اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
مدینہ منورہ کے محلے "مشربۂ ام ابراہیم" کا مختصر تعارف:
مشربۂ ام ابراہیم ایک مقام کا نام ہے جو شارع علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی ایک گلی میں واقع ہے؛ جب زائرین اس گلی کے پاس جاکر کھڑے ہو جاتے ہیں تو انہیں سفید سیمنٹ سے بنی ایک چاردیواری نظر آتی ہے جس کے دروازے پر ایک تالا لگایا گیا ہے اور جن لوگوں نے تالا لگایا ہؤا ہے وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ تالا لگا کر اس مقام کی تاریخی حیثیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کو چھپایا جا سکے گا!
مشربۂ ام ابراہیم در حقیقت مدینہ کے ایک چھوٹے سے باغ کا نام ہے جو قبا کے مشرق اور بنی قریظہ کے علاقے کے شمال میں العوالی کے علاقے میں واقع ہؤا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرزند ابراہیم (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ (سلام اللہ علیہا) کا گھر بھی یہیں تھا اور ابراہیم بن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولادت بھی یہیں ہوئی تھی۔ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) طویل مدت تک یہیں قیام پذیر رہے اور اسی مقام پر عرصے تک نمازیں ادا کرتے رہے تھے۔
مشہور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے وہاں پانی کے مٹکے رکھے تھے جن سے لوگ پانی پیا کرتے تھے۔ اسی مقام پر امام صادق (علیہ السلام) کی زوجہ مطہرہ اور امام رضا (علیہ السلام) کی دادی سیدہ حمیدہ خاتون (سلام اللہ علیہا)، امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی زوجہ مطہرہ اور امام رضا (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ سیدہ نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) بھی یہيں مدفون ہیں اور امام صادق (علیہ السلام) نے اس مقام کی زيارت کی سفارش فرمائی ہے۔
مشربۂ ام ابراہیم وہی مقام ہے جہاں امام رضا (علیہ السلام) نے مامون عباس کے جبر کی بنا پر مرو کا سفر اختیار کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: "میرے لئے عزاداری کرو"، جب وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: "اس سفر میں کوئی واپسی نہیں ہے اور میں شہید ہو جاؤں گا"۔
روایت میں ہے کہ عقبہ بن خالد نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا: ہم مدینہ کے اطراف میں واقع مساجد کی زیارت کرتے ہیں، آپ فرمایئے کہ کس مسجد سے شروع کریں تو بہتر ہوگا؟
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"اِبْدَأْ بِقُبَا فَصَلِّ فِیهِ وَأَکْثِرْ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَسْجِد صَلَّی فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ (ص) فِی هَذِهِ الْعَرْصَةِ ثُمَّ إئْتِ مَشْرَبَةَ أُمِّ إِبْرَاهِیمَ فَصَلِّ فِیهَا وَهِیَ مَسْکَنُ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَمُصَلاَّهُ؛ (1)
مسجد قبا سے آغاز کرو اور وہاں زيادہ نماز پڑھو کیونکہ یہ اس علاقے کی پہلی مسجد ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد مشربۂ ام ابراہیم چلے جاؤ اور وہاں نماز پڑھو کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مسکن اور مصلّی' (نماز پڑھنے کا مقام) ہے"۔
اب اس زمانے میں اس مقام کی صورت حال رسول اللہ اور آل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ ہونے والے نہایت وہابیانہ طرز سلوک کی گواہی دیتی ہے۔ آل سعود نے اس مقدس مقام کے دروازے کو مقفل کردیا ہے لیکن وہ شاید نہیں جانتے کہ رسول اور آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے عاشقوں کے عشق کو تالوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا؛ ان وہابیانہ اقدامات کی وجہ سے رسول و آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے لوگوں کی محبت بڑھ جاتی ہے اور اس اقدام کا ارتکاب کرنے والے مسلمانوں کی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں؛ اور حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نہیں جانتے، جب دیکھتے ہیں کہ ایک مقدس مقام پر تالے لگے ہوئے ہیں تو سوچ میں پڑجاتے ہیں اور جب سمجھ لیتے ہیں اس مقام کا تعلق کن سے ہے وہ بھی اہل بیت (علیہم السلام) کے عاشق و شیدائی بن جاتے ہیں۔
