اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

3 مئی 2024

4:52:47 PM
1455956

طوفان الاقصی؛

آج غزہ کا مسئلہ دنیا کا پہلا مسئلہ ہے / غزہ پر صہیونی جارحیت سے اسلامی جمہوریہ کے موقف کی حقانیت ثابت ہوئی / حل یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو واپس دیا جائے۔ امام خامنہ ای

اسلامی انقلاب کے رہبر معظّم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے یکم مئی 2024ع‍ کو یوم معلم کے موقع پر پورے ملک سے آئے ہوئے اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین اور غزہ کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: آج غزہ کا مسئلہ دنیا کا پہلا مسئلہ ہے؛ اور بین الاقوامی سطح پر، صہیونی اور ان کے امریکی اور یورپی حامی غزہ کے مسئلے کو رائے عامہ کے ایجنڈے سے خارج کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں، مگر ناکام رہتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے یوم معلم کے موقع پر ایرانی اساتذہ اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے غزہ کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

آج غزہ کا مسئلہ دنیا کا پہلا مسئلہ ہے اور بین الاقوامی سطح پر، صہیونی اور ان کے امریکی اور یورپی حامی غزہ کے مسئلے کو رائے عامہ کے ایجنڈے سے خارج کرنے کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں، مگر ناکام رہتے ہیں۔ آپ امریکی جامعات پر ایک نظر ڈالیں؛ آج میں خبروں میں دیکھ رہا تھا کہ آسٹریلیا اور اور مختلف یورپی ممالک میں بھی کئی اور جامعات بھی ان سے جا ملی ہیں۔ (1) جس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام عالم غزہ کے مسئلے پر حساس ہیں۔ یہ مسئلہ آج دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو دنیا کی بین الاقوامی نگاہ میں "پہلا مسئلہ" (اور شہ سرخی) ہونے کے موجودہ حالت سے خارج نہیں ہونے دینا چاہئے۔ صہیونی ریاست پر دباؤ روز بروز بڑھنا چاہئے۔

ایک خاص نکتہ پایا جاتا ہے جس کی طرف توجہ دینا، اچھا ہے۔ دیکھئے آج پوری دنیا صہیونیوں کے برتاؤ کو دیکھ رہی ہے تیس ہزار سے زیادہ افراد، چھ مہینوں کے اس دور میں شہید ہوئے ہیں۔ جن میں کم از کم نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے؛ یہ معمول بات نہیں ہے، اس قدر بے رحمی، اس قدر درندگی، چھوٹی بات نہیں ہے، کہ پاگل کتا فلسطینی بچوں، مریضوں، بڑھوں اور خواتین پر حملہ آور ہو۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے دائمی موقف کی حقائیت کو دنیا والوں کے لئے ثابت کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اس دائمی موقف کی حقانیت ثابت ہو گئی؛ کیوں؟ اس لئے کہ کئی عشروں سے اسلامی جمہوریہ کے اندر کہا جاتا ہے "صہیونی ریاست مردہ باد"، آج یہ حق پر مبنی موقف ثابت ہؤا۔ پوری دنیا کو دکھایا گیا کہ حق اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ہے، حق ملت ایران کے ساتھ ہے؛ کیونکہ اس غاصب ریاست نے اپنی شر انگيز اور خبیث ذات کو اس عظیم آزمائش میں عیاں کرکے دکھایا۔ اسلامی جمہوریہ کی حقانیت ثابت ہوئی۔  

دوسرا نکتہ، امریکی رویوں سے متعلق ہے۔ دیکھ لیجئے، امریکی اور ان کے مخالف ادارے، اسرائیل کے ساتھ زبانی کلامی مخالفت کرکے، کیا سوداکاری کر رہے ہیں!

