بنائے گئے تو اہداف امامت کی تکمیل کے لئے اس منصب سے کام نہیں لیا جا سکتا تھا اب اگر امامؑ اس منصب پر اکتفا کرکے ایک طرف بیٹھ جائیں تو اسلامی امہ کے دین اور عقیدے کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور پھر امامؑ بھی خاموش بیٹھنے کے روادار نہیں ہیں اور حکومت وقت کو موافقانہ نظر سے دیکھنا اور دکھانا نہیں چاہتے ۔۔۔ چنانچہ اب مأمون کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک باریک بینانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

امامؑ کا ذاتی پروگرام  

فرمانرواؤں کا انحراف  

مطالعۂ تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمران خواہ اموی ہوں یا پھر عباسی، اس دور کے تمام شخصی بادشاہ، ذاتی زندگی، عمومی اقدامات اور طرز سلوک کے حوالے سے احکام دین سے بالکل متصادم رویہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ ان کا عمل اسلام اور قرآن سے متصادم تھا۔ حالانکہ وہ اسی اسلام کے نام پر مسلم امت پر حکمرانی کر رہے تھے۔ اور عوام بھی "اَلنَّاسُ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ" [18] کے مطابق بادشاہ کے دین کے پیروکار تھے اور اسلام کو اسی طرح سمجھ رہے تھے جس طرح کہ وہ ان کی روزمرہ زندگی میں نافذ ہو رہا ہے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اسلام کے اصلی سمت سے انحراف کو وسعت ملی چنانچہ اس صورت حال سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔

علمائے سو‏ء اور عقیدہ جبر

کچھ زرپرست دانشور جنہیں حکومت کی جانب سے "علماء" کا عنوان دیا جاتا تھا حکمرانوں کو شرعی و قانوں حمایت فراہم کرنے کے لئے اسلام کے مفاہیم و تعلیمات کو بازیچہ قرار دیتے تھے اور دین کو حکمرانوں کے خیالات و آراء کے سانچے میں ڈھال دیتے تھے اور اس مخلصانہ خدمت کے صلے میں انہیں دنیاوی ثروت اور مادی نعمتوں سے نوازا جاتا تھے۔

ان زرپرستوں نے حتیٰ کہ عقیدہ جبر کو بھی اسلامی عقائد و مفاہیم کے اندر گھسیڑ دیا۔ یہ عقیدہ اس سے پہلے صرف غیر اسلامی ادیان و مذاہب رائج تھا اور اس کی نہ کوئی جڑ تھی اور نہ ہی کوئی شرعی اور عقلی بنیاد، لیکن اس کو صرف اس لئے امت مسلمہ میں رائج کیا گیا کہ حکمران زیادہ آسانی سے عوام کا استحصال کرسکیں اور ان کے ہرقسم کے اقدامات اور افعال و اعمال کو قضا و قدر الٰہی کا نام دیا جاسکے، غربت، افلاس اور محرومیت کو عام انسانوں کا مقدر قرار دیا جا سکے؛ اور کوئی بھی انکار و امتناع کی جرأت نہ کرسکے۔  مأمون کے زمانے میں ان فاسد اور بیگانہ عقائد کی عمر ڈیڑھ سو برس تک ہو چکی تھی۔ یعنی یہ کہ اس عقیدے کی بنیاد معاویہ بن ابی سفیان کے زمانے میں، اسی  کی شہ پر میں رکھی گئی تھی اور اب مأمون عباسی کی فرمانروائی کا دور تھا جو خاندانی اور سیاسی لحاظ سے بنی امیہ کا دشمن ہونے کے باوجود، اپنے عزائم تک پہنچنے کے لئے اسی عقیدے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا۔

علمائے سوء اور ظالمین کے خلاف قيام کا عقیدہ

تھیلیاں وصول کرنے والے علماء نے ـ جو حکام جور کے خلاف قیام کو گناہ کبیرہ قرار دیتے تھے- امت اسلامی کے بزرگ علماء کو بدنام کردیا تھا؛ علمائے سوء قیام و انقلاب کی حرمت کو دینی عقائد کا حصہ گردانتے تھے۔ [19] جبکہ ان کے برعکس ابوحنیفہ [20] جیسے علماء امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں شمشیر کی موجودگی کو ضروری سمجھتے تھے۔ [21]

اس کے علاوہ عالم اسلام میں قرآن کی مخلوقیت یا اس کے قدیم ہونے جیسے مسائل کے علاوہ خدا کے لئے شبیہ کے تصور جیسے مسائل کا رواج اس قدر مشہور ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل و مثال لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ [22]

ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) اور ان کی ذمہ داریاں

فرمانرواؤں کا غرور اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ وہ جہاں تک ممکن تھا عوام الناس کو ائمہ اطہار (علیہم السلام) سے دور کرلیتے تھے اور صرف اپنے اقتدار کی حفاظت کے سوا کسی بھی مسئلے کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کرتے تھے اور بقائے اقتدار کی خاطر حتیٰ اسلام کی جڑیں کاٹنے کے لئے بھی تیار رہتے تھے۔ اس حقیقت کو بہتر سمجھنا ہو تو عالم اسلام میں آج کے مطلق العنان حکمرانوں کے بطور نمونہ دیکھا جا سکتا ہے، جو امت کی عظیم ترین مصلحتوں کو اپنے دو روزہ اقتدار پر قربان کر دیتے ہیں اور اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن عالمی صہیونیت کی غلامی کو امت کی عظمت و سیادت پر مقدم رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل عام کو نظر انداز کرکے صہیونی قاتلوں کی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں اور قتل عام کے عین وقت پر جانوروں کے بین الاقوامی میلوں کا اہتمام کرتے ہیں اور صہیونیوں کو اشیاء ضرورت پہنچانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں؛ ہزاروں غزاوی مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر بھوک اور پیاس مسلط کئے جانے کے عین وقت پر غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست کو تسلیم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ یہ خلفائے اسلام کہلوانے والے تاریخی استبداد پرست آمروں کی کارکردگی کی زندہ مثال، اور جیتی جاگتی تصویر ہے۔

عباسی دور وہ دور تھا جب عوام پر غفلت، حکمرانوں پر نخوت و غرور اور علماء کہلانے والوں پر بدعت گزارانہ رویے مسلط تھے اور اپنے اقتدار کی بقاء یا مفادات کے دوام کے سوا انہیں نہ کوئی غم تھا اور نہ ہی کوئی فکرمندی۔ ان ہی حالات میں ہمارے ائمہ (علیہم السلام) اپنے دستیاب وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات کی ترویج اور دین خدا کے حریم کی پاسداری کر رہے تھے۔

امام رضا (علیہ السلام) کو مختصر سا موقع ملا جبکہ اس مختصر سے وقت میں حکمرانوں کی تمام تر توجہ آپؑ پر مرکوز تھی؛ تاہم آپؑ مسلمانوں کو آگاہ کردینے کا فریضہ ادا کر چکے تھے۔

اس مختصر وقت کا آغاز ہارون کی موت سے امین عباسی کے قتل تک کے زمانے پر محیط تھا۔ گو کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ عرصہ امامؑ کی شہادت (203 ھ) تک بھی جاری رہا؛ گوکہ امین کے قتل اور بالخصوص امامؑ کی خراسان منتقلی کے بعد امامؑ کو رکاوٹوں کا سامنا تھا۔

امامؑ اپنی خاص روشوں سے عوام کے درمیان وسیع اثر و رسوخ پا چکے تھے اور لوگ آپؑ کے مکتوبات و رسائل عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں شائع کرکے تقسیم کیا کرتے تھے اور تمام گروہ اور طبقے آپؑ کے علم و تقویٰ، پرہیزگاری و پارسائی کے شیدائی بن چکے تھے۔ آپؑ کی اہم ترین روش یہ تھی کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیا کرتے تھے، علمائے ادیان کے ساتھ مناظرے کرکے ان کو ان کے اپنے منابع و کتب سے استفادہ کرکے قائل فرمایا کرتے تھے اور ہر مسئلے کا صحیح جواب دیا کرتے تھے۔

ایک دانشمندانہ پروگرام

جہاں مأمون امامؑ کو ولی عہد بناکر آپؑ کے ذریعے اپنے عزائم کی تکمیل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا یوں کہ امامؑ بھی مجبور ہوکر اس کے منصوبوں پر ہی عمل کرتے رہیں، وہاں امامؑ نے بھی ایک لطیف و نفیس پروگرام کے تحت مأمون کے عزائم سے نمٹنے کے لئے وسائل و امکانات فراہم کئے اور بادشاہ کے مذموم منصوبے کو ـ جن میں سب سے چھوٹا ہدف امامؑ کی روحانی و سماجی حیثیت کو مجروح کرنا تھا ـ ناکام بنا دیا۔

امامؑ نے اپنا مدافعانہ پروگرام نہایت عمدہ انداز سے تیار کیا اور اس پر عمل درآمد بھی کیا جس کی بدولت مأمون کی سازش ناکام ہوئی اور امامؑ نے اہم کامیابیاں حاصل کیں، مأمون کے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور حالات بھی امام کی حق میں، مأمون کے نقصان کی سمت آگے بڑھے۔

امام کے وہ موقف جن کی مأمون کو توقع نہ تھی

امام رضا (علیہ السلام) نے مختلف صورتوں میں مأمون کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے موقف اختیار کئے جن کی مأمون کو کبھی بھی توقع نہ تھی۔

پہلا موقف

امام رضا (علیہ السلام) جب تک مدینہ میں تھے مأمون کی پیشکش قبول کرنے سے انکاری رہے اور اس سلسلے میں امامؑ نے انکار پر اس طرح سے اصرار کیا کہ مدینہ والوں پر بخوبی عیاں ہؤا کہ مأمون امامؑ  کو کسی صورت میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ اور بہت سی معتبر روایات میں ہم دیکھتے ہیں کہ مدینہ سے مرو ہجرت کرنے میں امامؑ کا ارادہ ہرگز شامل نہیں تھا بلکہ امامؑ کو مجبور کرکے لایا گیا تھا۔

امامؑ نے اپنے انکار پر اصرار اس لئے کیا کہ آپؑ لوگوں کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مأمون کو بھی بتانا چاہتے تھے کہ "آپؑ کی سازش کے جال میں گرفتار ہونے والے نہیں ہیں اور وہ آسانی سے اپنے خفیہ اہداف اور سازشوں کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتا"؛ اور لوگ بھی اس حوالے س آگاہ ہوچکے تھے کہ امامؑ اپنی مرضی سے خراسان نہیں گئے۔

دوسرا موقف

مأمون نے امامؑ سے کہا تھا کہ اپنے خاندان کے جتنے افراد کو چاہیں اپنے ہمراہ مرو لے آئیں مگر امامؑ نے اپنا خاندان مدینہ میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ اپنے فرزند امام جواد (علیہ السلام) کو بھی ساتھ نہیں لائے۔ جبکہ یہ طویل مسافت کا سفر تھا اور اس میں مأمون کی طرف سے نہایت اہم ذمہ داری امامؑ کو سونپنے کی بات ہوئی تھی، یعنی یہ کہ "امامؑ کو امت اسلامی کی قیادت کی پیشکش ہونا تھی"۔ امامؑ نے یہاں تک بھی فرمایا تھا کہ "اس سفر سے واپسی نہیں ہوگی"۔

تیسرا موقف

مدینہ سے مرو (MARV) کی طرف جاتے ہوئے امامؑ کے وجود ذیجود سے نہایت حیرت انگیز واقعات وکرامات رونما ہوئے اور «رجاء بن ضحّاك» [23] ان تمام واقعات کا عینی شاہد تھا۔ رجاء بن ضحاک امامؑ کی کرامات سے اس قدر متاثر ہؤا تھا کہ مرو پہنچ کر ہر محفل و مجلس میں انہیں بیان کرنے لگا اور مأمون نے مجبور ہوکر اس کو بلوایا اور مکارانہ انداز سے کہا: «علی ابن موسی رضا (علیہ السلام) کے فضائل مجھے بیان کرنے دو یہ میرا فریضہ ہے کہ مرو کے راستے میں امامؑ سے ظاہر ہونے والی عظمتیں اور فضیلتیں بیان کروں۔۔۔ اور اس طرح اس نے رجاء کا منہ بند کردیا۔ [24] یہ الگ بات ہے کہ حتیٰ کہ ایک فرد نے بھی کبھی یہ نہیں سنا کہ مأمون نے یہ واقعات کہیں بیان کئے ہوں۔ رجاء نے بھی اس کے بعد خاموشی اختیار کر لی اور صرف اس وقت ہی دوبارہ یہ واقعات بیان کرنے لگا تھا جب مأمون امامؑ کے حوالے سے اپنے اور اپنے اقتدار کے لئے خطرہ محسوس نہیں کررہا تھا!۔۔۔"یعنی امامؑ کی شہادت کے بعد"۔

چوتھا موقف

امامؑ کے قافلے نے مرو جاتے ہوئے نیشاپور میں پڑاؤ ڈالا تو آپؑ نے یہاں استقبال کے لئے آنے والے لاکھوں افراد کو اپنے محبوب و مقبول چہرے کی زیارت کرائی اور جب قافلہ یہاں سے روانہ ہؤا تو آپؑ نے اونٹنی کے ہودج پر تشریف فرما ہو کر لوگوں کو حدیث سلسلۃ الذہب سنائی۔ جو کچھ یوں ہے:

