اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

16 نومبر 2023

11:23:07 AM
1412119

طوفان الأَقْصَىٰ؛

کیا مسجد الأَقْصَىٰ اور بیت المقدس کا مسئلہ ایک ایرانی مسئلہ ہے؟

کیا مسجد کا دفاع واجب نہیں ہے؟ کیا اگر وہ مسجد، مسجد الاقصیٰ نہ ہو تو اس کو کفار کے قبضے میں رہنے دینا چاہئے؟ کیا ایک مسجد ـ چاہے وہ کہیں بھی ہو ـ پر اگر کفار قبضہ کرلیں تو مسلمانوں کا فرض نہیں بنتا کہ اس کو کافر دشمن کے ہاتھ سے چھڑا دیں اور پھر مسجد الاقصیٰ کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور اللہ اپنے کچھ حقائق دکھانے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کا دیدار کراتا ہے اور پھر مسجد الاقصیٰ وہی مقام ہے جہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو معراج پر لے جایا جاتا ہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَىٰ الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ؛ پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے "مسجد الأَقْصَىٰ" (یا نہایت اونچے مقام سجدہ) تک جس کے گردو پیش ہم نے برکت ہی برکت قرار دی ہے تاکہ ہم انہیں دکھائیں اپنی کچھ نشانیاں یقینا وہ سننے والا ہے، بڑا دیکھنے والا"۔

جو اللہ کی بات کرے، جہاد کی بات کرے، تحفظ دین و تحفظ امت اور دفاع حرم کی بات کرے اس کو ایران نواز کہا جاتا ہے! یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک صرف اس وجہ سے حماس کی حمایت نہیں کرتے اور وہاں کے بچوں اور خواتین کے قتل عام پر آنکھیں بند کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس یا جہاد اسلامی کی فتح در حقیقت ایران کی فتح ہوگی، چنانچہ وہ شیعہ اور یہودی کے درمیان، یہودی کو بہتر قرار دے کر اپنے ہی ہم مسلک لوگوں کے خون میں شریک ہوکر صہیونیوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

ایران نوازی اور اسرائیل نوازی یا امریکہ نوازی یا سعودی نوازی آج کل کی رائج اصطلاحات ہیں جن سے

صہیونی دشمن سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے لیکن کچھ اپنے کہلوانے والے بھی اس صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور جان کر یا انجانے میں غاصب صہیونیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے موقف کو سعودی ـ یہودی ذرائع ابلاغ میں بھرپور کوریج دی جاتی ہے۔

جو لوگ جہاد، تحفظ دین، دفاع حرم، دفاع امت، مقاومت اور زندہ جاوید مذہب شیعہ کی بات کرتے ہیں انہیں اسرائیل نواز اور سعودی نواز، ایرانی نواز کہیں گے لیکن اگر یہ لوگ بظاہر شیعہ ہوں، اہل بیت کی روایات سے استفادہ کرتے ہوں اور دین و اسلام و مذہب کے حامیوں کو یا تو مقصر کہتے یا ایران نواز، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس دور میں یہ لوگ جن کی زبان اسرائیل کی زبان ہے، تو یہ خود کیا نواز ہیں؟ کیا یہ امریکہ نواز ہیں، اسرائیل نواز ہیں، برطانیہ نواز ہیں یا پھر کچھ اور ہیں؟ ان کا اپنا تعارف کیا ہے؟ امریکہ اگر بڑا شیطان ہے تو اس کے چیلے چھوٹے شیطان ہیں چنانچہ جو ان کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں کیا انہیں ابلیس نواز کا خطاب نہیں ملنا چاہئے؟

جہاد و مقاومت کا پرچم ایران کے ہاتھ میں ہے، دفاع حرم کا پرچم ایران کے ہاتھ میں ہے، ولایت کا نظام ایران میں قائم ہے جس نے امریکہ، برطانیہ اور ان کی کٹھ پتلی یہودی ریاست کی نیندیں حرام کردی ہیں تو جو آج ایران کا دشمن ہے وہ یقینا امریکہ، برطانیہ اور ان کے کٹھ پتلیوں کا ایجنٹ ہے اور جو اس ایران کی حمایت کرے وہ حق و حقیقت کی حمایت کررہا ہے، ایک زندہ و پائندہ اسلام کی حمایت کررہا ہے، محمدی اسلام کی حمایت، ولائی اسلام کی حمایت، صبر و استقامت کی حمایت تو کیا یہ حمایت باعث شرم ہے یا باعث فخر؟

کیا امریکی اسلام اور انگریزی شیعیت ـ جو زندہ مذہب کو ایک مردہ مذہب بنانے کے چکر میں ہے اور برطانیہ اور ایم آئی 6 کی پیروی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے ـ باعث فخر ہے؟

آج کے زمانے میں شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) یہودی و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کے خلاف جہاد کے علمبردار ہیں تو کچھ لوگ یہودی و نصاریٰ کے حکم کے مطابق ان کے لئے قلم فرسائی کرتے ہیں؛ قدس اور فلسطین کو ایران کا مسئلہ گردانتے ہیں اور جو لوگ اسلام کے اس اہم مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے ہیں انہیں ایران نواز کہتے ہیں۔ بالکل اسی لب و لہجے میں کچھ باتیں وہابی قلم کار یا تجزیہ کار یا پھر صہیونی آلۂ کاروں کے زبان و قلم سے بھی سنی اور دیکھی جا سکتی ہیں اور پھر اسرائیلی وزراء بھی بول دیتے ہیں کہ فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں سعودی اور کچھ دوسرے عرب حکمران ایران سے ناراض ہیں!! اور ادھر یہ شیعہ کہلوانے پر اصرار کرنے والے معصومین کی تقلید کے مدعی بھی اسی لب و لہجے میں تقریریں جھاڑتے ہیں، مضامین لکھتے ہیں اور یوم القدس ـ جو تاریخ تشیع کا روشن ترین باب ہے ـ کو متنازعہ بناتے ہیں اور دوسری طرف سے تکفیری دہشت گرد پاکستان میں یوم القدس کی ریلیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے سب کے تانے بانے کہاں سے اور کس ملک کے کونسے وزارت خانے یا خفیہ ایجنسی سے ملتے ہیں؟ اور ان سب کا کمانڈ روم کیوں ایک ہی ملک میں یا ایک ہی سمت میں استکباریت پر کاربند ہوکر دنیا بھر کا استحصال کرنے والے معدودے چند ممالک میں واقع ہے؟

