اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

9 اپریل 2024

11:31:44 PM
1450310

امام علی نقی الہادی (علیہ السلام) نے فرمایا: "إنَّمَا الأعیادُ أربَعَةٌ لِلشّیعَةِ: الفِطرُ والأضحی والغَدیرُ والجُمُعَةُ؛ بے شک شیعیان اہل بیت کی چار عیدیں ہیں: عید فطر، عید الضحی، عید غدیر اور جمعہ"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر کے کسی بھی سائنسی اور علمی شعبے میں ماہرین کے سوا کسی کو بھی اظہار خیال کی اجازت نہیں دی دی جاتی؛ یہاں تک کہ لوہار، بڑھئی، مچھیرے، کاشتکار، جولاہا، غرض ہر شعبے کا ماہر ہی اپنے شعبے میں رائے دیتا ہے اور سرگرم عمل رہتا ہے، سوائے ایک شعبے کے، جس کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی حساسیت نہیں پائی جاتی اور ہر کسی کو اس کے مختلف شعبوں اور ذیلی شعبوں میں اظہار خیال کی اجازت دی جاتی ہے؛ حالانکہ یہ سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ بنیادی شعبہ ہے اور اس کا تعلق بنی نوع انسان کے دنیاوی امور کے ساتھ ساتھ اس کی قبر و آخرت اور صراط و میزان سے بنتا ہے؛ اور یہ شعبہ "دین اور ایمان کا شعبہ ہے"؛ اور ہم یہاں اس عمومی موضوع پر وسیع بحث کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن اس بات کے بارے میں ضرور کچھ سطور قارئین کی نذر کرتے ہیں کہ یہ غیر عالم اور غیر ماہر لوگ دین کے دیگر شعبوں، کے علاوہ عید کے بارے میں بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان حضرات کا نہ صرف لوگوں کے صحیح عقیدے، صحیح عبادات، میلاد و عزا وغیرہ وغیرہ سے شدید اختلاف ہے، بلکہ ان کی عید اور خوشی بھی انہیں ناپسند؛ ہے۔

یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، امام حسن مجتبی اور امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی شہادت کے دسویں روز اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے یوم شہادت کی رات کو ہی، غلط اور بے بنیاد تاریخی مرویات کی بنیاد پر "عید شجاع" یا "عید الزہراء" تو مناتے ہیں اور [اور اسی حال میں امام زمانہ (علیہ السلام) کی امامت کے آغاز پر جشن منانے سے احتراز کرتے ہیں] لیکن عید الفطر کو ایک جذباتی نعرہ لگا کر یوم غم قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔

حقیقت ہے کہ غیر ماہر، غجب ہے ان قلمکاروں اور اہل منبر سے جو ہر دینی مسئلے کے لئے ایک بہانہ نکال کر اسے متنازعہ بناتے ہیں؛ گویا ان کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ مؤمنین کے اعمال کو مشکوک بنا دیں اور یوں وہ در حقیقت دین کی چھٹی کرانے کے درپے ہیں۔

ان حضرات کو نہ تو قیامت کی کوئی پروا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے شرماتے ہیں اور نہ ہی اللہ اور معصومین کے اقوال کو اہمیت دیتے ہیں اور ایک جذباتی مسئلہ اٹھا کر دین پر ضربیں لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔

حال ہی میں کچھ دوستوں کے ذریعے سے کچھ عبارتیں موصول ہوئیں کہ جناب عید فطر اس لئے عید نہیں ہے کہ اس میں امام علی (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ہے اور ابھی تو چالیسویں بھی نہیں ہوئی تو چالیسویں بھی نہیں ہوئی تو ہم عید کیوں منائیں۔ عید رمضان کی مخالفت؟ آخر کیوں؟ کیا رمضان کے روزے رکھنے کے بعد یہ خیال آیا شبہہ اندازوں کو یا پھر وہ روزے نہ رکھ کر عید فطر سے شرمندہ ہیں؟