"۔۔۔ ثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، حَدَّثَنِي أَبِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِىٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: " قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: «إِنِّي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِي، مَنْ جَاءَنِي مِنْكُمْ بِشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ بِالْإِخْلَاصِ دَخَلَ فِي حِصْنِي، وَمَنْ دَخَلَ فِي حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي". [25] ـ [26]

امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا: میرے والد امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا کا امام صادق نے فرمایا: میرے والد امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے والد امام علی زین العابدین (علیہ السلام) نے فرمایا: میرے والد امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے والد امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے نقل کیا کہ خدائے متعال نے ارشاد فرمایا: "میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے پس میری عبادت اور بندگی کرو۔ تم میں سے جو بھی میرے پاس آئے اور اخلاص کے ساتھ گواہی دے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ میرے قلعے میں داخل ہوتا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہوجائے میرے عذااب سے محفوظ ہوگا"۔

مروی ہے کہ اس روز تقریبا 20 ہزار محدثین نے یہ حدیث امامؑ سے سنتے ہی تحریر کی اور یہ تعداد اس زمانے کی تعلیمی حالت کے پیش نظر ایک حیرت انگیز سمجھی جاتی ہے۔ [27]

دلچسپ امر یہ ہے کہ امامؑ نے ان حالات میں دین کے فروعی مسائل اور لوگوں کے روزمرہ امور کے بارے میں اظہار خیال نہیں فرمایا۔ نماز، روزے اور دیگر فقہی احکام کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا؛ لوگوں کو دنیاوی زندگی میں زہد اور آخرت کے لئے کسی فرعی عمل پر زور نہیں دیا۔ بلکہ آپؑ نے اصول دین کا ایک مسئلہ بیان فرمایا جو دنیا کی اصلاح کے لئے بھی ضروری تھا اور آخرت سازی کے لئے بھی بنیادی کردار کا حامل تھا۔ امامؑ نے اپنے سفر کے اس اہم مرحلے میں اپنے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے لوگوں سے کوئی تقاضا نہیں کیا اور اس کے باوجود کہ ایک سیاسی سفر پر مرو جارہے تھے آپؑ نے ہرگز سیاسی اور ذاتی مسائل کی طرف اشارہ نہیں فرمایا۔

ان سارے مسائل کے بجائے امامؑ نے ایک حقیقی امام اور مسلمانوں کے حقیقی پیشوا کے عنوان سے ایسے مسئلے کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جو ان کی زندگی کے حال اور مستقبل کے لئے اہم ترین مسئلہ تھا۔

امامؑ نے درحقیقت ان حساس حالات میں صرف توحید کے مسئلے کو اہمیت دی۔ کیونکہ توحید بافضیلت زندگی کی بنیاد ہے جس کی روشنی میں اقوام ہر قسم کی بدبختی اور رنج و مشقت سے نجات پاتی ہیں۔ اگر انسان توحید کو اپنی زندگی میں کھو دے تو گویا کہ وہ سب کچھ کھو چکا ہے۔

توحید و امامت کے درمیان ربط

حدیث سنانے کے بعد امامؑ کی اونٹنی روانہ ہوئی مگر ہزاروں عاشق نگاہیں ابھی آپؑ کی جانب لگی ہوئی تھیں۔ لوگ اپنے افکار میں غوطہ ور ہی تھے اور حدیث توحید کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اونٹنی رک گئی اور امام نے عماری سے سر باہر نکالا اور جاودانی کلمات زبان پر جاری فرماتے ہوئے بآواز بلند فرمایا:

"بِشُرُوطِهَا وَأَنَا مِن شُرُوطِهَا؛ [28]

اس (قلعے میں داخل ہونے اور عذاب الٰہی سے نجات پانے) کی کچھ شروط ہیں اور میں ہی ان وہ شروط میں سے ہوں"۔

یہاں امامؑ نے ایک اور بنیادی مسئلہ بیان فرمایا یعنی یہ کہ مسئلہ ولایت و امامت توحید سے قریبی ربط رکھتا ہے بلکہ امامت توحید اور سچی یکتا پرستی کی شرط ہے۔

جی ہاں! اگر کوئی ملت با فضیلت زندگی گذارنا چاہتی ہے تو جب تک اس کے لئے عدل و انصاف پر مبنی امامت و قیادت کا مسئلہ حل نہ ہؤا ہو اس کے امور کبھی بھی نہیں سلجھ سکیں گے۔ اگر لوگ ولایت و امامت کی طرف مائل نہ ہوں تو دنیا ستمگروں، جابروں اور طاغوتوں کی جولانگاہ بنی رہے گی اور یہ لوگ قانون سازی کا حق بھی اپنے لئے ہاتھ میں لیں گے جب کہ یہ حق صرف خدا کے لئے مختص ہے۔ یہ لوگ قانون سازی کرکے دنیا پر خودساختہ احکام کا نفاذ کریں گے اور پوری دنیا بدبختی، شقاوت، سیاہ روزی، سرگردانی اور مہمل پن کی وادی ظلمات بن کر رہے گی۔

اگر ہم حقیقتاً ولایت اور توحید کے باہمی تعلق کا ادراک کریں تو لامحالہ اس حقیقت کا ادراک بھی کرسکیں گے کہ امامؑ کی حدیث ـ یہ جو آپؑ نے بیان فرمایا کہ "میں اس کی شرط ہوں"، - ایک ذاتی مسئلہ نہیں ہے اور آپؑ نے یہ مسئلہ اپنے ذاتی مفاد میں بیان نہیں فرمایا‏، بلکہ آپؑ ایک بنیادی مسئلے کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ آپؑ نے اس حدیث سے پہلے اس کا سلسلہ سند بھی بیان فرمایا اور ہمیں سمجھایا کہ یہ کلام اللہ اور "حدیث قدسی" ہے جو آپؑ نے اپنے والد اور جدّ سے ہوتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کیا ہے اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خدائے عز وجلّ کی جانب سے عطا ہؤا ہے۔ نقل حدیث میں یہ شیوہ ہمارے ائمہ (علیہم السلام) نے شاذّ و نادر ہی استعمال کیا ہے اور یہاں چونکہ امامؑ، امت کی قیادت و ولایت کا اہم ترین مسئلہ بیان فرمانا چاہتے تھے چنانچہ آپؑ نے اس کا سلسلہ سند خداوند لایزال تک جا پہنچایا۔  [29]

امام رضا (علیہ السلام) کی امامت خدا کی طرف سے ہے نہ کہ مأمون کی طرف سے؛ امامؑ نے نیشاپور میں پڑاؤ کے موقع پر یہ حقیقت بیان کرنے کے لئے موقع سے استفادہ کیا اور لاکھوں افراد کے مجمع میں "وَأَنَا مِن شُرُوطِهَا" [30] کے سانچے میں اعلان فرمایا کہ

"ہم ائمۂ اہل بیتؑ ہی خدا کے حکم سے مسلمانوں کے امام و رہبر ہیں"؛

اور یوں آپؑ نے لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرکے مأمون کے سب سے اہم اور بنیادی منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔ حالانکہ مأمون امامؑ کو مرو بلوا کر اقرار کروانا چاہتا تھا کہ اس کی فرمانروائی اور بنوعباس کی حکمرانی کو شرعی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔

امامؑ مختلف مواقع پر اپنی ولایت پر تاکید فرمایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپؑ نے ولایت عہدی کی دستاویز میں بھی اور اسی طرح كتاب "جامع الأصول والأحكام"، [31] میں بھی بارہ اماموں کے نام ذکر فرمائے تھے حالانکہ ان میں سے بعض امام ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ امامؑ ان علمی مباحث و مناظرات میں بھی - جن کا مأمون کی موجودگی میں اہتمام ہؤا کرتا تھا ـ جب کوئی موقع میسر آتا، ان اماموں کی حقانیت مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے سامنے ثابت فرمایا کرتے تھے۔

ایک نہایت اہم نكتہ

ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) نے کبھی بھی اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے "تقیہ" روا نہیں رکھا کہ وہ امت کی امامت اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانشینی کے اصل حقدار ہیں حالانکہ یہی امر سب سے زیادہ خطرناک تھا اور حکمرانوں کو طیش میں لا سکتا تھا اور ان کے فوری طور پر طیش میں نہ آنے کا سبب بھی شاید یہی تھا کہ وہ بھی اس حقیقت کے دلی طور پر معترف تھے کہ امامت و خلافت کا حق صرف ان ہی الٰہی پیشواؤں کا حق ہے۔

یہ خود اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وہ جو فرما رہے ہیں وہ عینِ حق تھا اور اسی بنا پر اتنی خوداعتمادی سے بادشاہوں کی جانب سے خطرات مول لے کر بھی اس کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔

مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) ہارون جیسے جبار اور ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کا اظہار فرماتے ہیں اور کئی مواقع پر امت کی امامت کے سلسلے میں اپنا استحقاق آشکارا بیان فرمایا۔ [32] تاریخی کتب میں منقول ہے کہ ہارون الرشید نے بھی کئی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے:

ابن حجر الہیتمی نے روایت کی ہے:

"قَالَ لَهُ الرشيد حِين رَآهُ جَالِسا عِنْد الْكَعْبَة أَنْت الَّذِي تبايعك النَّاس سرا فَقَالَ أَنا إِمَام الْقُلُوب وَأَنت إِمَام الجسوم؛ [33]

ہارون الرشید نے نے امام کاظم (علیہ السلام) کو کعبہ کے قریب بیٹھے دیکھا تو کہا: کیا آپ وہی ہیں جس کے ساتھ لوگ خفیہ طور پر بیعت کرتے ہیں؟ امامؑ نے جواب دیا:  میں قلوب کا امام ہوں جبکہ تم جسموں کے امام ہو"۔ 

امامت و رہبری کے حوالے سے اپنی حقانیت بیان کرتے وقت امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کی فاش گوئی البتہ تواتر کی ساتھ نقل ہوئی ہے۔ اور اتنی عیاں ہے جسے بیان کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ صحیح ہے کہ ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) نے واقعہ کربلا میں یزیدی اقدام کے بعد اپنے حق کے حصول کے لئے تلوار نہیں اٹھائی اور اپنی پوری قوت مسلمانوں کی تربیت، دین کی پاسداری اور انحرافات کا سدباب کرنے میں صرف کی۔ کربلا کا واقعہ منفرد تھا اور امام حسین (علیہ السلام) کا قیام ناقابل انکار ضرورت تھا اور اس قیام کے بعد اسلام کا ڈھلتا ہؤا سورج ایک بار پھر طلوع کرگیا جیسا کہ علامہ فرماتے ہیں:

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یا

اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے

ایک ضرب یداللہی ایک سجدہ شبیری

اور اسلام کے سر سے یزید کا خطرہ قیام حسینی کے باعث ٹل گیا تھا اور بعد کے حکمران اسلام پر یزید کی طرح وار کرنے سے جھجھکتے تھے اور اتنی جسارت کے ساتھ اصول اور فروع اسلام پر حملہ ور نہیں ہوسکتے تھے۔ یزید کے بعد کے زمانوں میں ـ اسلامی امت کی اندر جبر جیسے نامعقول عقائد [34] رائج ہونے کی بنا پر ـ اسلام پر باہر سے نظریاتی اور اعتقادی یلغار کا آغاز ہؤا تھا اور اس نئی یلغار کو روکنے کے لئے مسلمانوں کی علمی اور اعتقادی بنیادوں کی تعمیر ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے مدنظر تھی۔

یہ البتہ ایک حقیقت ہے کہ آگاہ انسانوں کا ایک مضبوط گروہ ـ جو علم و تقویٰ اور معرفت حق سے لیس اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو ـ ایک نظام عدل کے قیام کے لئے ضروری ہوتا ہے اور تب ہی ایسے نظام کا قیام عملی جامہ پہنتا ہے جو ائمۂ معصومین (علیہم السلام) اور خداوند قدوس کے لئے مطلوب ہو۔ اور اگر اس گروہ کا وجود ہی نہ ہو تو پھر وہی پالیسی ہی بہتر ہے جو ائمہ (علیہم السلام) نے اپنائی۔

ائمہ (علیہم السلام) نے تلوار نہیں اٹھائی اور اپنا حق حاصل کرنے کے لئے میدانی جدوجہد کو مناسب نہیں سمجھا مگر انہیں جب بھی موقع ملا، عام لوگوں اور حکمرانوں کے سامنے اس حقیقت کا اعلان کیا کہ حقدارِ امامت صرف وہ ہیں۔ کیوں کہ امام وہی ہیں۔ [35]

پانچواں موقف

امامؑ مرو پہنچے تو کئی مہینوں تک مأمون کے ساتھ منفی رویہ اپنائے رکھا؛ خلافت کی پیشکش بھی ٹھکرائی اور ولایت عہدی کی پیشکش بھی مسترد کردی۔ حتیٰ کہ مأمون نے مسلسل دھمکیوں کی راہ پر چل کر امامؑ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔

امامؑ نے اپنے موقف کے ذریعے مأمون کو آئینہ دکھایا اور حقیقت کا سامنا کرایا۔ امامؑ نے اپنے عمل سے سمجھایا کہ تم جو بھی کرو میں ایسا عمل کرنا چاہتا ہوں کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ علی ابن موسی الرضا (علیہما السلام) دنیا کی طرف راغب ہو گئے ہیں اور دنیاوی مفادات کے درپے ہیں؛ اور مأمون کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی حیلہ گری کارگر ثابت نہیں ہوئی ہے؛ اور اب اس کے بعد اسے سازشوں اور مکاریوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس طرح مأمون خود بھی غیر مطمئن اور اپنے تمام اعمال میں متزلزل ہؤا جبکہ دوسری طرف سے امامؑ کا یہ رویہ عوام کے دل میں بھی مأمون کے افعال و اعمال کے سلسلے میں سوالات۔ بداعتمادی اور شکوک و شبہات ابھرنے کا سبب بنا۔