یہ لوگ قرآن مجید کو یکسر نظر انداز کرکے مسجد الأَقْصَىٰ کے خلاف گستاخانہ قلم فرسائی کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی تفسیر بالرأی کرتے ہیں اور قرآنی آیات اور بیت المقدس اور مسجد الأَقْصَىٰ کی توہین کرتے ہیں جو گویا خود بھی کسی قبلے کی طرف نماز کم ہی پڑھتے ہونگے اور اگر حکم ملے تو یقینا کعبہ کے خلاف بھی بولنا شروع کریں گے کیونکہ ان کے لئے اپنا دو ٹکے کا مفاد ہی عزیز ہوتا ہے اور کسی چیز کے لئے تقدس کے قائل ہی نہیں ہیں اور جہاں کسی مفہوم کے تقدس کا دعویٰ کرتے ہیں در حقیقت دوسرے مقدسات کے خلاف کیچڑ اچھالنا مقصود ہوتا ہے۔

مسجد الاقصیٰ کا نام لینا تک پسند نہیں کرتے اور اس کو فلسطین کی مسجد قرار دیتے ہیں اور قریب ہے کہ مسجد الأَقْصَى کو بھی یہودیوں کی مسجد قرار دیں!! اور پھر کسی تفسیری یا تاریخی کتاب کے حوالے دیتے ہیں اور قرآن کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور جو لوگ قبلۂ اول اور بیت المقدس کے تقدس کی بات کرتے ہیں انہیں غیر معصوم کی تقلید کا طعنہ دیتے ہیں۔

نکتہ:

کیا مسجد کا دفاع واجب نہیں ہے؟ کیا اگر وہ مسجد، مسجد الاقصیٰ نہ ہو تو اس کو کفار کے قبضے میں رہنے دینا چاہئے؟ کیا ایک مسجد ـ چاہے وہ کہیں بھی ہو ـ پر اگر کفار قبضہ کرلیں تو مسلمانوں کا فرض نہیں بنتا کہ اس کو کافر دشمن کے ہاتھ سے چھڑا دیں اور پھر مسجد الاقصیٰ کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور اللہ اپنے کچھ حقائق دکھانے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کا دیدار کراتا ہے اور پھر مسجد الاقصیٰ وہی مقام ہے جہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو معراج پر لے جایا جاتا ہے۔

یہاں پسند و ناپسند کی بات بھی نہیں ہے؛ یہودیوں نے زبردستی اور فوج کی طاقت سے ایک مسلم خطے پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں سے پورے عالم اسلام کو دھمکا رہے ہیں؛ "نیل سے فرات تک" کا نعرہ لگا رہے ہیں اور اگر اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں کامیاب ہوجائيں تو اسی علاقے میں ہمارے اہم ترین اور مقدس ترین مراکز ـ مسجد الحرام، مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مدینہ، کربلا، نجف، کاظمین و سامرا ـ بھی شامل ہیں؛ نہ کعبہ محفوظ رہے گا نہ مدینہ؛ وہ خیبر کو نہیں بھولے ہیں اور ان دنوں مدینہ اور اطراف میں ـ سعودی حکمرانوں کی مدد سے ـ کھدائیاں کر رہے ہیں اور مدینہ پر ـ بیت المقدس کی طرح ـ مالکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ وہ مدینہ اور خیبر کو نہيں بھولے ہیں اور پھر آج بنی سعود بھی آج غزہ میں کئی بار سنی مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود، اعلانیہ طور پر ـ عین جنگ کے دوران ـ یہودیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

جہاں تک غیر معصوم کی تقلید کا تعلق ہے تو شیعہ امامیہ اثناعشریہ میں معصوم کی تقلید ایک مہمل اور انحرافی مفہوم ہے؛ کیونکہ ہم پر معصوم کی تقلید فرض ہی نہیں ہوئی، بلکہ ان کی اطاعت اور پیروی کا حکم ہے اور ہم ان کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشین ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے:

"النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؛ پیغمبر مؤمنین پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں"۔

بے شک فقہاء بھی ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کے نائبین عام ہیں لیکن وہ غیر معصوم ہیں اور ہم ان کی تقلید کر سکتے وہ بھی اس لئے کہ ائمہ (علیہم السلام) نے ہمیں اس پر مامور کیا ہے؛ بطور مثال دو منقولہ دلیلیں:

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"مَنْ كَانَ مِنْكُمْ قَدْ رَوَى حَدِيثَنَا وَنَظَرَ فِي حَلَالِنَا وَحَرَامِنَا وَعَرَفَ أَحْكَامَنَا فَليَرضُوْا بِهِ حَكَماً فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً؛ فَإِذا حَكَمَ بِحُكمِنا فَلَم يُقبَل مِنهَ، فَإنّما استُخِفّ بِحُكمِ اللهِ، وَعَلَينا رُدَّ، وَاَلرَّادُّ عَلَيْنَا اَلرَّادُّ عَلَى اَللَّهِ وَهُوَ عَلَى حَدِّ اَلشِّرْكِ بِاللَّهِ؛

