اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اگر فرد بشر کو کتاب بشریت کے ایک پرت سے تشبیہ دی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس پرت کے دورُخ یعنی دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ پر اجتماعیت کا رنگ غالب ہے اور دوسرا صفحہ ذاتی و انفرادی نقش و نگار سے بھرا پڑا ہے۔ شیرازہ بندی نہ ہونے کی صورت میں بشریت کے یہ اوراق حادثات زمانہ اور قدرتی آفات کے طوفان سے خس و خاشاک کی مانند کائنات کی وسیع فضا میں گم ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے فطری طور ان اوراق کی شیرازہ بندی کا انتظام کررکھا ہے۔ اس قدرتی شیرازہ بندی پر عالم انسانیت کی حیات کا دارومدار ہےً ہیں ربط باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خالق ہستی نے انسان کی فطرت میں ہی باقی ہم جنس انسانوں کیساتھ جذب و میلان رکھا ہے۔ نافہم بچے کا اپنی ماں یا دیگر مانوس افراد کی وقتی جدائی پر بھی چیخنا چلانا بتاتا ہے کہ انسان فطرتاً انجمن پسند ہے اورالگ تھلگ اس دنیا میں زندگی گزارنا اس کیلئے محال ہے۔ انسانی معاشرے کی تشکیل کا یہی سب سے بڑا محرک ہے۔ المختصر معاشرے کی اہمیت اشرف المخلوقات انسان کیلئے ویسی ہی ہے جیسے مچھلی کیلئے پانی ۔ معاشرہ انسانی احتیاج کے مسائل کا حل ہے۔کیسا سماج:-یقیناً سماج کی تشکیل انسانی فطرت کا تقاضا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسامعاشرہ انسانیت کے موافق ہے؟ کیا محض چند افراد کا ایک خاص مقام پر بودوباش سے ہی انسان کی یہ اہم ضرورت خود بخود پوری ہوجاتی ہے؟ یا پھر سماج میں کچھ خصوصیات کا ہونا لازمی ہے؟ ان سوالات کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی روحانی اور ایمانی رابطہ کے بغیر مختلف اشخاص کا ایک ہی جگہ مل جل کر زندگی گزارنا قطعاً اس اجتماعی ضرورت کی پیاس کو نہیں بجھا سکتا۔ ایک فردوحشت و تنہائی سے بھاگ کر اسی لئے انسانی سماج کی پناہ میں آجاتا ہے تاکہ اُس کو روحانی تسکین ملے۔ اب اگر سماج کے راہ و رسم ہی آزا رِجاں بن جائیں تو ایسی صورت میں یہ سماج اس کیلئےکیونکر موافق ہو سکتا ہے؟۔ اس کی مثال آج کے مادیت پرست معاشروں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں "النفسی النفسی" کا وظیفہ ہر شخص کےوردِ زبان ہے اور ہر فرد صرف اپنا الوسیدھا کرنے میں مگن ہے۔ بظاہر ہر طرف لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ہے، سڑکوں پر چہل پہل ہے، بازاروں میں رونق ہے مگر ہر کوئی اپنے مطلب سے غرض رکھتا ہے حتیٰ کہ والدین کو اپنی اولاد سے کوئی مروت نہیں ہے اور اولاد اپنی خواہشات کے آگے ماں باپ کو ہیچ جانتے ہیں۔ غرض ہر فردجلوت میں خلوت سے دوچار ہے۔ معنوی فقدان سے دو چار ان معاشروں میں اگر کہیں پر چند افراد کے درمیان اشتراکِ عمل بھی دیکھنے کو ملے تو اس میں بھی ہر شخص کو ذاتی اور فردی منفعت پیش نظر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انسانیت سوز امور کی انجام دہی میں عالمی سطح پر مقتدر شخصیات کی ساجھے داری دیکھنے کو ملتی ہے۔من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند [علامہ اقبال] ایسے بگڑے ہوئے معاشروں سے کنارہ کشی ہی بھلی ہے جن میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہ ہو جیسا کہ مولائے متقیان کا ارشاد گرامی ہے کہ "برے ہمنشین سے تنہائی بہتر ہے" حتیٰ کہ اللہ کے عظیم بندوں کا جینا بھی اس طرح کے معاشروں میں دو بھر ہوجاتا ہے۔ پیغمبرِ رحمت کو بھی حد سے زیادہ سرکش سماج سے ہجرت کرنے کا حکم ملا اور شاہِ مردان جیسے مرد میدان کو بڑی مدت کج تنہائی میں گزارنا پڑی، اگر چہ یہ مہاجرت اور گوشہ نشینی وقتی ہی تھی۔ عالم انسانیت ایسی انجمن کا متمنی ہے جس میں انسان دوستی، رواداری، ہمدردی، الفت،خیر خواہی،ایثار و محبت کے جام پلائے جائیں-برعکس اس کے نفرت، تعصب، شرانگیزی، انسان دشمنی، خوانخواری، خود غرضی کے زہریلے گھونٹ ہی محفل کی غذا ہو تو ہر قلب سلیم رکھنے والا شخص خدا سے یوں دعا گو ہوتا ہے۔دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یارب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہوشورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو [علامہ اقبال] انسان اپنے جیسے ان انسانوں سے بھی خائف و ہراساں ہو کرراہِ فرار اختیار کرجاتا ہے جن کی مونسی اور دم سازی اس کے وجود کی بقاء کیلئے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان سے ہی کچھ یوں اماں مانگتا ہے۔رہے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہوپڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئِی نہ ہو [غالب]صالح سماج اور مصلح:-مندرجہ بالا بحث سے یہ پتا چلتا ہے کہ صرف اور صرف صالح معاشرہ ہی انسان کی منزل و مقصود ہے۔ یہی معاشرہ اس کی تمام روحانی و مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سماج کا نقشہ اسلامی نظام معاشرت نے پیش کیا ہے اور پیغمبر اکرم نے اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے رکھا۔ رسول اکرم کے عملی نمونہ کو سامنےرکھ کر پورے عالم میں اجتماعیت کی درستگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ عالم اسلام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلامی قوانین و اصول کی حدود میں ایسے معاشروں کو تشکیل دے جو تمام دنیا کیلئے نمونہ عمل ہوں۔لیکن ایک بات جو تمام مسلمانوں کے دل میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ صالح سماج کی تشکیل کارے دار والا معاملہ ہے اور تشکیل کے بعد بھی اس سماج میں ہر وقت خرابیوں کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ در اصل یہ ایک منفی سوچ ہے کہ مثالی سماج میں نقص و عیب پیدا نہیں ہونا چاہئے چنانچہ ماہر عمرانیات کا کہنا ہے کہ" انسانی سماج، جسم کی مانند ہے"۔[1]یہ ماننا پڑے گا کہ انسانی سماج جامد و ٹھوس شئے نہیں کہ اسے ایک بار درست کیا جائے تو پھر ہمیشہ کیلئے درست ہی رہے گا۔ سماج زندہ اشخاص کے مابین اشتراک عمل کا نام ہے، اسی لئے اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو گا کہ انسانی سماج نہ صرف ذی روح ہے بلکہ حیات بخش بھی ہے۔ فلسفہ حیات کے مطابق جہاں کہیں زندگی ہے وہاں لامحالا بیماری بھی ہو گی یہی وجہ ہے کہ ہر جاندار کو{جب تک وہ زندہ ہے} کسی نہ کسی چھوٹی بڑی بیماری کا خطرہ لگا رہتا ہے اور انسانی جسم میں جب مختلف بیماریوں کا اندیشہ رہتا ہے تو کیسے انسانی سماج کو مختلف مفاسد سے مستثنیٰ تصور کیا ج جائے ۔ البتہ سماجی بیماریوں کا علاج جسمانی بیماریوں کے علاج سے کافی مشکل ہے۔ انسانی جسم میں جراثیم بیماری کو جنم دیتےہیں اور سماجی بیماریوں کا ذمہ دار مفسد ہوتا ہے۔ مفسدین اپنے کردار کے لحاظ سے ان جراثیم سے مشابہ بلکہ اُن سے بدترہیں کیونکہ جب ڈاکٹر اپنی خاص صلاحیت سے ان جراثیم کی کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہے تویہ جراثیم اپنی اصلی پہچان ظاہر کرنے سے کتراتےنہیں ہیں۔ یوں مریض بھی ان سے بچنے کیلئے آپریشن کی تکلیف اور دوا کی کڑواہٹ کو برداشت کرنے پر رضا مند ہوجاتا ہے مگر مصلحین کے سامنے مشکل یہ ہے کہ سماجی جراثیم یعنی مفسدین روبا ہی سے اپنی پہچان چھپانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنے کردار سے بالکل متضاد شناخت ظاہر کرتے ہیں۔ قرآن کریم انکی کارستانیوں کو یوں پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان سے آگاہ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں لیکن ہوشیار رہنا مفسد یہی لوگ ہیں—[2] اسلامی تاریخ میں اس آیت کی عملی مثال بار بار دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد جب سرہائے شہداء کوفہ لائے گئے تو ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں اہل کوفہ سے کہا "شکر خدا کا جس نے حق اور اہل حق کو قوی کردا اور امیرالمومنین یزید بن معاویہ اور انکے گروہ والوں کی نصرت کی اور ۔۔۔۔ حسین بن علی کو اور انکے گروہ کے لوگوں کو قتل کیا"۔ [3]مہاتما سے مصلح بڑا:-سماجی ناانصافی اور خرافات سے متنفر افراد کا ردِ عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ صرف اپنے سفینہ حیات کو معاشرے کی "الٹی گنگا"سے نکال کر ساحل پر لے آتے ہیں اور اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ انہوں نے توہم پرستی کے بازار سے خود کو نقصان سے بچالیا۔ برعکس اس کے کچھ افراد نہ صرف اپنے آپ کو سماج کو کج روی سے بچاتے ہیں بلکہ باقی لوگوں کو بھی صحیح سمت لے جانا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ سماج کی "الٹی گنگا" سے کنارہ کشی کے بجائے اس کا رخ بدلنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کیلئے مذہبی تاریخ سے ایک مثال اخذ کرنا مناسب ہے۔ مہاتمابدھ ایک شاہی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ زندگی کے ابتدائی ایام انتہائی ناز و نعم میں گزرے۔ شاہی ٹھاٹ باٹھ میں پلنے والے اس شہزادے کو انتیس سال کی عمر میں معاشرے پر نظر پڑی تو غربت کی ستم ظریفی، بڑھاپے کی لاچاری اور ضعف و بیماری کی درد ناکی دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا۔ معاشرے کی ناہمواری اور رعایا کی حالت زار سے مشتعل و مغموم ہوکر سنیاس کی راہ لی اور پھر شاہی محل کی طرف مُڑکر نہیں دیکھا۔ اسی اقدام سے گوتم بدھ لوگوں کی نظر میں "مہمان اور مہاتما" بن گئے[4]---اس کے برعکس مصلحانہ کردار کی جھلک مذہبی تاریخ کے تابناک اوراق میں موجود ہے ۔ سرورکائنات نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس کی ابتری کو لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس دور کے وحشت ناک حالات اظہرمن الشمس ہیں۔ آنحضور کے پاس مہاتمام بدھ جیسی شہنشاہی طاقت نہ تھی جسے آپ معاشرے کے سرکشوں کو لگام دے دیتے، عسکری طاقت سے مستضعفین کی پشت پناہی کرتے اور سماج کے پچھڑے طبقے کو خزانہ عامرہ سے امداد کرتے۔ جب آپ نے عرب کی ابتر حالت دیکھی توشریف خاندان سے تعلق رکھنے والے اس یتیم کی رگ ہمدردی پھڑک اُٹھی، لیکن انہوں نے راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے مصلحانہ کردار اپنایا۔ آپ نے کبھی بھی معاشرے کے سدھار کیلئے آس کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔نتیجتاً بہت ہی قلیل مدت میں ایک مثالی معاشرہ کو وجود بخشا۔ پس یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ انسانیت کی رشد و ہدایت "مفرور مہاتما" نہیں بلکہ "پیغمبر اصلاح" ہی کرسکتا ہے۔ اب اگر مسلمانوں کا طبقہ صرف "اصلاح نفس" کو بہانا بناکر سماج سے فرار اختیار کرے تو وہ سنت نبوی سے بالکل مخالف رہبانیت میں مبتلا ہے۔ اسلام اصلاح نفس کیساتھ اصلاح معاشرہ کی بھی تلقین کرتا ہے اور معاشرہ کی اصلاح بغیر از مصلح ممکن ہی نہیں۔ بڑے بڑے گوشہ نشین زاہد ہرگز اس بلند مقام تک نہیں پہنچ سکے جن تک مصلحین کی رسائی باآسانی ہوسکتی ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ "زاہد کے مقابلے میں عالم کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ زاہد صرف اپنے آپ کو خدا کی
5 دسمبر 2013 - 20:30
News ID: 486426

جو امام جانی دشمنوں کی عاقبت کے تئیں اس قدر فکر مند تھے وہ اپنے ماننے والوں کو ہدایت کے کس قدر شیدا ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ امامت کی پرتو سے یزیدی لشکر کے سالار یعنی حُرکی تقدیر ہی بدل گئی اور امامت کے عقیدے کو جزو ایمان سمجھنے والے کتاب کربلا کے سائے میں اپنی تقدیر سیدھی کیوں نہیں کرسکتے؟