چھٹا موقف

امام رضا (علیہ السلام) نے صرف اسی اقدام پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ جب بھی آپؑ سے ولایت عہدی کا عہدہ قبول کرنے کا سبب پوچھا گیا۔ یا جب بھی اظہار خیال کا موقع ملا امامؑ نے لوگوں کو بتایا کہ آپؑ کو قتل کی دھمکیوں اور جبر اور زبردستی سے ولی عہد بنایا گیا ہے۔ آپؑ نے مختلف مواقع پر لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ مأمون بہت جلد نئی مکاریوں کے ضمن میں آپؑ کے ساتھ اپنا عہد و پیمان توڑ دے گا۔ امامؑ نے اپنے قتل کی خبر بھی دی تھی۔

ابو صلت الہروی (عبدالسلام بن صالح بن سلیمان) کہتے ہیں:

"سَمِعْتُ اَلرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَقُولُ وَاللَّهِ 'مَا مِنَّا إِلاَّ مَقْتُولٌ شَهِيدٌ'؛ فَقِيلَ لَهُ: 'وَمَنْ يَقْتُلُكَ يا بْنَ رَسُولِ اَللَّهِ؟' قَالَ: 'شَرُّ خَلْقِ اَللَّهِ فِي زَمَانِي يَقْتُلُنِي بِالسَّمِّ ثُمَّ يَدْفِنُنِي فِي دَارٍ مُضَيَّقَةٍ وَبِلَادِ غُرْبَةٍ؛ [36]

میں نے امام رضا (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا، ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہو جو شہیدِ مقتول نہ ہو۔ پوچھا گیا: کون قتل کرے گا آپ کو اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)؟ فرمایا: میرے زمانے کی بدترینِ مخلوقات مجھے زہر کے ذریعے قتل کرے گا، اور مجھے غریب الوطنی میں ایک دور افتادہ گھر میں دفن کرے گا"۔

بارہا واضح طور پر فرمایا کہ آپؑ کا قاتل مأمون کے سوا کوئی اور نہیں ہوگا اور مأمون کے سوا کوئی اور آپؑ کو مسموم نہیں کرے گا۔ امامؑ نے یہ حقیقت مأمون کی موجودگی میں بھی بیان فرمائی تھی۔

ابو صلت الہروی (عبدالسلام بن صالح بن سلیمان) کہتے ہیں:

"وَاللّه لَقدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ آبَائِهِ عَنْ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ إِنِّي أَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا قَبْلَكَ مَسْمُوماً مَقتُولاً بِالسَّمِّ مَظْلُوماً تَبْكِي عَلَيَّ مَلَائِكَةُ السَّمَاءِ وَمَلَائِكَةُ الْأَرْضِ وَأدْفَنُ فِي أَرْضِ غُرْبَةٍ إِلَى جَنْبِ هَارُونَ اَلرَّشِيدِ فَبَكَى اَلْمَأْمُونُ ثُمَّ قَالَ لَهُ يَا بْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَمَنِ الَّذِي يَقْتُلُكَ أوْ يَقْدِرُ عَلَى الْإِسَاءَةِ إِلَيْكَ وَأَنَا حَيٌ؟ فَقَالَ اَلرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ: أَمَا إِنِّي لَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُولَ لَقُلْتُ مَنْ يَقْتُلُنِي!؛ [37]

خدا کی قسم! یقینا میرے والد نے اپنے آباء و اجداد سے، امیرالمؤمنین (علیہم السلام) سے اور آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کیا کہ 'میں تم سے پہلے ہی، اس دنیا سے رخصت ہونگا جبکہ مجھے مسموم اور زہر کے ذریعے قتل کیا جائے گا اور مظلوم ہونگا اور آسمان اور زمین کے ملائکہ مجھ پر روئیں گے، اور مجھے پردیس میں ہارون رشید کے پہلو میں دفنایا جائے گا؛ تو مأمون رویا اور کہا: اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کون ہے جو ہمت کرے اور آپ کو قتل کردے اور آپ کی بے ادبی کرے، جبکہ میں زندہ ہوں؟ تو امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: 'اگر میں کہنا چاہتا تو کہہ دیتا'، کہ مجھے کون قتل کرے گا"۔

امامؑ صرف زبانی موقف پر اکتفا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ولایت عہدی کے دوران آپؑ کے رویے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جو کچھ واقع ہؤا ہے وہ آپؑ  کی مرضی کے خلاف ہے اور آپؑ کو یہ سب کچھ مجبور ہو کر قبول کرنا پڑا ہے۔

امر مسلّم ہے کہ امامؑ کے ان اقدامات کی بنا پر آپؑ کی ولایت عہدی کا نتیجہ وہ نہیں ہؤا جو مأمون چاہتا تھا۔

ساتواں موقف

امامؑ ہر چھوٹے بڑے موقع سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ امامت و رہبری کا حق ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) ہی کو حاصل ہے جو کہ غصب ہؤا ہے اور مأمون نے آپؑ کو ولی عہد بنا کر کوئی اہم کام نہیں کیا ہے۔ امامؑ لوگوں کو مسلسل گوش گزار کرایا کرتے تھے کہ مأمون کی خلافت قانونی اور شرعی نہیں ہے۔

"ولی عہد کے عنوان سے لوگوں سے بیعت لیتے وقت امامؑ نے حاضرین کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خلافت و جانشینی کے دعویدار عباسی بادشاہ (مأمون) کے جہل کا ثبوت فراہم کیا جس کو بیعت لینے کا طریقہ ہی معلوم نہیں تھا۔

راویوں نے نقل کیا:

راویوں نے نقل کیا:

"لوگ امامؑ کی بیعت کے لئے آئے تھے اور امامؑ نے ہاتھ کی ہتھیلی لوگوں کی طرف اور ہاتھ کا پچھلا حصہ اپنے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا ہؤا تھا۔

مأمون نے کہا: آپ اپنا ہاتھ بیعت کے لئے آگے کیوں نہیں بڑھا رہے ہیں؟

امامؑ نے فرمایا:

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ هَكَذَا كَانَ يُبَايَعُ؛ [38]

کیا تم نہیں جانتے کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ اس طرح سے بیعت کرتے تھے"۔  

خلافت امام رضا (علیہ السلام) کا مسلمہ حق ہے مأمون کا نہیں؛ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ نہ تو مأمون سے پوشیدہ تھا اور نہ ان لوگوں کے لئے اس کا ادراک ناممکن تھا جنہوں نے نیشاپور جیسے واقعات سے آگاہی حاصل کی تھی؛ جہاں امامؑ نے اپنی امامت کو توحید کی شرط قرار دیا اور یہ کہ یہ شرط خدا کی طرف سے مقرر و معین ہے اور دیگر مواقع کے علاوہ آپؑ نے اس کتاب میں بھی بارہ قانونی اماموں کے نام درج کئے جو آپؑ نے مأمون کے لئے تحریر فرمائی تھی۔ ان بارہ ناموں میں لامحالہ آپؑ کا اپنا نام بھی درج تھا۔ امام نے ولایت عہدی کی دستاویز پر بھی اس حقیقت کو مکتوب فرمایا تھا۔

امامؑ نے مجلس بیعت میں لمبی چوڑی تقریر کی بجائے ذیل کی مختصر عبارت سے استفادہ کیا:

"إِنَّ لَنَا عَلَيْكُمْ حَقّاً بِرَسُولِ اَللَّهِ وَلِكُمْ عَلَيْنَا حَقّاً بِهِ فَإذا أَنْتُمْ أَدَّيْتُمْ إِلَيْنَا ذَلِكَ وَجَبَ عَلَيْنَا اَلْحَقُّ لَكُم؛ [39]

«ہمارا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خاطر تم پر حق ہے اور تمہارا بھی آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خاطر ہمارے اوپر حق ہے۔ اور ہرگاہ تم ہمارے حق کا پاس رکھوگے ہمارے اوپر بھی واجب ہوگا کہ تمہارے حق کا پاس رکھیں"۔

یہ مختصر جملے تاریخ نویسوں کے درمیان مشہور ہیں اور اس مجلس سے ان جملوں کے سوا کچھ بھی نقل نہیں ہؤا ہے۔

اس موقع پر، امامؑ نے مأمون کا کوئی شکریہ ادا نہیں کیا؛ جو کہ بجائے خود انتہائی سخت رویہ سمجھا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امامؑ اپنے اس موقف کے ذریعے اس حساس مجلس میں لوگوں کے ذہن میں بیعت کا موضوع پوری طرح واضح کردینا چاہتے تھے اور خلافت و امامت کے سلسلے میں اپنے مقام و منزلت کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروانا چاہتے تھے۔

خاندان علی کی اولویت پر مأمون کا اعتراف

ایک روز مأمون نے امام رضا (علیہ السلام) سے یہ اقرار کرانے کی کوشش کی کہ  عباسی اور علوی دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ قرابت داری کے حوالے سے یکسان درجے کے حامل ہیں؛ اور یوں وہ بزعم خود ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اس کے اسلاف کی خلافت صحیح، جائز، بر حق اور قانونی ہے۔ لیکن بحث کا نتیجہ برعکس ہؤا اور امامؑ نے مأمون سے اقرار کروایا کہ علوی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قریب تر ہیں؛ اور یہ اقرار اس حقیقت کا اعتراف بھی تھا کہ مأمون اور اس کے اسلاف کی خلافت کو بھی خاندان رسالت کے پاس ہونا چاہئے تھا اور یہ کہ عباسی بھی امویوں کی طرح غاصب اور جارح تھے۔

ماجرا کچھ یوں ہے:

"ایک روز مأمون اور امام رضا (علیہ السلام) سیر کو نکلے تھے، تو مأمون نے امام رضا (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر کہا:

اى ابالحسن! میری اپنی ایک سوچ ہے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سوچ درست بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اور آپ (عباسی اور علوی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قرابت کے حوالے سے یکسان ہیں۔ چنانچہ ہمارے شیعیان (شیعیان بنی عباس اور شیعیان علی بن ابی طالب (علیہما السلام)) کے درمیان سارے اختلافات تعصب اور کوتا اندیشی اور تنگ نظری پر مبنی ہیں!

امامؑ نے فرمایا: اس بات کا جواب موجود ہے اور اگر چاہو تو بتاتا ہوں ورنہ خاموش رہنا پسند کروں گا۔

مأمون نے اصرار کیا: میں بھی سننا چاہتا ہوں کہ آپ اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

امامؑ نے پوچھا: اگر اسی وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ظاہر ہوجائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگیں تو کیا تم یہ رشتہ دوگے یا نہیں؟

مأمون نے کہا: سبحان اللہ میں یہ رشتہ ضرور قبول کروں گا؛ کیا کوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا رشتہ رد کرسکتا ہے؟

امامؑ نے فورا فرمایا: اچھا تو کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ مانگ سکتے ہیں؟

مأمون بحر سکوت میں ڈوب گیا اور پھرخود ہی اقرار کیا: ہاں خدا کی قسم! آپ ہماری نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے کہیں قریب تر ہیں"۔ [40]

آٹھواں موقف (ولایت عہدی کی دستاویز پر امامؑ کی یادداشت)

ولایت عہدی کی دستاویز پر امامؑ کی تحریر آپؑ کے ہر موقف اور ہر بیان سے زیادہ مؤثر اور مفید ہے۔

اس تحریر کی ہر سطر اور ہر لفظ میں گہرے معانی اور مفاہیم وضوح کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور ان الفاظ و سطور سے مأمون کی سازشوں کا سامنا کرنے کے لئے امامؑ کی حکمت عملی صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔

اس دستاویز کو اسلامی مملکت کے گوشے گوشے تک ارسال کیا جانا تھا؛ چنانچہ امامؑ نے اسی دستاویز کو وسیلہ قرار دیا تاکہ امت اسلامی اہم ترین حقائق سے آگاہ ہوجائے۔ آپؑ نے مأمون کے باطنی اہداف و مقاصد سے پردہ اٹھایا اور علویوں کے حقوق پر اصرار کیا اور اس سازش کو بے نقاب کیا جو علویوں کے خلاف تیار کی گئی تھی۔ امامؑ ایسے جملوں سے اپنی تحریر کا آغاز کرتے ہیں جو مشابہ دستاویزات پر ثبت ہونے والی تحریروں سے مختلف ہے۔ امامؑ نے لکھا ہے:

"بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الْفَعَّالِ لِمَا يَشَاءُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَلَا رَادَّ لِقَضَائِهِ 'يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ' [الآية] وَصَلَّى اللَّهُ علَى مُحَمَّدٍ فِي الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ وَعَلى آلِهِ الطَّيِّبينَ الطّاهِرِينَ؛ [41]

اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور بہت رحم والا ہے، تمام تر تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو جو چاہتا ہے کر گذرتا ہے، ہرگز کوئی اس کے حکم پر تنقید اور نکتہ چینی نہیں کر سکتا اور کوئی بھی اس کے فیصلے کو ٹالنے والا نہیں ہے، 'وہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور ان رازوں کو جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں' اور اللہ کا درود و سلام ہو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر اولین میں اور آخرین میں، اور آپ کے پاک و طاہر اہل خانہ پر"۔

یہ نکتہ بھی خاص طور پر قابل غور ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) مأمون کے حوالے سے خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے، ـ جس نے اس کو یہ مقام و منصب عطا کیا ہے، ـ دوسری روشوں سے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس آیت کریمہ کو تحریر فرماتے ہیں کہ "يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ؛ [42]