تم میں سے وہ فرد جو ہماری حدیثیں بیان کرتا ہے اور ہمارے حلال و حرام میں صاحب رائے و نظر ہے اور ہمارے احکام سے آگاہ ہے، پس عوام کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کے حکم یا فیصلے پر راضی و خوشنود ہونا چاہئے، پس میں نے اس کو تمہارے اوپر حاکم قرار دیا ہے۔ جب وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے / حکم دے اور اس کا حکم قبول نہ کیا جائے تو اللہ کے حکم کو نطر انداز کیا گیا ہے اور ہمیں رد کیا گیا ہے اور جس نے ہمیں رد کیا اس نے خدا کو رد کیا اور خدا کو رد کرنے والا شرک کی حد تک پہنچ چکا ہے"۔ (شیخ حر عاملی، وسائل الشيعۃ، ج27، ص 136)

امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہيں:

"أمّا مَن كانَ مِن الفُقَهاءِ صائناً لنفسِهِ حافِظاً لِدينِهِ مُخالِفاً على‏ هَواهُ مُطِيعاً لأمرِ مَولاهُ فلِلعَوامِّ أن يُقَلِّدُوهُ، وذلكَ لا يكونُ إلّا بَعضَ فُقَهاءِ الشِّيعَةِ لا جَميعَهُم؛  

پس فقہاء میں سے جو بھی (فقیہ) اپنے نفس کو پلیدیوں اور گناہوں اور االلہ کی نافرمانی سے محفوظ رکھنے والا ہے، اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ہو، نفسانی خواہشات اور ہؤا و ہوس کے خلاف ہو اور "مولا" (یعنی خدا، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ معصومین[علیہم السلام]) کا مطیع و فرمانبردار ہو، تو عوام پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں۔ اور صرف کچھ ہی فقہاء ان تمام خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں نہ کہ سارے فقہاء"۔  

(علامہ طبرسی، (احمد بن علي)، الاحتجاج، ج 2، ص 485؛ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج27، ص131)

جہاں تک نصیریوں اور امام معصوم کی تقلید کے دعویداروں کا سوال ہے تو ان حدیثوں سمیت اہل بیت (علیہم السلام) سے منقولہ تمام احادیث ان کے ہاں قابل استناد اور معتبر ہیں۔ چنانچہ انہیں تو بہر حال اسے تسلیم کرنا پڑے گا یا پھر انکار حدیث کے ملزم ٹہریں گے۔

اور پھر عقلی دلیل یہ ہے کہ جب آپ بیمار پڑجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور دلیل پوچھے بغیر اس کے نسخے پر عمل کرتے ہیں اور انجانی دوائیں لیتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اور تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ آپ کو اجمالی علم حاصل ہے کہ ڈاکٹر بیماری اور دوائی کا علم رکھتا ہے، یہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ ہم ہم ایک عالم دین ـ یعنی فقیہ و مجتہد ـ سے اپنے دین کا نسخہ لیتے ہیں اپنے اجمالی علم کی رو سے اور وہ یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اسلام شناس ہیں اور ہر انسان کے لئے علم کے وہ تمام مراحل طے کرنا ممکن نہیں ہیں جو ایک مجتہد طے کرچکا ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر معصوم کی تقلید کی بات صحیح ہو تو ہمارے فقہاء معصومین کے مقلد ہیں اور معصوم کے کلام کو سمجھتے ہیں اور اس سے احکام کا استنباط کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ غیر معصوم کی تقلید کے مخالفین اور امام معصوم کی تقلید کے دعویدار ایک مختصر سے عربی متن پڑھنے سے عاجز ہیں؛ اور اگر پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ عربی سے بھی واقف ہیں اور قواعد بھی جانتے ہیں اور اس انگریزی یا امریکی فرقے کے باقی پیروکار اس کی بات سن کر مسئلہ سیکھتے ہیں اور عمل کرتے ہیں تو یہ شیعہ قواعد کی طرف رجوع کے زمرے میں آئے گا فرق صرف یہ ہوگا کہ ان کے ہاں کے چند حدیثیں درست پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے علمی لحاظ سے ذرا نچلی سطح پر ہیں؛ گو کہ یقینا دو آيتیں اور دو حدیثیں پڑھنے سے وہ رتبۂ عصمت پر فائز نہیں ہو سکتے اور باقی لوگ ان کی تقلید کرتے ہیں یعنی یہ خود ہی غیر معصوم کی تقلید کی طرف پلٹ جاتے ہیں لیکن ذرا خفیہ اندار سے!!!!

قبلۂ اول سے کراہیت کا احساس

یہودی ریاست کے یہ ترجمان اپنے مضامین میں لکھتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ "وكره قبلتهم وأحب الكعبة" (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کے قبلے کو ناپسند کیا اور کعبہ کو پسند کیا)؛ جبکہ یہ تو ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں اللہ کی رضا کی بات ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا نصب العین ہے اور اس میں سے ایک جملہ نکال کر "کہ رسول اللہ ان کے قبلے کو ناپسند کرتے تھے اور کعبہ سے محبت کرتے تھے" قبلۂ اول کے کاز کو نشانہ بنا کر یہودی ـ سعودی مفاد کے تحفظ کی کوشش کی گئی ہے۔

قبلہ کے معانی:

پرستشگاہ، عبادتگاہ، پیشوا، بڑا اور ز‏عیم، سمت اور جہت، طرف، مد مقابل، جنوب، روش اور طریقہ۔

