17 اپریل 2018 - 19:00
امریکہ کو درد کس چیز کا ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ مسلسل نت نئے منظرنامے مرتب کرکے سعودی گائے کا دودھ دوہنے کے لئے ڈرامے کررہے ہیں چنانچہ آل سعود کو یہ توقع نہیں کرنا چاہئے کہ وہ آکر اپنی جان اپنے سعودی یار کی خاطر قربان کریں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ٹھیک ایک سال قبل بھی خان شیخون کے علاقے میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ کرکے امریکہ نے حمص کے الشعیرات ہوائی اڈے پر میزائے داغے تھے جس کے بارے میں آج تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی اور معلوم نہیں ہوسکا کہ کیمیاوی اسلحہ استعمال ہؤا تھا یا نہیں؟ اور اگر استعمال ہؤا تھا تو کس نے استعمال کیا تھا؟ اور اس حقیقت کو نظر انذار کیا گیا کہ کیمیاوی ہتھیار اخلاق سے عاری فوجیں اس وقت استعمال کرتی ہیں جب انہیں مسلسل شکستوں کا سامنا ہو جبکہ شامی افواج پر کئی مرتبہ ایسے وقت میں ان ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا گیا کہ وہ مسلسل پیشقدمی کررہی تھیں اور مغربی ـ عبری ـ عربی محاذ کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد مسلسل پسپا ہورہے تھے!
الشعیرات ہوائی اڈے نے حمص میں تدمر کے علاقے کی داعشی تکفیریوں سے آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ مسلسل نت نئے منظرنامے مرتب کرکے سعودی گائے کا دودھ دوہنے کے لئے ڈرامے کررہے ہیں چنانچہ آل سعود کو یہ توقع نہیں کرنا چاہئے کہ وہ آکر اپنی جان اپنے سعودی یار کی خاطر قربان کریں گے۔
حال ہی میں ٹرمپ ہی نے کہا تھا کہ سات ٹریلین ڈالر خرچ کرکے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ملا ہے لیکن اس کے فورا بعد اس نے شام پر حملہ کیا، وہ وسیع اور طویل المدت جنگ کا خواہاں تھا لیکن اس کے مخلص دوستوں نے ہی اس کو ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ "امریکہ جو گذشتہ ستر برسوں سے یہودی ریاست پر قربان ہوتا رہا ہے، اب اسے سعودی ریاست پر قربان نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بھی اسی خبط کا ارتکاب کیا تھا جس کے مصائب اور بھاری اخراجات سے جان چھڑانا اب واشنگٹن کے بس کی بات نہیں ہے۔
بہت سے امریکیوں اور غیر امریکیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایک دیوانہ شخص ہیں جبکہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری جنرل شمخانی کے خیال میں امریکی اسٹبلشمنٹ نے امریکیوں کی رخوت کے اس دور میں انہیں اپنا سربراہ چن لیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اب جبکہ دنیا کو بلیک میل کرنے کا کوئی اور اوزار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، اس اوزار کو استعمال میں لانا چاہتے ہیں اور پاگل پن کا اظہار کرکے ممالک کو ڈرا دھمکا کر رعایتیں لینے کے چکر میں ہیں۔
ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد ABC NEWS کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ "امریکہ زوال سے دوچار ہے، ہم اپنے ملک میں ایک اسکول بنانے کے لئے بجٹ فراہم کرنے سے عاجز ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میرے دور میں کوئی بھی بیمے کی خاطر یا غربت کے مارے سڑکوں پر زندگی گذارنے پر مجبور نہ ہو؛ ہمارے سیاستدانوں نے طویل عرصے سے عوام کو ناامید کردیا ہے، ہم 15 برسوں سے مشرق وسطی میں حالت جنگ میں ہیں؛ ہم نے وہاں سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے جس سے ہم اپنے ملک کو دو بار بنا سکتے تھے؛ ہمارا بنیادی ڈھانچے کی تاریخ استعمال [Expiey Date] گذر چکی ہے"۔
ٹرمپ نے یہ کہہ کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی کہ امریکہ کی جنگیں غلط تھیں۔ ادھر نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار تھامس فریڈمین نے نومبر 2012 میں کہا تھا کہ: "ہم شام جیسے بحرانوں میں حتی کہ ایک انچ بھی مداخلت کرنے کے قابل نہيں رہے ہیں؛ امریکہ کو اب اندرونی مسائل حل کرنے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ آج امریکی شہر اسرائیلی شہروں سے ہمارے لئے زیادہ اہم ہیں؛ ہمارے عوام اب زیادہ شدت سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے فوجی فلاں ملک میں کیا کررہے ہیں؟؛ ہم نے عراق میں دست بم پھینک دیا اور خود اسی کے اوپر گر گئے اور دھماکے کے نتیجے میں اس کے تمام ٹکڑے ہمارے جسم میں داخل ہوئے ہیں، ہم زخمی ہیں"۔