کیا قارئین بھی راقم کی طرح ان جملوں سے یہی مراد نہیں لیتے کہ امامؑ مسلمانوں کو خفیہ سازشیں اور خیانتیں ذہن نشین کرانا چاہتے تھے؟ کیا امامؑ ان کنایہ آمیز جملوں کے ذریعے عوام کو مأمون کے خفیہ منصوبوں سے آگاہ نہیں کرنا چاہتے تھے؟

بہرحال امامؑ اپنی تحریر جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: "خدا کا درود و سلام ہو اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خاندان مطہر پر"

اموی خاندان اور اس کی بعد عباسی خاندان کی لمبی چوڑی حکومتوں کے دوران سرکاری دستاویزات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود و سلام بھیجنے کے بعد اہل بیت طاہرین (علیہم السلام) پر درود و سلام بھیجنے کی روایت ہی نہیں تھی اور لوگ گذر ایام کی ساتھ ساتھ صلوات و سلام کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا حکم بھول گئے تھے۔ امامؑ نے ان کلمات کا ذکر کرکے اپنے اصل و نسب کی طہارت و پاکیزگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کرایا اور لوگوں کی توجہ اس سمت مبذول کرائی ہے کہ آپؑ ہی اس پاک و طاہر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور عرصۂ دراز سے عباسی دعوؤں کے برعکس، مأمون عباسی کا خاندان رسالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مذکورہ مصادر میں ہے کہ امامؑ نے مذکورہ بالا الفاظ کے بعد لکھا ہے:

"امیر المؤمنین [مأمون] ہمارے بعض حقوق سے واقف تھا جن سے دوسرے واقف نہ تھے اور اس نے ہمارے اس حق کو بحال کیا۔۔۔"۔ [43]

سوال یہ ہے کہ یہ کون سا حق تھا یا کونسے حقوق تھے جن سے دوسرے تو درکنار ـ مأمون کے سوا ـ دیگر عباسی بھی ناواقف تھے؟

کیا اسلامی امت اس حقیقت کا انکار کر سکتی ہے کہ آپؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دختر گرامی کے فرزند ہیں؟ تو کیا امامؑ کے اس قول کا مطلب اسلامی امت کے لئے اس حقیقت کا اعلان نہیں تھا کہ مأمون نے ایسی چیز آپؑ کے سپرد کی ہے جو آپؑ کا اپنا ہی حق تھا، ایسا غصب شدہ حق جس کا تھوڑا سا حصہ "علامتی طور پر" آپؑ کے حوالے کیا گیا تھا؟

جی ہاں! وہ حق جو مأمون کو معلوم تھا اور دوسرے اس سے ناواقف تھے "حق اطاعت" تھا۔ البتہ امامؑ حکومتی کارندوں، عام انسانوں اور مأمون کے سامنے بھی  بیان فرمایا کرتے تھے کہ پيغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خلافت حضرت علی بن ابی طالب (علیہما السلام) اور آپؑ کے پاکیزہ فرزند کو ملتی ہے اور امت پر ان ہی کی اطاعت واجب ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سطور کے ضمن میں بھی بیان ہؤا اور یہی نکتہ امامؑ نے نیشاپور میں حدیث سلسلۃ الذہب کے ضمن میں بھی بیان فرمایا تھا۔ آپؑ حکومتی کارندوں کے سامنے حقائق بیان کرنے کے علاوہ بعض حاضرین کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ وہ غائبین کو بھی آپؑ کا پیغام پہنچادیں۔

معمر بن خلاد روایت کرتے ہیں:

"سَألَ رَجُلٌ فارسِيٌ أَبَا اَلْحَسَنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ طَاعَتُكَ مُفْتَرَضَةٌ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ مِثْلَ طَاعَةِ عَلِيِّ اِبْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ: نَعَم؛

ایک ایرانی شخص نے امام ابوالحسن الرضا (علیہ السلام) سے پوچھا: کیا آپ کی اطاعت واجب ہے؟

امامؑ نے فرمایا: بالکل واجب ہے۔

ایرانی نے دریافت کیا: کیا آپ کی اطاعت علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی اطاعت کی طرح واجب ہے؟

امامؑ نے فرمایا: ہاں"۔ [44]

امامؑ نے ولایت عہدی کی دستاویز میں مزید لکھا:

"وَإنَّهُ جَعَلَ إلَيَّ عَهْدَهُ وَالْإِمْرَةَ الكُبْرَى إِنْ بَقِيتُ بَعْدَهُ؛ [45]

«اس (مأمون) نے اپنی ولایت عہدی اور اس عظیم قلمرو کی فرمانروائی میرے سپرد کی ہے بشرطیکہ اس کے بعد زندہ رہوں!"۔

امام نے اس جملے کے ذریعے اپنے اور مأمون کے درمیان عمر کے اختلاف کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، اس تقرری کی غیر طبیعی ہونے اور اس کی قبولیت کے لئے اپنے عدم اشتیاق پر بھی تاکید فرمایی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ "کوئی غیر طبیعی حادثہ" آپؑ کی زندگی کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے!۔

امام نے مزید تحریر کیا ہے:

"فَمَنْ حَلَّ عُقْدَةً أَمَرَ اَللَّهُ تَعَالَى بِشَدِّهَا وَقَصَمَ عُرْوَةً أحَبَّ اللَّهُ إِيثاقَها فَقَد أَبَاحَ حَرِيمَهُ وَأَحَلَّ مُحَرَّمَهُ إِذَا كَانَ بِذَلِكَ زَارِياً عَلَى اَلإِمَامِ مُنْتَهِكاً حُرْمَةَ اَلإِسْلاَمِ؛ [46]

جو شخص ایسی گرہ کھول دے جس کے باندھنے کا خدا نے حکم دیا ہے یا ایسی رسی منقطع کردے جس کا استحکام خدا کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب ہے، اس نے خدا کے حریم کی طرف تجاوز کیا ہے؛ کیونکہ اس نے اپنے اس عمل کے ذریعے امام کی توہین کی اور اسلام کی بے حرمتی کی ہے"۔

ان جملوں میں امامؑ اس حق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جو مأمون اور اس کے آباء و اجداد نے غصب کیا تھا۔ اور جملے کے ظاہری مفہوم سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ "وہ گرہ اور وہ رسی جس کو نہ کھلنا چاہئے اور نہ ہی منقطع ہونا چاہئے، امامت و خلافت کی گرہ اور رسی ہے جس کا ربط و رشتہ اس خاندان سے منقطع نہیں ہونا چاہئے جس کو خداوند متعال نے اس اہم امر کی ذمہ داری سونپی ہے"۔

امامؑ مزید لکھتے ہیں:

"جَرَى السَّالِفُ فَصُبِرَ عَنهُ عَلَى الْفَلَتَاتِ وَلَمْ يُعْتَرِضْ بَعْدَهَا عَلَى الغُرَمَاتِ خَوْفاً مِن شَتَاتِ الدِّينِ واضْطِرَابِ حَبْلِ المُسْلِمِينَ؛

ماضی میں کسی نے ایسا ہی کیا مگر دین میں انتشار اور مسلمانوں میں احتلاف و افتراق کے اندیشوں کی بنا پر، انجام پانے والی لغزشوں صبر کیا گیا اور اس کے بعد کے مسلط کردہ نقصانات پر اعتراض نہیں کیا گیا اور انہیں برداشت کیا گیا"۔ [47]

یہاں امامؑ اپنی اطاعت کے وجوب کی بات کررہے ہیں اور مأمون کو بھی یہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ آپؑ اور آپؑ کے شیعیان اور علویوں کے خلاف ریشہ دوانیوں سے پرہیز کرے اور حق کے پیروکاروں کے زمرے میں داخل ہوجائے۔ آپؑ نے امیر المؤمنین (علیہ السلام) اور آپؑ کے معاصر خلفاء کے اقدامات کی تصویر کشی کی ہے اور یہ کہ اس روز بھی خدا کے حکم سے جس گرہ کو بندھا رہنا چاہئے تھا اس کو کھول دیا گیا اور جس رسی کو منقطع نہیں ہونا چاہئے تھا اس کو منقطع کیا گیا اور امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کو خانہ نشینی پر مجبور کیا گیا اور امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے مسلمانوں میں انتشار و افتراق کا سد باب کرتے ہوئے مسلط کردہ حالات کو برداشت کیا۔

امامؑ نے مزید تحریر فرمایا ہے:

"وقَدْ جَعَلْتُ اللَّهَ عَلَى نَفْسِي إِنِ اِسْتَرْعَانِي أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ وقَلَدَنِي خِلافَتَهُ الْعَمَلَ فِيهِمْ عَامَّة وفي بَني العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ خَاصَّةً بِطَاعَتِهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَى اللَّهُ عَلَيهِ وَآلِه وَأَنْ لَا أَسْفِكَ دَماً حَرَاماً وَلَا أُبِيحَ فَرَجاً وَلا مَالاً إِلَّا مَا سَفَكَتْهُ حُدُودُ اللَّهِ وَأَبَاحَتْهُ فَرَائِضُهُ؛ [48]

میں خدا کو اپنے اوپر گواہ قراردیتا ہوں کہ اگر اس نے مسلمانوں کی قیادت مجھے عطا کی تو میں پوری امت اور خاص طور پر بنو عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ خداکی اطاعت اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سنت کے مطابق برتاؤ کروں گا، کبھی بھی ناحق خون نہیں بہاؤں گا، کسی کی ناموس یا مال و ثروت کو اپنے لئے قبضہ جائز قرار نہیں دوں گا؛ سوا اس خون کے جس کے بہانے کو حدود اللہ نے اور جہاں حدود الٰہی مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہیں"۔

 

یہاں امامؑ نے خدا کو گواہ بنا کر وہ افعال و اعمال انجام نہ دینے کا عہد کیا ہے جو بنوعباس مسلسل انجام دیتے رہے تھے۔ انہوں نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا تھا، ہزاروں افراد کی ناموس ان سے الگ کر لی تھی، لاکھوں انسانوں کے اموال و املاک پر قبضہ کیا تھا اور ہزاروں لاکھوں دیگر جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔

امامؑ عہد کرتے ہیں کہ پوری امت اور خاص طور پر بنوعباس کے ساتھ خدا کی اطاعت اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر عمل کے تقاضوں کے مطابق برتاؤ کریں گے۔ یہ بات سن کر یقینا مأمون اور بنوعباس کے صاحبان منصب کا تن بدن کانپ اٹھا ہوگا؛ کہ اگر امامؑ خلافت سنبھالیں تو ان کا کیا حشر ہوسکتا ہے!۔ یہ وہی عہد ہے جو علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے بھی دوسرے خلیفہ کے انتقال کے بعد شوری کی جانب سے خلافت کی پیشکش سن کر کیا تھا اور"شوریٰ نے اسی وجہ سے خلافت کا عہدہ عثمان بن عفان کو سونپا تھا!" [49]

یقیناً علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی پیروی مأمون اور عباسیوں کے لئے قابل برداشت نہیں ہوسکتی تھی اور اگر امامؑ خلیفہ بنتے اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی حکمت عملی کو ہی چراغ راہ قرار دیتے تو بنو عباس کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نکتے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مأمون خلافت کی پیشکش میں سنجیدہ نہیں تھا۔

بہرحال یہاں امامؑ نے اہل بیت (علیہم السلام) کے طرز حکمرانی اور ان کے دشمنوں کے طرز حکمرانی کے درمیان فرق کو بھی بالکل واضح کردیا ہے۔

امامؑ مزید لکھتے ہیں:

"وَإنْ أحْدَثْتُ أوْ غَيَّرتُ أوْ بَدَّلتُ كُنْتُ لِلغَيَرِ مُسْتَحِقّاً وَلِلنَّكالِ مُتَعَرِّضاً وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ سَخَطِهِ وَإِلَيهِ أرْغَبُ في التَّوفيقِ لِطَاعَتِهِ؛ [50]

اگر میں کسی چیز کا اپنی طرف سے اضافہ کروں یا خدا کے حکم میں تغییر اور تبدیلی کروں یقیناً اس منصب کا حقدار نہیں ہوں گا اور قابل گرفت و سزا ہوں گا اور میں خدا کے ناراض ہونے سے اسی کی پناہ مانگتا ہوں اور اور اس کی اطاعت میں کامیابی کے لئے اسی [کے فضل و کرم] کی تمنا رکھتا ہوں۔۔۔"۔

امام نے یہ فرما کر علمائے سوء کے رائج کردہ اس عقیدے کو نشانہ بنایا ہے کہ: "ہر حکمران یا بادشاہ ہر قسم کے کیفر و سزا اور سؤال و بازپرس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کا مقام و مرتبہ قانون سے برتر و بالاتر ہے اور اگر وہ کسی جرم و گناہ کا ارتکاب کرے تو اس پر تنقید تک نہیں ہونی چاہئے چہ جائیکہ اس کے خلاف قیام کیا جائے اور اس کو ہٹانے کے لئے تحریک چلائی جائے۔ [51]

امامؑ مأمون اور دیگر عباسی خلفاء کی روش کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کو اس نکتے کی طرف متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ فرمانروا کو نظام اور قانون کا پاسدار و نگہبان ہونا چاہئے نہ یہ کہ قانون سے بالاتر ہو کر رہے۔ چنانچہ اس کو کبھی بھی سزا و بازپرس سے نہیں بھاگنا چاہئے۔