تو "قبلہ" یہاں روش ہے جو یہودیوں کے ہاں رائج تھی اور اس روش کو ناپسند کرتے تھے اور وہ روش یہ تھی کہ وہ قبلۂ اول کی طرف نماز پڑھنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں کے لئے ایک نقص سمجھتے تھے چنانچہ اس واقعے کو اللہ تعالیٰٰ نے سورہ بقرہ کی آیات 144 اور 145 میں بیان فرمایا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی کئی آیات کا تعلق تبدیلی قبلہ سے ہے اور یہ حدیث بھی اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہوئی ہے۔ اور یہ کچھ یوں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جبرائیل سے فرمایا کہ میری خواہش یہ ہے کہ خداوند متعال مجھے بیت المقدس سے پلٹا دے، کیونکہ مجھے یہودیوں سے پہنچنے والے مسائل اور ان کی روشوں سے اور ان کے قبلے کی طرف میری نماز کے بارے میں ان کے طعنوں سے سے اذیت پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دو آیتوں کے ضمن میں یوں بیان فرمایا:

"قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ٭ وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ۔۔۔؛

بہت دیکھ رہے ہیں ہم آپ کے چہرے کی گردش کو آسمان کی طرف، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں گے؛ تو اب مسجد حرام کی طرف اپنا رخ موڑا کیجئے اور تم لوگ جہاں کہیں ہو اپنے منہ اسی طرف کیا کرو، اور وہ جنہیں کتاب دی گئی ہے [یعنی یہود و نصاریٰ] یقینا بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف کا حقیقی فیصلہ ہے اور اللہ اس سے، جو وہ کرتے ہیں، بے خبر نہیں ہے ٭ اور اگر آپ ان اہل کتاب کے سامنے سارے معجزے پیش کر دیں پھر بھی وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے اور نہ آپ ہی ان کے قبلہ کے پیرو ہوں گے اور خود وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کے پیرو نہیں ہیں"۔ (سورہ بقرہ، آیات 144۔145)

تغییر قبلہ کے اَسرار

تفسیر نمونہ میں مذکورہ بالا آیات کریمہ کی تفسیر میں مکتوب ہے:

چونکہ اس زمانے میں مشرکین نے کعبہ کو بتوں کا مرکز بنا رکھا تھا، تو اللہ کی طرف سے حکم یہ تھا کہ "وقتی طور پر" بیت المقدس کی طرف نماز ادا کریں اور یوں اپنی صفیں مشرکین سے الگ کریں۔

لیکن جب مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور ایک ملت و امت اور ایک حکومت کا قیام عمل میں آیا اور ان کی صفوف دوسروں سے ممتاز ہوئیں تو مزید کوئی ضرورت نہیں رہتی تھی کہ اس روش کو جاری رکھیں چنانچہ وہ قدیم ترین مرکز توحید یعنی کعبہ کی طرف پلٹ آئے جن سے انبیاء الٰہی کا قدیم ترین زمانے سے واسطہ تھا۔

ظاہر ہے کہ بیت المقدس کی طرف مسلمانوں کا نماز پڑھنا بھی مسلمانوں کے لئے مشکل تھا کیونکہ وہ کعبہ کو اپنی نسل کا معنوی سرمایہ سمجھتے تھے اور بیت المقدس سے پلٹنا بھی ان کے لئے مشکل تھا کیونکہ ان کی عادت بنی ہوئی تھی کہ قبلۂ اول ہی کی طرف نماز پڑھا کریں، اور یوں مسلمانوں کو آزمایا گیا۔

انہیں آزمایا کیا کہ شرک کے جو آثار ان کے وجود میں جڑ پکڑے ہوئے ہیں، آزمائش کی اس بھڑکتی آگ میں جل کر راکھ ہوجائیں اور اپنے شرک آلود ماضی سے اپنا تعلق توڑ دیں اور اللہ کے فرمان کے آگے تسلیم محض کا رویہ ان کے اندر پیدا ہوجائے۔

 سورہ بقرہ کی آیت 144:

سب کے سب کعبہ کی طرف رخ کرو

اس آیت کریمہ میں تغییر قبلہ کا فرمان جاری ہؤا ہے؛ ابتداء میں ارشاد ہوتا ہے: "ہم بہت دیکھ رہے ہیں آپ کے چہرے کی گردش کو آسمان (یعنی مرکز وحی میں)، "قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء"۔

"تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں گے"، "فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا"۔

"بس اب مسجد الحرام اور کعبہ کی طرف اپنا رخ موڑا کیجئے"، "فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ"۔  

نہ صرف مدینہ میں بلکہ "تم لوگ جہاں کہیں ہو اپنے منہ اسی طرف کیاکرو"، "وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ"۔  

دلچسپ امر یہ ہے کہ تغییر قبلہ یا قبلہ کی تبدیلی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نشانیوں کے ضمن میں سابقہ کتب میں مذکور تھی اور انہوں نے اپنی کتب میں پڑھ لیا تھا کہ آپ دو قبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے۔ "يُصَلِّي إِلَى القِبلَتَينِ". (تفسیر مجمع البیان، ذیل آیت، بحار الانوار، ج19، ص198، و ج81، ص40)

لہٰذا خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: "جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے [یعنی یہود و نصاریٰ] یقینا بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف کا حقیقی فیصلہ اور حقیقی فرمان ہے"، "وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ".

اور آخر میں ارشاد ہوتا ہے: "اور اللہ اس سے، جو وہ کرتے ہیں، بے خبر نہیں ہے"، "وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ".