عید فطر کو یوم غم منانے پر اصرار والوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب امام معصوم فرما دیں کہ "ہمارے شیعوں کی چار عیدیں ہیں: فطر، ضحی، غدیر اور جمعہ"؛ تو ہفتے میں ایک عید کا کیا کریں گے؟ یہ لوگ شیعوں کے لئے عید کے قائل ہی نہیں ہیں، ایسا کیوں ہے؟ بھئی ہم تو شہیدوں کے پیکر بھی اٹھاتے ہیں تو عید کے دن عید مناتے ہیں؛ پوچھتے ہو کیوں؟ تو عرض کریں گے کہ "اس لئے کہ ہمارے پیارے رسول اور ہمارے امام معصوم نے فرمایا ہے اور ہم تو ان کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں، آپ کو ہماری عیدیں کیوں اچھی نہيں لگتیں؟؟؟

ان حضرات سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے 13 معصومین شہید ہوئے ہیں، اور ان کے ایام شہادت پورے سال کے مختلف مہینوں میں آتے ہیں تو اگر تیسری، ساتویں، چالیسوں منانے کا حکم ہوتا اور اسلام کے اعلان کردہ خوشی کے ایام کی نفی ہوتی تو مسلمانوں کے ہاں تو تو شاید شادی بیاہ اور علاقائی اور قومی و ملکی جشنوں کا سلسلہ ہی معطل ہوکر رہ جاتا۔

ان حضرات کو سالانہ ہزاروں مسلمانوں ـ بطور خاص شیعیان اہل بیت ـ کے قتل عام کا کوئی غم نہیں ہوتا اور نہ ہی دفاع مذہب و دفاع دین اور دفاع امت کے سلسلے میں ان کی طرف سے ایک بات بھی سننے کو نہیں ملتی؛ نہ یہودی ریاست کے آگے عرب ممالک کے سر تسلیم خم کرنے کا انہیں کوئی غم ہے اور نہ ہی لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کے محاصرے اور بھوک و افلاس اور قتل عام کا؛ انہیں تو بس اپنے "مقدس لفافے" کا غم ہوتا ہے جو کہیں سے مل ہی جاتا ہے خواہ جہلِ مؤمنین ہو چاہئے غاصب ریاست کے تحفظ پر مامور کسی ملک کا سفارت خان؛ لیکن دوسری طرف سے مؤمنین ایک عجیب شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے ہیں؛ وہ پورے سال میں غم حسین (علیہ السلام) منانے کے حوالے سے کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اور یہ عین عبادت بھی ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی پیروی بھی، لیکن جب کوئی دینی لکھاری، مصنف یا مؤلف و قلمکار کے طور پر یا پھر شیروانی اور قراقلی اور سفید ہندی پاجامہ یا حتی کچھ عرصے سے عمامہ و قبا پہن کر، منبر رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر بلا وضو، قابض ہوکر کہہ دیتا ہے کہ "اے شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) عید فطر تو غم مولا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ایام میں آتی ہے، تو بس تم خوشی مت منانا! تو انہیں پورا مہینہ روزہ رکھنے کے بعد ضرور تذبذب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ایک گناہ عظیم ہے اور اس حوالے سے مجرم، قلم و منبر کے خائنین ہیں جنہیں لمحۂ احتضار کی خبر نہیں اور لمحۂ سوال اور شب وحشت کی پروا نہیں ہے؛ یا پھر وہ آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور انہیں دین کو ثمن بخس پر فروخت کرکے، دنیا کی زندگی بسر کرنے کی فکر ہوتی ہے۔

بےشک ہم شیعیان اہل بیت ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کے فرمان پرغم بھی مناتے ہیں اور عید بھی مناتے ہیں؛ امام رضا (علیہ السلام) اپنے صحابی ریان ابن شبیب سے ارشاد فرماتے ہیں:

"يَا بْنِ شَبِيبٍ، إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ، فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَافْرَحْ لِفَرَحِنَا؛ [1]

اے فرزند شبیب! اگر پسند کرتے ہو کہ جنت کے اعلی درجات میں ہمارے ساتھ رہو، تو ہمارے غم میں محزون رہو اور ہماری خوشی میں خوشی مناؤ"۔

اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ عید فطر، عید الاضحی، عید غدیر، روز جمعہ اور معصومین کے ایام میلاد در حقیقت اہل بیت علیہم السلام کے ایام عید ہیں اور ہم ان دنوں کو عید مناتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے نبی اور ائمہ (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کی عیدیں ہیں؛ اور ان کے غم کے ایام میں غم مناتے ہیں صرف اور صرف اس لئے کہ یہ ان کے غم کے ایام ہیں۔

ہم عید منائیں یا مجلس عزا بپا کریں، دیکھنے والا دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہم پیروان اہل بیت ہیں؛ نہ تو ہم ایام عزا میں شرعی فرائض ترک کرتے ہیں اور نہ ہی ایام عید میں؛ ہماری عزا بھی عبادت ہے اور ہماری عید بھی؛ ہم عید کے دنوں میں کوئی غیر شرعی اور غیر انسانی اور نامعقول خوشی نہیں مناتے، ہم تو ان دنوں کو بھی نماز عید اور ذکر و عبادت سے زینت بخشتے ہیں اور ایام عزا کو بھی؛ ذکر اہل بیت (علیہم السلام) یعنی ذکر محمد و آل محمد، یعنی 14 معصومین (علیہم السلام)؛ اور ہم ان کی خوشی میں خوشی اور غم میں غم مناتے ہیں۔ اگر ہم ان کے احکام میں تبدیلی کریں تو ان سے قدم آگے بڑھانے اور بدعت گذاری کے ملزم ہونگے۔ واضح رہے کہ ہم 14 معصومین (علیہم السلام) کی خوشی اور غم میں خوش یا مغموم رہتے ہیں تو یہ ہماری خوشی اور غم کی بنیاد معرفت معصومین ہے اور ان کے غم سے بھی اور خوشی سے بھی نوع انسانی کو ملنے والے دنیوی اور اخروی سعادت کے پیغامات وصول کرتے ہیں؛ روتے ہیں تو پیغام شجاعت بانٹتے ہیں، عزا مناتے ہیں تو بیداری کے سندیسے پھیلاتے ہیں اورخوشی مناتے ہیں تو اپنی انفرادی اور اجتماعی حیات کے لئے نئے منصوبے وصول اور ارسال کرتے ہیں؛ کیونکہ یہ بھی 14 معصومین کا ہی حکم ہے۔

ہم تو عید کے دن ذکر اللہ کرتے ہیں اور شکر خدا ادا کرتے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ظلم کی حکمرانیوں پر غم مناتے ہیں اور ان کے پیروکاروں کی مظلومیت اور دفاع امت میں ان کی تنہائی کو روتے بھی ہیں۔ دیکھئے یہ بھی غم کی ایک روش ہے:

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"عن عبد الله بن ذبيان عن ابي جعفر عليه السلام قال قال: يا عَبدَ اللهِ مَا مِن یَومِ عَیدٍ لِلمُسلِمینَ اَضحَىً وَلا فِطرٍ اِلّا و هُوَ یُجَدِّدُ اللهُ لآلِ مُحَمَّدٍ فِیهِ حُزناً قالَ قُلتُ وَلِمَ ذلِك قالَ اِنَّهُم یَرَونَ حَقَّهُم فى اَیدى غَیرِهِم؛ [2]

عبداللہ بن ذبیان امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: مسلمانوں کے لئے کوئی بھی عید، کوئی ضحی اور کوئی فطر ایسی نہیں ہے جو آل محمد(ص) کے لئے حزن کی تجدید کا باعث نہ ہو؛ میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: کیونکہ خاندان محمد(ص) اپنے حق کو دوسروں کے ہاتھ میں دیکھتا ہیں"۔