امامؑ ولایت عہدی کی دستاویز پر ولایت عہدی قبول کرنے سے اپنی ناپسندیدگی اور اس امر کے لاحاصل ہونے کے بارے میں واضح طور پر تحریر فرماتے ہیں:

"والْجَامِعَةُ والْجَفْرُ يَدُلَّاَّنِ عَلَى ضِدِّ ذَلِكَ ومَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ 'إِنِ الحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ' 'يَقْضي بِالْحَقِّ' 'وَهُوَ خَيْرُ الفَاصِلِينَ'؛ [52]

بایں حال، 'جامعہ" اور 'جفر' [53] میں جوکچھ ہے وہ اس امر کے برعکس ہے؛ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے اور نہیں جانتا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا؛ 'فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے'، جو 'فیصلہ کرتا ہے حق کے ساتھ، 'اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے'"۔

یہاں امامؑ بتا رہے ہیں کہ 'درست ہے کہ میں خلافت کا مستحق ہوں اور ولایت عہدی کا منصب بھی اب میرے پاس ہے مگر یہ خلافت مجھے مل نہیں سکے گی۔

علاوہ ازیں امامؑ، سچے ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) کی امامت کے دوسرے رکن - یعنی علم لدنی، علوم ذاتی اور عالم غیب پر ان کی دسترس سے متعلق علوم – کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ علوم خدائے متعال کی طرف سے رسول اللہ اور ائمہ طاہرین (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کو ہی عطا ہوئے ہیں اور یہ ان کا ایک امتیازی نشان ہے جبکہ دوسرے اس سے محروم ہیں۔ البتہ علم لدنی علم غیب بِمَعنَی الأَعَم نہیں ہے جو صرف خدا کے لئے مخصوص ہے بلکہ ان کے الٰہی و مرتبے کے مطابق بعض پردے ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے تمام پیروکاروں کو نام و نسب کے ساتھ پہچانتے ہیں اور ائمہؑ کو یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے ورثے میں ملا ہے۔ [54] ـ [55]

امامؑ ولایت عہدی کا منصب قبول کرنے کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی اور اجبار و اکراہ کو واضح طور پر بیان کرنے کے بعد رقم فرماتے ہیں:

"لَكِنِّي اِمْتَثَلْتُ أَمْرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَآثَرْتُ رِضَاهُ؛ [56]

لیکن میں نے امیر المؤمنین  [57]کا امر قبول کیا اور ولایت عہدی کا منصب قبول کرکے اس کو خوش کیا"۔

اس عبارت سے یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اگر امامؑ یہ منصب قبول نہ کرتے تو مأمون کے غیظ و غضب سے دوچار ہوتے اور ہم جانتے ہیں کہ سلاطین جور کے غیظ و غضب کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ جرم و جفا کے لئے کسی دلیل اور جواز کے محتاج نہیں ہوتے۔ اور امامؑ دستاویز کے پشت پر اپنی یادداشت کے آخر میں صرف خداوند قدوس کو اپنے اوپر گواہ قرار دیتے ہیں اور مأمون اور اس کے گروہ کو گواہ قرار نہیں دیتے؛ کیونکہ آپؑ کو معلوم تھا کہ انہوں نے اپنے دلوں میں آپؑ کے لئے کیا عداوت چھپا رکھی ہے اور ان کے خفیہ منصوبے کیا ہیں؟

اس نکتے کی اہمیت تب ظاہر ہوتی ہے جب مأمون اپنے ہاتھ سے ایک طویل و عریض دستاویز تحریر کرتا ہے اور امامؑ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس پر اپنے دستخط ثبت کریں اور خدا اور حاضرین کو گواہ قرار دیں۔

نواں موقف

امامؑ نے ولایت عہدی کا منصب قبول کرنے کے لئے مندرجہ ذیل شرطیں رکھیں اور مرقوم فرمایا:

"وَأنَا أقْبَلُ ذَلِكَ عَلَى أنِّي لَا أُوَلِّي أَحَداً وَلَا أَعْزِلُ أَحَداً وَلَا أَنْقُضُ رَسْماً وَلَا سُنَّةً وَأَكُونُ فِي الأمْرِ مِنْ بَعِيدٍ مُشِيراً؛ [58]

میں یہ عہدہ قبول کرتا ہوں اس شرط پر کہ کسی کا تقرر کروں گا نہ کسی کو معزول کروں گا، نہ کوئی رسم و روایت توڑ دوں گا اور نہ موجودہ حالت کو بلکہ دور سے حکومتی امور میں مشیر کا کردار ادا کرتا رہوں گا"۔

مأمون نے ان ساری شرطوں کا مثبت جواب دیا۔

یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ امامؑ نے مأمون کے متعدد منصوبوں کو ناکام بنایا کیونکہ امامؑ کا یہ موقف مندرجہ ذیل امور کا ثبوت تھا:

الف۔ لوگوں کے ذہن میں مأمون کا اصل چہرہ آشکار کرنا اور انہیں اس کے اعمال و افعال کے سلسلے میں موجودہ ابہامات کی طرف متوجہ کرانا۔

ب۔ حکومتی نظام کے قانونی ہونے کا اعتراف نہ کرنا۔

ج۔ مأمون اپنے تمامتر منصوبوں کے باوجود امام کی شرطیں قبول کرنے کے بعد کوئی بھی کام امامؑ کے توسط سے سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔

د۔ امامؑ برسراقتدار طبقے کے کسی فیصلے کو نافذ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ھ۔ امامؑ نے یہ شرطیں لگا کر اپنے زہد و پارسائی کا ثبوت دیا اور جو لوگ امامؑ کو ولایت عہدی کا منصب سنبھالنے کی بنا پر دنیاپرستی کا الزام دیتے تھے وہ بھی اس حقیقت کے قائل ہوئے کہ زہد و تقویٰ کی اس سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ امامؑ نے نہ صرف خلافت اور ولایت عہدی کی پیشکش ٹھکرائی تھی بلکہ ولایت عہدی کا منصب قبول کرنے کے بعد اپنی شرطوں کو مأموں سے منوا دیا اور عملا سیاسی امور سے الگ ہوگئے۔

دسواں موقف

امام رضا (علیہ السلام) نے نماز عید میں نہایت اہم موقف ظاہر کیا:

بیشتر سنی اور شیعہ کتب میں منقول ہے کہ مأمون نے امامؑ سے کہا کہ نماز عید کی امامت کریں اور خطبے پڑھیں تا کہ لوگ پرسکون ہوجائیں اور امامؑ (یعنی مأمون کے ولی عہد) کے فضائل سے آگاہ ہوکر حکومت کے سلسلے میں اطمینان حاصل کریں۔

امامؑ نے ایک شخص کے ذریعے مأمون کو پیغام دیا کہ ہماری ایک شرط یہ تھی کہ میں حکومتی مسائل میں مداخلت نہیں کروں گا لہٰذا مجھے نماز عید کی امامت سے معاف کردیا جا‏ئے۔ مأمون نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ عوام اور امراء اور سپاہیان لشکر میں ولایت عہدی کا امر رسوخ کرے تا کہ وہ اطمینان محسوس کریں اور جان لیں کہ خدا نے آپ کو کس طرح اس منصب کی بدولت برتری بخشی ہے!

امام رضا (علیہ السلام) نے دوسری مرتبہ بھی انکار کیا مگر مأمون کا اصرار بڑھ گیا؛ چنانچہ امام نے فرمایا: "میں نماز کے لئے اسی طرح نکلوں گا جس طرح کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نکلا کرتے تھے"۔

مأمون نے کہا: مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

دوسری جانب سے مأمون نے کمانڈروں اور دیگر مأمورین کو حکم دیا کہ طلوع آفتاب سے قبل امامؑ کے گھر کے سامنے اجتماع کریں؛ چنانچہ طلوع آفتاب سے قبل ہی سڑکیں اور گلیاں انسانوں سے بھر گئیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے، مرد اور عورتیں پورے اشتیاق کے ساتھ امامؑ کے گھر کے گرد جمع ہوکر طلوع آفتاب کا انتظار کرنے لگے۔

آفتاب طلوع ہؤا تو امامؑ اٹھے، غسل کیا اور سفید عمامہ سر پر رکھا، اپنا جسم مطہر معطر کیا اور پروقار انداز سے قدم اٹھاتے ہوئے باہر آئے۔ امامؑ نے اپنے گھر کے کارکنوں کو بھی اسی انداز سے حرکت کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔

عصا ہاتھ میں لے کر عیدگاہ جانے کے لئے تیار ہوئے، گھر سے کثیر مجمع کے ساتھ باہر نکلے۔ آسمان کی طرف رخ کرکے چار مرتبہ تکبیر کہی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔ امامؑ کے ساتھ لوگوں نے بھی تکبیر کی آواز بلند کی۔ آپؑ کی تکبیر کے ساتھ ماحول اچانک بدل گیا محسوس ہوتا تھا کہ گویا در و دیوار اور آسمان و زمین سے تکبیر کی صدا سنائی دے رہی ہے۔ تکبیر کی صدا ہر طرف گونج رہی تھی۔

دوازے کے باہر فوجی کمانڈر آراستہ پیراستہ حالت میں کھڑے تھے اور سب نے بہتریں لباس پہنے تھے۔ امامؑ اپنے افراد کے ہمراہ ننگے پاؤں گھر سے نکلے اور دروازے کے قریب کھڑے ہوگئے اور یہ کلمات زبان مبارک سے جاری فرمائے:

"اللّهُ اَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَرُ اَللَّهُ اكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا وَلَهُ اَلشُّكْرُ عَلَى مَا أَوْلَانَا"۔

لوگوں نے بھی جواب دیا اور شہر مرو سراسر تکبیر کے آوازوں سے گونجنے لگا۔ شدت جذبات سے لوگوں کے آنسو رواں ہوئے اور ان کے قدموں سے زمین لرزنے لگی۔

کمانڈروں اور عوم نے جب یہ حالت دیکھی تو بے اختیار سواریوں سے اترے؛ سب نے جوتے اتارے اور امامؑ کے ہمراہ عیدگاہ کی جانب روانہ ہوئے۔ چند قدم چل کر امامؑ رک جاتے تھے اور بآواز بلند چارتکبیریں کہتے تھے؛ لوگ جواب دیتے تھے اور امامؑ دوبارہ چل پڑتے تھے۔ چاپلوسوں نے خطرہ محسوس کیا۔

جاسوس لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دے رہے تھے اور مأمون کا وزیر "فضل بن سہل" مأمون کو پٹی پڑھانے میں مصروف تھا۔ وہ کہہ رہا تھا:

اے مأمون! اگر علی ابن موسیٰ اسی صورت میں عیدگاہ تک پہنچیں تو لوگ اس قدر ان کے شیدائی ہوجائیں گے کہ ہماری جانوں کو پناہ دینے والا کوئی نہ ہوگا۔

مأمون نے خائف ہوکر اپنا ذاتی پیش نماز عیدگاہ کی طرف روانہ کیا اور امامؑ کو واپس بلوایا۔ پیش نماز نماز عید کے لئے کھڑا ہؤا مگر لوگ آشفتہ حال ہوگئے اور صفیں منظم نہ ہوسکیں۔

دو نکتے نماز امام رضا (علیہ السلام) کے حوالے سے:

1- اس واقعے نے لوگوں پر گہرے اثرات مرتب کئے یہاں تک کہ آج 12 صدیاں گذرنے کے بعد بھی جب کوئی اس واقعے کا مطالعہ کرتا ہے اس کے دینی اور ایمانی جذبات ابھرتے ہیں؛ تو جو لوگ اس دن اس مقام پر موجود تھے ان کی کیا حالت رہی ہوگی۔ البتہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نماز عید کا واقعہ نیشابور کے واقعے کی طرح لوگوں کے دلوں میں امامؑ کی محبت و عقیدت کے بڑھتے ہوئے جذبات و احساسات کا دوسرا بڑا ثبوت تھا۔

2ـ مأمون نے امامؑ کو نماز عید سے واپس بلوا کر اپنے اقتدار کو خطرے میں کیوں ڈالا؟ اگر امامؑ کو نماز عید کے لئے روانہ کرنے سے مأمون کا ہدف اہل خراسان اور اپنے فوجیوں کو فریب دینا اور انہیں حکومت کے سلسلسے میں مطمئن کرنا تھا تو پھر اس نے اس ہیجانی صورتحال میں اتنے بڑے اجتماع کے ہوتے ہوئے آپؑ کو واپس کیوں بلوایا؟ اگر مأمون محض اس بات سے خائف تھا کہ کہیں امامؑ نماز کی امامت نہ سنبھالیں تو پھر اصرار کرکے امامؑ کو نماز کے لئے روانہ کیوں کیا؟ اور اگر خائف نہیں تھا تو کیا جذبات کے اس طوفان سے ہراسان ہؤا جو امامؑ نے لوگوں کے درمیان پیدا کیا تھا؟

بظاہر مأمون کے خوف و وحشت کی وجہ ان وجوہات سے بالاتر تھی؛ اس کو خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امامؑ منبر پر رونق افروز ہوں اور لوگوں کی قلبی اور باطنی آمادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشابور کے واقعے کی مانند اپنی ولایت و امامت کو یکتاپرستی کی شرط قرار دیں!