یعنی یہ کہ یہود و نصاریٰ ـ بالخصوص یہودی ـ بجائے اس کے کہ تغییر قبلہ کو اپنی کتب میں مذکورہ حقائق کی رو سے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سچائی کی علامت کے طور پر بیان کریں، اسے چھپانے پر اصرار کرتے رہے اور اس پر تنازعہ کھڑا کیا۔ اللہ بھی ان کے اعمال سے آگاہ ہے اور ان کی نیتوں کو بھی جانتا ہے۔ (سورہ بقرہ کی آیت 145)

وہ کسی قیمت پر بھی راضی نہیں ہونگے

گذشتہ آیت کی تفسیر میں بیان ہؤا کہ اہل کتاب جانتے تھے کہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی نہ صرف پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے نقص نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ کی حقانیت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، لیکن ان کی روایتی عصبیتوں نے انہیں حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنے دیا۔

لہٰذا قرآن کریم فیصلہ کن انداز میں ارشاد فرماتا ہے: "اور اگر آپ ان اہل کتاب کے سامنے سارے معجزے (اور اپنی حقانیت کی دلیلیں اور علامتیں) پیش کر دیں پھر بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے"، "وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ"۔  

اور ارشاد فرماتا ہے: "اور آپ بھی کبھی ان کے قبلے کے پیرو نہیں ہوں گے"، "وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ"۔  

یعنی یہ کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان جھگڑوں اور تنازعات کور بیہودہ بحث و جدل کے نتیجے میں مسلمانوں کا قبلہ پھر بھی بدل جائے گا، تو ان کا تصور غلط اور بے جا ہے، اور کعبہ مسلمانوں کا دائمی اور ابدی قبلہ ہے۔

بعدازاں ارشاد ہوتا ہے: اور وہ اپنے عقیدے میں اس قدر عصبیت زدہ ہیں کہ "خود وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کے پیرو نہیں ہیں"، "وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ"۔  

نہ تو یہودی نصاریٰ کے قبلے کی پیروی کرتے ہیں اور نہ ہی نصاریٰ یہودیوں کے قبلے کی۔

یہ آیات نازل ہوئیں تو یہودی ـ جو آپ سے کہتے تھے کہ آپ کا تو اپنا قبلہ بھی نہیں ہے ـ کہنے لگے کہ کس چیز نے ان لوگوں (پیغمبر اور مسلمانوں) کو پھیر دیا ان کے اس قبلے سے جس پر وہ تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خوبصورت ترین جواب دیا اور فرمایا: "قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ؛ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی"، (سورہ بقرہ، آیت 142) وہی مالک ہے مشرق و مغرب کا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نئی تبدیلی کا حکم دینا، بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ وہ تمہیں دوسری طرف پلٹا دینے کا حکم دیتا ہے؛ "جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے"؛ وہی ان کے امور کی اصلاح کرنے والا ہے اور ان کی طاعت اور فرمانبرداری انہیں راحت و آرام والے بہشتوں میں لے جائے گی۔

سورہ بقرہ کی آیت 142؛ تفسیر نمونہ کی روشنی میں:

"سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ؛

بہت جلد بے وقوف لوگ یہ کہیں گے کہ کس چیز نے ان لوگوں کو پھیر دیا ان کے اس قبلے سے جس پر وہ تھے، کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے"۔ (سورہ بقرہ، آیت 142)

تبدیلی قبلہ کا واقعہ!

یہ آیت اور اگلی چند آیات تاریخ اسلام کی ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں:

وضاحت:

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بعثت کے بعد کے 13 سالہ مکی دورانِ رسالت میں بھی اور ہجرت کے بعد کئی مہینوں تک مدینہ منورہ میں بھی اللہ کے حکم سے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے لیکن جب قبلہ بدل گیا تو مسلمانوں کو حکم ملا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں۔

یہودی مسلسل ملامت کرتے تھے کہ مسلمانوں کا تو اپنا قبلہ تک نہیں ہے اور دعویٰ کرتے تھے کہ بیت المقدس ہمارا قبلہ ہے اور آپ ہمارے قبلے کی طرف نماز پڑھ رہے ہیں [جبکہ نماز اللہ کی ہے اور قبلہ بھی اللہ کی طرف سے متعین ہے چاہے مسجد الاقصیٰ ہو چاہے کعبہ؛ کیونکہ قبلہ کسی قوم یا نسل کے لئے مختص نہیں ہوتا]؛ یہودی البتہ اس بات کو اپنی حقانیت کی دلیل قرار دیتے تھے کہ مسلمان ان کے قبلے کی طرف نماز پڑھتے ہیں۔

یہ باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں پر بھاری تھیں کیونکہ وہ تو اللہ کے اطاعت گزار تھے لیکن ساتھ ہی انہیں یہودیوں یے طعنے سننا پڑ رہے تھے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) راتوں کو آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور وحی کے منتظر تھے۔

انتظار کی گھڑیاں گذرتی رہیں اور آخرکار قبلہ کی تبدیلی کا حکم بارگاہ ربانی سے صادر ہؤا؛ ایسے حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) "مسجد بنی سالم" (مسجد ذو قبلتین) میں نماز ادا کررہے تھے، نماز کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف پڑھ لی تھیں کہ جبرائیل امین کو حکم ہؤا کہ آنحضرت کا بازو پکڑ کر آپ کا رخ کعبہ کی طرف پلٹا دیں۔

یہودیوں کو اس واقعے سے بہت دکھ ہؤا اور اپنی قدیمی روش کے مطابق حیلوں بہانوں کا سہارا لیا۔ وہ اس سے پہلے کہتے تھے کہ "ہم تو مسلمانوں سے بہتر ہیں"، کیونکہ بقول ان کے، مسلمان قبلہ کے لحاظ سے مستقل اور خودمختار نہیں ہیں اور ہمارے [یعنی یہودیوں کے] پیروکار ہیں۔ لیکن اللہ کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم آتے ہی تنقید و اعتراض کرنے لگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا: "بہت جلد بے وقوف لوگ یہ کہیں گے کہ کس چیز نے ان لوگوں (مسلمانوں) کو پھیر دیا ان کے اس قبلے سے جس پر وہ تھے"، (سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا)۔