(یعنی ہم دیکھ رہے ہیں کہ نااہل لوگ ہی نہیں بلکہ دشمنان دین امت مسلمہ کے مقدرات پر مسلط ہیں اور منتظرین امام زمانہ اچھے دنوں کے منتظر ہیں اور ان ظالموں سے نجات کے طلبگار ہیں اور جب تک امام برحق کا ظہور نہیں ہوتا تب تک وہ چین و سکون نہيں پاتے لیکن دیکھ رہے ہیں کہ ان غموم و ہموم کے باوجود امام محمد باقر (علیہ السلام) عید کا انکار نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں کہ عید کے دنوں میں بھی ہم غمگین رہتے ہیں اور یہ حقیقت ہماری مجالس اور محافل عید میں بھی صاف اور بآسانی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن منکرین عید فطر کو ایسا کوئی مسئلہ بھی لاحق نہیں ہے اور ان کے ہاں کا جواز ہرگز خدا، رسول خدا اور ائمہ کی طرف کا نہیں ہے؛ انہیں دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کا کوئی غم نہیں ہے بلکہ وہ تو ستمگروں کے تسلط کو مزید مضبوطی عطا کررہے ہیں۔

آٹھ ربیع الاول کی مثال

ہم بطور مثال آٹھ ربیع الاول کو امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کا سوگ مناتے ہیں اور پھر اسی دن رات کے وقت امام زمانہ (علیہ السلام) کی امامت کے آغاز کے سلسلے میں عید مناتے ہیں اور جشن مناتے ہیں اور عجب یہ ہے کہ عیدالفطر کے دشمن ـ جو معلوم نہيں روزہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں ـ سب سے زیادہ اس رات کو فعال ہوجاتے ہیں اور اس عید کو مختلف قسم کے نام دیتے ہیں اور زیادہ رویاں کرتے ہیں، تو ان سے گزارش ہے کہ یوں کہہ دیں کہ "ہم چونکہ روزہ نہیں رکھتے اسی لئے یہ ہماری عید نہیں ہے"؛ کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عید روزہ داروں کی ہے اور پھر معصومین سے ہی منقولہ دعا نماز عید میں پڑھی جاتی ہے اس میں "مسلمانوں کے لئے" اس دن کو عید قرار دیا گیا ہے: 

"۔۔۔ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذَا الْيَوْمِ الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِينَ عِيداً وَلِمُحَمَّدٍ صلّی‌الله علیه وآله ذُخراً وَشَرَفاً وَکَرامَتاً وَمَزیداً اَنْ تُصَلِّىَ عَلى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُدْخِلَنى فى كُلِّ خَيْرٍ  اَدْخَلْتَ فيهِ مُحَمَّداً وَ الَ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُخْرِجَنى مِنْ كُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَ الَ مُحَمَّدٍ، صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ؛ [3]

یا الله میں تجھ سے التجا کرتا ہوں اس دن کے صدقے جس کو تو نے مسلمین کے لئے عید قرار دیا اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آل محمد (علیہم السلام) کے لئے ذخیرہ، شرف، مقام و مرتبت کی بڑھائی، کا سبب؛ کہ درود بھیج دے محمد و آل محمد (علیہم السلام) پر اور مجھے ہر اس خیر و نیکی میں داخل کردے جس میں تو نے محمد و آل محمد کو داخل کیا ہے اور ہر اس برائی سے مجھے خارج کردے جس سے تو محمد و آل محمد کو خارج کرچکا ہے، درود و سلام ہو محمد اور آل محمد پر"۔

یہ مسلمانوں کی عید ہے جو ان کے لئے مقرر کی گئی ہے تا کہ وہ اکٹھے ہوجائیں، اللہ کی بارگاہ میں ظاہر ہوجائیں، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اس کی بارگاہ میں تعظیم کریں۔ یہ روز عید ہے، روز اجتماع ہے، روز فطر ہے، روز زکوۃ ہے، روز رغبت ہے، روز مناجات ہے۔ اور اللہ تعالی اور اس کے انبیاء اور اولیاء علیہم السلام نے پسند کیا ہے کہ مسلمان اس دن عظیم اجتماعات منقعد کرکے اس کی حمد و ثناء کریں۔

عید فطر احادیث کی روشنی میں:

1۔ عید کی شب بیداری

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَن أحیا لَیلةَ العِیدِ ولَیلةَ النِّصفِ مِن‏شَعبانَ، لَم یمُتْ قَلبُهُ یومَ تَموتُ القُلوبُ؛ [4]

جو بھی عید (فطر و ضحی) اور نصف شعبان کی راتوں کو شب بیداری کرے اس کا دل اس دن مُردگی کا شکار نہیں ہوگا جب لوگوں کے دل مر جاتے ہیں"۔

2۔ عبادات مقبولہ کی عید

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إنَّما هُوَ عِیدٌ لِمَن قَبِلَ اللَّهُ صِیامَهُ وشَكَرَ قِیامَهُ وكُلُّ یومٍ لا یُعصَى اللَّهُ فیهِ فهُوَ عیدٌ؛ [5]

آج صرف ان لوگوں کی عید ہے جن کے روزوں کو اللہ نے قبول فرمایا ہو، اور اس کی شب زندہ داریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے؛ اور ہر وہ دن عید ہے جب اللہ کی نافرمانی انجام نہ پائے"۔

3۔ یہ تمہارے لئے عید ہے اور تو اس کے اہل ہو

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"ألا وَإنَّ هذا الیومَ یومٌ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُم عِیداً وَجَعَلَكُم لَهُ أهلاً، فَاذكُرُوا اللَّهَ یذكُركُم وَادْعُوهُ یستَجِب لَكُم؛ [6]

جان لو کہ اللہ نے آج کے دن کو تمہارے لئے عید قرار دیا اور تمہیں اس کا اہل قرار دیا، تو اللہ کو یاد کرو، تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے اور کی بارگاہ میں دعا کرو تا کہ وہ استجابت فرمائے"۔

4۔ زکوۃ فطرہ کا دن

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَن أدّى‏ زكاةَ الفِطرَةِ تَمَّمَ اللَّهُ لَهُ بها ما نَقَصَ مِن زكاةِ مالِهِ؛ [7]

جو بھی زکوۃ فطرہ دیدے، خداوند متعال اس کی برکت سے اس کمی کو پورا کرتا ہے جو زکوۃ دینے کے بموجب اس کے مال میں واقع ہوئی ہے"۔

5۔ عید فطر کی دعا

امام علی بن الحسین السجاد (علیہ السلام) نے فرمایا:

"اللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِي جَعَلْتَهُ‏ لِلْمُؤْمِنِينَ‏ عِيداً وَسُرُوراً وَلِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً؛ وَمُحْتَشَداً؛ [8]

بار پروردگارا! ہم تیری طرف پلٹ آتے اپنے فطر کے دن، جسے تو نے عید اور شادمانی قرار دیا ہے، اور اپنی ملت (امت مسلمہ) کے لئے اجتماع اور باہمی تعاون کا دن"۔

6۔ عید فطر انعامات وصول کرنے کا دن

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے جابر جعفی سے فرمایا:

"قَالَ النَّبيُّ (صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ) إذا كانَ أَوَلَ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ نادَی مُنادٍ: أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ اغْدُوا إِلَی جَوَائِزِكُمْ ثُمَّ قَالَ يَا جَابِرُ جَوَائِزُ اللَّهِ لَيْسَتْ بِجَوَائِزِ هَؤُلَاءِ الْمُلُوكِ ثُمَّ قَالَ هُوَ يَوْمُ الْجَوَائِز؛ [9]

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جب شوال کی پہلی تاریخ (عید فطر) آ پہنچتی ہے تو منادی اللہ کی طرف سے ندا دیتا ہے کہ "اے مؤمنو! صبح کو اپنے انعامات لینے نکلے، (جو اللہ کی طرف سے روزہ دار مؤمنین کے لئے فراہم کئے گئے ہیں)" اور پھر فرمایا: "اے جابر! اللہ کے انعامات ان دنیاوی بادشاہوں کے انعامات جیسے (مادی اور فانی) نہیں ہیں"! (بلکہ ہی عمدہ اور ناقابل بیان اور نہایت عظیم ہیں)! اور پھر فرمایا:  اور پھر فرمایا: "آج انعامات وصول کرنے کا دن ہے"۔

7۔ زکوۃ فطرہ روزے کی تکمیل

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ مِنْ تَمَامِ اَلصَّوْمِ إِعْطَاءُ اَلزَّكَاةِ يَعْنِي اَلْفِطْرَةَ كَمَا أَنَّ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَمَامِ اَلصَّلاَةِ لِأَنَّهُ مَنْ صَامَ وَلَمْ يُؤَدِّ اَلزَّكَاةَ فَلاَ صَوْمَ لَهُ إِذَا تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً وَلاَ صَلاَةَ لَهُ إِذَا تَرَكَ اَلصَّلاَةَ عَلَى  اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ؛ [10]

روزے کی تکمیل زکوۃ فطرہ ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر صلوات بھیجنا نماز کی تکمیل ہے؛ کیونکہ جو روزہ رکھے اور زکوۃ فطرہ کی ادائیگی کو جان کر ترک کرے تو گویا کہ اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ جیسا کہ اگر کوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود و سلام ترک کردے، تو اس کی نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے"۔

8۔ سیاسی، سماجی اور انفرادی عبادات کا دن

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"انّما جُعِلَ یَوْمُ الفِطْر العیدُ، لِیكُونَ لِلمُسلِمینَ مُجْتمعاً یَجْتَمِعُونَ فیه و یَبْرُزُونَ لِلّهِ عزّوجلّ فَیُمجّدونَهُ عَلى‏ ما مَنَّ عَلیهم، فَیَكُونُ یَومَ عیدٍ ویَومَ اجتماعٍ وَ یَوْمَ زكاةٍ وَ یَوْمَ رَغْبةٍ و یَوْمَ تَضَرُّعٍ وَلأَنَّهُ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ یَحِلُّ فِيهِ الاَكلُ وَالشُّرْبُ لاَنَّ اَوَّلَ شُهُورِ السَّنَةِ عِنْدَ اَهْلِ الْحَقِّ شَهْرُ رَمَضانَ فَأَحَبَّ اللّه ُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ يَكُونَ لَهُمْ في ذلِكَ مَجْمَعٌ يَحْمِدُونَهُ فِيهِ وَيُقَدِّسُونَهُ؛ [11]

فطر کے دن کو عید قرار دیا گیا تا کہ مسلمانوں کے لئے اجتماع کا دن ہو جس میں وہ اجتماع کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے نمایاں ہوتے ہیں اور اس کی تمجید کریں ان احسانات پر جن سے اللہ نے انہیں نوازا ہے؛ تو یہ عید کا دن ہے، اور اجتماع کا دن ہے، اور زکوۃ کا دن ہے اور (اللہ اور اس کی بیان کردہ نیکیوں کی طرف) رغبت کا دن ہے، اور درگاہ رب کریم میں گڑگڑانے کا دن ہے؛ اور اس لئے کہ یہ دن پہلا دن ہے جب کھانا پینا جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ اہل حق کے ہاں سال کا پہلا مہینہ رمضان ہے، پس اللہ دوست رکھتا ہے کہ مسلمان اس دن کو اجتماع منعقد کریں، اور اس دن اس کی حمد و ثناء کریں اور اس کی تقدیس کریں"۔

9۔ تکبیر و تکریم کا دن

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَإِنْ قَالَ (قائلٌ) فَلِمَ جُعِلَ التَّكْبِيرُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْهُ فِي غَيْرِهَا مِنَ الصَّلَاةِ قِيلَ لِأَّنَّ التَّكْبِيرَ إِنَّمَا هُوَ تَكْبِيرٌ لِلَّهِ وَ تَمْجِيدٌ عَلَى مَا هَدَى وَ عَافَى؛ [12]

اگر کسی کہنے والے نے کہا کہ عید کے دن تکبیریں دوسرے دنوں کی نسبت کیوں زیادہ قرار دی گئی ہیں تو کہا جائے گا کہ تکبیر، بےشک اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور تعظیم وتکریم ہے اس کی ہدایتوں اور نعمتوں پر"۔

