12 دسمبر 2013 - 20:30
جناب سکینہ (س) کی زندان شام میں شہادت تاقیامت یزیدیت کے منہ پر طمانچہ

جناب سکینہ(س): اے کوفیو! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔جناب سکینہ (س) بنت الحسین (ع) کی زندان شام میں شہادت تاقیام قیامت یزیدیت کے منہ پر طمانچہ ہے یا ۔۔واقعہ کربلا کے بعد  یذید ملعون کی اہلبیت النبی ص کے ساتھ بغض و عداوت۔ یذید لعین کا ظلم صرف کربلا میں جاری نہیں رہا بلکہ اکسٹھ سے چونسٹھ ہجری تک یذید ملعون نے وہ ظلم کئیے کہ منجنیق سے خانہ کعبہ و مسجد نبوی بر پتھر برسا کر حرمت کعبہ کو پامال کیا، اور واقعہ کربلا کے بعد محمد (ص) و آل محمد (ص) کے گھرانے اہلبیت (ع) اطہار کے خواتین و بچوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کرکے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسیر  بنا کر شام و کوفہ کے زندانوں اور بازاروں میں پھرا کر قید کردیا گیا۔ ان اذیتوں سے درجنوں کمسن بچے شہید ہوئے جن میں سے ایک امام حسین ع کی چار سالہ کمسن بی بی سکینہ س کی شہادت بھی تیرہ صفر کے دن زندان شام میں ہوئی۔۔حق کی راہ میں ہر سن و عمر کے افراد حتی کہ کمسن بچوں و بچیوں تک نے قربانیاں دی ہیں۔ اگر ایک طرف میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے چھ ماہ کے شیر خوار فرزند علی اصغر(ع) نے یزیدی فوج کا تیر ہنستے ہوئے سہہ کر وقت کے امام اور امیر المومنین علیہ السلام، سید الشہداء نواسئہ رسول ص کی اطاعت کا حق ادا کیا تو دوسری طرف امام حسین (ع) کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین(ع) نے دمشق و کوفہ کے بازاروں و زندانوں اور درباروں میں حق کی خاطر قربانیاں دے کر آخر کار تیرہ صفر المظفر  یا بعض روایات کے مطابق 10 یا 11 صفر المظفر 62 ہجری میں زندان دمشق کے خرابہ میں جام شہادت نوش کیا۔ بی بی سکینہ بنت حسین (ع) امام علی (ع) کی پوتی اور امام حسین (ع) کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بنت الحسین (ع) جو تاریخ میں سیدہ سکینہ (ع) کے نام سے معروف ہیں اور جن کا سن مبارک صرف ۴ برس کا تھا، جب بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ کی علامت ملعون یزید ابن معاویہ نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارات اہل بیت آل محمد ص کو شہید کیا تو صرف ان کی شہادت پر اکتفا نہ کیا بلکہ محمد و آل محمد (ع) کےمخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں حتی کہ یتیم بچوں و بچیوں کو دس محرم کے بعد قیدی بنا کر بے کجاوہ اونٹوں کے ذریعے اپنے پایہ تخت دمشق و کو فہ کے بازاروں و درباروں تک لے جایا گیا اور یہ پروپیگنڈہ تک کروایا گیا کہ نعوذ باللہ ان اہل بیت اطہار نے خلیفۃ المسلمین یزید ابن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔شاید یزید کو معلوم نہ تھا کہ خاندان رسالت اور عصمت و طہارت کی خواتین و بچے ہوں یا پھر ان کے گھر کی کنیز فضہ ہی کیوں نہ ہوں یہ سب مفسر قرآن ہیں۔ رسول (ص) اور علی (ع) کی تربیت کی وجہ سے اپنے خطبات کے ذریعے بازاروں و درباروں میں انقلاب برپا کر سکتی ہیں اور ایسا ہوا بھی، علی (ع) کی بیٹی زینب سلام اللہ و بی بی ام کلثوم اور امام حسین(ع) کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین (ع) نے اپنے کردار و خطبات کے ذریعے یزید اور یزیدیت کو تاقیامت لعنت کا حقدار کر کے باطل کی علامت قرار دیا۔ اس کا ذکر حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی یوں کیا۔حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشقیک حسین  رقم کرد و دیگر زینببی بی سکینہ بنت حسین(ع) نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ (ع) کی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے اس خطبہ کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا گناہ عظیم سرزد ہوا ہے۔ حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے۔"حمد ہے اللہ کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ،عرش کے وزن سے لے کر زمین تک میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں ،اس پر بھروسہ کرتی ہوں ،گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمد ص اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپ ص کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا۔ اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب (ع) کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی وصیت کی لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اور آپ (ع) (امیرالمومنین (ع)) کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ (ع) کو شہید کر دیا جیسے کل انہی کے بیٹے (حسین(ع) کو شہید کیا گیا۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا (ع) کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جا معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اے اللہ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں، میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں۔ اے اللہ! تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تونے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا۔اے کوفیو! اے مکروفریب اور دھوکہ دینے والو! اللہ نے ہم اہل بیت (ع) کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد ص کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا تم نے ہمیں قتل کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ پر افتراء باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بےشک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم پر لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جھنم) ہے ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی کون ہماری طرف خود چل کر آیا تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے تمہارے دل سخت ہوگئے تمہارے جگر غلیظ ہوگئے اللہ نے تمہارے دلوں ،کان،آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔اے کوفیو! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ  نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے ۔تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔نبوت اور امامت کی پروردہ نے اپنے اس عظیم خطبے میں چند اہم امور پر گفتگو فرمائی:۱۔سیدہ سکینہ  نے اپنے دادا امیرالمومنین (ع) کی ولایت کے عہد کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا اور آپ (ع)  کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جو حق ہے اور زمین پر مجسمہ عدل ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے گھر میں شہید کر دئیے گئے۔ امیرالمومنین (ع)  وہ شخصیت ہیں جن کو اللہ نے چن لیا اور اپنی صفات و فضائل و مناقت سے آپ (ع)  کو مخصوص کر دیا۲۔ سیدہ سکینہ(ع)  نے اہل بیت(ع)  کے مصائب کا ذکر فرمایا، ان پر اللہ کا سلام ہو وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ کس نے ان کی نصرت کی اور کس نے دشمنی اور امت نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور جس طرح آل محمد (ع)  کا خون بہایا اور جس طرح آل محمد(ع)نے مصائب و آلام برداشت کئے ۔۳۔ اہل بیت (ع)  پر کی جانے والی زیادتیوں کا بیان کیا کہ ظالم افراد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نے کتنا ظلم ڈھایا اور ان کو اللہ کے سخت ترین عذاب کی نوید بھی سنائی۔ لوگوں کے نفوس میں اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس سے لوگوں کے دل جلنے لگے اے طاہرین کی بیٹی! خدارا اپنے کلام کو روک دیجئے آپ نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور ہماری سانسیں ہمارے حلق میں اٹک گئی ہیں حتی کہ اس مجمعے میں موجود بعض افراد نے یزید ملعوں اور اس کے افواج کے خلاف علم جہاد اٹھا کر جام شہادت نوش کیا۔ کربلا اور معرکئہ حق و باطل آج بھی ہمارے ارد گرد جاری ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا اسکی نشاندہی کی ہے۔۔ لب فرات پہ اب بھی جنگ جاری ہےکوئی حسین کے لشکر میں آئے حر کی طرححوالہ جات: (حیات الامام الحسین (ع)  جلد ۳، ص۲۳۰، سیرت سیدہ زینب الکبری(ع) ، تاریخ الحسین (ع)۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں محرم کے ساتھ ساتھ صفر کے مہینے میں بھی عزاداری و مجالس اور چہلم کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور امام خمینی نے فرمایا تھا۔۔کہ محرم اور صفر کے مہینوں نے ہی اسلام کو زندہ کردیا ہے۔معرکہ حق و باطل کربلا کی ایک اہم اہمیت یہ ہے کہ اس واقعے میں بچوں،خواتین و بزرگوں حتی کہ اس وقت تک زندہ رہنے والے  بعض اصحاب رسول ص جیسے بزرگ صحابی حضرت حبیب ابن مظاہر رضی اللہ تک نے شرکت کرکے حق و حسینت کے لئے قربانیاں دی۔ یہ بات حدیث و تاریخ کی متفقہ کتب میں ملتی ہے کہ حضرت محمد ص نے اپنی زندگی ہی میں واقعہ کربلا کے پیش ہونے اور بنی امیہ و ملوکیت کے ڈکٹیٹر یزید لعین کی طرف سے امام حسینؑ کی شہادت کا اشارہ کیا تھا۔حضور ص نے اپنی زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ رضی اللہ کو خاک کربلا دے کر فرمایا تھا کہ  سن اکسٹھ ہجری میں دس محرم کے دن یہ خاک سرخ رنگ میں تبدیل ہوگی اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کربلا میں میرا نواسہ سید الشہدا  حضرت  امام حسینؑ تین دن کا بھوکہ و پیاسا شہید کیا جائیگا۔ تاریخ کی کتب میں زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ رضی اللہ  کے حوالے سے درج ہے کہ عاشورا دس محرم سن اکسٹھ ہجری کو وہ مٹی سرخ رنگ خون میں تبدیل ہوئی تھی۔۔اسی طرح حضور ص نے اپنے ایک مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ سے فرمایا تھا کہ اے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تم میرے نواسے امام حسینؑ