اس روز امامؑ نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپ کے وصی برحق امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی صورت میں لوگوں کے درمیان حاضر ہوئے تھے اور لوگوں پر اتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے کہ "فضل بن سہل" کے بقول مأمون اور اس کے گروہ کی جانوں تک کے لئے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ ہراساں تھا کہ کہیں امامؑ عباسی دارالخلافہ (مرو) کو عباسی مخالف مرکز نہ بنا دیں۔

چنانچہ مأمون نے عافیت اسی میں سمجھی کہ امامؑ کو نماز سے لوٹا دے اور اپنے اس عمل کے تمام ممکنہ خطرات کو بھی مول لے۔ کیونکہ یہ خطرات جتنے بھی بڑے ہوتے ان کا نقصان (ان کے بقول ممکنہ انقلاب اور) قابو سے باہر ہونے والے حالات سے کہیں کم تھا۔

گیارہواں موقف

ولایت عہدی سے پہلے بھی اور ولایت عہدی کے بعد بھی - امامؑ اپنے عمومی آداب معاشرت اور طرز سلوک کے ذریعے مأمون کی سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بناتے رہے تھے۔ لوگوں نے کبھی بھی امامؑ کو حکومتی شان و شوکت اور چمک دمک سے متاثر ہوتے نہیں دیکھا اور انہیں عوام کے ساتھ آپؑ کے میل جول میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔

عباسیوں کا منشی امام کے طرز معاشرت کے بارے میں کہتا ہے:

"عَنْ إِبْراهيمَ بْنِ الْعَبّاسِ قالَ: مَا رَأَيْتُ أَبَاالْحَسَنِ الرِّضا عليه السلام جَفا أَحَدا بِكَلِمَةٍ قَطُّ وَلَا رَأَيْتُهُ قَطَعَ عَلَى أَحَدٍ كَلامَهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ وَمَا رَدَّ أَحَداً عَنْ حَاجَةٍ يَقْدِرُ عَلَيْها، وَلَا مَدَّ رِجْلَهُ بَيْنَ يَدَي جَليسٍ لَهُ قَطُّ وَلَا أَتَّكِئُ بَيْنَ يَدَي جَليسٍ قَطُّ وَلَا رَأَيتُهُ شَتَمَ أحَداً مِن مَواليهِ ومَماليكِهِ قَطُّ وَلَا رَأَيْتُهُ تَفَلَ وَلَا رَأَيتُهُ يُقَهقِهُ في ضِحْكَةٍ قَطُّ بَلْ كَانَ ضَحِكُهُ التَّبَسُّمَ وإِذا خَلَا وَنَصَبَ مَائِدَتَهُ أَجْلَسَ مَعَهُ علَى مَائِدَتِهِ مَمَالِيكَهُ وَمَوَالِيهِ حَتَّى الْبَوَّابَ السَّائِسِ؛ [59]

امامؑ نے کبھی بھی کسی کو اپنی باتوں سے آزردہ کرتے ہوئے نہیں کیا، کبھی بھی کسی کی بات کو مکمل ہونے سے پہلے قطع کرتے ہوئے نہیں دیکھا، کبھی بھی آپؑ نے کسی سائل کو ٹھکراتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ امکان کی حد تک لوگوں کی حاجت روا کرتے تھے، کبھی بھی آپؑ کو کسی مصاحب کے ہوتے ہوئے پاؤں پھیلاتے نہیں دیکھا، آپؑ نے ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے کبھی بھی دوسروں کی موجودگی ميں ٹیک تک نہیں لگائی، کبھی بھی اپنے خادموں، غلاموں اور کارگزاروں میں سے کسی کو سبّ و شتم کا نشانہ بناتے نہیں دیکھا، کبھی بھی آپؑ کو تھوکتے ہوئے نہیں دیکھا، کبھی آپؑ کو ہنستے وقت قہقہہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ آپؑ کی ہنسی تبسّم [اور مسکراہٹ] تک محدود رہتی تھی، اور جب مجلس برخاست ہوتی تھی اور جب دسترخوان لگاتے تھے تو اپنے سارے خُدّام، غلاموں حتیٰ کہ گھر کے دربان اور چوپایوں کے نگران تک کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا دیتے تھے"۔  

بے شك ان صفات و خصوصیات کا امامؑ کی مقبولیت میں اہم کردار تھا؛ اور صورت حال یہ تھی کہ آپؑ اپنے زمانے کے تمام افراد سے کہیں زیادہ پسندیدہ، مقبول اور ہردلعزیز ہستی کے طور مانے جاتے تھے۔

امامؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، علی بن ابی طالب (علیہما السلام) اور دیگر ائمہ معصومین (علیہم الصلٰوة و السلام) کی طرح، حکومت کو ایک امتیاز اور وجۂ برتری نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپؑ کی نظر میں حکومت ایک نہایت اہم ذمہ داری کا نام تھا اور حاکم کی فضیلت صرف یہ تھی کہ وہ عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر اس کو رضائے الٰہی کے حصول کا وسیلہ سمجھے۔

مختصر یہ کہ:

امامؑ کے جن موقف، کلام اور بیانات کے جن نمونوں کا یہاں تذکرہ کیا گیا ان کے ذریعے مأمون کی تمام ریشہ دوانیاں خاک میں مل چکی تھیں اور مأمون کے پاس مزید کوئی راستہ نہ تھا کہ امامؑ کی عظمت و فضیلت کو ڈھال بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور اپنی سلطنت کی وہ تصویر لوگوں کے ذہن نشین کراتا جس کے حصول کی وہ مسلسل کوشش کرتا رہا تھا۔ مأمون کی سازشوں کو خاک میں ملانے کے لئے امامؑ کا مرتب کردہ پروگرام اتنا کامیاب تھا کہ مأمون کے پاس آپؑ کے قتل کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا اور وہ اس امید سے اس مذموم منصوبے پرعمل کرنا چاہتا تھا کہ جن مسائل اور ناہمواریوں کا اس کو سامنا تھا اور امامؑ کو ولی عہد بنا کر ان کو حل نہیں کرسکا تھا، اور تصور کرتا تھا کہ اب شاید اس طرح انہیں حل کر سکے۔ حمید بن مہران اور دیگر عباسیوں نے بھی مأمون کو اسی امید کا حوالہ دے کر اسے امام کی قتل پر اکسایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ اور حوالہ جات:

[1]. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج10، ص250؛ ابن طِقطَقی، محمد بن طباطبا، الفَخری فی الآداب السلطانیۃ، ص127 ابن زہرہ، تاج الدین ابن محمد حمزہ الحسینی، غایۃ الإختصار فی البیوتات العلویۃ المحفوظۃ من الغبار، (نجف - 1963ھ)، ص67-68؛ الحنفی القندوزی، شیخ سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ، ص384؛ ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین بن محمد اموی، مقاتل الطالبیین؛ سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ "حتی مورخین نے کہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو معزول کرکے خلافت امامؑ کے سپرد کرنا چاہتا تھا۔۔۔ " امامؑ نے اسے اس کام سے منع کیا۔ 

[2]. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(علیہ السلام)، ج2، ص149؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص 134ـ 2۔ فتال النیشابوری، محمد بن حسن (شیخ الشہید)، روضۃ الواعظین، ج1، ص267؛ الطبرسی، فضل بن حسن، إعلام الورى بأعلام الہدىٰ، ص320؛ الحنفی القندوزی، ص384؛ شیخ صدوق، الأمالی، ص42؛ شیخ مفید، الإرشاد،ج2،  ص260؛ الکلینی، الکافی، ج1، ص489۔

[3]. المظفر، علامہ محمد حسین، تاریخ الشیعہ، ص51-52: "(اے مامون!) اگر خلافت تمہارے لئے خدا کی طرف سے تسلیم شدہ حق ہے تو تم اسے اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکو گے اور دوسرے کو واگذار نہیں کرسکوگے اور اگر پھر تمہارے لئے ایسا کوئی حق نہیں ہے تو تم ایسی چیز کیونکر میرے سپرد کرنا چاہتے ہو جو تمہارے پاس ہے ہی نہیں؟!۔۔۔"۔ 

[4]. فتال النیشابوری، روضۃ الواعظین، ج1، ص267 تا 269؛ الطبرسی، اعلام الوری، ص320؛ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص236؛ الحنفی القندوزی، ینابیع المودۃ، ص384؛ شیخ صدوق، الامالی، ص42-43؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص 260؛ الاربلی، علی بن عیسیٰ، کشف الغمۃ، ج3، ص 65-66 و 87؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(علیہ السلام)، ج2، ص140-149؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج4، ص363؛ علامہ الکلینی، الکافی، ج1، ص489؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص129 و 134 136 فیض کاشانی، محمد بن محسن، معادن الحکمۃ؛ المظفر، تاریخ الشیعۃ، و ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، ص261 ابو فراس الحمدانی، حارث بن سعید بن حمدان، شرح میمیۃ، ص164-165، ابن زہرہ، غایۃ الاختصار، ص68۔ 

[5]۔ تاریخ میں ہے کہ وہ اپنے ایک چچا اور ایک کمانڈر عیسی جلودی کے ہمراہ مدینہ گئے اور امامؑ کومدینہ سے مرو کی طرف لے آئے۔ مأمون نے اس کو کچھ مدت تک خراسان کا والی مقرر کیا مگر اپنی بدسلوکیوں کی بنا پر معزول ہؤا

[6]۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل ‎الطالبیین، ص562 و 563؛ دیکھئے: شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص261؛ اور دوسری کتابیں۔

[7]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)،  ج4، ص363؛ شیخ صدوق، الامالی، ص43؛ عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص140؛ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص239؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ص261-262؛ فتال النیشابوری، رو ضۃ الواعظین، ج1، ص139؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص129۔

[8]۔ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص239؛ فتال النیشابوری، روضۃ الواعظین، ج1، ص268؛ شیخ صدوق، الامالی، ص72؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص130؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص139۔

[9]۔  مامون نے ولایت عہدی کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے امامؑ کو مجبور کیا۔ ان منابع میں اس امر کے ثبوت موجود ہیں: ینابیع المودۃ، ص384؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ص261 تا 263؛ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص65؛ شیخ صدوق، الامالی، ص68 تا 72؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص120، 131 اور 149؛ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص237-238؛ شیخ مفید، الارشادد، ص191؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص19؛ ج2، ص139 تا 141 اور ص149؛ الطبرسی، اعلام الوری، ص320؛ قطب الدین راوندی، سعید بن عبداللہ، الخرائج و الجرائح وغیرہ 

[10]۔ گو کہ یہ قابل توجہ امر ہے کہ جس شخص نے اپنے بھائی پر رحم نہ کیا ہو وہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کرسکتا اور اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنے وزیر فضل بن سہل تک کو قتل کردیا۔

[11]۔ ابن طِقطَقی، الفَخری فی الآداب السلطانیۃ، الفخری، ص219 علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص312؛ السیوطی، جلال الدين، عبد الرحمن بن أبي بكر بن محمد، تاریخ الخلفاء، تاریخ الخلفاء، ص308؛ سبط بن جوزی، شمس‌الدین یوسف بن حسام الدین قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ، ص356، بحوالہ اِبْن عِماد، عبدالحی بن احمد عکری صالحی، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب۔

[12] -  یہ موضوع ولایت عہدی کی دستاویز میں ثبت ہؤا ہے۔

[13]۔ ابن صباغ مالکی، الفصول المہمۃ، ص241؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص536؛ الطبرسی، اعلام الوری، ص320؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص143 تا 145؛ العاملی، علامہ سید محسن امین، اعیان الشیعہ، ج4، القسم 2، ص112؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ مفید، الارشاد۔

[14]۔  القِفْطِی، علی بن یوسف، تاریخ الحکماء، ص222 و 223؛ سید بن طاؤس، سید علی بن موسیٰ، فرج المہموم فی تاریخ علماء النجوم، ص142؛ العاملی، اعیان الشیعہ، ج4، القسم 2، ص114؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص132 و 133 شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص147-148؛ و دیگر منابع۔   

[15]۔ مثلاً مأمون کو بھی یہ سارے خطرات درپیش تھے مگر وہ وہ ان سے نمٹنے کے لئے کسی بھی اخلاقی اور قانونی حد کا قائل نہ تھا اور اگر امامؑ بھی ویسے ہی حکمرانی کرنا چاہتے تو پھر اس تبدیلی کی ضرورت ہی کیا تھی جس میں صرف حاکم تبدیل ہو مگر نظام میں کوئی فرق نہ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مکتب محمد و آل محمد مین نظریہ ضرورت کا وجود ہی نہیں ہے اور اگر ہدف مقدس بھی ہو پھر بھی یہ ہر وسیلے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا جبکہ دنیاوی طرز کی حکومتوں میں ہدف حاصل کرنے کے لئے لاشوں پر سے گذرنا بھی درست تصور کیا جاتا ہے اور حقوق کی پامالی بھی صحیح سمجھی جاتی ہے جیسا کہ ہم آج کی دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔

[16]۔ البتہ بظاہر مورخین کو یہ بات نظر نہیں آئی ہے کہ اگر امام خلیفہ بن جاتے تو ولایت عہدی کا منصب بھی ختم ہوکر رہ جاتا کیوں کہ امر مسلم ہے کہ امام معصوم امویوں کی بنائے ہوئے اور عباسیوں کے چلائے ہوئے نظام سلطنت کا بھی خاتمہ کردیتے اور ایسی صورت میں کوئی ولیعہد کیونکر بن سکتا تھا؟!