10۔ شیعیان اہل بیت(ع) کی چار عیدیں

امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إنَّمَا الأعیادُ أربَعَةٌ لِلشّیعَةِ: الفِطرُ والأضحی والغَدیرُ والجُمُعَةُ؛ [13]

بے شک شیعیان اہل بیت کی چار عیدیں ہیں: عید فطر، عید الضحی، عید غدیر اور جمعہ"۔

11۔ رمضان المبارک مقابلے کا میدان

"نَظَرَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (عَليهِ السَّلام) إِلَى أُنَاسٍ فِي يَوْمِ فِطْرٍ يَلْعَبُونَ وَيَضْحَكُونَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ وَالْتَفَتَ إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ شَهْرَ رَمَضَانَ مِضْمَاراً لِخَلْقِهِ يَسْتَبِقُونَ فِيهِ بِطَاعَتِهِ إِلَى رِضْوَانِهِ فَسَبَقَ فِيهِ قَوْمٌ فَفَازُوا وَتَخَلَّفَ آخَرُونَ فَخَابُوا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ مِنَ الضَّاحِكِ اللَّاعِبِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُثَابُ فِيهِ الْمُحْسِنُونَ وَيَخِيبُ فِيهِ الْمُقَصِّرُونَ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ كُشِفَ الْغِطَاءُ لَشُغِلَ مُحْسِنٌ بِإِحْسَانِهِ وَمُسِي‌ءٌ بِإِسَاءَتِهِ؛ ([14])

امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے کچھ لوگوں پر نظر ڈالی جو عید فطر کے دن کھیل رہے تھے اور ہنس رہے تھے، تو آپ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا: یقینا خدائے بزرگ و برتر نے ماہ رمضان کو اپنی مخلوقات کے لئے مسابقے [اور مقابلے] کا میدان قرار دیا جس میں اللہ کی اطاعت کے ذریعے اس کی رضا و خوشنودی کمانے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہیں؛ تو ان میں سے ایک گروہ سبقت لینے میں کامیاب ہوتا ہے اور باقی لوگ کوتاہی اور خلاف ورزی کرکے گھاٹے سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہے کہ جس میں مخلوقات خدا کی اطاعت کے ذریعہ اس کی مرضی حاصل کرنے پر سبقت لیتے ہیں جہاں ایک گروہ سبقت لے کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور باقی لوگ کوتاہی اور قصور کرکے گھاٹے میں رہ جاتا ہے۔ تو حیرت ہے، بہت حیرت ہے ہنسے کھیلنے والے سے، اس دن جبکہ نیکوکاروں کو اجر و ثواب دیا جاتا ہے، اور قصور وار لوگ گھاٹا اٹھاتے ہیں، اور اللہ کی قسم! اگر پردے ہٹ جائیں تو بلا شک نیک انسان اپنی نیکیوں میں مصروف ہوجائے گا اور بدکردار شخص اپنی بدکرداریوں میں گرفتار نظر آئے گا"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ شيخ صدوق، الأمالی، ص192؛ وہی مصنف، عيون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص269۔

2۔ شیخ طوسی، تهذیب الاحكام، ج3، ص289۔

3۔ عید فطر اور عید الضحیٰ کی دعا، جو ان دو عیدوں کی نماز میں بطور دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔

4۔ شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ج1، ص102، ح2۔

5۔ نہج البلاغہ، حکمت 428۔

6۔ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج1، ص517۔

7۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج6، ص220، ح4۔

8۔ صحیفہ سجادیہ، دعاء نمبر 45۔

9۔ شیخ حر عاملی، وسائل‌الشیعۃ، ج5، ص140۔

10۔ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج6، ص221۔

11۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص122؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، (ط آل البیت) ج‏7، ص‏481، ح‏4۔

12 ۔ شیخ صدوق، وہی ماخذ۔

13۔ علامہ مجلسی، بحارالأنوار، ج95، ص351۔

14۔ شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقیه، ج1، ص512.
۔۔۔۔۔۔۔

تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110