امریکی جامعات کے طلبہ نے نہ تخریب کاری کی ہے، نہ تخریب کاری پر منتج ہونے والا کوئی نعرہ لگایا ہے، نہ کسی کو مارا ہے، نہ کسی مقام کو نذر آتش کیا ہے، نہ کہیں کوئی شیشہ توڑا ہے، لیکن امریکی حکام ان سے ساتھ کیا [وحشیانہ] سلوک روا رکھ رہے ہیں۔ اس امریکی طرز سلوک نے اسلامی جمہوریہ کے ـ امریکہ پر بدگمانی پر مبنی ـ موقف کی حقانیت کو ثابت کردیا، یعنی در حقیقت یہ طرز سلوک آپ کے اسی نعرے کی پشت پناہ بن گیا جو آپ دیا کرتے ہیں: "مرگ بر آمریکا [مردہ باد امریکہ]"، اس نے دنیا والوں کو دکھا دیا کہ کہ امریکہ اسرائیلی جرم میں برابر کا شریک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ ہمدردی پر مبنی کوئی لفظ پر زبان پر لائیں، لیکن سب جھوٹ ہے، حقیقت سے متصادم ہے۔ جو کچھ ہم عملی صورت میں دیکھ رہے ہیں،  اس سے اس جرم عظیم اور ناقابل بخشش گناہ میں صہیونی ریاست کے ساتھ امریکیوں کی ہمراہی، معیت اور شراکت عیاں ہے۔ وہ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیونکر ممکن ہے کہ اس طرح کے کسی نظام [حکومت] اور اس طرح کی کسی ریاست سے اچھائی کی امید رکھی جائے اور اس پر اعتماد کیا جائے؟ کیسے ممکن ہے؟

اگلے نکتے کا تعلق فلسطین کے جاری [موجودہ] مسئلے سے متعلق ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ جب تک کہ فلسطین اصل مالکین کی طرف نہیں پلٹے گا، مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ اگر [صہیونیت کے حامی] اگلے 20 یا 30 سالوں تک بھی اس ریاست کو پاؤں پر کھڑا رکھنے کے لئے کوشاں ہوں، ـ کہ ان شاء اللہ ایسا نہیں کرسکیں گے ـ تو بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ صرف اسی وقت حل ہوگا جب فلسطین اس کے اصل مالکین ـ یعنی فلسطینی عوام ـ کے ہاتھوں میں پلٹ آئے۔ فلسطین فلسطینی عوام کا وطن ہے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں اور عیسائی اور یہودی بھی؛ فلسطین ان لوگوں کا وطن ہے۔ فلسطین ان لوگوں کو واپس دیا جائے، اور فلسطینی عوام خود ہی اپنا حکومتی نظام قائم کریں؛ اور پھر قائم کردہ نظام خود فیصلہ کرے کہ وہ صہیونیوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہتے ہیں؛ انہیں نکال باہر کر دیں، یا رہنے دیں؛ یہ فیصلہ وہ خود ہی کریں۔ یہ وہ راہ حل ہے کہ جس کا ہم نے چند سال قبل اعلان کیا، اور اقوام متحدہ میں بھی رجسٹرڈ ہؤا؛ آج بھی اسی حل پر زور دیتے ہیں؛ اور جب تک یہ سب نہ ہؤا ہو، مغربی ایشیا کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جا کر اطراف کے ممالک کو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لائیں، تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، نہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ فرض کریں کہ آس پاس کے مختلف ممالک ـ بطور خاص عرب ممالک ـ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائیں، لیکن پھر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ اقدام، ان ممالک کی حکومتوں کو اس مسئلے سے دوچار کرے گا؛ یہ وہ حکومتوں جنہوں نے ان جرائم اور مظالم پر آنکھیں بند کر لیں اور اس قسم کے جرائم کے باوجود اس ریاست کو دوستی کا ہاتھ بڑھایا؛ جس دن یہ حکومتیں یہ اقدام کریں گی، متعلقہ ممالک کے عوام ان حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ چنانچہ ایسا کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا؛ فلسطین کو فلسطینی عوام کے سپرد کرنا چاہئے۔

ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ یہ مستقبل جلد از جلد پہنچا دے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ الله و‌ برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں میں صہیونیوں کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک کی طرف اشارہ، جن کے دوران بے شمار اساتذہ کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110