اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
خالد مشعل جو ایک سال قبل صدر اسد کی حمایت میں قطر کے مفتی کے نام اپنے مشہور خط کے لئے بھی مشہور ہیں نے اپنے خطاب کے دوران اردوگان کو "عالم اسلام کا رہبر و قائد" قرار دیا اور یہ کہ "اردوگان عرب ممالک کے لئے نمونۂ عمل" بن سکتے ہیں۔ گو کہ کہا جاتا ہے کہ خالد مشعل کی طرف سے اردوگان کی مدیحہ سرائی کی وجہ حماس کے اندر ان کی بہت زيادہ کمزور پوزیشن اور ان کی طرف سے حکومت شام کی مخالفت، ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جناب مشعل کی تعریفیں اور مداحیاں حقائق سے زيادہ تناسب و تطابق نہیں رکھتیں۔ بیروت سے شائع ہونے والے لبنانی اخبار "السفیر" کا تجزیہ:اس روزنامے نے ترکی کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (Justice and Development Party) کی سالانہ کانگریس کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ کے ضمن میں لکھا ہے: ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے اپنی تقریر میں حتی ایک بار بھی یورپی یونین کی طرف اشارہ نہیں کیا جس کی وجہ سے کئی سوالات ابھر آئے ہیں جن میں اہم ترین یہ کہ کیا طیب اردوگان جو کل تک یورپی یونین کی رکنیت کے لئے تگ و دو کررہے تھے کیا اب عالم اسلام کی قیادت کی طرف مائل ہوئے ہیں؟ کیا اب ترک وزیر اعظم اور ان کے ورکنگ گروپ کا مقصد یہ ہے ہے کہ اردوگان عالم اسلام کی قیادت سنبھالیں؟اسی دائرے میں کے اندر اس واقعے کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی یہ کانگریس یا کانفرنس دنیائے اسلام میں اخوان المسلمین کی کانفرنس میں تبدیل ہوگئی اور مصر، تیونس اور فسطین سے اخوان المسلمین کے نمائندوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور خالد مشعل نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ دشمنی کی بنا پر اردوگان اور حکومت ترکی کو عالم اسلام کا قائد قرار دیا اور ان کے ساتھ اسی عنوان سے بیعت کردی؛ حالانکہ یہ وہی ترکی ہے جو نیٹو کا رکن اور امریکہ اور مغرب کا حلیف ہے اور امریکہ و نیٹو کے رکن ممالک وہ ممالک ہیں جنھوں نے فلسطین کو اسرائیلیوں کے حوالے کیا ہے اور فلسطین پر مسلسل قبضے کی حمایت کررہے ہیں۔یہ ترکی وہی ملک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ وسیع تعلقات ہیں؛ یہ وہی ملک ہے کہ جس نے امریکہ کو اپنی سرزمین پر ایران کے خلاف میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے کی اجازت دی ہے اور علاقے میں اسرائیل کے تحفظ کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے؛ حتی جب اردوگان نے اپنی تقریر میں اسرائیل پر تنقید کی تو انھوں نے اسرائیل کو فلسطین پر قبضہ برقرار رکھنے کے حوالے سے مورد الزام نہيں ٹہرایا اور فلسطینی سرزمین کو یہودیانے کی اسرائیلی پالیسی کی طرف اشارہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کی طرف سے پیش کردہ اہم بات یہ تھی کہ "ترکی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہيں لائے گا" سوائے اس وقت کہ اسرائیل ترکی سے معافی مانگے!فرض کرتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت فلوٹیلا ڈرامے کے حوالے سے ترکی سے معافی مانگ لیتی ہے اور ترکی اور اسرائیل کے تعلقات ایک بار پھر معمول پر آجاتے ہیں؛ تو سوال یہ ہے کہ مشعل صاحب کا موقف کیا ہوگا؟ شام کے ساتھ دشمنی خالد مشعل کی جانب سے "اس ترکی" کے راہنما اردوگان کے ساتھ عالم اسلام کے قائد کی حیثیت سے بیعت نہيں کرنی چاہئے تھی کیونکہ ترکی نے شام کے مسئلے میں ایک فریق کے خلاف دوسرے فریق کی حمایت کی ہے اور خالد مشعل نے اسی تسلسل میں ترکی کی حمایت کی ہے اور یہ حمایت اب عالم اسلام میں نئے خوف و ہراس اور نئے فتنوں کے امکان کو ابھارتی ہے۔ خالد مشعل دوسروں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ اگر وہ مزاحمت کو فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ قرار دیتے تو یہ اردوگان کے لئے زيادہ خوشایند نہ ہوتا کیونکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور اس کے قائد جناب اردوگان اسرائیل کو تسلیم کرتے ہيں اور غزہ سے صہیونی نوآبادیات پر میزائل حملوں کے دائمی اور ابدی معترض ہیں۔کیا خالد مشعل تقریر سے پہلے اور تقریر کے دوران ان تمام حقائق کی طرف متوجہ نہيں تھے؟ ترکی سے شائع ہونے والے اخبار ملیت نے لکھا:سمیح ایدیز کے قلم سے شائع ہونے والے مضمون میں آیا ہے:جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کانفرنس میں رجب طیب اردوگان کی تفریر میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی اور انھوں نے شام اور اسرائیل کے بارے میں اپنا پرانا موقف دہرایا؛ اور حتی ایک بار بھی یورپی یونین کا نام نہیں لیا اور جرمنی اور فرانس کا نام بھی اسلام فوبیا کے سلسلے میں ان دو ممالک کے رویے پر تنقید کے حوالے سے لیا۔ اس کانفرنس میں یورپی ممالک کے راہنما موجود نہيں تھے یا پھر انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہیں دعوت دی گئی لیکن انھوں نے یہ دعوت ٹھکرادی۔ یورپیوں کے لئے یہ بات قابل توجہ ہے کہ اردوگان نے ترکی کو یورپی معیاروں اور سانچوں میں ڈھالنے کی بات بھی نہیں دہرائی بلکہ اسلامی معیاروں کی بات کی اور خالد مشعل کی موجودگی نے بھی اردوگان کے جہادی رجحانات کی ترجمانی کی۔ [بشرطیکہ اردوگان نے خالد مشعل کو ان کے جہادی رجحانات ختم کرنے کے لئے نہ بلوایا ہو]؛ اردوگان کی طرف سے مذکورہ بالا موقف یقینا نیٹو کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو کمزور کرنے کا مطلب نہيں لینا چاہئے بلکہ یہ بین الاقوامی ضروریات ہیں جو ان تعلقات کا تحفظ کرتی ہیں اور تمایل و رجحان اب دوسری جانب ہے۔بعض خلیجی حکام کی طرف سے خالد مشعل کو دی جانی والی مراعات سے قبل ان کا موقف بھی دیکھئے؛ پڑھیئے اور فیصلہ کیجئے:
خالد مشعل : إتق اللہ يا شيخ القرضاوي :- خدا کا خوف کرو یا شیخ القرضاوی CLICK نیٹو کا رکن ترکی عالم اسلام کی قیادت کا اہل نہیں ترکی کے مسائل پر نظر رکھنے والے مبصر نے کہا: ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے وار صہیونی ریاست کے ساتھ اس کا تجارتی لین دین روز افزون ہے چنانچہ یہ ملک ان خصوصیات کے ساتھ عالمی اسلام کی قیادت کی اہلیت نہیں رکھتا۔اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے مسائل پر نظر رکھنے والے مبصر محمد نورالدین نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی عالم اسلام کی قیادت کی خواہش رکھتا ہے تو اس کو مسلم اقوام کی خواہشات سے ہمآہنگ ہونا پڑے گا جبکہ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اس کے صہیونی ریاست کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور ترکی اور صہیونی ریاست کے درمیان تجارتی مبادلات میں فلوٹیلا کیس کے بعد 35 سے 40 تک اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا: ترک وزیر اعظم نے اپنی جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے داخلی اور خارجی مسائل کے بارے میں پرانا موقف دہرایا ہے اور کوئی نئی بات نہیں کی ہے لیکن اس کانفرنس سے ثابت ہوا کہ جسٹس اینڈ دیویلپمنٹ پارٹی عالم اسلام کے ایک خاص گروپ "اخوان المسلمین" کے کیمپ میں تبدیل ہوچکی ہے؛ مصر اور فلسطین نیز تیونس سے اخوان المسلمین کے لاتعداد راہنما اس کانفرنس میں شریک ہوئے لیکن یہ سارے اقدامات ترکی کو عالم اسلام کی قیادت سنبھالنے میں مدد نہيں دیتے کیونکہ اگر ترکی قیادت کا خواہاں ہے تو اس کو تمام اسلامی ممالک کے ساتھ یکسان سلوک روا رکھنا پڑے گا اور ان ممالک سے اپنا فاصلہ بھی یکسان رکھنا پڑے گا۔ حالانکہ اردوگان نے اس اصول کو ملحوظ نہيں رکھا ہے۔ فلسطین کے بارے میں بھی اردوگان کا موقف بہت کمزور تھا اور انھوں نے کہا ہے کہ اگر فلوٹیلا کیس میں اسرائیل معافی مانگے تو تعلقات پرانی سطح پر بحال ہونگے؛ انھوں نے غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے حوالے سے اپنا پرانا موقف بھی تبدیل کردیا اور اس دفعہ ان کے خطاب میں اس موضوع کی طرف اشارہ تک نہیں ہوا اور غزہ کا مسئلہ مصر کے صدر کے سپرد کردیا [جو اس وقت غزہ کے ساتھ مصر کی سرحدوں پر فلسطینیوں کی بنائی ہوئی سرنگوں کو منہدم کررہے ہیں]۔انھوں نے کہا: اردوگان نے ترکی کے سیاسی نظام کو پارلیمانی سے صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے گوکہ کانفرنس میں ان کی تفریر میں اس موضوع کی طرف کوئی واضح اشارہ نہیں تھا لیکن ان کی توقعات یہی ہیں کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی اختیارات کے خواہاں ہیں۔ انھوں نے کہا: اس کانفرنس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اردوگان نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو ایک تنظیم میں تبدیل کیا اور خود کو پارٹی لیڈر یا صدر یا وزیر اعظم کے منصب سے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے منصوبہ ساز کی حد تک گرادیا تا کہ سنہ 2013 ہی نہیں بلکہ سنہ 2017 تک کے لئے اپنی جماعت کے لئے منصوبہ سازی کرسکیں۔انھوں نے کہا: ترکی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نظریہ موجود تھا جس کا تعلق جناب اردوگان سے نہیں ہے بلکہ اس کا نظریہ پرداز سابق سیاستدان "زياكروك الب" تھا، یہ نظریہ اسلامی قوم پرستی پر استوار تھا اور آج بھی یہ نظریہ موجود ہے۔
......................
/110