کسینجر اور موشہ یعلون نے شام کی جنگ کو تیسری عالمی جنگ کا نام دیا تھا اور اب دیکھنا ہے کہ الشعیرات پر امریکی حملے کے بعد محاذ شام کی صورت حال کیا ہے؟
امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی، ترکی، سعودی عرب، قطر، امارات، کویت اور اسرائیل کے حمایت یافتہ تکفیریوں کو شکست ہوئی ہے، محاذ مزاحمت کو فتح نصیب ہوئی ہے؛ یہ ہے عالمی سطح پر بےشرمانہ گستاخیوں کا نتیجہ، جس دن دشمن پیشقدمی کررہا تھا محاذ مزاحمت والے خائف نہیں ہوئے بلکہ زيادہ عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھے؛ اور آج وہ اسرائیل کے محافظوں کی شکست کے بعد اس جعلی ریاست کے خلاف نبردآزما ہونے کی الٹی گنتی گن رہے ہیں۔
یہودی ریاست کے سرغنوں نے بارہا کہا ہے کہ محاذ مزاحمت کے ایک لاکھ میزائلوں کا رخ اس ریاست کے معاشی اور گنجان آباد علاقوں کی طرف ہے؛ بقول امام خامنہ ای کے، "مارو اور بھاگ جاؤ کا دور گذر چکا ہے" بلکہ ہر حملے کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ عراق، لبنان، یمن اور شام نے بھی اس حقیقت کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔ سعودی عرب کے پاس شاید 200 ارب ڈالر کا جدید امریکی اور برطانوی اسلحہ موجود ہے لیکن یمن کی مزاحمت نے اپنے پرانے میزائل اپ گریڈ کرکے ان کی نیند اڑا رکھی ہے۔ ہر روز ایک یا ایک سے زیادہ بیلیسٹک میزائل دارالحکومت ریاض سمیت سعودی شہروں کی طرف بھجوائے جارہے ہیں۔
زمانہ آج کچھ اور ہے، امریکی جان چکے ہیں کہ ماریں گے تو مار بھی پڑے گی چنانچہ وہ جن ہتھیاروں کو اپنا رعب بٹھانے کے لئے لائے ہیں، وہی محاذ مزاحمت کا بہترین اور زد پذیر ترین اہداف شمار کئے جارہے ہیں مغربی ایشیا کی زمین پر فوجی اڈے اور پانیوں میں بحری جہاز، اب صرف مارنے کے کام نہیں آتے بلکہ وہ خود نشانے پر ہیں۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔
ہم نے ایک جگہ لکھا تھا کہ امریکہ شام پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کی صورت میں مزید کسی ملک کو نشانہ بنانے کا اہل نہیں رہے گا اور آج جبکہ انھوں نے شام پر حملہ کیا ہے تو کچھ زیادہ عینی طور پر اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت کسی حملے میں کامیاب ہوسکتا تھا جب کوئی ملک حملے کا جواب دینے کا اہل نہیں ہوتا تھا اور اگر کوئی ملک مزاحمت کرے تو اسے آج کی طرح شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رہبر معظم نے بش اور اوباما سے بھی فرمایا تھا کہ "جو لوگ دھمکیاں دے رہے ہیں، وہ شاید اب سمجھ چکے ہونگے اور انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ "اب مزید دھمکانے اور عسکری جارحیت کا وہ زمانہ نہیں رہا کہ "مارو اور بھاگ جاؤ" جو بھی جارحیت کرے گا اسے اس کا انجام بھی بھگتنا پڑے گا؛ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم بہت غلط کررہے ہو کہ دھمکیاں دے رہے ہو اور دوسری بات یہ کہ میں نے سابق امریکی صدر کے دور میں بھی کہا تھا کہ "مارو اور بھاگ جاؤ کا دور گذر چکا ہے"۔
یہودی، عیسائی اور وہابی صہیونیت کے موٹے تازہ سانپ "داعش" کا سر مزاحمت تحریک کے مجاہدین کے ہاتھوں کچلا چکا ہوگا؛ ہمارا نہیں خیال کہ امریکی اور صہیونی داعشیوں سے زیادہ سرپھرے ہونگے جنہوں نے جنت کا شہد تناول کرنے کے لئے جیبوں میں چمچمے تک رکھ لئے تھے، مگر انہيں جہنم روانہ کیا گیا؛ امریکہ کے عیاشخانوں کے متوالے اور گندی فلموں کے اداکار جناب ٹرمپ نے مستی میں یا سعودی شہزادے کے دھوکے میں شام پر میزائلوں کا حملہ کیا ہے؛ لیکن امریکہ کے صاحب فکر دانشور اور سیاستدان خوب سمجھتے ہیں کہ ٹریگر دبانا زیادہ مشکل نہ تھا لیکن تاوان دینا اس قدر آسان نہ ہوگا؛ کیونکہ محاذ مزاحمت کی انگلی بھی ٹریگر پر ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110