اب یہودیوں نے سوال اٹھایا کہ "اگر پہلا قبلہ صحیح تھا تو تبدیلی چہ معنی دارد؟ اور اگر دوسرا قبلہ صحیح ہے تو آپ نے تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں اور کئی ماہ تک مدینہ منورہ میں کیوں پہلے والے قبلے کی طرف نماز پڑھی؟؟

جس کے جواب میں اللہ نے اپنے حبیب کو ہدایت کی:

"کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی؛ جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے"، (قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ)۔

یہ ایک برہان قاطع اور دلیل روشن ہے ان بہانہ گیروں کے لئے، بیت المقدس اور کعبہ اور کائنات کا ہر مقام اللہ کی ملکیت ہے؛ اصولی طور پر اللہ لا مکان ہے اور اس کے لئے کسی گھر اور کسی جگہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اللہ کے فرمانے کے آگے سرتسلیم خم کریں، اور وہ جس مقام کی طرف نماز قائم کرنے کا فرمان جاری کرے، وہی مقدس اور محترم ہے اور کوئی بھی مقام اور زمین و آسمان کا کوئی بھی نقطہ اللہ کی عنایت خاصہ کے بغیر، بذات خود کسی قسم کی شرافت کا حامل نہيں ہوسکتا، وہ جس مقام کو چاہے مقدس بنا دیتا ہے۔

اور تغییر قبلہ در حقیقت امتحان و آزمائش اور ارتقاء کا ایک مرحلہ ہے اور یہ سب مصادیق ہیں ہدایت الٰہیہ کے۔ وہی ہے جو "جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے"۔ (تفسیر نمونہ، ج1، ذیل آیت 142، سورہ بقرہ)

ان آیات کریمہ سے کہیں کراہیت کی بات نہيں ہے یہاں تو تسلیم محض کی بات ہے اور پھر مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں کو سر تسلیم جھکانا ہے حکم رب کے آگے، چاہے وہ حکم بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے سے متعلق ہو چاہے کعبہ کو۔

اور پھر یہ بات تو قبلہ کی ہوئی جبکہ آج کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ قبلہ مسلمین یعنی کعبہ شریف کو چھوڑ کر دوبارہ قبلۂ اول کی طرف رخ کیا کرو، بلکہ موضوع اسلامیت اور غیرت کا ہے جو ایک مسلمان کے لئے ہمیشہ اہمیت رکھتا تھا، رکھتا ہے اور رکھے گا۔

اب پلٹتے ہیں مسجد الاقصیٰ کی طرف

مسجد الاقصیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی معراج گاہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

"سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ؛

پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے انتہائی "مسجد الاقصیٰ" (یا نہایت اونچے مقام سجدہ) تک جس کے گردو پیش ہم نے برکت ہی برکت قرار دی ہے تاکہ ہم انہیں دکھائیں اپنی کچھ نشانیاں یقینا وہ سننے والا ہے، بڑا دیکھنے والا"۔

یہ سورہ اسراء یا سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ہے اسراء کے معنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے رات کے وقت کے سفر کے ہیں۔ اس سفر میں مسجدالحرام سے روانہ ہوئے اور بیت المقدس میں واقع مسجد الاقصیٰ کی طرف تشریف فرما ہوئے اور یہ معراج کا ابتدائی مرحلہ تھا۔ یہ سفر ایک ہی رات کے مختصر سے لمحات میں انجام پایا جو کہ اس زمانے کے معمولی وسائل کے ذریعے امکان پذیر نہ تھا اور اس کا اعجاز اور خارق العادہ ہونے کا پہلو بالکل نمایاں ہے۔

مذکورہ آیت کریمہ میں، میں ارشاد ہوتا ہے: "پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد الحرام سے "مسجد الاقصیٰ" (یا انتہائی اونچے مقام سجدہ) تک"، "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَىٰ"۔

"وہ (مسجد) جس کے گردو پیش ہم نے برکت ہی برکت قرار دی ہے" "الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ"۔

یہ (خارق العادہ اور غیر معمولی سفر) اس لئے (تھا) کہ ہم انہیں دکھا دیں اپنی عظمت کی کچھ نشانیاں (جو وہاں موجود ہیں)"،  "لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا"۔

اور "یقینا وہ سننے والا ہے، بڑا دیکھنے والا" "إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ"۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اس اعزاز کے لئے بلا سبب نہیں چنا، بلکہ وہ اعلیٰ گفتار و کردار کے مالک تھے اور یہ لباس آپ کو مکمل طور پر جچتا تھا۔ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلام کو سنا تھا اور آپ کے کردار کو دیکھا تھا اور آپ کی شایستگی اور اہلیت کی تائید کرچکا تھا۔

بعض مفسرین نے احتمال دیا ہے کہ اس کا مقصد اس اعجاز کے منکرین کو متنبہ کرنا اور دھمکانا ہے جن کے کلام کو اللہ سنتا ہے اور ان کے اعمال کو دیکھتا ہے اور ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے واقف ہے۔

یہ آیت الفاظ کے لحاظ سے تو مختصر ہے لیکن اسی مختصر آیت کریمہ میں رات کے وقت کے اس سفر کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں:

1۔ لفظ "أَسْرَىٰ" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر رات کے وقت انجام پایا، کیونکہ اسراء کے معنی لغت عرب میں رات کے وقت کے سفر کے ہیں، جبکہ لفظ "سیر" سے مراد دن کے وقت کا سفر ہے۔