روایات کے مطابق حضرت امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) اور حضرت سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا پہلا گھر یہیں تھا اور ان دو عظیم ہستیوں نے بھی اپنی معنوی اور خیر و برکت سے بھرپور زندگی یہيں سے شروع کی تھی۔ تاہم مشربۂ ام ابراہیم میں دوسرے تاریخی واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ ساتویں امام اور نویں معصوم حضرت امام موسی الکاظم (علیہ السلام) کی ولادت یہیں ہوئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ مقام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد اہل بیت (علیہم السلام) کے پاس رہا اور یہ خود اس جعلی حدیث کی نفی بھی ہے کہ "ہم انبیاء ترکہ نہیں چھوڑا کرتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے!"۔
مشربۂ ام ابراہیم کا پس منظر
مشربۂ ام ابراہیم بنی قریظہ کے شمال میں، حرّہ شرقی میں واقع ہے جسے دشت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک باغ تھا جو مدینہ میں طلوع اسلام کے وقت "مُخَیریق" نامی یہودی عالم کا تھا جو احبار یہود میں شمار کئے جاتے تھے۔ جنگ احد کی آمد پر مخیریق نے یہودیوں سے کہا کہ ہم پر لازم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ اپنے معاہدے کے تحت ان کی مدد کریں، ان کا تمہارے اوپر حق ہے۔
یہودیوں نے کہا: آج سنیچر کا دن (یوم السبت یعنی یہودیوں کا مقدس دن) ہے۔
مخیریق نے ان کی بات نہ مانی اور تلوار اٹھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے جا ملے۔
انھوں نے روانگی کے وقت کہا: اگر میں مارا جاؤں تو میرا پورا مال اور میری جائیداد محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے نام ہے۔
وہ احد میں مشرکین قریش کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کے حق میں فرمایا:
"مُخَيرِيق خَير يهُود؛ (2)
مخیریق یہودیوں میں سے بہتر تھے"۔
چنانچہ مخیریق نے مشربۂ ام ابراہیم سمیت "حیطان سبعہ" (سات باغات) کو رسول اللہ (صلی اللہ و آلہ) کے نام کر دیا تھا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان میں سے کچھ باغات کو وقف کیا یہ بطور صدقہ مستحقین کے سپرد کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے خلیفہ اول سے فرمایا کہ "فدک میری ذاتی جائیداد ہے اسے میرے حوالے کرو، اور سات باغیوں میں سے باقیماندہ باغات کو بھی میرے سپرد کرو، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذاتی جائیداد سمجھے جاتے ہیں، لیکن خلیفہ نے حیل و حجت کے ذریعے انکار کر دیا۔ خلیفہ ثانی کے دور میں امیرالمؤمنین اور عباس بن عبدالمطلب نے ان باغات کا مطالبہ کیا تو انھوں نے ان باغات کا انتظام امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو سونپا۔
مشربۂ ابراہیم حال حاضر میں
ان دنوں زائرین مشربۂ ام ابراہیم سے دور کھڑے ہوکر اہل بیت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سلام دے سکتے ہیں لیکن یہ سلام دل و جان کی گہرائیوں سے اور خلوص و عقیدت کی انتہاؤں پر ہوتا ہے؛ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ پیغمبر رحمت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے زائر ہوں اور تھوڑے سے فاصلے پر واقع ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی والدات کی زیارت کو نہ جائیں! یہ کون سی منطق میں درست ہے کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے محبت کا دعویٰ کریں اور آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے محبت نہ کریں اور انہيں بھول جائیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ الکلینی، الکافی، ج4، ص560۔
2۔ ابن اثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج2، ص162۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110