[17]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)،  ج4، ص364؛ فیض کاشانی، محمد بن محسن، معادن الحکمۃ، ص192؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص140؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص140-141۔

[18]۔ لوگ اپنے بادشاہوں کے مذہب پر ہوتے ہیں۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 102، ص7؛ الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص21)۔

[19]۔ ا اس موضوع پر احمد بن حنبل نے «رسالۃ السنّۃ» میں تصریح کی ہے جو البتہ اہل حدیث کے عقائد میں سے ہے۔ ابوبعلی نے طبقات الحنابلۃ، ج1، ص26 میں یہ بات نقل کی ہے اور ابوالحسن اشعری نے بھی مقالات الاسلامیین، ج1، ص323 اور الابانۃ، ص9 میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

[20]۔ حوالہ نمبر آٹھ میں اس موضوع کے بعض منابع مذکور ہیں۔ ۔۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ آج کی دنیا میں حنفی کہلانے والے لوگ اپنے عقائد کھوچکے ہیں اور اس وقت ان پر سلفی وہابی عقائد کا تسلط ہے اور اسی بنا پر کم از کم برصغیر کی حدتک ان کے نام نہاد نظریاتی گروہ حنفی کہلوانے پر بھی اصرار کرتے ہیں مگر لوگوں کی جان و مال اور ان کی مذہبی و سیاسی آزادی خطرے میں پڑگئی ہے اور یہ حضرات اہم ترین اسلامی اصول "لااکراہ فی الدین" کو پس پشت ڈالتے ہوئے لوگوں پر اپنے عقائد و نظریات ٹھونسنے کی کوشش کررہے ہیں۔

[21]۔ نظریۃ الامامۃ، ڈکٹر احمد محمود صبحی؛ تاریخ بغداد، ج5، ص274 میں ہے: محمد بن مسھر سے کہا گیا کہ تم محمد بن راشدکے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟ اس نے جواب دیا کہ «وہ پیشواؤں کے خلاف قیام کا قائل ہے»۔ طبقات الحنابلۃ، ج3، ص58 میں ہے کہ حسن بن حی پر سفیان کی ترجیح کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ تلوار اٹھانے کا قائل تھا

[22]۔ آج بھی میدان عرفات مین حجاج کرام کے درمیان بانٹے جانے والے کتابچوں میں لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ «اے اللہ کے بندو خلوص کے ساتھ عبادت کرو کہ تمہارا پروردگار آج تمہارا نظارہ کرنے کے لئے اس دنیا کے اوپر والے آسمان پر آبیٹھا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک)

[23]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص91 تا 95؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص181۔

[24]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص95؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص183۔

[25]۔ شیخ صدوق، الامالی، ص235؛ ثواب الأعمال وعقاب الأعمال، ص7؛ معانی الأخبار، ص371۔ مشہور سنی عالم ابو نعیم الاصبہانی مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "هَذَا حَدِيثٌ ثَابِتٌ مَشْهُورٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِنْ رِوَايَةِ الطَّاهِرِينَ عَنْ آبَائِهِمُ الطَّيِّبِينَ، وَكَانَ بَعْضُ سَلَفِنَا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ إِذَا رَوَى هَذَا الْإِسْنَادَ، قَالَ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الْإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَأَفْاقَ؛ یہ حدیث مشہور اور ثابت ہے اسی اسناد سے جو امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے طیب و طاہر آباء و اجداد سے روایت کی ہے اور محدثین میں سے ہمارے بعض اسلاف نے کہا ہے کہ اس سند کو اگر کسی آسیب زدہ اور دیوانہ شخص پر پڑھ لیا جائے تو وہ تندرست ہوجائے گا"۔(حلیۃ الأولیاء وطبقات الاصفیاء، ج3، ص191)۔

[26]۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ائمہ (علیہم السلام) کی تمام حدیثیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیثیں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں و ہ قول اللہ ہے مگر ائمہ (علیہم السلام) ان کا سلسلہ سند عام طور پر بیان نہیں فرماتے گو کہ اجمالی طور پر ثابت ہے کہ یہ سلسلہ سند ہر حدیث کے سلسلے میں رسول اللہ اور خداوند متعال تک جا پھنچتا ہے: قالَ الامامُ جَعْفَرُ بنُ محمّد الصّادقُ علیہ السلام: حَدیثی حَدیثُ ابى وَ حَدیثُ ابى حَدیثُ جَدى وَ حَدیثُ جَدّى حَدیثُ الْحُسَینِ وَ حَدیثُ الْحُسَینِ حَدیثُ الْحَسَنِ وَ حَدیثُ الْحَسَنِ حَدیثُ امیر المؤمنین وَ حَدیثُ امیرَ المؤمنین حَدیثُ رَسُولِ اللّہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) وَ حَدیثُ رَسُولِ اللّهِ قَوْلُ اللّهِ عَزَّ وَ جَلّ۔

میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث قول اللہ عز و جلّ ہے (طباطبائی بروجردی، آیت اللہ سید حسین، جامع الاحادیث الشیعۃ، ج1، ص127؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار: ج2، ص178۔)

[27]۔ کتاب چہاردہ معصومین علیہم السلام کی مؤلف نے لکھا ہے کہ: "جب آپ نے اس اسناد شریف کے ساتھ اس حدیث کو بیان فرمایا تومحمد بن اسلم طوسی اور احمد بن حرب نیشاپوری نے اسے قلم بند کرلیا اسی طرح ان تیس ہزار متبحر محدثین نے بھی یہ حدیث لکھی"۔

[28]۔ شیخ صدوق، الامالی، ص235؛ ثواب الأعمال وعقاب الأعمال، ص7؛ معانی الأخبار، ص371۔

[29]۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ائمہ (علیہم السلام) کی تمام حدیثیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیثیں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں و ہ قول اللہ ہے مگر ائمہ (علیہم السلام) ان کا سلسلہ سند عام طور پر بیان نہیں فرماتے گو کہ اجمالی طور پر ثابت ہے کہ یہ سلسلہ سند ہر حدیث کے سلسلے میں رسول اللہ اور خداوند متعال تک جا پھنچتا ہے: قالَ الامامُ جَعْفَرُ بنُ محمّد الصّادقُ علیه السلام: حَدیثی حَدیثُ ابى وَ حَدیثُ ابى حَدیثُ جَدى وَ حَدیثُ جَدّى حَدیثُ الْحُسَینِ وَ حَدیثُ الْحُسَینِ حَدیثُ الْحَسَنِ وَ حَدیثُ الْحَسَنِ حَدیثُ امیر المؤمنین وَ حَدیثُ امیرَ المؤمنین حَدیثُ رَسُولِ اللّهِ (صلی اللہ علیہ و آلہ) وَ حَدیثُ رَسُولِ اللّهِ قَوْلُ اللّهِ عَزَّ وَ جَلّ۔۔۔

میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث قول اللہ عز و جلّ ہے(بروجردی، جامع الاحادیث الشیعۃ، ج1، ص127؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج2، ص178۔)

[30]۔ شیخ صدوق، الامالی، ص235؛ ثواب الأعمال وعقاب الأعمال، ص7؛ معانی الأخبار، ص371۔

[31]۔ یہ ایک رسالہ ہے جو امام رضا (علیہ السلام) نے مأمون عباسی کے کہنے پر لکھا اور شیخ صدوق نے اس کو اپنی معتبر کتاب "عیون اخبار الرضا (علیہ السلام) میں "باب ما كتبه الرضا عليه السلام للمأمون من محض الاسلام وشرايع الدين ومن اخباره عليه السلام" [باب نمبر 34] میں درج کیا ہے۔ (دیکھئے: عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص129)۔

[32]۔ ابن حجر الہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ، الحنفی القندوزی، ینابیع المودۃ، ابن خلکان، احمد بن محمّد برمکی اِربِلی، وفیات الاعیان، علامہ مجلسی، بحار الانوار، الشوشتری، شیخ محمد تقی، قاموس الرجال۔

[33]۔ الشبراوی، عبداللہ بن محمد بن عامر، الاتحاف بحبّ الاشراف، ص55 الہیتمی، الصواعق المحرفۃ، ج2، ص592۔ ( جس سال ہارون الرّشید حج کے لئے حجاز گیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بارگاہ پر حاضر ہؤا۔ وہاں اس کو بنو ہاشم کے کئی افراد سمیت امام موسی کاظم (علیہ السلام) بھی نظر آئے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے تھے۔۔۔ ہارون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر شریف کے سامنے ٹہر کر کہنے لگا: "السّلام علیک یا رسول اللّہ! یا بنى عمّى؛ سلام ہو آپ پر اے رسول خدا اے میرے چچا زاد بھائی!۔۔۔ اسی حال میں امام موسى کاظم (علیہ السلام) آگے بڑھے اور جب قبر شریف کے قریب پہنچے تو فرمایا: "السّلام علیک یا أبہ؛ سلام ہو آپ پر اے ابا جان"، (شیخ صدوق، عیون اخبار الرّضا (علیہ السلام)، ج1، ص81، شیخ مفید، الاختصاص، ص 54؛ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج48، ص121 و ص125؛ التوبلی البحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، مدینۃ المعاجز، ج6، ص427؛ العاملی، علامہ سید محس امین، اعیان الشّیعۃ، ج2، ص8؛ الحنفی القندوزی، ینابیع المودۃ، ج3، ص117۔)

[34]۔ جبریہ کے مطابق، کوئی ظالم، ظالم نہیں ہے اور کسی مظلوم کو شکایت کا حق نہیں ہے کیونکہ جبریہ کا خیال ہے یہ سب کچھ خدا کی طرف سے مقدر ہے؛ چنانچہ قاتل قتل پر مجبور ہے تو مقتول قتل ہونے پر۔ اس خیال کو آگے بڑھایا جائے تو کافر کا کفر اور مشرک کا شرک بھی مقدر ہے؛ لہٰذا جہاد اور تبلیغ اسلام کی بھی چھٹی ہوجاتی ہے اور آج کل کے بعض مجاہد کہلوانے والوں کو بھی اپنے اسلاف کے ان عقائد کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اور اگر جرم مجبوری ہے تو جج اور عدالت کو بھی بند ہونا چاہئے اور خدا کو بھی جنت اور دوزخ اور قیامت جیسی چیزوں کا خاتمہ کردینا چاہئے (معاذ اللہ)۔ کچھ لوگ جنگ جمل کے دو فریقوں کو بھی کچھ نہیں کہتے حالانکہ ان میں ایک فریق خلیفہ مسلمین کے خلاف لڑا تھا۔ ان کے نزدیک عمار یاسر اور معاویہ دونوں کو رضائے الٰہی حاصل ہوسکتی ہے وہ دونوں کے لئے رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح عقل کو بھی معطل سمچھتے ہیں اور (معاذاللہ) خدا کے لئے بھی ظلم کو جائز سمجھتے ہیں۔ ایسے عقائد کے ہوتے ہوئے باہر سے نئی یلغاروں کا امکان بالکل معقول ہے۔

[35]۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "الحَسَنُ وَالحُسَينُ إمامانِ قاما أَوْ قَعَدا؛ حسن و حسین (علیہما السلام) امام ہیں چاہے وہ امامت و رہبری کے لئے قیام کریں یا عملی قیادت سے منصرف ہوکر بیٹھ جائیں۔" (ابن شہر آشوب، مناقب آل أبى طالب، ج2، ص138) نیز آنحضرت نے فرمایا: "إِبْنَايَ هَذَانِ إِمَامَانِ قَامَا أَوْ قَعَدا؛ میرے یہ دو بیٹے امام ہیں خواہ قیام کریں خواہ بیٹھ جائیں (شیخ مفید، الفصول المختارہ، ج303) نیز فرمایاا: "الْحَسَنُ وَالْحُسَينُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ وَأبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا؛ حسن اور حسین (علیہما السلام) جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں"، (الکوفی القاضی، محمد بن سلیمان، مناقب الامام امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ج2، ص250)۔ بہرصورت ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) رہبر و امام ہیں۔ یہ قاعدہ تمام ائمہ اثناعشر کے لئے ہے۔ چنانچہ وہ اپنی امامت کا اعلان کرنے اور امامت مسلمین کے عملی نمونے پیش کرنے میں کبھی بھی کسی سے گھبراتے نہیں تھے۔ شیخ سلیمان حنفى قندوزی نے، ینابیع المودﺓ باب 57 میں طبرانى, حافظ عبدالعزیز, ابن ابى شیبہ, خطیب بغدادى, حاکم, بیہقى, بغوى، طبرى اور کئی اکابر علمائے اہل سنت سے یہ حدیث اور دیگر متعدد احادیث نقل کی ہیں۔

[36]۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص280؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص283-284۔

[37]۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص151۔

[38]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج4، ص 364 تا 369؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص144؛ شیخ صدوق، علل الشرائع، مقاتل ‎الطالبیین، الشبلنجی الشافعی، مؤمن بن حسن، نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار (صلی اللہ علیہ و آلہ)؛ المکی الموسوی، السيد العباس بن علی بن نور الدين، نزہۃ الجلیس و منیۃ الادیب الانیس؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)۔

[39]. شیخ مفید، الإرشاد، ج2، ص262؛ ، فتال النیشابوری، روضۃ الواعظين، ص249؛ إعلام الورى، ج2، ص74؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج49، ص149؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبيّين، ص455۔

[40]۔ ابو الفتح الکراجکی، محمد بن علی بن عثمان الطرابلسی، کنز الفوائد، ص166؛ سید مرتضی، علی بن حسین بن موسی، الفصول المختار‍ۃ من العیون المحاسن، ص15-16؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص188؛ عطاردی، شیخ عزیز اللہ بن حاجی محمد، مسند الامام الرّضا، ج1، ص100۔

[41]۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص158؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص152؛ عطاردی، مسند الإمام الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص70۔

[42]۔ سورہ غافر آیت 19۔

[43]. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص158۔

[44]۔ علامہ الکلینی، الکافی، ج1، ص187؛ شیخ مفید، الاختصاص، ص278؛ عطاردی، مسند الامام الرّضا، ج1، ص103۔