2۔ لفظ "لَيْلاً" ایک لحاظ سے تاکید ہے اس شبانہ سفر پر اور ساتھ ہی یہ اس حقیقت کو بھی بیان کرتا ہے کہ یہ سفر ایک رات میں انجام پایا اور اہم بات بھی یہی ہے کہ مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کا درمیانی فاصلہ تقریبا ساڑھے بارہ سو کلومیٹر ہے اور اس زمانے کے حالات اور وسائل کے لحاظ سے اتنا فاصلہ طے کرنے میں کئی روز اور کئی ہفتوں کا عرصہ لگ جاتا تھا لیکن یہ پورا سفر ایک رات میں انجام پایا۔

3۔ "بِعَبْدِهِ" میں لفظ "عبد" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فخر و اعزاز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بندگی اور عبدیت کی بنا پر آپ کو عطا ہؤا تھا، کیونکہ انسان کے لئے سب سے بڑا رتبہ ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور اللہ کے سوا کسی کے آگے جبین خاک پر نہ رگڑے، اور اللہ کے سوا کسی کے فرمان پر اس کے آگے سرتسلیم خم نہ کرے۔ وہ جو بھی کرے اللہ کے لئے ہو اور جو بھی قدم اٹھائے اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول مقصود ہو۔

4۔ نیز لفظ "عبد" کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سفر بیداری میں واقع ہؤا نہ کہ خواب میں، اور یہ ایک جسمانی سیر تھی نہ کہ روحانی، کیونکہ روحانی سیر میں خواب یا خواب کی طرح کی کسی کیفیت سے ہی شباہت رکھتی ہے۔ لیکن لفظ "عبد" سے معلوم ہؤا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا جسم بھی جان بھی، اس سفر میں شریک ہیں۔ تاہم جو لوگ اس اعجاز کو پوری طرح ہضم کرنے سے عاجز ہیں انہوں نے اس کے روحانی ہونے کا احتمال دیا ہے اور یوں آیت کی توجیہ کی ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی کہہ دے کہ "میں فلاں شخص کو فلاں مقام سے فلاں مقام تک لے گیا" تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ یہ سب خواب یا خیال یا تصور اور سوچ کی حد تک تھا۔

5۔ اس سفر کا آغاز ـ جو کہ آسمانوں کی طرف معراج کی تمہید کی حیثیت رکھتا ہے جس کے دلائل الگ سے ذکر ہونگے ـ مسجد الحرام سے ہؤا اور قدس شریف میں واقع مسجد الاقصیٰ اس کی زمینی منزل مقصود تھی۔

6۔ اس سفر کا مقصد اللہ کی عظمت کی نشانیاں آنحضورکو دکھانا تھا اور اسی مقصد سے یہ آسمان کی طرف بھی جاری رہا۔

7۔ حملہ "بَارَكْنَا حَوْلَهُ"؛ سے مراد یہ ہے کہ مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس نہ صرف ایک مقدس سرزمین ہے بلکہ اس کے گردوپیش کو بھی مبارک اور پر برکت بنایا گیا ہے۔

8۔ "إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ" سے مراد یہ ہے کہ یہ انعام جو اللہ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو عطا ہؤا، بے سبب نہ تھا بلکہ آپ کی اہلیتوں کو مد نظر رکھ کر عطا ہؤا تھا۔

9۔ "سُبْحَانَ الَّذِي" میں لفظ "سبحان" سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ سیر اس حقیقت کی علامت ہے کہ خداوند متعال پاک و منزہ ہے ہر عیب و نقص سے۔

10۔ جملہ "مِنْ آيَاتِنَا" میں حرف "مِنْ" سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی نشانیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اس سفر میں آپ کو مسجد الاقصیٰ اور آسمانوں میں آپ کو کچھ ہی نشانیوں کو دکھایا جاسکا ہے۔ (تفسیر نمونہ جلد 12، ابتدائی صفحات، ذیل آیت 1 سورہ اسراء)

حدیث:

"وَعَن مُعَاوِيَةَ بنِ عمارٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ): مَتَى صُرِفَ رَسُولُ اَللَّهِ (صلى الله عليه وآله) إِلَى اَلْكَعْبَةِ؟ قَالَ بَعْدَ رُجُوعِهِ مِنْ بَدْرٍ؛ وَكَانَ يُصَلِّي فِي المَدينَةِ إِلَى بَيتِ اَلمقدِسِ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْراً ثُمَّ أُعِيدَ إِلَى اَلكَعْبَةِ؛

معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ "میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے کس وقت کعبہ کو قبلہ قرار دیا تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا: غزوہ بدر سے واپسی کے بعد، اور آپ مدینہ میں سترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور پھر آپ کا رخ کعبہ کی طرف پلٹایا گیا۔ (وسائل الشیعہ، ج4، ص298)۔

علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مکی دوران رسالت کے میں 13 سال تک مسجد الاقصیٰ کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ہجرت کے بعد زیادہ سے زیادہ سترہ مہینوں تک نماز اور راز و نیاز کے وقت بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دیتے تھے، لہٰذا اس "شہر شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے"۔ (تفسیر المیزان، ذیل آیت 1، سورہ اسراء)

یہودی ایجنڈا

یہودی ریاست کے مفاد کے لئے قلم فرسائی کرنے والے لاعلمی میں کہاں تک جاسکتے ہیں آپ خود ہی اندازہ لگائیں؛ لکھتے ہیں: "یہودیوں کا گمان تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اس کا طعنہ بھی دیا۔ وہ قبلہ جسے یہودی گمان کرتے تھے اگر اللہ کا مقرر کردہ ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کراہت کیوں کرتے تھے؟"،

