15 اگست 2012 - 19:30

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل کا اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوموں کے لئے مل کر آواز اٹھائیں اور حکیم اُمت اور بت شکن امام خمینی رضوان تعالٰی علیہ نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے نام سے منسوب کیا تھا، تاکہ پورا جہانِ اسلام بلکہ پوری دنیا کے وہ لوگ جو مظلوموں کے حامی ہیں، ایک دن اکٹھے ہوں اور اس غاصب ریاست اور اسکے جرائم کے خلاف صدا بلند کریں، اس ناجائز ریاست کیلئے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ریاستوں نے ہر وہ کام کیا، جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے جائز نہیں تھا۔

ابنا: علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، اسلام ٹائمز نے اُن سے یوم القدس کی اہمیت، قبلہ اول کی آزادی، فلسطین اور غزہ کی پٹی پر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی، شام میں امریکہ اور برطانیہ سمیت عرب ممالک کے کردار سمیت علاقائی اور عالمی ایشوز پر اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: یوم القدس کی کیا اہمیت ہے، دوسرا یہ کہ اس بار ملی یکجہتی کونسل نے اسے منانے کا اعلان کیا ہے، اسے کیسے دیکھتے ہیں۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: گذشتہ ساٹھ برسوں سے فلسطین پر اسرائیلیوں کا قبضہ ہے، لاکھوں فلسطینی بے وطن ہیں، اُن کو واپس آنے کی اجازت نہیں، ہمارا قبلہ اول صہیونیوں کے قبضے میں ہے۔ آج اس وقت پورے جہانِ اسلام بلکہ پورے جہانِ عرب میں بیداری کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ حسنی مبارک جو اسرائیلوں کا حامی تھا، وہ واصل جہنم ہو چکا ہے، تیونس میں تبدیلی آگئی ہے، بحرین میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے، یمن میں آزادی کی تحریک ہے، دنیا بیدار ہو رہی ہے، فلسطین کے حامیوں کا بلاک مضبوط ہو رہا ہے اور اسرائیل کے حامیوں کا بلاک ٹوٹ رہا ہے اور کمزور ہو رہا ہے۔ میرے خیال سے پاکستانی عوام جو ہمیشہ سے فلسطینی کاز سے بڑے منسلک رہے ہیں، وہ ہمیشہ کی طرح ان مظلوموں کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، پاکستان میں رائے عامہ فلسطین کے ساتھ ہے، اس کی وجہ سے کسی حکمران کی جرات نہیں، اگرچہ بہت سے حکمرانوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوموں کے لئے مل کر آواز اٹھائیں، حکیم اُمت امام خمینی رضوان تعالٰی علیہ نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے نام سے منسوب کیا تھا، تاکہ پورا جہانِ اسلام بلکہ پوری دنیا کے وہ لوگ جو مظلوموں کے حامی ہیں، ایک دن اکٹھے ہوں اور اس غاصب ریاست اور اس کے جرائم کے خلاف صدا بلند کریں، اس ناجائز ریاست کیلئے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ریاستوں نے ہر وہ کام کیا، جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے جائز نہیں تھا، آپ نے دیکھا کہ اسرائیلی مظالم کیخلاف جتنی بھی قرار دادیں پیش ہوئیں، اسے ویٹو کر دیا گیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زمانہ اسرائیل کے زوال کا زمانہ ہے، امریکہ کے زوال کا زمانہ ہے، اسرائیل کی حامی قوتوں کی شکست کا زمانہ ہے۔ میرے خیال سے پاکستان کی سرزمین سے تمام لوگ اور جماعتیں ملکر آواز بلند کریں تو اس سے فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اسرائیل کا نظام زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں، اب اس کو زیادہ عرصہ باقی نہیں رکھا جا سکتا۔ فلسطینی مظلومین کو زیادہ عرصہ گھروں سے باہر رکھا نہیں جاسکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال یوم القدس طاقتور طریقے سے منایا جا رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس مرتبہ بھی انشاءاللہ اچھے طریقے سے اور پورے جہان عالم میں طاقت اور بیداری کے ساتھ یوم القدس منایا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: مصر میں تبدیلی کے بعد اخوان المسلمون کے محمد مرسی کے صدر بننے سے فلسطین کاز پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے مصر زیادہ بہتر حالت میں آ گیا ہے، حسنی مبارک نے جس نے کئی سال سے غزہ کا راستہ بند کیا ہوا تھا، وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ صدر مرسی کو مصر کی رائے عامہ کا خیال رکھنا پڑے گا، مصر کی موومنٹ عوامی تھی، اسلامی تھی، اینٹی امریکہ تھی اور اینٹی اسرائیل تھی، ہم دیکھتے ہیں کہ صدر حسنی مبارک کیخلاف لوگ کھڑے ہوئے تو وہ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے، نماز جمعہ پڑھ رہے تھے، وہ اسرائیل کیخلاف نعرے لگا رہے تھے، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اسلامی انقلاب کیلئے اور نظام کی تیدیلی کیلئے قیام کیا۔ مصر نے فلسطین کے لئے تین جنگیں لڑی ہیں، مصر ہمیشہ سے اعتدال کا مرکز رہا ہے، مصر سے کبھی بھی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کی بات نہیں اُٹھی، اُنہوں نے شیعہ سنی اتحاد کی بات کی ہے، اُنہوں نے فقہ جعفریہ کے حق میں فتوے دیئے ہیں۔ لہذا سعودی عرب سے ہمارے مسلمان اہل سنت کی لیڈر شپ کا مصر میں منتقل ہونا اچھا شگون ہے، یہاں شیعہ سنی بہت قریب آ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصر کی تبدیلی سے امریکہ مخالف بلاک مضبوط ہوگا، ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی مصر تبدیلیوں کے مراحل سے گزر رہا ہے، اُن کو بڑی بصیرت کی ضرورت ہے، بڑے صبر کی ضرورت ہے اور منزل تک پہنچے کیلئے اُن کو بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔ لہذا مصری صدر جتنے حکیمانہ فیصلے کرتے ہوئے عوام کی رائے کا خیال رکھیں گے، اُتنے ہی طاقتور ہوں گے اور اُتنے ہی اپنی منزل کے قریب ہوتے جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورت حال کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے شام مقاومت کے بلاک کا ایک اہم ستون ہے۔ شام اس خطے میں مقاومت، امن اور عالمی استعمار کے نفوذ کیخلاف بلاک کا اہم اتحادی ہے۔ اس مقاومت کے بلاک میں عراق بھی شامل ہوگیا ہے، لہٰذا ایسے ماحول میں ترکی نے سعودی عرب کیساتھ ملکر کی شام کیخلاف ایک بہت بڑی غلطی کی ہے اور اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کے تحفظ میں بہت آگے چلا گیا ہے، لیکن یہ تمام ممالک شکست کھا گئے ہیں اور وہاں پر تبدیلی نہیں لاسکے۔ یہ شام حکومت مخالف اس لئے بھی ہوئے ہیں کیونکہ سریا مقاومت کا اہم حصہ ہے اور وہ حماس سمیت فلسطینی کاز کی حمایت کرتا ہے اور یہ چیز امریکہ اور اس کے حواریوں کو سوٹ نہیں کرتی۔ اس وجہ سے انہوں نے شام میں حالات خراب کرنا شروع کر دیئے ہیں، یہ لوگ خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، مگر سب نے دیکھا کہ ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے، انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ شام میں ترکی کا انتہائی نامناسب اور مجرمانہ کردار ہے۔ یہ ترکی کے لیے ایک ایسے بدنما داغ و دھبے کی طرح بن گیا ہے، جو کبھی بھی نہیں دھویا جاسکے گا۔ کیا جہان اسلام کو مل کر نہیں بیٹھنا چاہیے اور ان مسائل کو مل کر حل نہیں کرنا چاہیے۔ کیا باہر سے کسی اور مذہب کا پیروکار آ کر ہمارے مسائل حل کرے گا۔؟ اسلام ٹائمز: تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ تمام عرب ممالک شام کے مخالف کیوں ہیں، جبکہ وہاں پر حکومت بھی سنیوں کی ہے۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: شام اس وقت صرف اور صرف فلسطین کی حمایت کی پاداش میں ان برے حالات سے دوچار ہے۔ شام نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے، اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا، برطانیہ کے ساتھ نہیں ملا، عرب حکمران جو امریکہ کے پٹھو ہیں، ان کے ساتھ نہیں ملا، بلکہ شام نے اپنے استقلال کو باقی رکھا اور ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا۔ شام ہمیشہ لبنان کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا۔ شام کو سزا دی جا رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور بعض عرب ممالک جنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے میں اسرائیل کی حمایت کی اور کرتے ہیں، وہ سارے اکٹھے ہو کر شام کے اندر دہشت گردی کو پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت جتنے دھماکے ہو رہے ہیں، خودکش حملے ہو رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، یہ سب امریکہ اور امریکہ نواز قوتیں کر رہی ہیں۔ شام اسلامی مقاومت کا ایک اہم ستون ہے۔ جس طرح امریکہ اور اسکے ساتھی ملک شام کے اوپر حملہ آور ہیں، اسی طرح اسلامی بلاک بھی شام کے ساتھ ہے اور یہ اسلامی بلاک میں شامل وہ لوگ ہیں، جنہوں نے لبنان میں اسرائیل کو شکست دی، عراق میں امریکیوں کو شکست دی، وہی لوگ انشاءاللہ یہاں پر ان فریب کاروں کو شکست دیں گے۔ انشاءاللہ نتیجے میں وہ لوگ رسوا ہوں گے جو شام دشمن قوتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کیوں ہمیشہ منافقانہ رول ادا کرتی ہے، لبنان میں رفیق الحریری کا قتل ہوتا ہے تو جان بوجھ کر اس میں حزب اللہ اور شام کو ملوث قرار دیا گیا، اس کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: جی بالکل، سو فیصد درست کہا، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ فلسطین جہاں پر بے گناہ مسلمانوں خاص کر معصوم بچوں اور عورتوں پر بمباری کر کے انہیں خون میں نہلایا جا رہا ہو تو یہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس اگر سیریا میں مسلح گروہ دہشتگرد جو القاعدہ کے لوگ ہیں، (کم از کم دسویوں ممالک کے دہشت گرد وہاں یہ لے کر گئے ہیں اور ان سے دہشتگردی کروا رہے ہیں) اگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے تو یہ انسانی حقوق کی پامالی شمار ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کے معاملے پر مغربی میڈیا اور قومی میڈیا کا کیا رول دیکھ رہے ہیں۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ہمیں یورپین میڈیا پر اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے۔ یورپین میڈیا جھوٹا ہے۔ سیریا کے اندر سیرین گورنمنٹ نے ثابت کیا ہے کہ وہ طاقتور ہے۔ وہاں کی فوج کے اندر وحدت ہے، وہاں کی عوام کے اندر وحدت ہے، حکومت عوام میں اچھی شہرت رکھتی ہے۔ وہاں کچھ عرصہ پہلے الیکشن ہوئے ہیں، وہاں نیا وزیراعظم بنا ہے، آئین بنا ہے، میرے خیال میں سیریا کا شاید یہ بڑا قصور ہے کہ اس نے اسرائیل کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نیٹو سپلائی کھلنے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟ علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے نیٹو سپلائی کا کھلنا پاکستانی عوام کی خودمختاری پامال کرنے کے مترادف ہے، اُن کی رائے کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستانی عوام نہیں چاہتے کہ یہاں سے نیٹو سپلائی جائے اور وہاں موجود فورسز کی مدد ہو۔ ان روٹس کا کھلنا دراصل پاکستان کے ریاستی اداروں کا مجرمانہ اقدام ہے۔ انہیں امریکہ کے فیصلے کے مقابلے میں سٹینڈ کرنا چاہیے تھا، اپنے اٹھارہ کروڑ عوام پر اعتماد کرنا چاہیے تھا۔ اپنے فیصلوں سے ہٹنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ ہم کمزور ہیں، ہمارے حکمران اتنے کمزور ہیں کہ وہ عوام کی رائے کی ترجمانی نہیں کرسکتے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمارے عوام کی رائے کی ترجمان ہوتی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ غلط اقدام ہیں۔

.......

/169