[45]۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص158۔

[46]۔ شیخ صدوق، وہی ماخذ؛ الاربلی، ج3، ص128۔

[47]۔ وہی مآخذ۔۔۔ قوی احتمال یہ ہے کہ یہاں خلیفہ دوئم کے اس جملے کی طرف اشارہ ہو کہ خلیفہ اول کی بیعت درحقیقت حالات سے نکلنے کا راستہ تھی۔ مگر انھوں نے اس کو عام کر دیا اور بعد والی بیعتیں بھی اس میں شامل ہوگئیں؛ کیونکہ بعد کی بیعتوں کا حال بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں تھا۔

[48]۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص128؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص152۔

[49]۔ الشیبانی، احمد بن حنبل، المسند، ج1، ص560؛ الہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج5، ص185؛ ابن اثیر الجزری، علی بن محمد، اُسُدُ الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج4، ص102۔   

[50]۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص128؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص152۔

[51]۔ یہ قوانین کچھ انسانوں کے خودساختہ ہیں اور ظاہر ہے کہ جو خود قانون بناتے ہیں وہ اپنے آپ کو بھی اس قانون سے بالاتر قرار دیں گے اور بہانہ یہ بنائیں گے کہ اگر ان پر بھی قانون لاگو کیا جائے تو قانون کو نافذ کون کرے گا؟ اور ان لوگوں کو بھی مستثنیٰ کریں گے جو ان کے نظریئے کو زندہ رکھتے ہیں اور آگے بڑھاتے ہیں۔ اموی اور عباسی بادشاہ اگرچہ خلفائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کہلاتے تھے اور قرآن وسنت کی بالادستی کے نعرے بھی لگاتے تھے مگر ان کا قانون ان کے اپنی ہاتھوں کا بنایا ہوا تھا جو مکتوب نہیں تھا مگر نافذ العمل تھا۔

[52]۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص129۔

[53]۔ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "جفر احمر اور جفر ابیض (سرخ جفر اور سفید جفر) اور مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہمارے پاس ہے۔ جفر احمر (سرخ جفر) ایک صندوق کا نام ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اسلحہ محفوظ کیا گیا ہے۔ جفر ابیض (سفید جفر) ایک صندوق ہے جس میں موسیٰ (علیہ السلام) کی توریت، عیسی (علیہ السلام) کی انجیل، داؤد (علیہ السلام) کا زبور،  ابتدائی آسمانی کتب اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے ہیں؛ اور مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) میں قیامت تک کے تمام وقائع و حوادث اور تمام سلاطین کے نام درج ہیں"۔ "جامعہ" 70 ذراع طویل کتاب ہے جس کو طومار کی طرح لپیٹا جاتا ہے۔ یہ کتاب حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے املاء کرکے سنائی ہے اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے تحریر فرمائی ہے۔ اس کتاب میں وہ سب چیزیں درج ہیں جن کی قیامت تک مخلوقات کو ضرورت پڑتی ہے۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج26، ص18 تا 66)۔

[54]۔ امامت کے ودائع: امامت کی امانتیں خدا کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے علی (علیہ السلام) کو ملی تھیں جو اس وقت امام زمانہ (علیہ السلام) کے پاس محفوظ ہیں۔ علی (علیہ السلام) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امام علی (علیہ السلام) کو کیا دیا اور آپؑ کی پاس کیا تھا جو نسل اندر نسل ائمہ (علیہم السلام) کو منتقل ہوتا رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

1- رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے رحلت سے پہلے فرمایا: "اے علی! ای محمد کے برادر! کیا تم میرے وعدے پورے کروگے؟ میرے قرض ادا کروگے؟ امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) نے عرض کیا: "کیوں نہیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجاؤں"۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی انگوٹھی اتار کر امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے حوالے کردی اور فرمایا: "میری زندگی میں ہی یہ انگوٹھی پہن لو!"۔ امام علی (علیہ السلام) نے انگوٹھی پہن لی۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بلال کو بلایا اور فرمایا: "میرا خود، میری زرہ، میرا پرچم، میری شمشیر اور میرا "سحاب" نامی عمامہ، میرا بُرد (لمبا لباس)، میرا ابرق (دو رنگوں کی مخصوص رسی) اور میرا قضیب ممشوق (چھوٹی سی چھڑی)، میرے نعلین کے دو جوڑے، میرا وہ پیراہن جس کو پہن کر میں نے معراج کا سفر کیا، میرا وہ پیراہن جو میں نے جنگ احد میں پہنا تھا، رات والی تین ٹوپیاں، ایک سفر کی ٹوپی اور ایک وہ ٹوپی جو میں عید کے روز استعمال کیا کرتا تھا، اور وہ ٹوپی جو اصحاب کی معیت میں استعمال کیا کرتا تھا، میرے دو خچر "شہباء" اور "دلدل"، میرے دو اونٹ "عضباء" اور "صہباء"، میرے دو گھوڑے "جناح" اور "حیزدم"، اور میرا گدھا "یعفور" لے کر آؤ"۔ بلال وہ سب کچھ لے آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت امیر (علیہ السلام) سے فرمایا: "میری زندگی میں ہی یہ چیزیں لے لو"۔

2- امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کثیر مکتوبات میرے پاس ہیں۔ ان میں ایک صحیفہ ہے جس میں 60 بے دین عرب قبائل کے نام تحریر ہیں"۔

3۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تلوار کے تسمے میں ایک چھوٹا سا صحیفہ تھا۔ ایک دن حضرت امیر (علیہ السلام) نے وہ صحیفہ نکال کر کھولا اور امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے حوالے کرکے فرمایا: پڑھو! امام حسن (علیہ السلام) نے پڑھ لیا۔ پھر امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے وہ صحیفہ امام حسین (علیہ السلام) کو دیا۔ امام حسین (علیہ السلام) نے بھی پڑھ لیا۔ اس کے بعد امامؑ نے وہ صحیفہ محمد بن حنفیہ کے حوالے کیا مگر وہ نہ پڑھ سکے۔ امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے اسے دوبارہ تسمے سے بند کرکے رکھا۔ اس صحیفے میں کچھ حروف ہیں اور ہر حرف سے ہزار دروازے کھلتے ہیں اور ابھی تک اس کے صرف دو حرف خارج ہوئے ہیں۔

4- امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اللہ سے علم کثیر کی انتجا کی تھی جو ہمارے پاس ہے؛ نہ وہ کسی نبی اور وصی کے پاس ہے نہ ہی انبیاء کے فرزندوں کے پاس ۔ ہم اسی علم کے بدولت تمام مصائب، حوادث اور موت کے واقعات پر آگہی رکھتے ہیں"۔

5- حذیفہ کہتے ہیں: میں صحرا میں حضرت امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کا ہم سفر تھا۔ ہمارے آگے آگے ایک لدا ہوا اونٹ تھا جو ہم سے بالکل دور نہیں ہوتا تھا۔ میں نے امامؑ سے دریافت کیا: "اس اونٹ پر کیا لدا ہوا ہے؟"

امامؑ نے فرمایا: "یہ دیوان شیعیان ہے جس میں ہمارے تمام شیعوں اور ان کے آباء و اجداد کے نام تحریر ہیں"۔

میں نے عرض کیا: کیا ہم بھی اس کتاب کا دیدار کرسکتے ہیں؟ امامؑ نے دوسرے روز اس کتاب کو ہمارے سامنے کھولا اور میں نے اپنا نام اس میں دیکھ لیا۔ بعض روایات میں اس کتاب کا نام "ناموس" بتایا گیا ہے۔

6- رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک روز ایک کتاب کھول کر اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑلی اور فرمایا: جنت والوں کے نام اس کتاب میں درج ہیں اور اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دوسری کتاب کھول کر بائیں ہاتھ میں پکڑلی اور فرمایا: دوزخ والوں کے نام اس کتاب میں درج ہیں؛ اور پھر وہ دونوں کتابیں امیر المؤمنین (علیہ السلام) کو عطا کردیں۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج26، باب 1، علوم، ص18 تا 66؛ ج26، باب7 علوم، ص117 تا 132 اور ج 26، باب 16 علوم، ص201 تا 222۔)

7- مصحف على اور صحیفہ على نامی کتابیں حضرت امیر (علیہ السلام) سے منسوب ہیں۔ صحیفہ علی (علیہ السلام) اہل سنت کے ہان اسی نام سے مشہور ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے علاوہ شیعہ اور سنی کتب میں بارہا مذکور ہے۔ اہل سنت کی قدیم صحاح و مسانید جیسے "صحیح بخارى"، "صحیح مسلم"، "سنن ابى داؤد" اور "مسند احمد بن حنبل" میں اس کتاب سے کئی روایتیں منقول ہیں۔ یہی مختصر کتاب حضرت امیر (علیہ السلام) کی تلوار کے غلاف میں رکھی جاتی تھی۔ (محمد جواد جلالى حسینى، تدوین السنۃ الشریفۃ، قم، مکتب الاعلام الاسلامى،ص61-52۔)

ایک کتاب "کتاب على" کے نام سے محدثین کے ہاں مشہور ہے اور تمام محدثین کا اس کتاب کی موجودگی پر اجماع ہے؛ شیعہ علماء نے اس کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ متعدد روایات میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ یہ کتاب صحیفہ، جامعہ، جفر یا صحیفہ جامعہ بھی کہلائی ہے۔ جس کا طول 70 ذراع ہے اور حضرت امیر (علیہ السلام) کی تحریر کردہ ہے اور بعد کے ائمہ (علیہم السلام) کو ورثے میں ملی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں تمام احکام موجود ہیں حتیٰ کہ ارش خدش (معمولی خراش کی دیت) بھی اس میں مرقوم ہے۔(محمد جواد جلالى حسینى، تدوین السنۃ الشریفۃ، ص76-62۔) روایت نمبر 3 میں بھی اسی کا ذکر موجود ہے اور فرق صرف اس کے مضمون کے بارے میں ہے۔ اور بعض روایات میں ائمہ طاہرین (علیہم السلام) نے فرمایا ہے: "علم ہمارا ہے اور ہم اہل علم ہیں اور پورا علم ہمارے پاس محفوظ ہے۔ قیامت تک جتنے بھی واقعات و حوادث رونما ہوتے ہیں- حتی کسی کھال پر معمولی سی خراش تک – ہمارے پاس مکتوب ہے۔ اور یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیر (علیہ السلام) سے لکھوایا ہے۔ (الاحتجاج، فضل بن حسن طبرسى،  ص155 ؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص100) سید شرف الدین العاملی (رح) لکھتے ہیں: على (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے بعد قسم اٹھائی کہ: نماز کے سوا کسی بھی کام کے لئے رداء نہیں پہنوں گا جب تک کہ قرآن کو جمع نہ کردوں۔ چنانچہ آپؑ نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپ نے ایک کتاب سیدہ فاطمہ (علیہا السلام) کے لئے تالیف کی جو کہ آپؑ  کے فرزندوں کے ہاں مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب امثال و حِکَم پر مشتمل ہے۔ اور اس کے بعد آپؑ نے ایک اور کتاب تحریر فرمائی جس کا نام آپؑ ہی نے صحیفہ رکھا۔ (سیدعبدالحسین شرف الدین العاملى، المراجعات، 411۔)

[55]۔ میانجی، شیخ علی احمد، مکاتیب الرسول، ج1، صفحہ 59 سے 89 تک۔۔

[56]۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج3، ص129۔

[57]۔ بے شک ہم صرف اور صرف علی (علیہ السلام) کو امیر المؤمنین  کہتے ہیں اور ائمہ (علیہم السلام) کا حکم یہی ہے؛ گوکہ خلفاء ثلاثہ کے دور سے یہ لقب تمام خلفاء کے لئے عام ہو گیا؛ اور یہ لفظ اس زمانے کے لوگوں کے ہاں مقدس نہیں سھجھا جاتا تھا؛ وہ ہر حاکم کو امیر المؤمنین سمجھتے تھے۔ کیوں کہ وہ ان کا امیر ہوتا تھا اور لوگ اپنے آپ کو مؤمن سمجھتے تھے لہٰذا اپنے امیر کو امیر المؤمنین کہتے تھے۔ یہاں امام رضا (علیہ السلام) نے مامون کو جو امیر المؤمنین کا لقب دیا ہے اس کا مطلب وہی امیر المؤمنین ہے جو اس دور کے لوگوں کے درمیان مرسوم تھا۔

[58] ۔ابن صباغ المالکی، علی بن احمد بن عبداللہ، الفصول المہمۃ فی معرفۃ احوال الائمۃ، ص241؛ الشبلنجی الشافعی، نورالابصار، ص43 کے بعد؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص20 اور ج2، ص183؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب(علیہم السلام)، ج4، ص363؛ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص238 ـ الطبرسی، اعلام الوری، ص320؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج49، ص34-35 اور دیگر صفحات - الاربلی، کشف الغمّۃ، ج3، ص69؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص260؛ شیخ صدوق، الامالی، ص126-127؛ الکلینی، اصول الکافی، ص489؛ فتال النیشابوری، روضۃ الواعظین، ج1، ص268-269 ـ فیض کاشانی، محمد بن محسن، معادن الحکمۃ، ص 180؛ ابو فراس الحمدانی، شرح میمیۃ، ص165۔۔

[59]۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص198۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریر میں میں "زندگی سیاسی ہشتمین امام تشریح موضع 3 " – جو کہ imamreza.net میں درج تھا -  سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔

تالیف: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110