نادانی کی انتہا دیکھئے کہ وہ ایک طرف سے اپنے ہم پیالہ یہودیوں کے طعنوں کا حوالہ دیتا ہے اور دوسری طرف سے اس بات کا صاف انکار کرتا ہے کہ رسول اللہ نے برسوں تک اس قبلے کی طرف نماز ادا کی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے کم از کم مکی دور رسالت میں قبلۂ اول کی طرف نماز ادا کی ہے اور اگر اللہ کا مقررہ کردہ نہ تھا تو کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی 13 سال تک کی نماز کے اوپر حرف نہیں آئے گا؟ کیا اس کا سیدھا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہودی ریاست کے لئے قرآن تک کا انکار کرنے والے اتنے عرصے تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں کی نمازوں کے بطلان تک کا فتویٰ بھی دے سکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مکی دور میں کس طرف نماز پڑھتے تھے؟ ان آیات کی شان نزول کیا ہے؟ کیا نماز اس سے پہلے فرض نہیں تھی؟ مسجد ذو قبلتیں کیا وہی جگہ نہیں ہے جہاں نماز کا رخ بدل گیا؟ مسجد ذو قبلتین میں دو محرابوں کا فلسفہ کیا ہے؟

یہ لوگ لکھا کرتے ہیں: "اسرائیل [مقبوضہ فلسطین] میں موجودہ جگہ جو "مسجد الاقصٰی" کے طور پر مشہور ہے، یہ وہ جگہ ہی نہیں ہے"۔ اور پھر تضادات کا شکار ہوکر لکھتے ہیں کہ "ایرانی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے مجتہدین سے فتوے جاری کرواتے ہیں کہ یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت واجب ہے اور لیلۃ القدر کی عبادت کا ثواب رکھتا ہے حالانکہ یہ وہ جگہ ہی نہیں ہے!!"۔

تو پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجد الاقصیٰ جہاں ہے وہ ایک جانا پہچانا مقام ہے اور پھر جب یہ لوگ مستندات کی بات کرتے ہیں تو اس دعوے کے لئے کوئی سند و ثبوت کیوں نہيں لاتے جبکہ ہمارے پاس تو اجماع مسلمین موجود ہے کہ یہی مسجد الاقصیٰ ہے اور یہی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ تک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں؛

دوسری بات یہ کہ یہودی ریاست مسجد الاقصیٰ کے مسجد الاقصیٰ ہونے کا انکار نہیں کرتی لیکن اس جعلی ریاست دو ٹکے لینے والے خطیب یا لکھاری یہودیوں سے بھی بڑھ کر مسجد الاقصیٰ تک کا بھی انکار کردیتے ہیں "مدعی سست گواہ چست"۔

تیسری بات یہ کہ انہیں وہ فتاویٰ بھی پیش کرنا چاہئے جن میں یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کے وجوب اور اس کے ثواب کا تذکرہ ہؤا ہے؛ حالانکہ اگر یوم القدس کی افادیت کو دیکھا جائے اور عالمی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو بعید نہیں ہے کہ یہ واجب بھی ہو اور اس کا ثواب بھی لیلۃ القدر کے اعمال کے ثواب کے برابر ہو؛ کیونکہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں کہ "فلسطین اسلام کے جسم کا ٹکڑا ہے"، چنانچہ اس پر یہودی قبضہ بے شک پورے عالم اسلام کو خطرے میں ڈالتا ہے اور فلسطین اور بیت المقدس کا مسئلہ مذہبی لحاظ سے بھی اور تزویری لحاظ سے بھی امت کی آبرو اور غیرت و حیثیت اور امن و سلامتی کا مسئلہ ہے؛ تو کیا امت کا تحفظ واجب نہيں ہے؟ کیا امت کے تحفظ کا ثواب اور اس راہ میں مختلف مراتب و مدارج کے جہاد کا ثواب لیلۃ القدر کے اعمال سے کم ہے؟

مذکورہ لکھاری امام صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے اپنے ایک صحابی کو ـ جو مسجد الاقصیٰ کی زیارت کے لئے جانا چاہتا تھا ـ وہاں سے روک لیا ہے اور مسجد کوفہ کے فضائل کو بیان فرمایا۔ اور اس حدیث کا حوالہ دینے کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ قبلۂ اول اور مسجد الاقصیٰ کے تحفظ کی بات ہی کریں۔

حالانکہ وہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری نہيں سمجھتے کہ یوم القدس کے دن کسی کو مسجد الاقصیٰ کی زیارت کے لئے جانے کی دعوت نہیں دی جاتی اور مسجد کوفہ کے فضائل کا انکار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی کو مسجد کوفہ جانے سے روکا جاتا ہے؛ بلکہ مسجد الاقصیٰ پر یہودی قبضے پر احتجاج کی دعوت دیتے ہیں۔

کیا یہ لوگ ہمیں امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ)، امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) اور کسی بھی دوسرے عالم دین اور اسلام کے ہمدرد سیاستدان یا یوم القدس کے کسی حامی کا ایک قول دکھا سکتے ہیں کہ جن میں انھوں نے مسجد کوفہ کے فضائل کا انکار کیا ہو اور کہا ہو کہ مسجد کوفہ کے بجائے مسجد الاقصیٰ میں بیٹھ کر عبادت کی جائے!

کیا یہ لوگ اس حقیقت کا بھی انکار کرسکتے ہیں کہ 1967 تک یہ مسجد مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور اس تاریخ کو امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی مدد سے یہودیوں نے اس پر قبضہ کرلیا ہے؟

چنانچہ بات غیرت مسلم کی ہے اور مسلم صرف ایرانی نہیں ہے بلکہ غیر ایرانی بھی مسلمان ہیں اور ان سب کی غیرت کو چیلنج کیا گیا ہے چنانچہ اس کو ایرانی مسئلہ بنانا یہودی ریاست کے تشہیری مشن کا حصہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی